Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Fath : 2
لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
لِّيَغْفِرَ
: تاکہ بخشدے
لَكَ اللّٰهُ
: آپ کیلئے اللہ
مَا تَقَدَّمَ
: جو پہلے گزرے
مِنْ
: سے
ذَنْۢبِكَ
: آپکے ذنب (الزام)
وَمَا تَاَخَّرَ
: اور جو پیچھے ہوئے
وَيُتِمَّ
: اور وہ مکمل کردے
نِعْمَتَهٗ
: اپنی نعمت
عَلَيْكَ
: آپ پر
وَيَهْدِيَكَ
: اور آپ کی رہنمائی کرے
صِرَاطًا
: راستہ
مُّسْتَقِيْمًا
: سیدھا
تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام اگلی اور پچھلی غلطیوں سے درگزر فرمائے اور آپ پر اپنی نعمت تمام کرے، اور آپ کو ایک سیدھا راستہ دکھا دے
لِّیَغْفِرَلَـکَ اللّٰہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَـہٗ عَلَیْکَ وَیَھْدِیَکَ صِرَاطًا مَّسْتَقِیْمًا۔ وَّیَنْصُرَکَ اللّٰہُ نَصْرًا عَزِیْزًا۔ (الفتح : 2، 3) (تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام اگلی اور پچھلی غلطیوں سے درگزر فرمائے اور آپ پر اپنی نعمت تمام کرے، اور آپ کو ایک سیدھا راستہ دکھا دے۔ اور آپ کو زبردست نصرت سے نوازے۔ ) اس فتحِ مبین کے چند نتائج ایک مؤرخ یا سیرت نگار جب چھٹی ہجری میں آنحضرت ﷺ کے معمولات کو دیکھتا ہے تو اسے صرف یہ دکھائی دیتا ہے کہ حق و باطل کی کشمکش جاری ہے جس میں نشیب و فراز کی موجیں کبھی اٹھتی ہیں اور کبھی سکون سے بہنے لگتی ہیں کہ اچانک آنحضرت ﷺ ایک خواب دیکھتے ہیں جس کے نتیجے میں آپ عمرہ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں اور پھر مکہ معظمہ پہنچ کر وہ حالات پیش آتے ہیں جو معاہدہ ٔ حدیبیہ پر منتج ہوتے ہیں۔ اور ان میں کوئی ایسی غیرمعمولی بات دکھائی نہیں دیتی جس سے یہ سمجھا جاسکے کہ اسلامی تحریک کو نئی توانائی مل رہی ہے اور یہ معاہدہ جو کاغذ پر لکھی چند شرائط کا نام ہے، سرزمینِ عرب پر ایک نئی تاریخ کا عنوان بننے والا ہے۔ لیکن پیش نظر آیت کریمہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاہدہ درحقیقت ایک فتحِ مبین تھا جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انعام و اکرام کی وہ بارش جو ہمیشہ آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں پر برستی تھی اسے موسلادھار بارش میں تبدیل کردیا ہے۔ چناچہ اس آیت کریمہ میں اسی کی تفصیل ہے جس میں آنحضرت ﷺ کو خطاب کرکے یہ فرمایا گیا کہ ہم نے آپ کو یہ فتحِ مبین اس لیے عطا فرمائی ہے تاکہ ہم آپ کو فلاں فلاں احسان سے نوازیں۔ جن میں سب سے پہلا احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اگلی اور پچھلی لغزشوں اور غلطیوں کو معاف کرنا چاہتا ہے۔ اس آیت میں لام غایت و نہایت کے لیے ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو فتحِ مبین عنایت فرمائی ہے یہ تمہید ہے جو فلاں فلاں نعمت اور احسان پر منتہی ہوگی جن میں سب سے پہلے یہ ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ اس فتح و غلبہ کی بشارت ہے جس کے لیے آپ کو بھیجا گیا ہے۔ یعنی آپ کا مقصد یہ تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے دین کو تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کردیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کے قانون کو اس طرح نافذ فرمائیں کہ ہر دیکھنے والی نگاہ دیکھ سکے کہ اس زمین پر اب صرف اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بستے ہیں۔ یہ ایک طرح سے فریضہ ٔ رسالت کی ذمہ داریوں سے آپ کے سبکدوش ہونے کی خبر دی گئی ہے جس کا وقت اب بہت دور نہیں ہے۔ حالانکہ بظاہر حالات ایسا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ کیونکہ عمرے کے لیے آپ کے ساتھ جانے والوں کی تعداد صرف چودہ سو تھی۔ اور ان چودہ سو کے ساتھ تو زمین پر کوئی بہت بڑا انقلاب برپا نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جبکہ مخالف قوتیں جزیرہ ٔ عرب کی حد تک ایک سال پہلے اتنا بڑا لشکر اسلامی قوت کو ختم کرنے کے لیے لانے میں کامیاب ہوگئی تھیں جن کا تصور کرکے دل حلق میں پھنس جاتے تھے۔ لیکن امرواقعہ یہ ہے کہ اس کے چار سال بعد جب آنحضرت ﷺ نے دنیا سے واپسی کا سفر کیا تو اسلامی انقلاب کے لیے ایک مضبوط بیس قائم ہوچکا تھا اور وفادار جانثاروں کی اتنی بڑی فوج تیار ہوچکی تھی جو زمین کے غالب حصے پر اللہ تعالیٰ کے قانون کو نافذ کرنے کے لیے کافی تھی۔ بعض دیگر اہل علم اسے آنحضرت ﷺ کی فریضہ ٔ رسالت سے فراغت اور آپ کی دنیا سے واپسی کا حوالہ تو نہیں سمجھتے، البتہ اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ جس مقصد عظیم کے لیے تشریف لائے تھے یہ فتحِ مبین اس عظیم مقصد کا مقدمہ ثابت ہوگی۔ اور اس کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہے، اسلامی زندگی اور اسلامی انقلاب کے لیے جس ضابطہ ٔ حیات کی ضرورت ہے اور اس کے لیے جس طرح کے سازگار حالات کی ضرورت ہے وہ سب کچھ تیزی سے فراہم کردیا جائے گا۔ چناچہ حالات نے ثابت کردیا کہ ان میں سے ایک ایک چیز آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کے لیے مہیا کردی گئی ہے۔ آنحضرت ﷺ کے گناہوں سے مراد اور بخشش کا مفہوم اس میں جو سب سے زیادہ قابل توجہ بات ہے وہ یہ ہے کہ اس میں آنحضرت ﷺ کے گناہوں کی بخشش کا ذکر فرمایا گیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے رسول معصوم پیدا کیے جاتے ہیں اور وہ اپنی تمام زندگی میں کبھی گناہ کے قریب بھی نہیں جاتے، تو پھر آنحضرت ﷺ کی گناہوں سے بخشش کا مفہوم کیا ہوگا ؟ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ذَنْب یعنی گناہ، حکمِ شریعت کی خلاف ورزی کو کہتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے کسی نبی اور رسول سے کبھی ایسی نافرمانی کا صدور نہیں ہوا۔ البتہ سابقہ انبیائے کرام پر بھی اور آنحضرت ﷺ کے لیے بھی ذَنْب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ تو اس سے مراد یہ نہیں کہ آپ نے شریعت کا کوئی حکم توڑا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ سے جب بھی کبھی کوئی غلطی یا لغزش ایسی سرزد ہوئی ہے جس کا تعلق ہَوائے نفس سے نہیں بلکہ غلبہ ٔ دین کی خواہش سے ہوتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے رسول چونکہ ہر معاملہ میں اسوہ اور مینارہ نور ہوتے ہیں اس لیے جب کبھی غلبہ ٔ دین کی خواہش میں اللہ تعالیٰ کے مطلوب معیار سے آگے بڑھتے ہیں تو پروردگار اسے ذَنْب قرار دے کر انھیں اس سے روکتا ہے۔ مثلاً طبقہ امراء کے چند افراد کو اس خیال سے زیادہ وقت دینا اور انھیں الگ لے کر بیٹھنا اور کسی حد تک ان کی نازبرداری کرنا کہ وہ اسلام قبول کرلیں اور ان کے زیراثر لوگ ان کی وجہ سے اسلام کے قریب آجائیں تو یہ ایک ایسی خواہش ہے جسے گناہ تو کیا انتہائی نیکی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جب اس کی وجہ سے ان لوگوں کے دلوں میں شکایت پیدا ہونے لگے جو انتہائی اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا دین قبول کرنے اور تزکیہ نفس کے لیے حاضر ہوئے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو اس سے محض اس وجہ سے روک دیتا ہے تاکہ آگے چل کر اس سے غلط فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ اور اسے ذنب قرار دیتا ہے۔ منافقین اگر آپ کے پاس جھوٹے سچے عذر پیش کرکے جہاد سے پیچھے رہنے کی اجازت چاہتے ہیں تو محض کریم النفسی کی بنا پر آپ انھیں اجازت دے دیتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ اس پر بھی تنبہ فرماتا ہے حالانکہ کسی بھی اسلامی سربراہ کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ اپنے اجتہاد سے ایسے فیصلے کرے۔ لیکن آنحضرت ﷺ جس بلند مرتبے کے حامل ہیں اس کی وجہ سے اسے بھی گناہ قرار دیا گیا اور آپ کو اس پر تنبہ فرمایا۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی واقعہ ہَوائے نفس کے سبب سے پیش نہیں آیا بلکہ اس کے پیچھے غلبہ ٔ دین کی حد سے بڑھی ہوئی خواہش ہے یا آپ کی حد سے بڑھی ہوئی طبیعت کی نرمی اور دوسروے کا لحاظ کرنے کی عادت ہے جو امت میں جا کر قانون اور سنت بن سکتی ہے۔ اس لیے اس سے روک دیا گیا۔ ایسی لغزشیں اور کو تاہیاں چونکہ آپ کے بلندوبالا حیثیت کے لیے بھی مناسب نہ تھیں اس لیے انھیں معاف کرنے کا مژدہ سنایا گیا۔ بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ آپ چونکہ امت کے سربراہ اور اللہ تعالیٰ کے رسول تھے، اس لیے امت کی کو تاہیاں بھی آپ کی کو تاہیاں قرار دی گئیں اور یا اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کے نفوذ کے لیے جو جدوجہد کی جارہی تھی اس میں جو کو تاہیاں رہ گئیں جن کی خبر کسی انسان کو نہیں ہوسکتی کیونکہ کوئی نظر ایسی نہیں جو انھیں دیکھ سکے۔ اور کوئی ایسا پیمانہ نہیں جس میں انھیں جانچا جاسکے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں اسلامی جدوجہد کا جو اعلیٰ معیار ہے اس کے اعتبار سے اسے کمزوری قرار دیا گیا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تو جس طرح فوج کی کمزوریاں اور ان کے کارنامے سپہ سالار کی طرف منسوب ہوتے ہیں، اسی طرح اس جدوجہد کی کمزوریوں کو بھی آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب فرما کر اس طرح ان کی بخشش کا مژدہ سنایا گیا جس میں آپ کی پوری زندگی کو سمیٹ لیا گیا۔ کیونکہ اگلے اور پچھلے کا لفظ احاطہ پر دلالت کرتا ہے جس سے ساری زندگی مراد لی جاسکتی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں جو مزید انعامات ملنے والے ہیں اس کے بارے میں ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ اپنی نعمت کو تمام کردے گا۔ اور نعمت سے مراد قرآن کریم بھی ہے اور آنحضرت ﷺ کی سنت بھی۔ کیونکہ دونوں مل کر اسلامی احکام کو ضابطہ حیات کی شکل دیتے ہیں۔ اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والا وہ تہذیب و تمدن بھی ہے جو اسلام کے نفاذ اور آنحضرت ﷺ کی تربیت نے مسلمانوں میں پیدا فرمایا۔ اور یہی وہ چیز ہے جسے تکمیلِ دین کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا۔ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ” اور میں نے تم پر اپنی نعمت تمام کردی۔ “ اور یہی وہ نعمت ہے جس کا اعلان آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع میں کیا تھا۔ اور دوسرا احسان جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ اور آپ کے واسطے سے امت پر فرمایا وہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سیدھے راستے کی رہنمائی کرے گا۔ یعنی اس فتحِ مبین نے وہ راستہ کھول دیا ہے جس پر چل کر آپ اپنی منزل تک پہنچ جائیں گے۔ ممکن ہے اس سے مراد یہ ہو کہ وہ صراط مستقیم جسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبۃ اللہ کی تعمیر کے بعد اپنی ذُرِّیت کے لیے کھولا تھا، مدت ہوئی انھیں کی اولاد نے اس کو بند کردیا اور اللہ تعالیٰ کا وہ گھر جسے اس کے مرکز کے لیے تعمیر کیا گیا تھا اسے بت خانے میں تبدیل کردیا گیا۔ آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری سے اس راستے کو پھر کھولا گیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد نے قدم قدم پر اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ اب اس معاہدے کے بعد قبائلِ عرب پر اس کی تبلیغ و دعوت کا راستہ کھل گیا ہے۔ اب یہاں کے باسیوں تک اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت آسانی سے پہنچ سکے گی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تیزی سے یہ لوگ اسلام کی آغوش میں آئیں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک عظیم قافلہ تیار ہوگا جن کے ہاتھوں اسلام کی مشل ہوگی۔ چناچہ دو ہی سالوں میں مکہ سرنگوں ہوگیا اور مزید دو سالوں میں پورا جزیرہ ٔ عرب اسلام کی آغوش میں آگیا۔ اس فتحِ مبین کے نتیجے میں جو مزید احسان فرمانے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا وہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی ایسی مدد کرے گا جس کو کوئی چیلنج کرنے والا نہیں ہوگا۔ چناچہ چار سال سے کم عرصے میں جزیرہ ٔ عرب کی تمام قوتیں اسلام کے دامن سے وابستہ ہوگئیں۔ راستے کی ہر رکاوٹ ختم کردی گئی۔ اس نوزائیدہ اسلامی ریاست کی حدود کا تحفظ کرلیا گیا۔ اور ایک ایسی قوت وجود میں آئی جسے جزیرہ ٔ عرب میں کوئی چیلنج کرنے والا نہ تھا۔ آیت کریمہ میں اس کے لیے عزیز کا لفظ استعمال ہوا ہے تو عزیز کا معنی جس طرح غالب اور طاقتور ہوتا ہے اسی طرح اس کا معنی عجیب اور نادر بھی ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے گا ایسے عجیب طریقے سے کہ آج کوئی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یعنی جس معاہدے کو شکست کی دستاویز سمجھا گیا اور مسلمان جس کے لیے نہایت پریشان اور غمگین رہے اور جسے سراسر اپنے لیے ناکامی سمجھتے رہے۔ وہی معاہدہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا ایسا ذریعہ بنا کہ دیکھتے ہی دیکھتے جزیرہ ٔ عرب کی تاریخ بدل گئی، آستانے بدل گئے۔ اور لوگوں میں ایسی تبدیلی آئی کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
Top