Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 74
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا١ؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَهَاجَرُوْا : اور انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور جہاد کیا انہوں نے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰوَوْا : ٹھکانہ دیا وَّنَصَرُوْٓا : اور مدد کی اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) حَقًّا : سچے لَهُمْ : ان کے لیے مَّغْفِرَةٌ : بخشش وَّرِزْقٌ : اور روزی كَرِيْمٌ : عزت
(خوب سن لو اور اچھی طرح یاد رکھو کہ) جو لوگ ایمان لائے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مہاجرین کو) پناہ دی اور مدد کی تو (فی الحقیقت) یہی (سچے) مومن ہیں ، ان کے لیے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) بخشش ہے اور عزت کی روزی
مہاجرین و انصار ہی دراصل ایک دوسرے کے دوست اور مددگار ہیں : 98: اسلام ہی وہ شے ہے جو سارے رشتوں سے بڑا رشتہ ہے اور اس میں منسلک ہونے والے ایک دوسرے کے دوست اور مددگار ہو سکتے ہیں کیونکہ یہی وہ رشتہ ہے جس نے سارے حسب و نسب کے رشتوں کو پیچھے چھوڑ دیا جیسا کہ بدر میں تم نے دیکھا یہی معرکہ کارزار ہے جس میں مہاجرین مکہ کا بہت بڑا سخت امتحان لیا گیا لیکن بحمداللہ وہ اس سے پاس نکلے کیونکہ یہی وہ معرکہ ہے جس میں اپنے حقیقی بھائی ایک دوسرے کے سامنے صف آراء تھے۔ کسی کا باپ ، کسی کا بیٹا ، کسی کا چچا ، کسی کا ماموں اور کسی کا حقیقی بھائی اس کی اپنی تلوار کی زد میں تھا اور اپنے ہاتھوں اپنے جگر کے ٹکڑے کاٹنے پڑ رہے تھے۔ اس کڑی آزمائش سے صرف وہی لوگ گزر سکتے تھے جنہوں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ حق سے رشتہ جوڑا ہوا تھا اور باطل کے ساتھ سارے رشتے قطع کر ڈالنے پر تل گئے ہوں اور اس طرح انصار کا امتحان بھی کچھ کم نہ تھا اب تک تو انہوں نے صرف یہ تصور کیا تھا کہ عرب کے سب سے زیادہ طاقتور قبیلے قریش اور اس کی حلیف قبائل کی دشمنی صرف اس حد تک ہی تھی کہ مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی لیکن اب تو وہ اسلام کی حمایت میں ان کے خلاف لڑ بھی چکے تھے ان کے بڑے بڑے بہادروں کو میدان کارزار میں تہ تیغ کیا تھا اور وہ کتنے تھے جن کو وہ باندھ کر مدینے طیبہ لے گئے تھے۔ ایسے حال میں ان مہاجرین اور انصار کا جو رشتہ قائم ہوا تھا ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی رشتہ نہ رہا اور یہی لوگ صحیح معنوں میں ایک دوسرے کے دوست اور مددگار تھے یہ تو ان کا دنیا کا حال تھا اور آخرت بھی ان ہی دونوں گروہوں کی سنور رہی تھی کیونکہ ان کو بخشش کی خوشخبری سنائی گئی اور ان سے عزت کی روزی کا وعدہ رب العزت سے بندھ گیا جس سے زیادہ کوئی وعدہ کا پکا نہیں ہو سکتا کہ نہ ہی وہ وعدہ کے خلاف کرتا ہے اور نہ ہونے دیتا ہے۔
Top