Ruh-ul-Quran - Al-Fath : 2
لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
لِّيَغْفِرَ : تاکہ بخشدے لَكَ اللّٰهُ : آپ کیلئے اللہ مَا تَقَدَّمَ : جو پہلے گزرے مِنْ : سے ذَنْۢبِكَ : آپکے ذنب (الزام) وَمَا تَاَخَّرَ : اور جو پیچھے ہوئے وَيُتِمَّ : اور وہ مکمل کردے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكَ : آپ پر وَيَهْدِيَكَ : اور آپ کی رہنمائی کرے صِرَاطًا : راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام اگلی اور پچھلی غلطیوں سے درگزر فرمائے اور آپ پر اپنی نعمت تمام کرے، اور آپ کو ایک سیدھا راستہ دکھا دے
لِّیَغْفِرَلَـکَ اللّٰہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَـہٗ عَلَیْکَ وَیَھْدِیَکَ صِرَاطًا مَّسْتَقِیْمًا۔ وَّیَنْصُرَکَ اللّٰہُ نَصْرًا عَزِیْزًا۔ (الفتح : 2، 3) (تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام اگلی اور پچھلی غلطیوں سے درگزر فرمائے اور آپ پر اپنی نعمت تمام کرے، اور آپ کو ایک سیدھا راستہ دکھا دے۔ اور آپ کو زبردست نصرت سے نوازے۔ ) اس فتحِ مبین کے چند نتائج ایک مؤرخ یا سیرت نگار جب چھٹی ہجری میں آنحضرت ﷺ کے معمولات کو دیکھتا ہے تو اسے صرف یہ دکھائی دیتا ہے کہ حق و باطل کی کشمکش جاری ہے جس میں نشیب و فراز کی موجیں کبھی اٹھتی ہیں اور کبھی سکون سے بہنے لگتی ہیں کہ اچانک آنحضرت ﷺ ایک خواب دیکھتے ہیں جس کے نتیجے میں آپ عمرہ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں اور پھر مکہ معظمہ پہنچ کر وہ حالات پیش آتے ہیں جو معاہدہ ٔ حدیبیہ پر منتج ہوتے ہیں۔ اور ان میں کوئی ایسی غیرمعمولی بات دکھائی نہیں دیتی جس سے یہ سمجھا جاسکے کہ اسلامی تحریک کو نئی توانائی مل رہی ہے اور یہ معاہدہ جو کاغذ پر لکھی چند شرائط کا نام ہے، سرزمینِ عرب پر ایک نئی تاریخ کا عنوان بننے والا ہے۔ لیکن پیش نظر آیت کریمہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاہدہ درحقیقت ایک فتحِ مبین تھا جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انعام و اکرام کی وہ بارش جو ہمیشہ آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں پر برستی تھی اسے موسلادھار بارش میں تبدیل کردیا ہے۔ چناچہ اس آیت کریمہ میں اسی کی تفصیل ہے جس میں آنحضرت ﷺ کو خطاب کرکے یہ فرمایا گیا کہ ہم نے آپ کو یہ فتحِ مبین اس لیے عطا فرمائی ہے تاکہ ہم آپ کو فلاں فلاں احسان سے نوازیں۔ جن میں سب سے پہلا احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اگلی اور پچھلی لغزشوں اور غلطیوں کو معاف کرنا چاہتا ہے۔ اس آیت میں لام غایت و نہایت کے لیے ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو فتحِ مبین عنایت فرمائی ہے یہ تمہید ہے جو فلاں فلاں نعمت اور احسان پر منتہی ہوگی جن میں سب سے پہلے یہ ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ اس فتح و غلبہ کی بشارت ہے جس کے لیے آپ کو بھیجا گیا ہے۔ یعنی آپ کا مقصد یہ تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے دین کو تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کردیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کے قانون کو اس طرح نافذ فرمائیں کہ ہر دیکھنے والی نگاہ دیکھ سکے کہ اس زمین پر اب صرف اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بستے ہیں۔ یہ ایک طرح سے فریضہ ٔ رسالت کی ذمہ داریوں سے آپ کے سبکدوش ہونے کی خبر دی گئی ہے جس کا وقت اب بہت دور نہیں ہے۔ حالانکہ بظاہر حالات ایسا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ کیونکہ عمرے کے لیے آپ کے ساتھ جانے والوں کی تعداد صرف چودہ سو تھی۔ اور ان چودہ سو کے ساتھ تو زمین پر کوئی بہت بڑا انقلاب برپا نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جبکہ مخالف قوتیں جزیرہ ٔ عرب کی حد تک ایک سال پہلے اتنا بڑا لشکر اسلامی قوت کو ختم کرنے کے لیے لانے میں کامیاب ہوگئی تھیں جن کا تصور کرکے دل حلق میں پھنس جاتے تھے۔ لیکن امرواقعہ یہ ہے کہ اس کے چار سال بعد جب آنحضرت ﷺ نے دنیا سے واپسی کا سفر کیا تو اسلامی انقلاب کے لیے ایک مضبوط بیس قائم ہوچکا تھا اور وفادار جانثاروں کی اتنی بڑی فوج تیار ہوچکی تھی جو زمین کے غالب حصے پر اللہ تعالیٰ کے قانون کو نافذ کرنے کے لیے کافی تھی۔ بعض دیگر اہل علم اسے آنحضرت ﷺ کی فریضہ ٔ رسالت سے فراغت اور آپ کی دنیا سے واپسی کا حوالہ تو نہیں سمجھتے، البتہ اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ جس مقصد عظیم کے لیے تشریف لائے تھے یہ فتحِ مبین اس عظیم مقصد کا مقدمہ ثابت ہوگی۔ اور اس کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہے، اسلامی زندگی اور اسلامی انقلاب کے لیے جس ضابطہ ٔ حیات کی ضرورت ہے اور اس کے لیے جس طرح کے سازگار حالات کی ضرورت ہے وہ سب کچھ تیزی سے فراہم کردیا جائے گا۔ چناچہ حالات نے ثابت کردیا کہ ان میں سے ایک ایک چیز آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کے لیے مہیا کردی گئی ہے۔ آنحضرت ﷺ کے گناہوں سے مراد اور بخشش کا مفہوم اس میں جو سب سے زیادہ قابل توجہ بات ہے وہ یہ ہے کہ اس میں آنحضرت ﷺ کے گناہوں کی بخشش کا ذکر فرمایا گیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے رسول معصوم پیدا کیے جاتے ہیں اور وہ اپنی تمام زندگی میں کبھی گناہ کے قریب بھی نہیں جاتے، تو پھر آنحضرت ﷺ کی گناہوں سے بخشش کا مفہوم کیا ہوگا ؟ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ذَنْب یعنی گناہ، حکمِ شریعت کی خلاف ورزی کو کہتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے کسی نبی اور رسول سے کبھی ایسی نافرمانی کا صدور نہیں ہوا۔ البتہ سابقہ انبیائے کرام پر بھی اور آنحضرت ﷺ کے لیے بھی ذَنْب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ تو اس سے مراد یہ نہیں کہ آپ نے شریعت کا کوئی حکم توڑا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ سے جب بھی کبھی کوئی غلطی یا لغزش ایسی سرزد ہوئی ہے جس کا تعلق ہَوائے نفس سے نہیں بلکہ غلبہ ٔ دین کی خواہش سے ہوتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے رسول چونکہ ہر معاملہ میں اسوہ اور مینارہ نور ہوتے ہیں اس لیے جب کبھی غلبہ ٔ دین کی خواہش میں اللہ تعالیٰ کے مطلوب معیار سے آگے بڑھتے ہیں تو پروردگار اسے ذَنْب قرار دے کر انھیں اس سے روکتا ہے۔ مثلاً طبقہ امراء کے چند افراد کو اس خیال سے زیادہ وقت دینا اور انھیں الگ لے کر بیٹھنا اور کسی حد تک ان کی نازبرداری کرنا کہ وہ اسلام قبول کرلیں اور ان کے زیراثر لوگ ان کی وجہ سے اسلام کے قریب آجائیں تو یہ ایک ایسی خواہش ہے جسے گناہ تو کیا انتہائی نیکی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جب اس کی وجہ سے ان لوگوں کے دلوں میں شکایت پیدا ہونے لگے جو انتہائی اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا دین قبول کرنے اور تزکیہ نفس کے لیے حاضر ہوئے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو اس سے محض اس وجہ سے روک دیتا ہے تاکہ آگے چل کر اس سے غلط فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ اور اسے ذنب قرار دیتا ہے۔ منافقین اگر آپ کے پاس جھوٹے سچے عذر پیش کرکے جہاد سے پیچھے رہنے کی اجازت چاہتے ہیں تو محض کریم النفسی کی بنا پر آپ انھیں اجازت دے دیتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ اس پر بھی تنبہ فرماتا ہے حالانکہ کسی بھی اسلامی سربراہ کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ اپنے اجتہاد سے ایسے فیصلے کرے۔ لیکن آنحضرت ﷺ جس بلند مرتبے کے حامل ہیں اس کی وجہ سے اسے بھی گناہ قرار دیا گیا اور آپ کو اس پر تنبہ فرمایا۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی واقعہ ہَوائے نفس کے سبب سے پیش نہیں آیا بلکہ اس کے پیچھے غلبہ ٔ دین کی حد سے بڑھی ہوئی خواہش ہے یا آپ کی حد سے بڑھی ہوئی طبیعت کی نرمی اور دوسروے کا لحاظ کرنے کی عادت ہے جو امت میں جا کر قانون اور سنت بن سکتی ہے۔ اس لیے اس سے روک دیا گیا۔ ایسی لغزشیں اور کو تاہیاں چونکہ آپ کے بلندوبالا حیثیت کے لیے بھی مناسب نہ تھیں اس لیے انھیں معاف کرنے کا مژدہ سنایا گیا۔ بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ آپ چونکہ امت کے سربراہ اور اللہ تعالیٰ کے رسول تھے، اس لیے امت کی کو تاہیاں بھی آپ کی کو تاہیاں قرار دی گئیں اور یا اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کے نفوذ کے لیے جو جدوجہد کی جارہی تھی اس میں جو کو تاہیاں رہ گئیں جن کی خبر کسی انسان کو نہیں ہوسکتی کیونکہ کوئی نظر ایسی نہیں جو انھیں دیکھ سکے۔ اور کوئی ایسا پیمانہ نہیں جس میں انھیں جانچا جاسکے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں اسلامی جدوجہد کا جو اعلیٰ معیار ہے اس کے اعتبار سے اسے کمزوری قرار دیا گیا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تو جس طرح فوج کی کمزوریاں اور ان کے کارنامے سپہ سالار کی طرف منسوب ہوتے ہیں، اسی طرح اس جدوجہد کی کمزوریوں کو بھی آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب فرما کر اس طرح ان کی بخشش کا مژدہ سنایا گیا جس میں آپ کی پوری زندگی کو سمیٹ لیا گیا۔ کیونکہ اگلے اور پچھلے کا لفظ احاطہ پر دلالت کرتا ہے جس سے ساری زندگی مراد لی جاسکتی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں جو مزید انعامات ملنے والے ہیں اس کے بارے میں ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ اپنی نعمت کو تمام کردے گا۔ اور نعمت سے مراد قرآن کریم بھی ہے اور آنحضرت ﷺ کی سنت بھی۔ کیونکہ دونوں مل کر اسلامی احکام کو ضابطہ حیات کی شکل دیتے ہیں۔ اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والا وہ تہذیب و تمدن بھی ہے جو اسلام کے نفاذ اور آنحضرت ﷺ کی تربیت نے مسلمانوں میں پیدا فرمایا۔ اور یہی وہ چیز ہے جسے تکمیلِ دین کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا۔ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ” اور میں نے تم پر اپنی نعمت تمام کردی۔ “ اور یہی وہ نعمت ہے جس کا اعلان آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع میں کیا تھا۔ اور دوسرا احسان جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ اور آپ کے واسطے سے امت پر فرمایا وہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سیدھے راستے کی رہنمائی کرے گا۔ یعنی اس فتحِ مبین نے وہ راستہ کھول دیا ہے جس پر چل کر آپ اپنی منزل تک پہنچ جائیں گے۔ ممکن ہے اس سے مراد یہ ہو کہ وہ صراط مستقیم جسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبۃ اللہ کی تعمیر کے بعد اپنی ذُرِّیت کے لیے کھولا تھا، مدت ہوئی انھیں کی اولاد نے اس کو بند کردیا اور اللہ تعالیٰ کا وہ گھر جسے اس کے مرکز کے لیے تعمیر کیا گیا تھا اسے بت خانے میں تبدیل کردیا گیا۔ آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری سے اس راستے کو پھر کھولا گیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد نے قدم قدم پر اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ اب اس معاہدے کے بعد قبائلِ عرب پر اس کی تبلیغ و دعوت کا راستہ کھل گیا ہے۔ اب یہاں کے باسیوں تک اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت آسانی سے پہنچ سکے گی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تیزی سے یہ لوگ اسلام کی آغوش میں آئیں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک عظیم قافلہ تیار ہوگا جن کے ہاتھوں اسلام کی مشل ہوگی۔ چناچہ دو ہی سالوں میں مکہ سرنگوں ہوگیا اور مزید دو سالوں میں پورا جزیرہ ٔ عرب اسلام کی آغوش میں آگیا۔ اس فتحِ مبین کے نتیجے میں جو مزید احسان فرمانے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا وہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی ایسی مدد کرے گا جس کو کوئی چیلنج کرنے والا نہیں ہوگا۔ چناچہ چار سال سے کم عرصے میں جزیرہ ٔ عرب کی تمام قوتیں اسلام کے دامن سے وابستہ ہوگئیں۔ راستے کی ہر رکاوٹ ختم کردی گئی۔ اس نوزائیدہ اسلامی ریاست کی حدود کا تحفظ کرلیا گیا۔ اور ایک ایسی قوت وجود میں آئی جسے جزیرہ ٔ عرب میں کوئی چیلنج کرنے والا نہ تھا۔ آیت کریمہ میں اس کے لیے عزیز کا لفظ استعمال ہوا ہے تو عزیز کا معنی جس طرح غالب اور طاقتور ہوتا ہے اسی طرح اس کا معنی عجیب اور نادر بھی ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے گا ایسے عجیب طریقے سے کہ آج کوئی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یعنی جس معاہدے کو شکست کی دستاویز سمجھا گیا اور مسلمان جس کے لیے نہایت پریشان اور غمگین رہے اور جسے سراسر اپنے لیے ناکامی سمجھتے رہے۔ وہی معاہدہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا ایسا ذریعہ بنا کہ دیکھتے ہی دیکھتے جزیرہ ٔ عرب کی تاریخ بدل گئی، آستانے بدل گئے۔ اور لوگوں میں ایسی تبدیلی آئی کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
Top