Ruh-ul-Quran - Al-Hujuraat : 16
قُلْ اَتُعَلِّمُوْنَ اللّٰهَ بِدِیْنِكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
قُلْ : فرمادیں اَتُعَلِّمُوْنَ : کیا تم جتلاتے ہو اللّٰهَ : اللہ کو بِدِيْنِكُمْ ۭ : اپنا دین وَاللّٰهُ يَعْلَمُ : اور اللہ جانتا ہے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ ۭ : زمین میں وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر ایک چیز کا عَلِيْمٌ : جاننے و الا
اے پیغمبر ! کہہ دیجیے، کیا تم اللہ کو اپنے دین سے آگاہ کررہے ہو حالانکہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے
قُلْ اَتُعَلِّمُوْنَ اللّٰہَ بِدِیْنِکُمْ ط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فی الْاَرْضِ ط وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمٌ۔ (الحجرات : 16) (اے پیغمبر ! کہہ دیجیے، کیا تم اللہ کو اپنے دین سے آگاہ کررہے ہو حالانکہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ ) اعراب کے طرزعمل پر گرفت چونکہ ان لوگوں کا طریقہ جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں یہ تھا کہ وہ جب آنحضرت ﷺ کے پاس آتے تو بار بار اپنے ایمان کا اظہار اس طرح کرتے گویا کہ انھوں نے ایمان لاکر کوئی بہت بڑی خدمت انجام دی ہے اور اللہ تعالیٰ کے رسول پر کوئی احسان کیا ہے۔ اس کے جواب میں پروردگار آنحضرت ﷺ کو ہدایت کررہا ہے کہ آپ ان سے کہئے اگر تم اللہ تعالیٰ کی صفات کے ادراک کے بعد اس پر ایمان لائے ہو تو پھر تمہارا اپنے ایمان کا ذکر کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟ اس سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا کہ تم اللہ تعالیٰ کو اپنے ایمان سے آگاہ کررہے ہو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے ادراک سے یہ بات تو پہلے مرحلے میں سمجھ میں آجاتی ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ کوئی چیز ظاہر ہو یا مخفی اس کے علم سے باہر نہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہارے ایمان اور اس کی حقیقت کو بھی جانتا ہے۔ تو پھر اپنے ایمان کا اظہار اور وہ بھی تکرار کے ساتھ ایک ناشائستہ جسارت کے سوا اور کیا ہے۔
Top