Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 77
وَ نَادَوْا یٰمٰلِكُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّكَ١ؕ قَالَ اِنَّكُمْ مّٰكِثُوْنَ
وَنَادَوْا : اور وہ پکاریں گے يٰمٰلِكُ : اے مالک لِيَقْضِ : چاہیے کہ فیصلہ کردے عَلَيْنَا رَبُّكَ : ہم پر تیرا رب قَالَ اِنَّكُمْ : کہے گا بیشک تم مّٰكِثُوْنَ : تم یونہی رہنے والے ہو
اور وہ پکاریں گے، اے مالک ! تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کردے تو اچھا ہے، وہ جواب دے گا تم اسی حال میں پڑے رہو گے
وَنَادَوْا یٰمٰلِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّـکَ ط قَالَ اِنَّـکُمْ مّٰـکِثُوْنَ ۔ (الزخرف : 77) (اور وہ پکاریں گے، اے مالک ! تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کردے تو اچھا ہے، وہ جواب دے گا تم اسی حال میں پڑے رہو گے۔ ) مایوسی کی وضاحت یہ ایک طرح سے آیت 75 میں ان کی جس مایوسی کا ذکر فرمایا گیا ہے اس کی وضاحت ہے، کہ جب جہنم کی تکلیفیں ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوجائیں گی اور کسی طرف سے بھی ان کی آہوں کا جواب نہیں ملے گا تو پھر ان کے پاس ایک ہی راستہ ہوگا کہ وہ داروغہ جہنم کو جنھیں مالک کے نام سے یاد کیا گیا ہے پکاریں گے کہ اے مالک اپنے رب تک ہماری درخواست پہنچا دیجیے کہ اب یہ تکلیفیں ہم سے برداشت نہیں ہوتیں، وہ ہمارا کام تمام کردے، یعنی ہماری موت کا فیصلہ فرما دے۔ کیونکہ کسی بھی دکھی انسان کی آخری امید جو تمام امیدوں کے کٹ جانے کے بعد بھی باقی رہتی ہے وہ موت ہے۔ کیونکہ موت کے آجانے کے بعد تمام تکلیفوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے وہ داروغہ جہنم سے کہیں گے کہ اپنے مالک سے کہو کہ وہ ہمیں موت دے دے۔ موت اگرچہ تلخ چیز ہے لیکن اس وقت ہم جس صورتحال سے دوچار ہیں اس میں موت ہی ہماری مصیبتوں کا خاتمہ کرسکتی ہے۔ تو داروغہ جہنم بڑی بےنیازی سے ان سے کہے گا کہ یہ آخرت کی دنیا ہے اس میں کسی کو موت نہیں آتی۔ سزائیں ملتی ہیں اور ہر شخص ان ہی سزائوں میں یہ ابدی زندگی گزارتا ہے۔ تو تم بھی اسی طرح سسک سسک کر زندگی گزارو گے، موت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اندازہ فرمایئے کہ جو آدمی اپنے مصائب کے خاتمہ کے لیے موت کی تمنا کرے اور موت بھی اس کو نہ آئے تو اس کی مایوسی کی انتہا کیا ہوگی۔ غالب نے ٹھیک کہا تھا : منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے
Top