Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 100
قُلْ لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِیْثِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۠ ۧ
قُلْ
: کہدیجئے
لَّا يَسْتَوِي
: برابر نہیں
الْخَبِيْثُ
: ناپاک
وَالطَّيِّبُ
: اور پاک
وَلَوْ
: خواہ
اَعْجَبَكَ
: تمہیں اچھی لگے
كَثْرَةُ
: کثرت
الْخَبِيْثِ
: ناپاک
فَاتَّقُوا
: سو ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ
: اے عقل والو
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تُفْلِحُوْنَ
: تم فلاح پاؤ
کہہ دو کہ ناپاک اور پاک دونوں یکساں نہیں ہوسکتے ‘ اگرچہ ناپاک کی کثرت تمہیں فریفتہ کرنے والی ہو۔ پس اللہ سے ڈرتے رہو ‘ اے اہل عقل ! تاکہ تم فلاح پائو
قُلْ لاَّ یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ ج فَاتَّقُوا اللہ َ یٰٓاُولِی الاْ َلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ (المائدہ : 100) ” کہہ دو کہ ناپاک اور پاک دونوں یکساں نہیں ہوسکتے ‘ اگرچہ ناپاک کی کثرت تمہیں فریفتہ کرنے والی ہو۔ پس اللہ سے ڈرتے رہو ‘ اے اہل عقل ! تاکہ تم فلاح پائو “۔ جہاں تک خبیث اور طیب یعنی پاک اور ناپاک اور اچھے اور برے کا تعلق ہے ‘ یہ ایک ایسا سوال ہے جو انسانوں میں ہمیشہ قابل توجہ رہا ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ہو ہر آدمی اس سوال سے تعرض کرتا ہے۔ کھانے پینے کی بیشمار چیزیں ہیں ‘ جب ہم انھیں اپنے لیے حاصل کرتے ہیں تو سب سے پہلا سوال جس سے ہماری عقل اور ہماری قوت ذائقہ کو واسطہ پڑتا ہے ‘ وہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں کون سی اشیاء ہیں جو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ہیں اور کون سی چیزیں ہیں جو اس کے خلاف ہیں۔ مجھے چونکہ اپنی صحت عزیز ہے ‘ اس لیے میں اشیاء خوردنی میں سے ایسی کسی چیز کا انتخاب نہیں کرسکتا جو ذائقے اور شکل و صورت کے اعتبار سے چاہے کیسی ہی دلفریب کیوں نہ ہو ‘ اگر وہ میری صحت کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے تو میں اسے کبھی بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ اسی طرح اگر ہم کوئی کاروبار کرتے ہیں تو پھر ہمیں اسی سوال سے واسطہ پڑتا ہے کہ کون سا کاروبار ہمارے لیے منفعت بخش ہوسکتا ہے ؟ اس لیے ہم اس کاروبار کو اپنے لیے انتخاب کرتے ہیں ‘ جس میں ہمیں منفعت کی زیادہ امید ہوتی ہے اور ایسے کسی کاروبار کو ہاتھ نہیں لگاتے جس میں نقصان کا اندیشہ ہو۔ اگر ہم اپنے بچے کو حصول تعلیم کے لیے کسی تعلیمی ادارے میں داخل کرتے ہیں تو پھر یہی سوال ہمارے دامن گیر ہوتا ہے کہ بچے کو ایسے تعلیمی ادارے میں بھیجا جائے ‘ جہاں اس کی ذہنی اور فکری تربیت ہو سکے اور اخلاق بھی پروان چڑھ سکیں اور اگر کوئی ادارہ لباس کی تراش خراش اور کھیلوں کی ترقی پر تو بہت زور دیتا ہو ‘ لیکن وہاں نہ تعلیم ہے نہ اخلاق اگر ہم اپنی اولاد کے دشمن نہیں ہیں تو ہم کبھی اپنی اولاد کو وہاں بھیجنا پسند نہیں کرتے۔ مختصر یہ کہ حیوان اور انسان میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ حیوان اپنی زندگی کے بیشتر معاملات میں خبیث اور طیب ‘ اچھے اور برے کی تمیز میں کبھی نہیں پڑتا ‘ وہ صرف شکم پروری اور لذت اندوزی کے سوا اور کسی بات کو نہیں جانتا۔ اسی طرح ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ خبیث اور طیب کے حوالے سے جو فیصلہ بھی ہم کریں ‘ اس میں بہرصورت کثرت ہماری ترجیح نہیں ہوتی بلکہ اس میں بھی ہم اپنی صحت اپنی منفعت اور مستقبل کی بھلائی کو حتی الامکان نظر انداز نہیں ہونے دیتے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ معاملہ چاہے خبیث اور طیب کا ہو اور چاہے خبیث کی کثرت کا ‘ ہم باقی تمام معیارات کو قابل لحاظ سمجھتے ہیں۔ لیکن حلت و حرمت کے معاملے میں اللہ کی اتھارٹی ‘ سند اور کبریائی کو تسلیم کرنے کے باوجود ہم صرف اسی معیار پر اکتفا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم جب دیکھتے ہیں کہ حلال کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم ایک پر تکلف یا پر تعیش زندگی نہیں گزار سکتے تو ہم صرف گزارے کو کافی نہیں سمجھتے بلکہ حلال کمائی سے زیادہ حرام ذرائع ہمیں عزیز ہوجاتے ہیں اور جب ہمیں کبھی اس کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو ہمارا عام طور پر عذر یہ ہوتا ہے کہ کیا کیا جائے ‘ حلال میں رہ کر آسودہ زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خبائث میں مبتلا ہو کر آسودہ زندگی مل سکتی ہو تو ہمیں وہ عزیز ہے۔ لیکن حلال کی حدود میں رہ کر ایک سادہ زندگی اختیار کرنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ اس آیت کریمہ میں سب سے پہلے اسی فکری کج روی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور ہمارے ہاتھوں میں ایک بالکل نیا ترازو دیا گیا ہے ‘ جس میں سب سے پہلے تو یہ بات بتائی گئی ہے کہ جس طرح خبیث اور طیب کا اطلاق بری اور اچھی اشیاء پر ہوتا ہے۔ اسی طرح برے اور اچھے اشخاص پر بھی ہوتا ہے اور جس طرح ان اشیاء پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جو مادی اعتبار سے بری اور اچھی ہیں ‘ اسی طرح ان اشیاء پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے جو عقلی اور اخلاقی اعتبار سے اچھی یا بری ہیں۔ یہاں پیش نظر اشیاء اور اشخاص دونوں ہیں ‘ لیکن جہاں تک اچھائی اور برائی کا تعلق ہے ‘ وہ صرف اخلاقی پہلو سے زیر بحث ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کے نزدیک خیر و شر ‘ نیکی اور بدی ‘ فسق اور تقویٰ ‘ نیکوکار اور بدکار دونوں یکساں نہیں ہیں۔ اللہ خیر مطلق اور سراپا حق و عدل ہے ‘ اس وجہ سے وہ صرف خیر کو پسند کرتا ہے ‘ شر کو پسند نہیں کرتا۔ وہ صرف طیب کو قبول فرمائے گا ‘ خبیث کے لیے اس کے ہاں جہنم کی آگ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسکی تائید اسکے شان نزول سے بھی ہوتی ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ جب اسلام میں شراب کو حرام اور اس کی خریدو فروخت کو بھی ممنوع قرار دے دیا گیا تو ایک شخص نے جس کا کاروبار شراب فروشی کا تھا اور اس ذریعہ سے اس نے کچھ مال جمع کر رکھا تھا آنحضرت ﷺ سے سوال کیا۔ یا رسول اللہ ﷺ ! یہ مال جو شراب کی تجارت سے میرے پاس جمع ہوا ہے ‘ اگر میں اس کو کسی نیک کام میں خرچ کروں تو کیا وہ میرے لیے مفید ہوگا ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اگر تم اس کو حج یا جہاد وغیرہ میں خرچ کرو گے تو وہ اللہ کے نزدیک مچھر کے ایک پر کے برابر بھی قیمت نہ رکھے گا ‘ اللہ تعالیٰ پاک اور حلال چیزوں کے سوا کسی چیز کو قبول نہیں فرماتے۔ حرام مال کی یہ بےتوقیری تو آخرت کے اعتبار سے ہوئی اور اگر گہری نظر سے معائنہ کیا جائے اور سب کاموں کے اخروی اور اجتماعی انجام کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا کے کاروبار میں بھی حلال و حرام برابر نہیں ہوتے۔ حلال سے جتنے فوائد اور اچھے نتائج اور حقیقی آرام و راحت نصیب ہوتی ہے ‘ وہ کبھی حرام سے نہیں ہوتی۔ دنیا کا ہر معاشرہ جرائم کی روز افزوں ترقی سے پریشان ہے اور وہ ساری انسدادی تدبیروں کے باوجود نہ جرائم پر قابو پانے میں کامیاب ہوسکا ہے اور نہ مجرمانہ ذہنیت کو بدلنے میں۔ اگر اس صورت حال پر غور کرنے کی زحمت کرلی جائے تو بعض دوسرے اسباب سمیت ایک بڑا سبب یہ سامنے آئے گا کہ خبیث اور طیب کی تقسیم ختم کر کے اور ان دونوں کو یکساں حیثیت دے کر ہم نے جس طرح حلال کی بجائے حرام کا راستہ کھولا ہے اور جائز کی بجائے ناجائز کو فروغ دیا ہے اور مادی زندگی کو جس طرح اخلاقی زندگی پر برتری دی ہے ‘ یہ جرائم اور مجرمانہ ذہنیت دونوں اس کے منطقی نتائج ہیں۔ محنت و کوشش سے حلال کمائی کی بجائے ‘ اگر حرام ذرائع سے چند دنوں میں دولت و امارت حاصل کی جاسکتی ہے اور معاشرہ ایسے شخص کو صرف دولت مندہونے کی وجہ سے عزت کے مناصب پر بٹھانے میں فخر محسوس کرتا ہے تو پھر ظاہر ہے کہ ان رستوں پر چلنے والوں کو آخر جرائم کے ارتکاب سے کس طرح روکا جاسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں رشوت بھی عام ہوگی ‘ سمگلنگ بھی بڑھے گی ‘ چوریاں اور ڈاکے بھی ہوں گے ‘ دھوکہ دہی کی وارداتیں بھی ہوں گی اور جب ان کی برائی کا تصور بھی دلوں سے نکل جائے گا تو پھر ان کا راستہ روکنے کا کبھی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس کے روکنے کی ایک ہی صورت ہے کہ قرآن کریم کا دیا ہوا یہ تصور یعنی خبیث اور طیب کے فرق کو دل و دماغ میں راسخ کیا جائے۔ خبیث کتنا ہی زیادہ ہو طیب کے مقابلے میں کچھ نہیں عجیب بات یہ ہے کہ خبیث اور طیب کا فرق جب سے مٹا ہے ‘ ایک اور غلط ذہنیت بھی پیدا ہوگئی ہے۔ وہ یہ کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اور عام کاروباری زندگی سے لے کر حکومت کے ٹیکس لگانے تک ہر جگہ یہ سوچ کارفرما ہے کہ حلال اور طیب کی پابندی سے نہ اجتماعی رفاہی ادارے وجود میں آسکتے ہیں اور نہ ہی مالی اعتبار سے ترقی ہوسکتی ہے ‘ اس لیے یہ اگر برائی بھی ہے تو ایسی ناگزیر ہے ‘ جس کے ارتکاب کے بغیر چارہ نہیں۔ لیکن مسلمانوں نے اپنے زمانہ عروج میں بھی اس سے احتراز کر کے یہ ثابت کیا کہ یہ ایک غلط ذہنیت ہے ‘ جس نے ہمیشہ انسانی معاشروں کو تباہ کیا ہے۔ تفسیر ” درّمنثور “ میں ہے کہ زمانہ تابعین کے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے جب اپنے سے سابق امراء کے ناجائز ٹیکس ختم کیے اور جن لوگوں سے ناجائز طور پر اموال لیے گئے تھے ‘ وہ واپس کیے تو نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ سرکاری بیت المال خالی ہوگیا اور آمدنی بہت محدود ہوگئی تو ایک صوبہ کے گورنر نے ان کی خدمت میں خط لکھا کہ بیت المال کی آمدنی بہت گھٹ گئی ہے ‘ فکر ہے کہ حکومت کے کاروبار کس طرح چلیں گے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے جواب میں یہی آیت تحریر فرمائی اور لکھا کہ تم سے پہلے لوگوں نے ظلم و جور کے ذریعہ جتنا خزانہ بھرا تھا ‘ تم اس کے بالمقابل عدل و انصاف قائم کر کے اپنے خزانہ کو کم کردو اور کوئی پرواہ نہ کرو ‘ ہماری حکومت کے کام اسی کم مقدار سے پورے ہوں گے۔ ان کی دو اڑھائی سال کی حکومت کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ عراق میں حجاج ابن یوسف کے تمام ظالمانہ ٹیکس جب ختم کردیئے گئے تو بظاہر کمی کا یہی خدشہ پیدا ہوا ‘ لیکن دو ہی سالوں میں صوبہ کی آمدنی حجاج کے زمانے کے تمام ظالمانہ ٹیکسوں کے خاتمے کے باوجود ‘ حجاج کے زمانے سے کئی گنا بڑھ گئی۔ چناچہ جب اس کی اطلاع حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کو دی گئی تو آپ نے فرمایا کہ حجاج کو نہ دنیا کی سمجھ تھی نہ دین کی۔ اس نے یہ سمجھا کہ ظلم سے شاید ملک ترقی کرتے ہیں حالانکہ اللہ کی رحمتیں اور برکتیں عدل سے نازل ہوتی ہیں اور اس کے نتیجے میں زمین کی قوت روئیدگی میں اضافہ ہوتا ہے ‘ فصلیں پہلے سے زیادہ لہلہانے لگتی ہیں ‘ غلے کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے ‘ پھل دار درختوں کے پھلوں میں برکت آجاتی ہے ‘ دودھ دینے والے جانوروں میں دودھ بڑھا دیا جاتا ہے ‘ اس طرح ایک عام برکت کی فضا پیدا ہوجاتی ہے ‘ جس سے اللہ کے نیک بندے شادکام ہوتے ہیں۔ لیکن انسان اپنی اجتماعی زندگی میں ہمیشہ فریب نظر کا شکار رہتا ہے۔ وہ جب یہ دیکھتا ہے کہ سو روپے بمقابلہ پانچ روپے کے لازماً زیادہ قیمتی ہیں کیونکہ وہ سو ہیں اور یہ پانچ۔ تو وہ اپنے انہی مادی پیمانوں کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے ‘ جس کا ابھی ذکر کیا گیا۔ لیکن یہ آیت کریمہ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جب تک تم اپنے ان مادی پیمانوں کو توڑ کر اخلاقی پیمانے اختیار نہیں کرو گے ‘ تمہاری زندگی میں حقیقی آسودگی کبھی نہیں آسکتی اور تم اس تباہ کن مستقبل سے کبھی نہیں بچ سکو گے ‘ جو اس صورت حال کا لازمی نتیجہ ہے۔ اس لیے تمہیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام کے یہاں خبیث اور طیب ہرگز برابر نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ سو روپے ‘ پانچ روپے سے زیادہ ہیں۔ لیکن سو روپے اگر اللہ کی نافرمانی کر کے حاصل کیے گئے تو وہ ناپاک ہیں اور پانچ روپے اگر اللہ کی فرمانبرداری کرتے ہوئے کمائے گئے تو وہ پاک ہیں اور ناپاک خواہ مقدار میں کتنا ہی زیادہ ہو ‘ بہرحال وہ پاک کے برابر کسی طرح نہیں ہوسکتا۔ غلاظت کے ایک ڈھیر سے عطر کا ایک قطرہ زیادہ قدر رکھتا ہے اور پیشاب کی ایک لبریز ناند کے مقابلے میں پاک پانی کا ایک چلو زیادہ وزنی ہے۔ لہٰذا ایک سچے دانشمند انسان کو لازماً حلال ہی پر قناعت کرنی چاہیے ‘ خواہ وہ ظاہر میں کتنا ہی حقیر و قلیل ہو اور حرام کی طرف کسی حال میں بھی ہاتھ نہ بڑھانا چاہے خواہ وہ بظاہر کتنا ہی کثیر و شاندار ہو۔
Top