Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 78
لَقَدْ جِئْنٰكُمْ بِالْحَقِّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ
لَقَدْ جِئْنٰكُمْ : البتہ تحقیق لائے ہم تمہارے پاس بِالْحَقِّ : حق وَلٰكِنَّ اَكْثَرَكُمْ : لیکن اکثر تمہارے لِلْحَقِّ : حق کے لیے كٰرِهُوْنَ : ناگوار تھے
ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے مگر تم میں سے اکثر حق کو ناپسند کرنے والے رہے
لَقَدْ جِئْنٰـکُمْ بِالْحَقِّ وَلَـکِنَّ اَکْثَرَکُمْ لِلْحَقِّ کٰرِھُوْنَ ۔ (الزخرف : 78) (ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے مگر تم میں سے اکثر حق کو ناپسند کرنے والے رہے۔ ) قریش کو تنبیہ گزشتہ آیت میں کفار کی درخواست پر داروغہ جہنم کا جواب ذکر فرمایا گیا ہے، ممکن ہے یہ بھی اسی جواب کا حصہ ہو۔ اس صورت میں اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ داروغہ جہنم اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں جواب دیتے ہوئے یہ کہے گا کہ آج تم جس انجام میں پکڑے گئے ہو یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا، بلکہ ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے، (یہ ہم کا استعمال داروغہ ٔ جہنم کی طرف سے اس لیے ہوگا کہ وہ ایک سرکاری افسر کی حیثیت سے بات کررہا ہے) ۔ لیکن تم میں سے اکثریت اس حق کو قبول کرنے سے گریز کرتی رہی، بلکہ تمہیں اس حق سے ایک بیزاری سی ہوگئی تھی، قبولیت تو بہت دور کی بات تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حق سے انکار اور بیزاری کے باعث تم جہنم کے بدترین عذاب کا شکار ہو۔ اور اگر اسے پروردگار کی جانب سے سمجھا جائے تو پھر بھی مفہوم میں کوئی غیرمعمولی فرق نہیں پڑتا، پھر بھی مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے اپنے رسول کی معرفت تم پر حق واضح کردیا تھا، تمہیں بتادیا تھا کہ زندگی کا وہ رویہ جو تمہارے لیے کامرانیوں کی نوید لائے گا وہ، وہ ہے جو ہمارا رسول پیش کررہا ہے۔ اور اگر تم نے اس سے انکار کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سزا کے طور پر تمہیں جہنم کے عذاب کے حوالے کردیا جائے گا۔ چناچہ آج تم جہنم میں اسی اعلان کے مطابق پہنچے ہو، تو اب اس پر شکایت کرنا یا مختلف قسم کی درخواستیں پیش کرنا ایک بےمعنی بات ہے۔
Top