Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 57
وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ یَصِدُّوْنَ
وَلَمَّا ضُرِبَ : اور جب بیان کیا گیا ابْنُ مَرْيَمَ : مریم کے بیٹے کو مَثَلًا : بطور مثال اِذَا قَوْمُكَ : اچانک تیری قوم مِنْهُ يَصِدُّوْنَ : اس سے تالیاں بجاتی ہے۔ چلاتی ہے
اور جب ابن مریم کی مثال دی جاتی ہے تو آپ کی قوم کے لوگ اس پر شور مچا دیتے ہیں
وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلاً اِذَا قَوْمُکَ مِنْہُ یَصِدُّوْنَ ۔ وَقَالُوْٓا ئَ اٰلِھَتُنَا خَیْرٌ اَمْ ھُوَط مَاضَرَبُوْہُ لَـکَ اِلاَّ جَدَلاً ط بَلْ ھُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ ۔ (الزخرف : 57، 58) (اور جب ابن مریم کی مثال دی جاتی ہے تو آپ کی قوم کے لوگ اس پر شور مچا دیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ کیا ہمارے معبود اچھے ہوئے یا وہ، یہ مثال وہ آپ کے سامنے محض کج بحثی کے لیے اٹھاتے ہیں، بلکہ یہ ہیں ہی جھگڑالو لوگ۔ ) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے ایک اعتراض کا جواب اس سے پہلے آیت 45 میں یہ بات گزر چکی ہے کہ آپ سے پہلے جو رسول گزر چکے ہیں ان سے پوچھ کر دیکھئے یعنی ان کی تعلیمات کو دیکھئے کہ کیا ہم نے کسی اور کو اپنے سوا بندگی اور عبادت کے لیے مقرر کیا ہے۔ اور جب ایسا نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں میں سے کوئی رسول بھی اللہ تعالیٰ کی برابری کرسکے یا اس کی بندگی میں شرکت کرسکے تو پھر تم اپنے معبودوں کو یا فرشتوں کو کس حیثیت سے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہو۔ تو حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک شخص جس کا نام روایات میں عبداللہ ابن الزیعری آیا ہے، وہ اٹھا اور اس نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ امرواقعہ نہیں کہ مسیح ابن مریم کو اللہ تعالیٰ کا رسول کہا جاتا ہے۔ باایں ہمہ عیسائی اسے خدا کا بیٹا قرار دے کر اس کی عبادت کرتے ہیں۔ اگر یہ حقیقت ہے تو پھر ہمارے معبود کیا برے ہیں۔ کیونکہ ہمارے معبودوں کا تعلق تو فرشتوں جیسی پاکیزہ مخلوق سے ہے اور مسیح ابن مریم کا تو نسب ہی ثابت نہیں۔ اس پر ایک زور کا قہقہہ بلند ہوا۔ یعنی لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ ایک ایسی مسکت بات ہے جس کا جواب ممکن نہیں۔ قرآن کریم نے اس اعتراض کا جواب دینے کی بجائے پہلے اس تقریر کو مکمل کیا جو آنحضرت ﷺ کے واسطے سے جاری تھی۔ اس کے بعد اس اعتراض کے بارے میں یہ فرمایا کہ یہ بات تم بھی جانتے ہو کہ مسیح ابن مریم کلمۃ اللہ ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے محض کلمہ ٔ کُن سے پیدا کیا۔ اور قرآن کریم نے انھیں اللہ تعالیٰ کے رسول کی حیثیت سے پیش کیا۔ اور انھوں نے بھی زندگی بھر توحید کی دعوت دی اور ان کی دعوت اور باقی رسولوں کی دعوت میں سرمو فرق نہیں۔ تم اپنے معبودوں کو ان کے ساتھ کیونکر شامل کررہے ہو۔ تمہاری یہ حرکت کج بحثی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اور ساتھ ہی یہ فرمایا کہ تم درحقیقت ہو ہی ایک جھگڑالو قوم۔ تم اس سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک رحمن کے بارے میں جھگڑا کھڑا کرچکے ہو۔ یعنی وہ باتیں جو بالکل سامنے کی ہیں انھیں بھی کج بحثی کا موضوع بنا لینا تمہاری عادت ہے۔
Top