Ruh-ul-Quran - Al-Fath : 20
وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً تَاْخُذُوْنَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هٰذِهٖ وَ كَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْكُمْ١ۚ وَ لِتَكُوْنَ اٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَ یَهْدِیَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
وَعَدَكُمُ : وعدہ کیا تم سے اللّٰهُ : اللہ نے مَغَانِمَ كَثِيْرَةً : غنیمتیں کثرت سے تَاْخُذُوْنَهَا : تم لوگے انہیں فَعَجَّلَ : تو جلددیدی اس نے تمہیں لَكُمْ : تمہیں هٰذِهٖ : یہ وَكَفَّ : اور روک دئیے اَيْدِيَ النَّاسِ : ہاتھ لوگوں کے عَنْكُمْ ۚ : تم سے وَلِتَكُوْنَ اٰيَةً : اور تاکہ ہو ایک نشانی لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کیلئے وَيَهْدِيَكُمْ : اور وہ ہدایت دے تمہیں صِرَاطًا : ایک راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جنھیں تم حاصل کرو گے، پس یہ اس نے تم کو فوری طور پردے دی، اور لوگوں کے ہاتھ تمہارے خلاف اٹھنے سے روک دیئے تاکہ یہ مومنوں کے لیے ایک نشانی بن جائے۔ اور تمہیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت بخشے
وَعَدَکُمُ اللّٰہُ مَغَانِمَ کَثِیْرَۃً تَاْخُذُوْنَھَا فَعَجَّلَ لَـکُمْ ھٰذِہٖ وَکَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْـکُمْ ج وَلِتَـکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَیَھْدِیَـکُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا۔ وَّاُخْرٰی لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھَا قَدْ اَحَاطَ اللّٰہُ بِھَا ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرًا۔ (الفتح : 20، 12) (اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جنھیں تم حاصل کرو گے، پس یہ اس نے تم کو فوری طور پردے دی، اور لوگوں کے ہاتھ تمہارے خلاف اٹھنے سے روک دیئے تاکہ یہ مومنوں کے لیے ایک نشانی بن جائے۔ اور تمہیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت بخشے۔ اور ایک دوسری فتح بھی ہے جس پر تم ابھی تک قادر نہیں ہوئے ہو، اور اللہ نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ) صحابہ کرام پر مزید انعامات کا تذکرہ موجودہ رکوع کے آغاز سے پروردگار ان خوش نصیبوں کے لیے اظہارِخوشنودی فرما رہا ہے جنھوں نے حدیبیہ کے مقام پر آنحضرت ﷺ کے دست مبارک پر بیعت رضوان کی۔ اور یہ عہد کیا کہ جب تک ہماری جان میں جان ہے ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے اور حضرت عثمانِ غنی ( رض) کے خون کا انتقام لیں گے۔ اسی سلسلے کی یہ تیسری آیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو انعام کے طور پر مختلف نعمتوں سے نوازا۔ اور گزشتہ دو آیتوں میں ان میں سے بعض کا ذکر ہوا۔ اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عہد پر جان دینے والے لوگو ! ہم نے تم سے بہت سے غنیمتوں کے وعدے کر رکھے ہیں۔ اور وہ وقت دور نہیں جب تم ایک ایک کرکے ان سے بہرہ ور کیے جاؤ گے۔ یعنی ایسی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوجائے گا کہ جس کے نتیجے میں تمام مخالف قوتیں یکے بعد دیگرے سرنگوں ہوجائیں گی اور ان کے اموال اور ان کی زمینیں مال غنیمت کے طور پر تمہیں حاصل ہوں گی۔ اور ساتھ ہی فرمایا کہ یوں تو تمہیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر پورا بھروسہ ہے لیکن محض تمہاری حوصلہ افزائی کے لیے ہم اپنے وعدوں کی تصدیق کے طور پر ایک نقد فتح تمہیں عطا کررہے ہیں۔ اور یہ فتح ایسی ہے جو آئندہ کی فتوحات کے لیے مقدمہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ بعض مفسرین نے اس سے خیبر کی فتح اور اس کی غنیمت مراد لی ہے۔ لیکن الفاظ پر غور کرنے سے زیادہ قرین قیاس یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے جسے قرآن کریم نے فتحِ مبین قرار دیا ہے۔ کیونکہ فتحِ خیبر کا ذکر گزشتہ آیت میں ہوچکا ہے اور اسے فتحِ قریب کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اور وہ فتحِ قریب ان معنوں میں ہے کہ حدیبیہ سے واپسی پر صرف تین ماہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ فتح عطا فرمائی۔ لیکن یہاں جملہ فَعَجَّلَ لَـکُمْ ھٰذِہٖ کا ہے۔ ظاہر ہے کہ تعجیل قریب سے پہلے کی چیز ہے۔ صلح حدیبیہ کے تین ماہ بعد جو فتح عطا فرمائی گئی اسے فتحِ قریب کہنا یقینا ہر طرح درست ہے۔ لیکن وہ فتح جو فوری طور پر عطا کردی گئی وہ فتحِ قریب نہیں بلکہ وہ فتح ہے جو سورة کے نازل ہونے سے پہلے عطا فرمائی گئی، اور وہ یہی صلح حدیبیہ ہے۔ اور اس کو فتحِ مبین اس لیے قرار دیا گیا کہ اس صلح میں جو معاہدہ طے پایا اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کے راستے کے تمام موانع ختم ہوگئے۔ تبلیغ و دعوت کے راستے بھی کھل گئے، نئے نئے تعلقات کی استواری کے مواقع بھی پیدا ہوگئے۔ اور اگر کسی مخالف قوت پر حملہ کیا گیا تو ان کے لیے اس بات کا کوئی امکان نہ رہا کہ وہ مسلمانوں کے مخالفین سے مدد لے سکیں۔ چناچہ یہی وہ اسباب ہیں جن اس معاہدے میں حاصل ہوجانا ایک ایسی فتحِ مبین تھی جو بعد کی فتوحات کے لیے مقدمہ ثابت ہوئی۔ اس فتحِ مبین کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ اس پر مزید اللہ تعالیٰ کا کرم یہ ہوا کہ اس نے تم سے لوگوں کے ہاتھوں کو روک دیا۔ یہاں الناس سے مراد قریش ہیں۔ یہ لوگ ہرچند کوشش کررہے تھے کہ مسلمانوں کو کسی طرح اشتعال میں لا کر جنگ کی صورتحال پیدا کردیں۔ کیونکہ وہ محسوس کرتے تھے کہ مسلمان غیرمسلح ہیں ان کے پاس افرادی قوت کی بےحد کمی ہے اور وہ اپنے مرکز سے اڑھائی سو میل کے فاصلے پر ہیں۔ وہ کوشش بھی کریں تو ان کے مرکز سے انھیں کوئی مدد نہیں مل سکتی۔ لیکن قریش ہر لحاظ سے ان سے بہتر پوزیشن میں ہیں۔ اگر لڑائی چھڑ جائے تو قریش کی فتح کے امکانات واضح ہیں۔ اور اس بات کا شدید اندیشہ ہے کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے مشن کو شدید نقصان پہنچے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کردیئے کہ قریش خواہش رکھنے کے باوجود بھی مسلمانوں کے خلاف کوئی اقدام نہ کرسکے۔ سراسر مخالفانہ ماحول اور جنگی نقطہ نگاہ سے تمام کمزوریوں کے باوجود قریش کا کوئی اقدام نہ کرسکنا اور مسلمانوں کا ہر طرح محفوظ رہنا بلکہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنا، محض اس وجہ سے ہوا تاکہ یہ سب کچھ اصحابِ ایمان کے لیے اس حقیقت کی نشانی بن جائے کہ جو شخص بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت میں ثابت قدم رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر حق اور راستی کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نامساعد حالات میں بھی اس کے لیے حالات کو حسب حال کردیتا ہے۔ کمزوری کے باوجود دشمن کے دل میں اس کا رعب ڈال دیتا ہے اور قدم قدم پر اس طرح اسے اپنی تائید و نصرت سے نوازتا ہے کہ وہ کسی وقت بھی اپنے آپ کو کمزور اور بےبس نہیں دیکھتا۔ چناچہ آنے والے حالات میں حدیبیہ میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا یہ واقعہ مسلمانوں کے لیے ہمیشہ ایک نشانی، ایک رہنمائی اور مشعل راہ بنا رہا اور جب بھی کبھی کوئی تشویشناک صورتحال پیدا ہوئی تو بجائے اپنی بےبسی کو دیکھنے کے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پر بھروسہ میں اور اضافہ ہوگیا۔ مسلمانوں کو غیرمعمولی تائید و نصرت سے نوازنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ تھی کہ وہ مسلمانوں کو صراط مستقیم کی ہدایت دے۔ اور صراط مستقیم کی ہدایت سے مراد یہ ہے کہ ان کے اندر یہ عزم توانا کردے اور ان کی بصیرت پر یہ نکتہ کھول دے کہ تمہاری اصل منزل اللہ تعالیٰ کے گھر کو دشمنوں سے واگزار کرا کے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دین کا مرکز بنانا ہے جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کو مرکز بنایا تھا۔ کفر کی قہرمانی طاقتوں نے ایک عرصے سے اللہ تعالیٰ کی توحید کے اس مرکز کا راستہ بند کر رکھا ہے اب وقت آگیا ہے کہ ازسرنو اسے کھولا جائے۔ اور یہ مرکز اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ماننے والوں کے لیے نئی توانائی کا باعث بنے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد اُخْرٰی کے لفظ سے ایک اور فتح کی خبر سنائی گئی ہے جس سے مراد فتحِ مکہ ہے۔ کیونکہ فتح مکہ کے بعد ہی اللہ تعالیٰ کا گھر حقیقی معنی میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا مرکز بن سکے گا۔ اور جب تک مکہ فتح نہیں ہوتا اور قریش کی طاقت شکست و ریخت کا شکار نہیں ہوتی اس وقت تک جزیرہ عرب میں بت پرستی اور شرک کے تمام امکانات کو غذا ملتی رہے گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے چونکہ اس بند راستے کو کھولنے کا فیصلہ کرلیا ہے اس لیے وہ وقت دور نہیں جب اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ہاتھوں مکہ فتح کرائے گا۔ بلاشہ آج مسلمانوں میں اس کی فتح کے لیے حالات سازگار نہیں۔ اور نہ وہ ابھی اس قدر مضبوط ہوئے ہیں کہ طاقت کے زور سے مکہ پر غلبہ پالیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا راستہ کون روک سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اگرچہ مکہ کی فتح پر قادر نہیں ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو گھیر رکھا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا مضبوط ہاتھ آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھ رہا ہے اس میں گویا بشارت ہے اس بات کی کہ بہت جلدی اللہ تعالیٰ کی قدرت اس گھر کی فتح کے اسباب پیدا کردے گی۔ اور اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کوئی مشکل نہیں، کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
Top