بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 1
حٰمٓۚۛ
حٰمٓ : حا۔ میم
حٰ مٓ
حٰـمٓ۔ وَالْـکِتٰبِ الْمُبِیْنِ ۔ (الزخرف : 1، 2) (حٰ مٓ۔ قسم ہے واضح کتاب کی۔ ) قرآن کریم خود اپنی حقانیت پر دلیل ہے اس آیت میں وائو قسمیہ ہے۔ اس واضح کتاب کی قسم کھائی گئی ہے۔ قسم کے بعد عام طور پر جوابِ قسم آتا ہے یا مقسم علیہ آتا ہے، لیکن وہ یہاں محذوف ہے۔ قسم خود مقسم علیہ کو واضح کررہی ہے۔ اور قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ جہاں مقسم علیہ قسم کی وجہ سے واضح ہورہا ہو یا اس کے وجود پر کوئی قرینہ دلالت کرتا ہو تو وہاں مقسم علیہ کو محذوف کردیا جاتا ہے۔ سورة ق میں بھی اس کی نہایت واضح مثال موجود ہے۔ کتاب مبین کی قسم خود اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ مخالفین اسے اللہ تعالیٰ کا کلام سمجھنے کی بجائے نبی کریم ﷺ کی کاوش قرار دیتے تھے جو آپ چند معاونین کی مدد سے مرتب کرتے ہیں اور پھر لوگوں کے سامنے اسے کلام اللہ کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ وَالْـکِتٰبِ الْمُبِیْنِ کہہ کر ان کی اس بات کے غلط ہونے پر دلیل دی گئی ہے۔ اس کتاب کو غور سے دیکھو، اس کے الفاظ کی فصاحت و بلاغت، اس کے جملوں کا دروبست، اس کی مضمون آفرینی اور انشاء پردازی اور الفاظ کا حُسنِ انتخاب، اس کے غیرمبہم مضامین، اس کا ادب، اس کا حق و باطل کے درمیان ایک واضح خطِ امتیاز کھینچ دینے والی تعلیم کیا اس حقیقت کی صریح شہادت نہیں کہ یہ کلام کسی انسان کا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہے۔ کیونکہ دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں کہ ساری دنیا اس کی مثال لانے سے عاجز ہو۔ دنیا کا ایسا کوئی علمی اصول نہیں جسے شکست کا الزام نہ سہنا پڑے، دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں جس کی پیشگوئیاں کماحقہ پوری ہوتی ہوں اور جس کے اخلاقی مُسلِّمات دنیوی اخلاق میں حرف آخر کی حیثیت رکھتے ہوں، یہ سب باتیں بتمام و کمال اس کتاب میں پائی جاتی ہیں اور مزید یہ کہ ایسی حیرت انگیز علمی کتاب کا پیش کرنے والا اُمیِ محض ہے۔ اس نے اپنے ماحول سے باہر کبھی کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیے۔ مکہ میں کوئی ایسی علمی مجلس نہ تھی جس سے استفادہ کیا جاسکتا۔ اس کتاب کا ایک ایک لفظ بولتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا کلام ہوں، اس کے سوا کسی میں یہ دسترس نہیں کہ وہ ایسے معجزانہ کلام پر مشتمل اور ایسے حیرت انگیز نظام سے مزین کتاب دنیا کے سامنے پیش کرسکے۔
Top