Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 102
قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِهَا كٰفِرِیْنَ
قَدْ سَاَلَهَا : اس کے متعلق پوچھا قَوْمٌ : ایک قوم مِّنْ قَبْلِكُمْ : تم سے قبل ثُمَّ : پھر اَصْبَحُوْا : وہ ہوگئے بِهَا : اس سے كٰفِرِيْنَ : انکار کرنے والے (منکر)
تم سے پہلے ایک قوم نے اسی قسم کے سوالات کیے تھے ‘ پھر وہ لوگ انہی باتوں کی وجہ سے کفر میں مبتلا ہوگئے
قَدَ سَاَلَھَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِھَا کٰفِرِیْنَ ۔ (المائدہ : 102) ” تم سے پہلے ایک قوم نے اسی قسم کے سوالات کیے تھے ‘ پھر وہ لوگ انہی باتوں کی وجہ سے کفر میں مبتلا ہوگئے “۔ انھوں نے احکامات پر عمل کرنے کی بجائے مسلسل سوالات کے ذریعہ ‘ جب اپنے لیے آسانیاں تلاش کرنا شروع کیں تو سوالات کے نتیجے میں تفصیلات اور قیود کا ایک جال اپنے لیے تیار کرلیا۔ پھر خود ہی اس میں الجھ کر اعتقادی گمراہیوں اور عملی نافرمایوں میں مبتلا ہوگئے۔ انھوں نے تو اپنے لیے چور دروازے تلاش کیے تھے ‘ لیکن ان کی نادانیوں کے نتیجے میں مزید احکام نازل ہوتے گئے اور احکام میں شدت آتی گئی۔ لیکن اصل چیز جس کی طرف اس قوم کی مثال سے توجہ دلائی گئی ہے ‘ وہ اس قوم کی بدعملی پر مبنی ان کا ذہنی رویہ ہے (اور یہ یاد رہنا چاہیے کہ یہاں اس قوم سے مراد یہود ہیں) ان کے ذہنی رویے کی عکاسی قرآن کریم نے سورة البقرۃ میں ایک واقعہ سے کی ہے ‘ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قومیں جب بدعمل یا بےعمل ہوجاتی ہیں تو وہ احکام کی تعمیل کرنے کی بجائے کس طرح کا رویہ اختیار کرتی ہیں اور اس رویے کے نتیجے میں اپنے لیے کیسی کیسی مشکلات پیدا کرلیتی ہیں۔ وہ واقعہ سورة البقرۃ میں آیت نمبر 67 تا 71 میں بیان کیا گیا ہے۔ ہم اس کا ترجمہ نقل کردیتے ہیں : ( پھر وہ واقعہ یاد کرو ! جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔ کہنے لگے کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں۔ بولے ‘ اچھا ! اپنے رب سے درخواست کرو کہ وہ ہمیں اس گائے کی کچھ تفصیل بتائے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ! اللہ کا ارشاد ہے کہ وہ ایسی گائے ہونی چاہیے ‘ جو نہ بوڑھی ہو نہ بچھیا بلکہ اوسط عمر کی ہو۔ لہٰذا جو حکم دیا جاتا ہے ‘ اس کی تعمیل کرو۔ پھر کہنے لگے ! اپنے رب سے یہ اور پوچھ دو کہ اس کا رنگ کیسا ہو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : وہ فرماتا ہے ‘ زرد رنگ کی گائے ہونی چاہیے ‘ جس کا رنگ ایسا شوخ ہو کہ دیکھنے والوں کا جی خوش ہوجائے۔ پھر بولے ! اپنے رب سے صاف صاف پوچھ کر بتائو ‘ کیسی گائے مطلوب ہے ‘ ہمیں اس کے تعین میں اشتباہ ہوگیا ہے۔ اللہ نے چاہا تو ہم اس کا پتہ پالیں گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا : اللہ کہتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہے ‘ جس سے خدمت نہیں لی جاتی ‘ نہ زمین جوتتی ہے ‘ نہ پانی کھینچتی ہے ‘ صحیح سالم اور بےداغ ہے۔ اس پر وہ پکار اٹھے کہ ہاں ! اب تم نے ٹھیک پتہ بتایا ہے۔ پھر انھوں نے اسے ذبح کیا ‘ ورنہ وہ ایسا کرتے معلوم نہ ہوتے تھے) یہ ذہنیت یا ذہنی رویہ یہود کے ساتھ مخصوص نہیں۔ جب بھی کسی امت میں بےعملی اپنی جڑ بنا لیتی ہے ‘ اس کی کیفیت اس سے مختلف نہیں ہوتی۔ آج مسلمانوں میں اگر آپ دیکھنا چاہیں تو آپ کو جابجا اس کی مثالیں ملیں گی۔ اسلامی شریعت کے کسی بھی حکم کی بات چھیڑ کے دیکھ لیجئے ‘ ایک فرد سے لے کر اجتماعی اداروں تک ‘ بجائے اس پر عمل کرنے کے ‘ یہی رویہ آپ کو کارفرما دکھائی دے گا۔ بحثوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا اور ایک مخلص اور سنجیدہ آدمی یہ دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہے کہ یا اللہ ! یہ کیا رویہ ہے ؟ لیکن پریشان کن چیز یہ رویہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے وہ ذہنیت ہے ‘ جس کے نتیجے میں یہ رویہ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے ہمیشہ کے لیے اس امت کو بلاضرورت سوالات کرنے سے منع فرمایا ہے بلکہ ہر ایسے کام سے منع فرمایا ہے ‘ جس کا دنیا اور دین سے کوئی تعلق نہیں۔ ارشاد فرمایا : من حسن اسلام المرئِ ترکہ ما لا یعنیہ (کسی بھی آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی باتوں کو چھوڑ دے) اس لیے آج بھی ہمیں اس بات کی اجازت نہیں کہ ہم اپنا قیمتی وقت بجائے ضروری امور میں صرف کرنے اور دین سیکھنے میں لگانے کے فضول سوالات میں ضائع کریں اور اسے ہم دینی خدمت سمجھیں۔ آپ نے بعض لوگوں کو دیکھا ہوگا جو عجیب و غریب ‘ غیر متعلق باتوں میں وقت صرف کر رہے ہوتے ہیں اور اسے تحقیق کا نام دیتے ہیں۔ کوئی پوچھتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا نام کیا تھا ؟ کسی نے یہ تحقیق شروع کر رکھی ہے کہ کشتی نوح کا طول و عرض کیا تھا ؟ کوئی حروف مقطعات کے معنی معلوم کرنے کی فکر میں ہے اور کسی کو یہ فکر لاحق ہے کہ متشابہات کا مفہوم معلوم کیا جائے حالانکہ خود قرآن کریم نے متشابہات کے پیچھے پڑنے والے کو ذہنی کج روی کا مریض قرار دیا ہے کیونکہ متشابہات بالعموم اللہ کی صفات پر مشتمل ہیں یا اللہ کی ان مخلوقات سے متعلق ہیں ‘ جن کا تعلق عالم غیب سے ہے ‘ کسی آدمی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ عالم غیب پر رسائی حاصل کرسکے۔ اب اگر وہ اس کو اپنی تحقیق کا موضوع بناتا ہے تو اندازہ فرمایئے ! آخر وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح کی مصروفیات ہیں ‘ جو قوائے عمل کو مفلوج کر کے رکھ دیتی ہیں۔ سورة المائدہ میں احکام کے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ دو باتوں پر زور دیا گیا ہے۔ سورة المائدہ کے دو بنیادی مضامین 1 حلت و حرمت کی اتھارٹی اور اختیار اللہ کے سوا کسی اور کے پاس نہیں۔ جو بھی یہ اختیار اپنے لیے مخصوص کرتا ہے ‘ وہ گویا اللہ کی صفت حاکمیت اور اس کی کبریائی میں شریک ہونے کی کوشش کرتا ہے اور یہ ایک بدترین شرک ہے ‘ جسے اللہ کبھی معاف نہیں فرماتا۔ 2 مخلوقات کے لیے ایسی عزت و حرمت کا فیصلہ کرنا ‘ جس کا تعلق ثواب و عقاب سے ہو اور جس کا رشتہ دین سے باندھا جائے ‘ اس کا حق بھی سوائے اللہ کی ذات کے اور کسی کو نہیں۔ جو چیز اس کی طرف منسوب ہوجاتی ہے یا اس کی عظمت کی علامت بن جاتی ہے ‘ اللہ تعالیٰ اسے انسانوں کے لیے واجب الاحترام قرار دے دیتا ہے اور ایسی چیزیں جن کا احترام اور ادب واجب ہے ‘ انھیں ” شعائر اللہ “ کہا گیا ہے۔ کسی کو شعائر اللہ میں سے قرار دینا ‘ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ دوسرا اگر کوئی ایسا کرے تو یہ شرک ہے۔ اگلی آیت کریمہ میں مشرکین مکہ کی اس جسارت کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ان دونوں صفات اور پروردگار کے ان دونوں خصوصی حقوق میں ‘ دوسروں کو دخیل کر کے شرک کا ارتکاب کرتے تھے اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ اسے اللہ ہی کی طرف منسوب کرتے تھے کہ ہمیں یا ہمارے بتوں یا ہمارے دیوتائوں کو اللہ نے اس کا حق دیا ہے۔
Top