Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 11
وَ الَّذِیْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ١ۚ فَاَنْشَرْنَا بِهٖ بَلْدَةً مَّیْتًا١ۚ كَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ
وَالَّذِيْ نَزَّلَ : اور وہی ذات ہے جس نے نازل کیا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مَآءًۢ : پانی بِقَدَرٍ : ساتھ اندازے کے فَاَنْشَرْنَا بِهٖ : پھر زندہ کیا ہم نے ساتھ اس کے بَلْدَةً مَّيْتًا : مردہ زمین کو كَذٰلِكَ : اسی طرح تُخْرَجُوْنَ : تم نکالو جاؤ گے
اور وہی ہے جس نے ایک خاص مقدار میں آسمان سے پانی اتارا، پس ہم نے اس کے ذریعے سے مردہ زمین کو زندہ کردیا، اسی طرح تم بھی قبروں سے نکالے جائو گے
وَالَّذِیْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآئِ مَـآئً م بِقَدَرٍ ج فَاَنْشَرْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا ج کَذٰلِکَ تُخْرَجُوْنَ ۔ (الزخرف : 11) (اور وہی ہے جس نے ایک خاص مقدار میں آسمان سے پانی اتارا، پس ہم نے اس کے ذریعے سے مردہ زمین کو زندہ کردیا، اسی طرح تم بھی قبروں سے نکالے جاؤ گے۔ ) کرشمہ ربوبیت کا بیان پیشِ نظر آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کرشمہ ٔ ربوبیت کو بیان فرمایا ہے۔ اس کی ربوبیت کا فیضان تو بہت وسیع سطح پر پھیلا ہوا ہے۔ اسی میں سے ایک آسمانوں سے پانی کا نزول بھی ہے۔ پانی کے نزول کی ایک صورت تو بارش ہے اور دوسری زمین سے چشموں کا ابلنا، اور تیسری صورت ندی نالوں اور دریائوں کا سطح زمین پر بہنا اور چوتھی صورت پہاڑوں پر برف کا جمنا ہے اور اسی کے ذریعے سے شاید ندی نالوں اور دریائوں اور چشموں کو بھی پانی میسر آتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ پہاڑوں پر اگر برف نہ جمے تو چشمے کیسے ابلیں اور ندی نالے کیسے رواں ہوں اور میدانی علاقوں میں دریا کیسے بہیں۔ اسی طرح اگر بارشیں نہ ہوں تو پانی کے تمام ذخیروں کو سورج کی کرنیں خشک کرکے رکھ دیں۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ابروہَوا کا تصرف ہے جس سے ہمیں پانی میسر آتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سورج کی کرنیں جس طرح پانی کے ذخیروں سے بھاپ اٹھاتی ہیں اور پھر یہ بھاپ اوپر جا کر ابر کی صورت بچھا دی جاتی ہے، پھر اس کے جمنے اور اس کے برسنے کے اوقات کون مقرر کرتا ہے، ہَوائوں کو کون حکم دیتا ہے کہ تم بادلوں کو اڑاتے ہوئے فلاں جگہ لے جاؤ۔ اور یہ کس عزیز وعلیم کی تقدیر ہے کہ بادلوں سے پانی اتنا برستا ہے جتنا زمین تحمل کرسکے۔ اور زمین اس سے اپنی صلاحیتیں اجاگر کرسکے۔ اور زمین میں یہ صلاحیت کس نے رکھی ہے کہ پانی اتنا چوسے جتنا آبیاری کے لیے ضروری ہے اور باقی سارے پانی کو اگل دے تاکہ وہ ندی نالوں میں پہنچ جائے۔ اور پھر یہ کس کی قدرت کی کارفرمائی ہے کہ وہ زمین جو ایک مدت دراز تک بارش نہ ہونے کی وجہ سے مردہ ہوچکی تھی نہ کہیں کسی جانور کے ٹرانے کی آواز آتی تھی اور نہ کوئی درخت سبز کونپل اگاتا تھا۔ نباتات کی ہر چیز جل کے راکھ ہوچکی تھی کہ اچانک اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور ابر سے پانی برستا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس مردہ زمین میں زندگی کے آثار پیدا ہونے لگتے ہیں، درختوں میں شگوفے پھوٹنے لگتے ہیں، کونپلیں نکلنے لگتی ہیں، جوہڑوں میں پانی بھر جاتا ہے تو مینڈک زندہ ہو کر ٹرانے لگتے ہیں، چند ہی دنوں میں زمین مخمل کا لباس پہن لیتی ہے۔ یہ ایک مردہ اور بےآب و گیا زمین کو پانی کے چند چھینٹوں سے زندہ کرنے کی قدرت کون رکھتا ہے، یقینا وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ کیسے نادان ہیں وہ لوگ جو اس کی رحمت کے چند چھینٹوں سے مردہ زمین کو زندہ ہوتے دیکھتے ہیں تو انھیں کوئی حیرت نہیں ہوتی، لیکن جب انھیں یہ کہا جاتا ہے کہ قیامت کے دن تمام مردہ لوگ اپنی اپنی قبروں سے نکلیں گے اور میدانِ حشر میں جواب دہی کے لیے حاضر ہوجائیں گے تو وہ حیران ہو کر کہتے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔
Top