Ruh-ul-Quran - Al-Hujuraat : 4
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يُنَادُوْنَكَ : آپ کو پکارتے ہیں مِنْ وَّرَآءِ : باہر سے الْحُجُرٰتِ : حجروں اَكْثَرُهُمْ : ان میں سے اکثر لَا يَعْقِلُوْنَ : عقل نہیں رکھتے
بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر سمجھ رکھنے والے نہیں ہیں
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَـکَ مِنْ وَّرَآئِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُھُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ ۔ وَلَوْ اَنَّھُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْھِمْ لَـکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ۔ (الحجرات : 4، 5) (بےشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر سمجھ رکھنے والے نہیں ہیں۔ اور اگر وہ صبر کرتے حتیٰ کہ آپ خود ان کے پاس نکل کے جاتے تو یہ بات ان کے لیے بہتر ہوتی، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ) آپ ﷺ کے غائب ہونے کی صورت میں ملحوظ رکھا جانے والا ادب صحابہ کرام ( رض) کا عام معمول یہ تھا کہ وہ آنحضرت ﷺ سے اس وقت ملنے کے لیے آتے جب آپ مسجد نبوی میں تشریف فرما ہوتے۔ اور اگر آپ کو مجلس میں موجود نہ پاتے تو بیٹھ کر آپ کے باہر تشریف لانے کا انتظار کرتے۔ وہ کبھی گھر سے آپ کو بلانے کی جسارت نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ کس قدر تھکا دینے والی مصروفیتوں کی زندگی گزارتے ہیں۔ آپ جب تک باہر ہوتے ہیں تو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا دین سکھاتے ہیں۔ اور گھر میں ہوتے ہیں تو ازواجِ مطہرات اور دوسری خواتین کو دین کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس کے بعد یقینا آپ کو کچھ آرام کی اور کچھ خانگی ضروریات کے لیے بھی وقت درکار ہوگا۔ ایسے صورت میں اگر آپ کو باہر آنے کی زحمت دی جائے تو یہ ایک ایسی تکلیف ہوگی جو آپ کی نبوت کی مصروفیات میں حائل ہوسکتی ہے۔ لیکن آنحضرت ﷺ کسی ادارے کے پر نسپل یا پروفیسر تو نہ تھے کہ آپ سے استفادہ کرنے والے متعین اور لگے بندھے لوگ ہوں جن سے ہر روز آپ کو واسطہ پڑتا ہے۔ آپ تو ایک امت کے سربراہ اور اللہ تعالیٰ کے رسول تھے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب اسلام قبول کرنے والے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول نہیں کرتے تھے۔ اور پھر ان میں وقت کے ساتھ ساتھ تربیت کے لحاظ سے مختلف قسم کے لوگ پائے جاتے تھے۔ ان میں ایسے بھی تھے جو ابھی بالکل تربیت کے ابتدائی درجے میں تھے۔ ان میں ابھی نہ شائستگی آئی تھی اور نہ وہ آداب سے واقف تھے۔ وہ آنحضرت ﷺ سے ملنے آتے تو آداب سے ناواقفیت کی وجہ سے بعض دفعہ ایسی حرکتیں کر گزرتے جو آنحضرت ﷺ کو تکلیف دیتیں، لیکن آپ انھیں برداشت کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی مواقع پر رہنمائی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایسے اَن گھڑ لوگ جو آپ سے ملاقات کے لیے ایسے وقت میں آجاتے ہیں جب آپ گھر میں ہوتے ہیں تو وہ تربیت کے فقدان کے باعث آپ کے ازواجِ مطہرات کے حجروں اور مکانوں کے گرد گھومتے ہوئے آوازیں دے کر آپ کو باہر بلاتے ہیں۔ انھیں اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ آپ اس وقت کسی اور کام میں مصروف ہوں گے یا آرام فرما رہے ہوں گے۔ ان پر تنبیہ کے انداز میں فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو عقل نہیں رکھتے۔ اگر وہ عقل سے تہی دامن نہ ہوتے تو یقینا آپ کے مقام و مرتبہ اور آپ کی مصروفیات کا لحاظ رکھتے۔ اب وہ یہ حرکت اگر کر ہی گزرے ہیں تو اس میں ایک طرح کی سفارش بھی ہے کہ آپ اس کا برا نہ مانئے، بےعقل اور بےسمجھ آدمی کی بات کا کیا برا ماننا۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اگر وہ آپ کے خود باہر نکلنے کا انتظار کرتے اور صبر سے بیٹھے رہتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا۔ انھوں نے ایک ناروا جسارت کی ہے لیکن اللہ تعالیٰ ان کی تربیت کے فقدان کی وجہ سے ان سے درگزر فرمائے گا اور مہر بانی کرے گا۔ یوں تو یہ امت کے لیے ایک عام ہدایت ہے، لیکن امام بغوی نے بروایت قتادہ ( رض) اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ قبیلہ بنو تمیم کے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اس آیت میں ان کا ذکر ہے۔ یہ لوگ دوپہر کے وقت مدینہ پہنچے جبکہ آپ کسی حجرہ میں آرام فرما رہے تھے۔ یہ لوگ اعراب تھے جو آداب معاشرت سے ناواقف تھے۔ انھوں نے حجرات کے باہر ہی سے پکارنا شروع کردیا۔ اُخْرُجْ اِلَیْنَا یَامُحَمَّدْ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں اس طرح پکارنے کی ممانعت اور انتظار کرنے کا حکم دیا گیا۔ مسند احمد اور ترمذی وغیرہ میں بھی یہ روایت مختلف الفاظ سے آئی ہے۔ (مظہری) اہلِ علم کے نزدیک اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا نام لے کر پکارنا اور نعتوں میں آپ کا نام استعمال کرنا اور یامحمد اور یامحمد کہنا یہ گستاخی ہے، اس سے احتیاط کرنی چاہیے۔
Top