Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 50
فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ اِذَا هُمْ یَنْكُثُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب كَشَفْنَا : کھول دیا ہم نے عَنْهُمُ الْعَذَابَ : ان سے عذاب کو اِذَا هُمْ : تب وہ يَنْكُثُوْنَ : پھرجاتے تھے
تو جب ہم ان سے عذاب دور کردیتے تو وہ اپنا عہد توڑ دیتے
فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْھُمُ الْعَذَابَ اِذَا ھُمْ یَنْـکُثُوْنَ ۔ (الزخرف : 50) (تو جب ہم ان سے عذاب دور کردیتے تو وہ اپنا عہد توڑ دیتے۔ ) عذاب کے دور ہوتے ہی عہد توڑ دیا جاتا یعنی جب ان کی درخواست کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ سے اس کے نازل کردہ عذاب کو دور کرنے کی دعا کرتے تو بجائے شکرگزار ہونے کے وہ اپنا عہد توڑ دیتے۔ یعنی ایمان قبول کرنے کی بجائے کفر پر اصرار کرتے اور اپنے رویئے میں کسی طرح کی تبدیلی لانے سے انکار کردیتے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب فرعون اور اس کی قوم کا طرزعمل یہ تھا کہ تکلیف آتی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے دعا کی درخواست کرتے اور ایمان لانے کا وعدہ کرتے۔ اور جب دعا سے تکلیف ٹل جاتی تو انھیں ایمان لانے کا دعویٰ بھول جاتا اور وہ اپنی روش پر قائم رہتے۔ تو ایسی صورت بار بار پیش آنے پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کی بات کا اعتبار کیوں کرتے تھے، اور ان کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ان کی تکلیفوں کو دور کرنے کی التجا کیوں کرتے تھے۔ آپ صاف ان سے کیوں نہیں کہتے تھے کہ تم نے بار بار اپنے وعدوں سے انحراف کیا ہے اس لیے میں اب تم پر اعتماد نہیں کرسکتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کا اپنی امت دعوت سے معاملہ کاروباری نوعیت کا نہیں ہوتا کہ ایک دفعہ عہدشکنی سے کاروبار ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا جائے، بلکہ نبی بار بار انھیں اپنے طرزعمل کو درست کرنے کا موقع دیتا ہے اور بار بار انھیں سنبھلنے کے لیے مہلت دی جاتی ہے۔ اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تاآنکہ آخری امید ٹوٹ جانے کے بعد اتمامِ حجت ہوجاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کا عذاب آجاتا ہے جو ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔
Top