Ruh-ul-Quran - Al-Ghaafir : 32
وَ یٰقَوْمِ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ یَوْمَ التَّنَادِۙ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم اِنِّىْٓ اَخَافُ : میں ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر يَوْمَ التَّنَادِ : دن چیخ و پکار
اے میری قوم کے لوگو ! میں تم پر خوف رکھتا ہوں ہانک پکار کے دن کا
وَیٰـقَوْمِ اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ یَوْمَ التَّـنَادِ ۔ یَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِیْنَ ج مَالَـکُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ عَاصِمٍ ج وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَالَـہٗ مِنْ ھَادٍ ۔ (المؤمن : 32، 33) (اے میری قوم کے لوگو ! میں تم پر خوف رکھتا ہوں ہانک پکار کے دن کا۔ جس دن تم پیٹھ پھیر کے بھاگو گے، اور تم کو اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا، اور جس کو اللہ گمراہ کردے تو اس کے لیے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہوتا۔ ) یَوْمَ التَّـنَادِ کا مفہوم یَوْمَ التَّـنَادِ ، ہانک پکار کا دن۔ ہمارے بعض مفسرین نے اس سے قیامت کا دن مراد لیا ہے۔ اور ہانک پکار کو انھوں نے مختلف آوازوں کا ہم معنی قرار دیا ہے۔ کیونکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے منادی مختلف اعلانات کرے گا۔ کبھی مختلف گروہوں کو الگ الگ ہونے کا حکم دے گا، کبھی لوگوں کی جزا و سزا کا اعلان کرے گا، کبھی کسی کی عزت افزائی کی جائے گی اور کبھی کسی کی رسوائی کا اعلان کیا جائے گا۔ لیکن بعض اہل علم سیاق کلام کو دیکھتے ہوئے اس ہانک پکار کے دن سے یوم عذاب مراد لیتے ہیں۔ مقصود اس سے لوگوں کو یہ بتلانا ہے کہ آج جبکہ تم پٹھے پر ہاتھ نہیں دھرنے دیتے اور کسی بات کو سننا تمہیں گوارا نہیں، لیکن تمہارے ان کرتوتوں کی پاداش میں جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے گا تو یہ تمہارا کروفر اور ٹھاٹ باٹ سب دھرا رہ جائے گا۔ تم میں سے ہر شخص اس عذاب کی ہولناکی کو دیکھتے ہوئے پریشانی کے عالم میں مختلف آوازیں نکالے گا، جس طرح اچانک کوئی آفت آجائے تو لوگ سراسیمہ ہو کر دوڑ کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے جاننے والوں سے بھی شور مچاتے ہوئے کہتے ہیں، دوڑو، بھاگو، اس کو پکڑو اس کو تھامو۔ ایسا ہی اس وقت بھی ہوگا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ عذاب ہی کی تعبیر معلوم ہوتا ہے۔ اور یہ فرمایا جارہا ہے کہ تم اس دن پشت پھیر کر بھاگ کھڑے ہوگے۔ اور تم دیکھو گے کہ اس دن اس عذاب سے بچانے والا تمہیں کوئی نہیں ہوگا۔ کیونکہ کسی بڑی تباہی سے بچانے کے لیے اس تباہی سے بڑی قوت درکار ہوتی ہے جو اس تباہی کا راستہ روک دے۔ لیکن دنیا میں ایسی قوت کہیں نہیں جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کو روک سکتی ہو۔ مردِمومن عمائدینِ سلطنت کو نہایت دلسوزی سے سمجھاتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس سے پہلے کہ وہ دن آجائے تم اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کرو۔ تم موسیٰ کے قتل کے ارادوں سے باز آجاؤ، اس کی حیثیت کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ لیکن اگر تم پر میری یہ باتیں اثر کرنے سے عاجز رہتی ہیں تو پھر میرا کام تو صرف سمجھانا ہے، میں اس سے زیادہ کسی بات کی استطاعت نہیں رکھتا۔ میری نصیحت کو ماننا یا نہ ماننا آپ کے اختیار میں ہے۔ لیکن میری تمام کوششوں کے باوجود اگر آپ نے اپنے اختیار کا غلط استعمال کیا اور جس اقدام کا آپ ارادہ کررہے ہیں اس سے نہ رکے تو پھر اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے، اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے سمجھانے کے ذرائع پیدا فرمائے ہیں، لیکن جو شخص ان سے فائدہ اٹھانے کی بجائے دشمنی پر اتر آتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے قانون کی زد میں آجاتا ہے۔ اس سے قبولیت کی استعداد چھین لی جاتی ہے، وہ ہدایت سے محروم ہو کر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوجاتا ہے۔
Top