Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 47
فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِاٰیٰتِنَاۤ اِذَا هُمْ مِّنْهَا یَضْحَكُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب جَآءَهُمْ : وہ لایا ان کے پاس بِاٰيٰتِنَآ : ہماری آیات ۔ نشانیاں اِذَا هُمْ : تب وہ مِّنْهَا : ان پر۔ سے يَضْحَكُوْنَ : ہنستے تھے
تو جب حضرت موسیٰ ان کے پاس ہماری نشانیاں لے کر آئے تو وہ ان کا مذاق اڑانے لگے
فَلَمَّا جَـآئَ ھُم ْبِاٰیٰـتِـنَـآ اِذَا ھُمْ مِّنْہَا یَضْحَکُوْنَ ۔ (الزخرف : 47) (تو جب حضرت موسیٰ ان کے پاس ہماری نشانیاں لے کر آئے تو وہ ان کا مذاق اڑانے لگے۔ ) ان کے مذاق اڑانے کا سب سے پہلا سبب یہ تھا کہ آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ آپ رب العالمین کے رسول ہیں جبکہ کسی معمولی حکمران کا نمائندہ یا پیامبر کسی دوسرے حکمران کے پاس اس کا پیغام لے کر پہنچتا ہے تو وہ شاہی خلعت میں ملبوس بیش قیمت سواریوں پر سوار اور فوج کے ایک دستے کے ہمراہ ہوتا ہے اور ایک آپ ہیں کہ آپ کا لباس ایک گداگر کے لباس سے بھی فروتر ہے۔ آپ کے پاس کوئی سواری نہیں، آپ نہایت بوسیدہ جوتا پہنے ہوئے ہیں، فوج تو درکنار کوئی ملازم بھی آپ کے ہمراہ نہیں، تو کیا ایسے ہوتے ہیں رسول اور پیامبر اور وہ بھی کسی عام حکمران کے نہیں بلکہ رب العالمین کے۔ اور مذاق اڑانے کا دوسرا سبب یہ تھا کہ تم نے اپنی پیامبری کی جو دو نشانیاں پیش کی ہیں وہ تو صریحاً ساحری ہے۔ سحر کے زور سے تم نے یہ دو نشانیاں پیدا کی ہیں۔ جادوگر ہونا مصری معاشرے میں غیرمعمولی بات تو نہیں ہے۔ یہ فن تو اس ملک میں بہت زوروں پر ہے۔ تو محض سحر اور جادوگری کی بنیاد پر اپنے آپ کو رب العالمین کا رسول قرار دینا مذاق سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
Top