Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 15
وَ جَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِیْنٌؕ۠   ۧ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے بنادیا لَهٗ : اس کے لیے مِنْ عِبَادِهٖ : اس کے بندوں میں سے جُزْءًا : ایک جزو۔ حصہ ۭاِنَّ الْاِنْسَانَ : بیشک انسان لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ : البتہ ناشکرا ہے کھلم کھلا
اور ان لوگوں نے اس کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جز بنا ڈالا، بیشک انسان کھلا احسان فراموش ہے
وَجَعَلُوْا لَـہٗ مِنْ عِبَادِہٖ جُزْئً ا ط اِنَّ الْاِنْسَانَ لَـکَفُوْرٌ مُّبِیْنٌ۔ (الزخرف : 15) (اور ان لوگوں نے اس کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جز بنا ڈالا، بیشک انسان کھلا احسان فراموش ہے۔ ) مشرکین کے فکری تضادات پر تنبیہ اس آیت کا تعلق اوپر کی آیت 9 وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ سے ہے۔ اگر آپ ان مشرکین سے سوال کریں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو وہ جواب دیں گے کہ انھیں اس زبردست علیم ہستی نے پیدا کیا ہے۔ ان کے اس اعتراف کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس ہستی کے مزید چند احسانات کا ذکر کیا کہ وہ ہستی وہ ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو گہوارہ بنایا اور پھر زمین میں تمہارے لیے پہاڑ گاڑے تاکہ وہ تمہیں کسی ایک طرف لے کر لڑھک نہ جائے اور پھر پہاڑوں کے اندر سے تمہارے لیے راستے نکالے تاکہ تم اپنے اپنے علاقوں میں بند ہو کے نہ رہ جاؤ بلکہ زمین کے دوسرے ملکوں اور علاقوں سے ہر طرح کے تعلقات پیدا کرو اور زمین کی نعمتوں سے بہرہ یاب ہونے کی کوشش کرو۔ اور پھر وہ ذات ایسی ہے جس نے تمہاری ضرورتیں مہیا کیں۔ اور ان میں سب سے بڑی ضرورت پانی کو ایک ایسی خاص مقدار سے نازل فرمایا کہ جہاں بھی انسان آباد ہے اس پانی کی کمیابی کی کبھی اسے شکایت نہیں ہوئی۔ اور پھر اس نے انسان کی سواری کے لیے مختلف قسم کے جانور پیدا کیے، دریائوں اور سمندروں میں سفر کے لیے کشتیوں کی صنعت عطا کی۔ کس قدر حیرانی کی بات ہے کہ جس ذات نے انسان جیسی بےبس مخلوق کو اتنی قوتوں اور ایسے علم و دانش سے نوازا کہ اس نے لوہے میں قوت پرواز پیدا کردی اور زمین کی طنابیں کھینچ لیں۔ اب اتنی نعمتیں پانے کے بعد بجائے شکرگزار ہونے اور اس کی ذات وصفات اور حقوق کا صحیح ادراک کرنے کے وہ دوسروں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا کر کہیں اسی کے بندوں میں سے کسی کو اس کی ذات کا جزو ٹھہرا دیتا ہے۔ یعنی اس کے لیے اولاد ثابت کرتا ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے کفو اور ہمسر ثابت کرتا ہے۔ ایک طرف اسے خالق ومالک مان کر اس کی یکتائی اور بےہمگی کا اعتراف کرتا ہے اور دوسری طرف اس کی کہیں بیٹیاں اور کہیں بیٹے ثابت کرتا ہے۔ اور اس طرح مخلوق کو اس کا ہم پلہ بنا دیتا ہے۔ یہ اس کی طبعی ناہمواری اور تضادفکری کو اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا انتہائی ناشکرا ہے۔ اس کی ذات جس کی دین ہے اور جس کے دسترخوان سے وہ کھاتا اور عیش کرتا ہے اسی کے لیے دوسروں کو دیوی اور دیوتا بنا کر ان کے گن گاتا اور ان کی پرستش کرتا ہے۔
Top