Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 101
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ١ۚ وَ اِنْ تَسْئَلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: ایمان والے
لَا تَسْئَلُوْا
: نہ پوچھو
عَنْ
: سے۔ متعلق
اَشْيَآءَ
: چیزیں
اِنْ تُبْدَ
: جو ظاہر کی جائیں
لَكُمْ
: تمہارے لیے
تَسُؤْكُمْ
: تمہیں بری لگیں
وَاِنْ
: اور اگر
تَسْئَلُوْا
: تم پوچھوگے
عَنْهَا
: ان کے متعلق
حِيْنَ
: جب
يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ
: نازل کیا جارہا ہے قرآن
تُبْدَ لَكُمْ
: ظاہر کردی جائینگی تمہارے لیے
عَفَا اللّٰهُ
: اللہ نے درگزر کی
عَنْهَا
: اس سے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
حَلِيْمٌ
: بردبار
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! ایسی باتیں نہ پوچھا کرو ‘ جو تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔ لیکن اگر تم انھیں ایسے وقت پوچھو گے ‘ جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہے تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی۔ اب تک جو کچھ تم نے کیا ‘ اسے اللہ نے معاف کردیا ہے۔ وہ درگزر کرنے والا اور بردبار ہے
تمہید یہ بات اس سے پہلے بھی کہی جا چکی ہے کہ سورة المائدہ کے آخری چند رکوع توضیحی آیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سورة المائدہ میں جو اساسی امور بیان کیے گئے ہیں یا جو احکام ذکر کیے گئے ہیں ‘ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں ضرورت محسوس کی گئی کہ ان مجمل احکام کی وضاحت کی جائے اور اساسی امور کو کسی حد تک کھول کر بیان کردیا جائے اور بعض دفعہ اس صورتحال سے جنم لینے والے سوالات ‘ زبانوں پر بھی آئے یا ذہنوں میں مچلتے رہے تو پروردگار نے ان آخری رکوعوں میں ایسے تمام سوالات کے جوابات دیئے ہیں اور اساسی امور کے لیے جہاں وضاحت کی ضرورت تھی ‘ وضاحت بھی کی گئی ہے اور جن احکام کی تکمیل کے لیے مزید آیات کا اترنا ضروری تھا ‘ وہ تکمیلی آیات بھی نازل کی گئیں۔ چناچہ جب یہ کام مکمل ہوگیا تو اب ضرورت پیدا ہوئی کہ سوالات کے حوالے سے اس خاص دور کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ‘ جس دور میں یہ آیات نازل ہو رہی تھیں ‘ چند اصولی ہدایات بھی جاری کی جائیں۔ اس رکوع کے آغاز میں یہی ہدایات دی جا رہی ہیں۔ پیشتر اس کے کہ ہم ان ہدایات کی وضاحت کریں ‘ ان آیات کا پس منظر اور تہہ منظر ذکر کردینا ضروری سمجھتے ہیں۔ سورة المائدہ کا نزول چھٹی ہجری کے آخر میں یا ساتویں ہجری کے آغاز میں ہوا ممکن ہے آئندہ چند سالوں میں اس کی تکمیل ہوئی ہو چناچہ اس سورة کے زمانہ نزول پر جب ہم غور کرتے ہیں تو بعض امور ہمارے سامنے آتے ہیں۔ مختصراً جن کی تفصیل یہ ہے : یہ وہ زمانہ ہے ‘ جب حدیبیہ کا معاہدہ ہوچکا تھا۔ مسلمان جو اب تک ایک بند دائرے میں گھرے ہوئے تھے ‘ ان کے لیے قدرت نے اس معاہدے کے نتیجے میں تبلیغ و دعوت کا ایک وسیع میدان کھول دیا تھا۔ آنحضرت ﷺ کی نبوت کے تیرہ سال مکہ میں گزرے اور چھ سال مدینے میں۔ ان انیس سالوں میں جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ‘ ان کی تعداد چار پانچ ہزار سے زیادہ نہیں۔ لیکن حدیبیہ کے معاہدے کے دو سال بعد جب فتح مکہ کا عظیم واقعہ پیش آیا تو مسلمانوں کی تعداد بیس پچیس ہزار سے بھی زیادہ ہوچکی تھی اور پھر اس کے بعد کے دو سالوں میں اس تیزی سے اسلام پھیلا کہ مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب پہنچ گئی۔ اس صورتحال کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حدیبیہ تک جن لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا ‘ ان کو تربیت حاصل کرنے کا زیادہ موقع ملا اور وہ تربیت کے نتیجے میں پختہ فکر ‘ پختہ عزم اور پختہ کردار کے مالک ہوگئے۔ لیکن بعد کے سالوں میں جس تیزی سے اسلام کی نشر و اشاعت میں وسعت آتی گئی ‘ اسی تیزی سے نومسلموں کی تعداد بھی بڑھی۔ ظاہر ہے کہ یہ لوگ اسلام کے دامن میں ضرور آگئے ‘ لیکن ابھی ضرورت تھی کہ چند سال یہ زیر تربیت رہیں تاکہ ان کے اندر مہاجرین اور انصار جیسا عظیم کردار پیدا ہو سکے۔ لیکن تربیت کے اس عرصے میں ان نئے نئے اسلام کی آغوش میں آنے والوں میں چند باتوں کا ہونا نہایت فطری تھا۔ ایک تو یہ بات کہ یہ لوگ کفر کے ماحول سے نکل کر آئے تھے ‘ شرک ان کی گھٹی میں پڑا تھا ‘ اخلاقی پابندیاں ان کے لیے نئی تھیں۔ اس لیے اس دوسرے ماحول میں آتے ہی فکری یکسوئی اور ذہنی پختگی کا پیدا ہوجانا ‘ سراسر خلاف توقع تھا۔ چناچہ یہ بات عین توقع کے مطابق تھی کہ یہ جیسے جیسے اسلام کو جاننے کی کوشش کرتے ‘ ویسے ویسے ان کے ذہنوں میں سوالات سر اٹھاتے۔ صحابہ ( رض) چونکہ ایک عرصہ دراز تک تربیت حاصل کرچکے تھے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان میں ایسی ذہنی جلا پیدا فرمائی تھی کہ وہ مزاج شناس رسول بھی تھے اور مزاج شناس قرآن بھی۔ اس لیے حضرت عبد اللہ ابن عباس ( رض) کے بقول وہ اس قدر صاف ستھرے ذہن کے مالک تھے اور اللہ نے اپنی الوہیت ‘ حاکمیت اور حقانیت پر انھیں اس قدر شرح صدر عطا فرمایا تھا کہ بہت کم سوالات ان کی زبانوں پر آتے تھے۔ چناچہ حضرت عبد اللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام ( رض) نے آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ میں آپ سے صرف تیرہ سوالات پوچھے ‘ جن کا قرآن کریم میں ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اسلام کی آغوش میں نئے نئے آنے والوں کی یہ فطری مجبوری تھی کہ ایک نیا ماحول نیا مذہب ‘ نیا طرز زندگی ‘ نئے نئے اہداف اور نئے نئے آداب کی پابندی ‘ عدم یکسوئی کے ساتھ ساتھ ان کے دماغوں میں اشتباہات پیدا کرتی۔ چناچہ یہ نئے نئے آنے والے لوگ بار بار آنحضرت ﷺ سے مختلف قسم کے سوالات پوچھتے۔ ان کے سوالات کے پوچھنے کے نتیجے میں جو صورت حال پیدا ہو رہی تھی ‘ اس میں صاف نظر آتا تھا کہ یہ سوالات کہیں تو اس لیے زبان پر آرہے ہیں کہ وہ ابھی تک ذات رسالت مآب ﷺ کے عظیم مرتبہ و مقام سے پوری طرح آگاہ نہیں ہو سکے ‘ اس وجہ سے بجائے اسکے کہ وہ دینی احکام سے متعلق سوال کریں ‘ ان میں سے کوئی آدمی یہ پوچھتا کہ حضور ﷺ میرا مقام جنت ہے یا جہنم ؟ کوئی یہ سوال کرتا کہ میرا باپ کون ہے ؟ ظاہر ہے ‘ اس طرح کے سوالات پیغمبر کے ادب و احترام کے خلاف تھے۔ ضروری تھا کہ ان سوالات کو روک کر ان کی تربیت کا انتظام کیا جاتا اور بعض سوالات ایسے تھے جو شریعت کے مزاج کو نہ سمجھنے کا نتیجہ تھے۔ وہ اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ پیغمبر کی زبان سے اللہ کے قانون کا اعلان اور اظہار ہوتا ہے۔ ان کی زبان سے جو نکلے گا وہ قانون بن جائے گا۔ اس لیے ہم اسلامی احکام کے سلسلے میں ایسا کوئی سوال نہ کریں جس سے پابندیوں میں اضافہ ہوسکتا ہو یا احکام سخت ہوسکتے ہوں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ البَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً (آل عمران : 97) (جو بیت اللہ تک جانے کی استطاعت رکھتے ہیں ‘ ایسے لوگوں پر اللہ کی طرف سے حج فرض ہے) ایک شخص جس کا نام ” اقرع بن حابس “ تھا۔ اس نے کھڑے ہو کر سوال کیا۔ حضور کیا ہر سال حج فرض ہے ؟ آپ نے کچھ جواب نہ دیا۔ اس نے پھر پوچھا ؟ آپ نے پھر اعراض فرمایا۔ تیسری مرتبہ پوچھنے پر آپ نے فرمایا : تم پر افسوس ہے۔ اگر میری زبان سے ’ ہاں ‘ نکل جائے تو حج ہر سال فرض قرار دیا جائے۔ پھر تم ہی لوگ اس کی پیروی نہ کرسکو گے اور نافرمانی کرنے لگو گے۔ یہ حالات اور اس سے پیدا ہونے والی وہ صورت حال تھی جس کی اصلاح کے لیے یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآئَ اِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ ج وَاِنْ تَسْئَلُوْا عَنْھَا حِیْنَ یُنَرَّلُ القُرْاٰنُ تُبْدَ لَکُمْ ط عَفَا اللہ ُ عَنْھَا ط وَ اللہ ُ غَفُوْرٌ حَلِیْمُٗ ۔ (المائدہ : 101) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! ایسی باتیں نہ پوچھا کرو ‘ جو تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔ لیکن اگر تم انھیں ایسے وقت پوچھو گے ‘ جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہے تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی۔ اب تک جو کچھ تم نے کیا ‘ اسے اللہ نے معاف کردیا ہے۔ وہ درگزر کرنے والا اور بردبار ہے “۔ سوال کرنے کی ممانعت کی دو بنیادی وجوہ اس آیت کریمہ میں دو وجہ سے سوال کرنے سے روکا گیا ہے اور جو اسباب سوال کرنے کا باعث بن رہے ہیں ‘ اگر تدبر سے کام لیا جائے ‘ جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں تو وہ اسباب بھی اس آیت میں صاف جھلک رہے ہیں۔ سوال سے منع کرنے کی پہلی وجہ یہ ہے کہ تم اگر ایسے امور کے بارے میں سوال کرو گے ‘ جس کا تعلق تمہاری پرائیویٹ زندگی سے ہے۔ اللہ سے چونکہ کوئی چیز مخفی نہیں ‘ ممکن ہے تمہارے سوال کے جواب میں وہ بات تمہیں بتادی جائے۔ لیکن اگر وہ بات تمہاری معاشرتی زندگی پر اثر انداز ہونے والی ہو تو خود سوچو تمہارے لیے کیسے پیچیدہ مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور جب ان مسائل سے تمہیں واسطہ پڑے گا تو تم اپنے آپ کو کو سو گے اور تمہارے متعلقین تمہیں برا بھلا کہیں گے ‘ اس طرح اپنی عزت بھی کھو دو گے اور اپنے خاندان کے لیے بھی مسائل پید اکر دو گے۔ پھر یہ بات بھی کہ اللہ کے نبی دنیا میں شخصی خبریں دینے کے لیے نہیں بلکہ زندگی کے مسائل حل کرنے کے لیے آتے ہیں اور ان معاملات میں راہنمائی دیتے ہیں ‘ جس میں راہنمائی کی اور کوئی صورت ممکن نہیں۔ اس لیے بجائے وہ باتیں پوچھنے کے ایسی ویسی باتیں پوچھنا ‘ جن کی نہ دین کے کسی معاملہ میں ضروت ہے اور نہ دنیا کے کسی اہم معاملہ میں تو یہ سراسر نبوت کے مقام کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ اس لیے مسلسل تربیت سے اس بنیادی کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کرو۔ سوال سے منع کرنے کی دوسری وجہ جو اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی آسانی کے لیے بعض امور کو مجمل بیان کیا ہے اور ہمیں اس کی تفصیل کی پابندیوں سے بچایا ہے اور بعض احکام مطلق بیان کیے ہیں ‘ جس میں مقدار یا تعداد یا دوسرے تعینات کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پروردگار ان امور کی تفصیلات کو محدود نہیں کرنا چاہتا اور احکام میں لوگوں کے لیے وسعت رکھنا چاہتا ہے۔ اب جو شخص خواہ مخواہ سوال پر سوال نکال کر تفصیلات ‘ تعینات اور تقیدات بڑھانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ امت مسلمہ پر بہت بڑا ظلم کرتا ہے اور مسلمانوں کو ایک بڑے خطرے میں ڈالتا ہے۔ اس لیے کہ مابعد الطبیعی امور میں جتنی تفصیلات زیادہ ہوں گی ‘ ایمان لانے والے کے لیے اتنے ہی زیادہ الجھن کے مواقع بڑھیں گے اور احکام میں جتنی قیود زیادہ ہوں گی پیروی کرنے والے کے لیے خلاف ورزی کے امکانات اسی قدر زیادہ ہوں گے۔ مزید یہ بات بھی کہ آنحضرت ﷺ چونکہ آخری رسول ہیں ‘ آپ کے بعد وحی الٰہی کا سلسلہ رک جائے گا ‘ اس لیے قیامت تک آنے والے مسائل کے بارے میں ایک متعین بات کہہ کر ہمارے لیے زندگی کو مشکل نہیں بنایا گیا بلکہ بنیادی اصول دے کر مسلمانوں کے لیے اجتہاد کا دروازہ کھول دیا گیا ہے تاکہ وہ ہر دور میں شریعت اسلامی کے مزاج کو سامنے رکھ کر اس کے نظائیر پر غور کر کے ‘ احکام کی علتوں کو پہچان کر ‘ خود سے اسلامی احکام کا تعین کریں۔ ایسی کوششوں کے سلسلے میں یقینا مجتہدین میں اختلافات ہوں گے اور قانون سازی کے مراحل میں یہی وہ اختلافات ہیں ‘ جو آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق امت کے لیے رحمت ثابت ہوتے ہیں۔ چناچہ انہی حکمتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے سختی سے اس طرح کے سوالات کرنے سے منع فرمایا ‘ جس طرح قرآن کریم میں منع کیا جا رہا ہے۔ چناچہ حدیث میں ہے : ان اعظم المسلمین فی المسلمین جرما من سأل عن شیٔ لم یحرم علی الناس فحرم من اجل مسألتہ (مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے ‘ جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال چھیڑا ‘ جو لوگوں پر حرام نہ کی گئی تھی اور پھر محض اس کے سوال چھیڑنے کی بدولت وہ چیز حرام ٹھہرائی گئی۔ ) ایک دوسری حدیث میں ہے : ان اللہ فرض فرائض فلا تضیعوھا وحرم حرمات فلا تنتھکوھا وحد حدودًا فلا تعتدوھا وسکت عن اشیاء من غیر نسیان لا تبحثوا عنھا ( اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کیے ہیں انھیں ضائع نہ کرو۔ کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے ان کے پاس نہ پھٹکو۔ کچھ حدود مقرر کی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے بغیر اس کے کہ اسے بھول لاحق ہوئی ہو لہٰذا ان کی کھوج نہ لگائو) جو سوالات دین سیکھنے اور بات سمجھنے کے لیے پوچھے جاتے ہیں ‘ نہ قرآن کریم نے ان کی ممانعت کی ہے نہ رسول اللہ ﷺ نے۔ جن دو باتوں کی وجہ سے سوالات کی ممانعت فرمائی گئی ہے ‘ اس کا ذکر اوپر گزر چکا۔ لیکن آج جب کہ قرآن کا نزول بند ہوگیا ہے ‘ وحی الٰہی رک گئی ‘ اب احکام میں اضافے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا تو سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی اس آیت کریمہ پر عمل باقی ہے ؟ یعنی کیا اب بھی امت مسلمہ اس بات کی پابند ہے کہ وہ شریعتِ اسلامی کے بارے میں سوالات نہ کرے ؟ بات یہ ہے کہ آج یقینا وہ خطرہ باقی نہیں رہا ‘ جو پیغمبر کی زندگی میں وحی الٰہی کے نزول کے وقت ہوتا ہے۔ لیکن غیر متعلق اور لایعنی سوالات اور فضول قیل و قال سے جو نقصان اس وقت ہوتا تھا ‘ وہ آج بھی ہوتا ہے۔ وہ نقصان یہ ہے کہ جس آدمی کو بات سمجھنا مقصود ہو ‘ اسے کبھی ضرورت سے زیادہ سوالات کرنے کی حاجت نہیں ہوتی۔ وہ جب بات کو سمجھ لیتا ہے تو عمل کرنا شروع کردیتا ہے۔ اب اس کی ساری توجہ بہتر سے بہتر عمل کرنے پر مرتکز ہوتی ہے سوالات کی طرف نہیں۔ لیکن جس آدمی میں بےعملی یا بدعملی کے جراثیم پیدا ہوجاتے ہیں ‘ وہ اس لیے سوالات نہیں کرتا کہ وہ بات کو سمجھنا چاہتا ہے بلکہ وہ اپنی بےعملی یا بدعملی کو چھپانے کے لیے سوالات کا سہارا لیتا ہے یا احکام کی پابندی سے بچنے کے لیے سوالات کے ذریعہ کوئی چور دروازہ نکالنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ مرض آج نیا نہیں ‘ ہر بےعمل قوم میں ‘ چاہے وہ صدیوں پہلے گزری ہو ‘ اس عمل کی موجودگی کا ہمیں سراغ ملتا ہے۔ اگلی آیت کریمہ میں اسی کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔
Top