Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 12
وَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا وَ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَ الْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَۙ
وَالَّذِيْ : اور وہ ذات خَلَقَ الْاَزْوَاجَ : جس نے بنائے جوڑے كُلَّهَا : سارے کے سارے اس کے وَجَعَلَ : اور اس نے بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے الْفُلْكِ : کشتیوں میں (سے) وَالْاَنْعَامِ : اور مویشیوں میں سے مَا تَرْكَبُوْنَ : جو تم سواری کرتے ہو
اور وہی ہے جس نے یہ تمام جوڑے پیدا کیے اور تمہارے لیے وہ کشتیاں اور چوپائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو
وَالّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّھَا وَجَعَلَ لَـکُمْ مِّنَ الْفُلْکِ وَالْاَنْعَامِ مَاتَرْکَبُوْنَ ۔ لِتَسْتَوٗا عَلٰی ظُہُوْرِہٖ ثُمَّ تَذْکُرُوْا نِعْمَۃَ رَبِّکُمْ اِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْہِ وَتَقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَـہٗ مُقْرِنِیْنَ وَاِنَّـآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ۔ (الزخرف : 12 تا 14) (اور وہی ہے جس نے یہ تمام جوڑے پیدا کیے اور تمہارے لیے وہ کشتیاں اور چوپائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر جم کر بیٹھو، پھر اپنے رب کا احسان یاد کرو جبکہ تم ان پر بیٹھو اور کہو کہ پاک ہے وہ جس نے ہمارے لیے ان چیزوں کو مسخر کیا، اور ہم تو ان کو قابو میں لانے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ اور بیشک ہم اپنے رب ہی کی طرف پلٹنے والے ہیں۔ ) مزید آثار قدرت کی طرف اشارہ پیشِ نظر آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے چند مزید احسانات کا ذکر فرمایا ہے جن کا تعلق انسان کا صحیح عقیدہ بننے اور صحیح سیرت و کردار کے جنم لینے اور صحیح مقاصد کے بروئے کار لانے سے ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ازواج کو پیدا فرمایا۔ بعض اہل علم اس سے نوع بنوع چیزیں مراد لیتے ہیں۔ یعنی اس نے گوناگوں نعمتیں پیدا فرمائیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عربی زبان اور قرآن کریم میں یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے، لیکن بعض دیگر اہل علم نے اس سے مراد جوڑے لیے ہیں۔ اور ان دونوں معنوں میں باہمی کوئی تضاد نہیں، لیکن جب قرآن کریم کا نزول ہوا ہے تو نوع بنوع اور رنگا رنگ مخلوقات تو اس وقت بھی انسانوں کے سامنے تھیں، لیکن نوع بنوع مخلوقات کا پیدا ہونا ایک محدود تصور رکھتا تھا۔ پروردگار نے اس تصور میں وسعت پیدا فرمائی، اور ایک ایسی حقیقت واشگاف فرمائی جو بہت آگے چل کر کھلنے والی تھی۔ اور وہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں ازواج سے مراد صرف نوع انسانی اور حیوانات کے نر اور مادہ نہیں بلکہ دوسری بیشمار چیزیں بھی ہیں جن کو خالق نے ایک دوسرے کا جوڑ بنایا ہے۔ اور جن کے اختلاط یا امتزاج سے دنیا میں نئی نئی چیزیں وجود میں آئی ہیں۔ مثلاً عناصر میں بعض کا بعض سے جوڑ لگتا ہے اور بعض کا بعض سے نہیں لگتا۔ جن کا جوڑ ایک دوسرے سے لگتا ہے ان ہی کے ملنے سے طرح طرح کی ترکیبیں واقع ہورہی ہیں۔ یا مثلاً بجلی میں منفی اور مثبت بجلیاں ایک دوسرے کا جوڑ ہیں، اور ان کی باہمی کشش ہی دنیا میں عجیب عجیب کرشموں کا موجب بن رہی ہیں۔ یہ اور دوسرے ان گنت جوڑے جو قسم قسم کی مخلوقات کے اندر اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں ان کی ساخت اور ان کی باہمی مناسبت اور ان کے تعامل کی گوناگوں شکلوں اور ان کے ملنے سے پیدا ہونے والے نتائج پر اگر انسان غور کرے تو اس کا دل گواہی دیئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ سارا کارخانہ ٔ عالم کسی ایک ہی زبردست صانع حکیم کا بنایا ہوا ہے اور اسی کی تدبیر سے چل رہا ہے۔ صرف ایک عقل کا اندھا ہی یہ فرض کرسکتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی حکیم کے بغیر ہوا اور ہورہا ہے یا اس میں ایک سے زیادہ خدائوں کی دخیل کاری کا کوئی امکان ہے۔ (افادہ از تفہیم القرآن) دوسری بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ اس نے تمہارے لیے پانی میں سفر کرنے کے لیے کشتیاں بنائیں اور خشکی میں سفر کرنے کے لیے ایسے چوپائے پیدا فرمائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ کشتی بنانے کی ترکیب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسانوں کو سکھائی اور پھر لکڑی، لوہے کے باہم مل جانے کے بعد پانی کو حکم دیا کہ نہ صرف اس کشتی کو ڈوبنے نہ دے بلکہ اس پر جو سوار ہوں ان کو بھی ڈوبنے سے بچائے۔ اسی طرح اس نے ایسے جسیم اور لحیم جانور پیدا فرمائے جن پر انسانوں کو سوار ہونے کا ہنر سکھایا۔ اور ایسے طاقتور جانوروں کو انسانوں کی خدمت میں لگا دیا۔ اگر اللہ تعالیٰ ان جانوروں کو حکم نہ دیتا تو شیر اور چیتے اور ریچھ کی طرح یہ جانور بھی کبھی سواری کا کام نہ دیتے۔ اب سائنس نے اس سفر کو اور آگے بڑھایا ہے۔ لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کے احسانات سے باہر نہیں، کیونکہ جس پروردگار نے جانوروں کو انسان کے تابع کیا اسی کی دی ہوئی سمجھ نے لوہے کو بھی انسان کی سواری بنادیا اور اس میں قوت پرواز پیدا کردی۔ لیکن یہ سب کچھ اس لیے ہے تاکہ انسان ان سے فائدہ اٹھائے اور جس نے یہ سواریاں پیدا فرمائیں اور عطا کی ہیں اس کا حق پہچانے۔ اس لیے حکم دیا گیا کہ جب تم کسی بھی سواری پر جم کے بیٹھو یا سفر کا ارادہ کرو تو بجائے غرور سے اکڑ کر سواری پر بیٹھنے کے یہ یاد رکھنا نہ بھولو کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی سمجھ نہ دیتا یا ان چیزوں کو تمہارے لیے مسخر نہ کرتا تو تم کبھی ان پر قابو پانے والے نہیں تھے۔ اس لیے ہمیں دعا سکھائی گئی کہ سواری پر سفر کرتے ہوئے یہ دعا ضرور پڑھو سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَلَـنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَـہٗ مُقْرِنِیْنَ ۔ وَاِنَّـآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ہے اور اپنی بےبسی کا اعتراف بھی ہے۔ اور ساتھ ہی اس بات کا اعادہ بھی کہ ہم جو کچھ بھی کریں اس کی نعمتیں پا کر شکر کریں گے یا نا شکری، اس کی جوابدہی کے لیے بہرصورت ایک ایک ایک روز اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔
Top