Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 100
قُلْ لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِیْثِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۠   ۧ
قُلْ : کہدیجئے لَّا يَسْتَوِي : برابر نہیں الْخَبِيْثُ : ناپاک وَالطَّيِّبُ : اور پاک وَلَوْ : خواہ اَعْجَبَكَ : تمہیں اچھی لگے كَثْرَةُ : کثرت الْخَبِيْثِ : ناپاک فَاتَّقُوا : سو ڈرو اللّٰهَ : اللہ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : تم فلاح پاؤ
کہہ دو کہ ناپاک اور پاک دونوں یکساں نہیں ہوسکتے ‘ اگرچہ ناپاک کی کثرت تمہیں فریفتہ کرنے والی ہو۔ پس اللہ سے ڈرتے رہو ‘ اے اہل عقل ! تاکہ تم فلاح پائو
قُلْ لاَّ یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ ج فَاتَّقُوا اللہ َ یٰٓاُولِی الاْ َلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ (المائدہ : 100) ” کہہ دو کہ ناپاک اور پاک دونوں یکساں نہیں ہوسکتے ‘ اگرچہ ناپاک کی کثرت تمہیں فریفتہ کرنے والی ہو۔ پس اللہ سے ڈرتے رہو ‘ اے اہل عقل ! تاکہ تم فلاح پائو “۔ جہاں تک خبیث اور طیب یعنی پاک اور ناپاک اور اچھے اور برے کا تعلق ہے ‘ یہ ایک ایسا سوال ہے جو انسانوں میں ہمیشہ قابل توجہ رہا ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ہو ہر آدمی اس سوال سے تعرض کرتا ہے۔ کھانے پینے کی بیشمار چیزیں ہیں ‘ جب ہم انھیں اپنے لیے حاصل کرتے ہیں تو سب سے پہلا سوال جس سے ہماری عقل اور ہماری قوت ذائقہ کو واسطہ پڑتا ہے ‘ وہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں کون سی اشیاء ہیں جو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ہیں اور کون سی چیزیں ہیں جو اس کے خلاف ہیں۔ مجھے چونکہ اپنی صحت عزیز ہے ‘ اس لیے میں اشیاء خوردنی میں سے ایسی کسی چیز کا انتخاب نہیں کرسکتا جو ذائقے اور شکل و صورت کے اعتبار سے چاہے کیسی ہی دلفریب کیوں نہ ہو ‘ اگر وہ میری صحت کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے تو میں اسے کبھی بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ اسی طرح اگر ہم کوئی کاروبار کرتے ہیں تو پھر ہمیں اسی سوال سے واسطہ پڑتا ہے کہ کون سا کاروبار ہمارے لیے منفعت بخش ہوسکتا ہے ؟ اس لیے ہم اس کاروبار کو اپنے لیے انتخاب کرتے ہیں ‘ جس میں ہمیں منفعت کی زیادہ امید ہوتی ہے اور ایسے کسی کاروبار کو ہاتھ نہیں لگاتے جس میں نقصان کا اندیشہ ہو۔ اگر ہم اپنے بچے کو حصول تعلیم کے لیے کسی تعلیمی ادارے میں داخل کرتے ہیں تو پھر یہی سوال ہمارے دامن گیر ہوتا ہے کہ بچے کو ایسے تعلیمی ادارے میں بھیجا جائے ‘ جہاں اس کی ذہنی اور فکری تربیت ہو سکے اور اخلاق بھی پروان چڑھ سکیں اور اگر کوئی ادارہ لباس کی تراش خراش اور کھیلوں کی ترقی پر تو بہت زور دیتا ہو ‘ لیکن وہاں نہ تعلیم ہے نہ اخلاق اگر ہم اپنی اولاد کے دشمن نہیں ہیں تو ہم کبھی اپنی اولاد کو وہاں بھیجنا پسند نہیں کرتے۔ مختصر یہ کہ حیوان اور انسان میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ حیوان اپنی زندگی کے بیشتر معاملات میں خبیث اور طیب ‘ اچھے اور برے کی تمیز میں کبھی نہیں پڑتا ‘ وہ صرف شکم پروری اور لذت اندوزی کے سوا اور کسی بات کو نہیں جانتا۔ اسی طرح ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ خبیث اور طیب کے حوالے سے جو فیصلہ بھی ہم کریں ‘ اس میں بہرصورت کثرت ہماری ترجیح نہیں ہوتی بلکہ اس میں بھی ہم اپنی صحت اپنی منفعت اور مستقبل کی بھلائی کو حتی الامکان نظر انداز نہیں ہونے دیتے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ معاملہ چاہے خبیث اور طیب کا ہو اور چاہے خبیث کی کثرت کا ‘ ہم باقی تمام معیارات کو قابل لحاظ سمجھتے ہیں۔ لیکن حلت و حرمت کے معاملے میں اللہ کی اتھارٹی ‘ سند اور کبریائی کو تسلیم کرنے کے باوجود ہم صرف اسی معیار پر اکتفا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم جب دیکھتے ہیں کہ حلال کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم ایک پر تکلف یا پر تعیش زندگی نہیں گزار سکتے تو ہم صرف گزارے کو کافی نہیں سمجھتے بلکہ حلال کمائی سے زیادہ حرام ذرائع ہمیں عزیز ہوجاتے ہیں اور جب ہمیں کبھی اس کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو ہمارا عام طور پر عذر یہ ہوتا ہے کہ کیا کیا جائے ‘ حلال میں رہ کر آسودہ زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خبائث میں مبتلا ہو کر آسودہ زندگی مل سکتی ہو تو ہمیں وہ عزیز ہے۔ لیکن حلال کی حدود میں رہ کر ایک سادہ زندگی اختیار کرنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ اس آیت کریمہ میں سب سے پہلے اسی فکری کج روی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور ہمارے ہاتھوں میں ایک بالکل نیا ترازو دیا گیا ہے ‘ جس میں سب سے پہلے تو یہ بات بتائی گئی ہے کہ جس طرح خبیث اور طیب کا اطلاق بری اور اچھی اشیاء پر ہوتا ہے۔ اسی طرح برے اور اچھے اشخاص پر بھی ہوتا ہے اور جس طرح ان اشیاء پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جو مادی اعتبار سے بری اور اچھی ہیں ‘ اسی طرح ان اشیاء پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے جو عقلی اور اخلاقی اعتبار سے اچھی یا بری ہیں۔ یہاں پیش نظر اشیاء اور اشخاص دونوں ہیں ‘ لیکن جہاں تک اچھائی اور برائی کا تعلق ہے ‘ وہ صرف اخلاقی پہلو سے زیر بحث ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کے نزدیک خیر و شر ‘ نیکی اور بدی ‘ فسق اور تقویٰ ‘ نیکوکار اور بدکار دونوں یکساں نہیں ہیں۔ اللہ خیر مطلق اور سراپا حق و عدل ہے ‘ اس وجہ سے وہ صرف خیر کو پسند کرتا ہے ‘ شر کو پسند نہیں کرتا۔ وہ صرف طیب کو قبول فرمائے گا ‘ خبیث کے لیے اس کے ہاں جہنم کی آگ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسکی تائید اسکے شان نزول سے بھی ہوتی ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ جب اسلام میں شراب کو حرام اور اس کی خریدو فروخت کو بھی ممنوع قرار دے دیا گیا تو ایک شخص نے جس کا کاروبار شراب فروشی کا تھا اور اس ذریعہ سے اس نے کچھ مال جمع کر رکھا تھا آنحضرت ﷺ سے سوال کیا۔ یا رسول اللہ ﷺ ! یہ مال جو شراب کی تجارت سے میرے پاس جمع ہوا ہے ‘ اگر میں اس کو کسی نیک کام میں خرچ کروں تو کیا وہ میرے لیے مفید ہوگا ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اگر تم اس کو حج یا جہاد وغیرہ میں خرچ کرو گے تو وہ اللہ کے نزدیک مچھر کے ایک پر کے برابر بھی قیمت نہ رکھے گا ‘ اللہ تعالیٰ پاک اور حلال چیزوں کے سوا کسی چیز کو قبول نہیں فرماتے۔ حرام مال کی یہ بےتوقیری تو آخرت کے اعتبار سے ہوئی اور اگر گہری نظر سے معائنہ کیا جائے اور سب کاموں کے اخروی اور اجتماعی انجام کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا کے کاروبار میں بھی حلال و حرام برابر نہیں ہوتے۔ حلال سے جتنے فوائد اور اچھے نتائج اور حقیقی آرام و راحت نصیب ہوتی ہے ‘ وہ کبھی حرام سے نہیں ہوتی۔ دنیا کا ہر معاشرہ جرائم کی روز افزوں ترقی سے پریشان ہے اور وہ ساری انسدادی تدبیروں کے باوجود نہ جرائم پر قابو پانے میں کامیاب ہوسکا ہے اور نہ مجرمانہ ذہنیت کو بدلنے میں۔ اگر اس صورت حال پر غور کرنے کی زحمت کرلی جائے تو بعض دوسرے اسباب سمیت ایک بڑا سبب یہ سامنے آئے گا کہ خبیث اور طیب کی تقسیم ختم کر کے اور ان دونوں کو یکساں حیثیت دے کر ہم نے جس طرح حلال کی بجائے حرام کا راستہ کھولا ہے اور جائز کی بجائے ناجائز کو فروغ دیا ہے اور مادی زندگی کو جس طرح اخلاقی زندگی پر برتری دی ہے ‘ یہ جرائم اور مجرمانہ ذہنیت دونوں اس کے منطقی نتائج ہیں۔ محنت و کوشش سے حلال کمائی کی بجائے ‘ اگر حرام ذرائع سے چند دنوں میں دولت و امارت حاصل کی جاسکتی ہے اور معاشرہ ایسے شخص کو صرف دولت مندہونے کی وجہ سے عزت کے مناصب پر بٹھانے میں فخر محسوس کرتا ہے تو پھر ظاہر ہے کہ ان رستوں پر چلنے والوں کو آخر جرائم کے ارتکاب سے کس طرح روکا جاسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں رشوت بھی عام ہوگی ‘ سمگلنگ بھی بڑھے گی ‘ چوریاں اور ڈاکے بھی ہوں گے ‘ دھوکہ دہی کی وارداتیں بھی ہوں گی اور جب ان کی برائی کا تصور بھی دلوں سے نکل جائے گا تو پھر ان کا راستہ روکنے کا کبھی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس کے روکنے کی ایک ہی صورت ہے کہ قرآن کریم کا دیا ہوا یہ تصور یعنی خبیث اور طیب کے فرق کو دل و دماغ میں راسخ کیا جائے۔ خبیث کتنا ہی زیادہ ہو طیب کے مقابلے میں کچھ نہیں عجیب بات یہ ہے کہ خبیث اور طیب کا فرق جب سے مٹا ہے ‘ ایک اور غلط ذہنیت بھی پیدا ہوگئی ہے۔ وہ یہ کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اور عام کاروباری زندگی سے لے کر حکومت کے ٹیکس لگانے تک ہر جگہ یہ سوچ کارفرما ہے کہ حلال اور طیب کی پابندی سے نہ اجتماعی رفاہی ادارے وجود میں آسکتے ہیں اور نہ ہی مالی اعتبار سے ترقی ہوسکتی ہے ‘ اس لیے یہ اگر برائی بھی ہے تو ایسی ناگزیر ہے ‘ جس کے ارتکاب کے بغیر چارہ نہیں۔ لیکن مسلمانوں نے اپنے زمانہ عروج میں بھی اس سے احتراز کر کے یہ ثابت کیا کہ یہ ایک غلط ذہنیت ہے ‘ جس نے ہمیشہ انسانی معاشروں کو تباہ کیا ہے۔ تفسیر ” درّمنثور “ میں ہے کہ زمانہ تابعین کے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے جب اپنے سے سابق امراء کے ناجائز ٹیکس ختم کیے اور جن لوگوں سے ناجائز طور پر اموال لیے گئے تھے ‘ وہ واپس کیے تو نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ سرکاری بیت المال خالی ہوگیا اور آمدنی بہت محدود ہوگئی تو ایک صوبہ کے گورنر نے ان کی خدمت میں خط لکھا کہ بیت المال کی آمدنی بہت گھٹ گئی ہے ‘ فکر ہے کہ حکومت کے کاروبار کس طرح چلیں گے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے جواب میں یہی آیت تحریر فرمائی اور لکھا کہ تم سے پہلے لوگوں نے ظلم و جور کے ذریعہ جتنا خزانہ بھرا تھا ‘ تم اس کے بالمقابل عدل و انصاف قائم کر کے اپنے خزانہ کو کم کردو اور کوئی پرواہ نہ کرو ‘ ہماری حکومت کے کام اسی کم مقدار سے پورے ہوں گے۔ ان کی دو اڑھائی سال کی حکومت کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ عراق میں حجاج ابن یوسف کے تمام ظالمانہ ٹیکس جب ختم کردیئے گئے تو بظاہر کمی کا یہی خدشہ پیدا ہوا ‘ لیکن دو ہی سالوں میں صوبہ کی آمدنی حجاج کے زمانے کے تمام ظالمانہ ٹیکسوں کے خاتمے کے باوجود ‘ حجاج کے زمانے سے کئی گنا بڑھ گئی۔ چناچہ جب اس کی اطلاع حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کو دی گئی تو آپ نے فرمایا کہ حجاج کو نہ دنیا کی سمجھ تھی نہ دین کی۔ اس نے یہ سمجھا کہ ظلم سے شاید ملک ترقی کرتے ہیں حالانکہ اللہ کی رحمتیں اور برکتیں عدل سے نازل ہوتی ہیں اور اس کے نتیجے میں زمین کی قوت روئیدگی میں اضافہ ہوتا ہے ‘ فصلیں پہلے سے زیادہ لہلہانے لگتی ہیں ‘ غلے کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے ‘ پھل دار درختوں کے پھلوں میں برکت آجاتی ہے ‘ دودھ دینے والے جانوروں میں دودھ بڑھا دیا جاتا ہے ‘ اس طرح ایک عام برکت کی فضا پیدا ہوجاتی ہے ‘ جس سے اللہ کے نیک بندے شادکام ہوتے ہیں۔ لیکن انسان اپنی اجتماعی زندگی میں ہمیشہ فریب نظر کا شکار رہتا ہے۔ وہ جب یہ دیکھتا ہے کہ سو روپے بمقابلہ پانچ روپے کے لازماً زیادہ قیمتی ہیں کیونکہ وہ سو ہیں اور یہ پانچ۔ تو وہ اپنے انہی مادی پیمانوں کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے ‘ جس کا ابھی ذکر کیا گیا۔ لیکن یہ آیت کریمہ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جب تک تم اپنے ان مادی پیمانوں کو توڑ کر اخلاقی پیمانے اختیار نہیں کرو گے ‘ تمہاری زندگی میں حقیقی آسودگی کبھی نہیں آسکتی اور تم اس تباہ کن مستقبل سے کبھی نہیں بچ سکو گے ‘ جو اس صورت حال کا لازمی نتیجہ ہے۔ اس لیے تمہیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام کے یہاں خبیث اور طیب ہرگز برابر نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ سو روپے ‘ پانچ روپے سے زیادہ ہیں۔ لیکن سو روپے اگر اللہ کی نافرمانی کر کے حاصل کیے گئے تو وہ ناپاک ہیں اور پانچ روپے اگر اللہ کی فرمانبرداری کرتے ہوئے کمائے گئے تو وہ پاک ہیں اور ناپاک خواہ مقدار میں کتنا ہی زیادہ ہو ‘ بہرحال وہ پاک کے برابر کسی طرح نہیں ہوسکتا۔ غلاظت کے ایک ڈھیر سے عطر کا ایک قطرہ زیادہ قدر رکھتا ہے اور پیشاب کی ایک لبریز ناند کے مقابلے میں پاک پانی کا ایک چلو زیادہ وزنی ہے۔ لہٰذا ایک سچے دانشمند انسان کو لازماً حلال ہی پر قناعت کرنی چاہیے ‘ خواہ وہ ظاہر میں کتنا ہی حقیر و قلیل ہو اور حرام کی طرف کسی حال میں بھی ہاتھ نہ بڑھانا چاہے خواہ وہ بظاہر کتنا ہی کثیر و شاندار ہو۔
Top