Ruh-ul-Quran - Al-Ghaafir : 47
وَ اِذْ یَتَحَآجُّوْنَ فِی النَّارِ فَیَقُوْلُ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِیْبًا مِّنَ النَّارِ
وَاِذْ : اور جب يَتَحَآجُّوْنَ : وہ باہم جھگڑیں گے فِي النَّارِ : آگ (جہنم) میں فَيَقُوْلُ : تو کہیں گے الضُّعَفٰٓؤُا : کمزور لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو جو اسْتَكْبَرُوْٓا : وہ بڑے بنتے تھے اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم تھے لَكُمْ : تمہارے تَبَعًا : تابع فَهَلْ : تو کیا اَنْتُمْ : تم مُّغْنُوْنَ : دور کردوگے عَنَّا : ہم سے نَصِيْبًا : کچھ حصہ مِّنَ النَّارِ : آگ کا
اور اس وقت کو یاد کرو جب یہ لوگ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو زیردست ان لوگوں سے جو بڑے بنے رہے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابع تھے تو کیا تم لوگ نار جہنم کا کچھ حصہ ہماری جگہ اپنے سر لینے والے بنو گے
وَاِذْ یَتَخَآجُّوْنَ فِی النَّارِ فَیَقُوْلُ الضُّعَفٰٓـؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَـکْبَرُوْٓا اِنَّا کُنَّا لَـکُمْ تَبَعًا فَھَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِیْبًا مِّنَ النَّارِ ۔ (المؤمن : 47) (اور اس وقت کو یاد کرو جب یہ لوگ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو زیردست ان لوگوں سے جو بڑے بنے رہے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابع تھے تو کیا تم لوگ نار جہنم کا کچھ حصہ ہماری جگہ اپنے سر لینے والے بنو گے۔ ) اہلِ جہنم کے درمیان توتکار کا ایک منظر جب بھی دنیا میں حق سے دوری کی وجہ سے حالات بگڑے ہیں تو ان میں سب سے بڑا بگاڑ یہ ہوتا ہے کہ ان میں طبقات پیدا ہوجاتے ہیں۔ سب سے بڑا طبقہ جن کے پیچھے لوگ چلتے ہیں ان لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جو دولت و حکومت کے باعث اپنی بڑائی کے پندار میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اور دوسرا طبقہ وہ ہوتا ہے جو غریب اور کمزور ہونے کی وجہ سے ان بڑے لوگوں کے زیردست اور تابع بن کر رہتے ہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ اپنے بالائی طبقے کے پیروکار بن کر رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان کی دنیا بھی ان کے تابع ہوتی ہے اور ان کا دین بھی۔ وہ اپنی عقلیں بھی اپنے مفادات کے تابع کرتے ہیں۔ اور مفادات چونکہ بالائی طبقے کے قبضے میں ہوتے ہیں اس لیے وہ ان کی عقلوں پر بھی قابض رہتے ہیں۔ دنیا میں ان لوگوں نے صرف اس لیے اللہ تعالیٰ کے رسول کی دعوت پر کان نہ دھرا، کیونکہ ان کے آقائوں نے اپنے شخصی اور گروہی مفادات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے دین پر ایمان لانے سے انکار کیا تاکہ ان کی شخصی اور گروہی وجاہتوں کو نقصان نہ پہنچے۔ اب جب یہ دونوں جہنم میں اکٹھے ہوں گے تو غریب لوگ جو ان بڑے بننے والوں کے تابع ہو کر رہے ان سے کہیں گے کہ ہم تو دنیا میں آپ کے تابع بن کر رہے اور آب بڑے طمطراق سے ہم پر حکومت چلاتے رہے تو کیا اب بھی اپنی بڑائی کا ثبوت دیتے ہوئے جہنم کے عذاب کا کوئی حصہ اپنے سر لینے کے لیے تیار ہوں گے تاکہ ہمارے عذاب میں تھوڑی بہت کمی ہوجائے۔ جہنم میں جانے کے بعد ان پر یہ بات کھل چکی ہوگی کہ یہاں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور سہارا کام دینے والا نہیں۔ جس طرح ہم اس عذاب کا شکار ہیں اسی طرح بڑائی کے دعویدار بھی اس عذاب کا شکار ہیں۔ وہ ان سے یہ سمجھ کر مدد کی درخواست نہیں کریں گے کہ وہ ان کے لیے کچھ کرسکتے ہوں، بلکہ وہ انھیں ذلیل کرنے کے لیے ان سے یہ مطالبہ کریں گے۔
Top