Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 106
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَیْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّةِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِكُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةُ الْمَوْتِ١ؕ تَحْبِسُوْنَهُمَا مِنْۢ بَعْدِ الصَّلٰوةِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ اِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِیْ بِهٖ ثَمَنًا وَّ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى١ۙ وَ لَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ١ۙ اللّٰهِ اِنَّاۤ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے شَهَادَةُ : گواہی بَيْنِكُمْ : تمہارے درمیان اِذَا : جب حَضَرَ : آئے اَحَدَكُمُ : تم میں سے کسی کو الْمَوْتُ : موت حِيْنَ : وقت الْوَصِيَّةِ : وصیت اثْنٰنِ : دو ذَوَا عَدْلٍ : انصاف والے (معتبر) مِّنْكُمْ : تم سے اَوْ : یا اٰخَرٰنِ : اور دو مِنْ : سے غَيْرِكُمْ : تمہارے سوا اِنْ : اگر اَنْتُمْ : تم ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ : سفر کر رہے ہو زمین میں فَاَصَابَتْكُمْ : پھر تمہیں پہنچے مُّصِيْبَةُ : مصیبت الْمَوْتِ : موت تَحْبِسُوْنَهُمَا : ان دونوں کو روک لو مِنْۢ بَعْدِ : بعد الصَّلٰوةِ : نماز فَيُقْسِمٰنِ : دونوں قسم کھائیں بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنِ : اگر ارْتَبْتُمْ : تمہیں شک ہو لَا نَشْتَرِيْ : ہم مول نہیں لیتے بِهٖ : اس کے عوض ثَمَنًا : کوئی قیمت وَّلَوْ كَانَ : خواہ ہوں ذَا قُرْبٰى : رشتہ دار وَلَا نَكْتُمُ : اور ہم نہیں چھپاتے شَهَادَةَ : گواہی اللّٰهِ : اللہ اِنَّآ : بیشک ہم اِذًا : اس وقت لَّمِنَ : سے الْاٰثِمِيْنَ : گنہ گاروں
اے ایمان والو ! تمہارے درمیان گواہی بوقت وصیت جبکہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آپہنچا ہو ‘ اس طرح ہے کہ دو معتبر آدمی تم میں سے گواہ ہوں یا دو دوسرے تمہارے غیروں میں سے ‘ اگر تم سفر میں ہو اور وہیں تمہیں موت کی مصیبت آپہنچے۔ تم ان کو نماز کے بعد روک لو۔ پس وہ اللہ کی قسم کھائیں اگر تمہیں شک ہو کہ ” ہم اس کے بدلے میں کوئی قیمت قبول نہیں کریں گے اگرچہ کوئی قرابت دار ہی کیوں نہ ہو اور نہ ہم اللہ کی گواہی کو چھپائیں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو بیشک ہم گنہگار ٹھہریں
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَھَادَۃُ بَیْنِکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّۃِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِکُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الاَْرْضِ فَاَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃُ الْمَوْتِ ط تَحْبِسُوْنَھُمَا مِنْم بَعْدِ الصَّلٰوۃِ فَیْقْسِمٰنِ بِ اللہ ِ اِنِ ارْتَبْتُمْ لاَ نَشْتَرِیْ بِہٖ ثَمَنًا وَّ لَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰیلا وَلاَ نَکْتُمُ شَھَادَۃَ لا اللہ اِنَّا اِذًا لَّمِنَ الاْٰثِمِیْنَ ۔ فَاِنْ عُثِرَ عَلٰٓی اَنَّھُمَا اسْتَحَقَّآ اِثْمًا فَاٰخَرٰنِ یَقُوْمٰنِ مَقَامَھُمَا مِنَ الَّذِیْنَ اسْتَحَقَّ عَلَیْھِمُ الاَْوْلَیٰنِ فَیُقْسِمٰنِ بِ اللہ ِ لَشَھَادَتُنآ اَحَقُّ مِنْ شَھَادَتِھِمَا وَمَا اعْتَدَیْنَآ زصلے اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ ۔ ذٰلِکَ اَدْنیٰٓ اَنْ یَّاْتُوْابِالشَّھَادَۃِ عَلیٰ وَجْھِھَآاَوْ یَخَافُوْٓااَنْ تُرَدَّ اَیْمَانٌم بَعْدَ اَیْمَانِھِمْط وَاتَّقُوا اللہ َ وَاسْمَعُوْاط وَ اللہ ُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ ۔ (المائدہ : 106۔ 108) ” اے ایمان والو ! تمہارے درمیان گواہی (بوقت وصیت) جب کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آپہنچا ہو ‘ اس طرح ہے کہ دو معتبر آدمی تم میں سے گواہ ہوں یا دو دوسرے تمہارے غیروں میں سے ‘ اگر تم سفر میں ہو اور وہیں تمہیں موت کی مصیبت آپہنچے۔ تم ان کو نماز کے بعد روک لو۔ پس وہ اللہ کی قسم کھائیں اگر تمہیں شک ہو کہ ” ہم اس کے بدلے میں کوئی قیمت قبول نہیں کریں گے اگرچہ کوئی قرابت دار ہی کیوں نہ ہو اور نہ ہم اللہ کی گواہی کو چھپائیں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو بیشک ہم گنہگار ٹھہریں “۔۔ ” پس ‘ اگر پتہ چلے کہ یہ دونوں کسی حق تلفی کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان کی جگہ دوسرے دو ان میں سے کھڑے ہوں ‘ جن کی مقدم گواہوں نے حق تلفی کی ہے۔ پس وہ اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ راست ہے اور ہم نے کوئی تجاوز نہیں کیا ہے۔ اگر ہم نے ایسا کیا ہے تو ہم ظالم ٹھہریں “۔۔ ’ ’ یہ طریقہ اس امر کے قرین ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک گواہی دیں یا اس بات سے ڈریں کہ ان کی گواہی کے بعد ان کی گواہی رد ہوجائے گی اور اللہ سے ڈرو اور سنو اللہ نافرمانوں کو راہ یاب نہیں کرتا “۔ دورانِ سفر موت آجانے کی صورت میں وصیت کا طریق کار سورة المائدہ عہد و میثاق کی سورة ہے۔ اس میں جن بنیادی باتوں پر عہد لیا گیا ہے اس میں ایک بڑی اہم بات یہ ہے کہ مسلمانو ! تمہیں اللہ کے گواہ کے طور پر اور عدل و احسان کے علمبردار کی حیثیت سے شہادت حق کے منصب پر فائز کیا گیا ہے۔ تمہاری یہ ذمہ داری ہے کہ تم اللہ اور اس کے دین کی حقانیت کی گواہی پورے عالم انسانیت کے سامنے اس طرح پیش کرو کہ اس کے نتیجے میں دنیا کے سامنے اللہ اور اس کے دین کی سچائی واضح ہوجائے۔ تمہارے علم کے سرچشمے ‘ تمہاری عبادت گاہیں ‘ تمہارے انتظامی ادارے ‘ تمہارے حکومتی ایوان ‘ حتیٰ کہ حسب ضرورت تمہارے میدان جنگ ‘ اپنے دعوؤں اور اپنے عمل سے اس شہادت حق کا فریضہ اس طرح انجام دیں کہ اللہ اور اس کے دین کی حقانیت روز روشن کی طرح واضح ہوجائے۔ یہ شہادت حق یقینا نامکمل رہتی ہے ‘ اگر انسانی معاملات پر اس کے اثرات گہرے نہ ہوں۔ ایک مسلمان جو اپنے آپ کو شہادت حق کا امین سمجھتا ہے ‘ اگر وہ باہمی معاملات میں سچی شہادت نہیں دیتا ‘ اس میں جھوٹ بولتا ہے یا کتمان سے کام لیتا ہے ‘ ایسے شخص سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اجتماعی زندگی میں شہادت حق کا فرض انجام دے گا ؟ اس لیے کہ شخصی معاملات ‘ اجتماعی معاملات سے اس طرح پیوست ہوتے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کا اثر قبول کیے بغیر نہیں رہتے۔ افراد ہی سے اجتماعیت پیدا ہوتی ہے اور اجتماعیت کے زیر اثر افراد سازی کا کام ہوتا ہے۔ زندگی کے معاملات میں سچی شہادت دینا ‘ یہ وہ عملی تربیت ہے جو شہادتِ حق کے منصب کے حوالے سے ذمہ داریاں ادا کرنے کی ضمانت دیتی ہے۔ ان آیات میں جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہیں ‘ باہمی معاملات میں سچی شہادت دینے کا حکم دیا گیا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ باہمی انسانی معاملات کی گواہی ہے۔ لیکن ان آیات میں اسے شہادۃ اللہ قرار دیا گیا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپس کی چھوٹی موٹی گواہیاں بھی اس اجتماعی شہادتِ حق کا حصہ ہیں کیونکہ جس معاشرے میں معاملات شہادت باطل کا شکار ہوتے ہیں ‘ چاہے اس کا حلقہ کتنا بھی چھوٹا کیوں نہ ہو ‘ وہ معاشرہ وسیع سطح پر شہادت حق کا فرض انجام نہیں دے سکتا۔ پیشتر اس کے کہ ہم ان آیات کی وضاحت کریں یا اس کے احکام کا خلاصہ بیان کریں ‘ ہم اس کا شان نزول بیان کیے دیتے ہیں تاکہ ان آیات کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ امام قرطبی (رح) نے ان تین آیات کے شان نزول کے متعلق کہا ہے کہ مجھے اس میں کوئی اختلاف معلوم نہیں کہ یہ تین آیات تمیم دعدی اور عدی بن بداء کے متعلق نازل ہوئی تھیں۔ بخاری اور دارقطنی وغیرہ نے ابن عباس ( رض) سے روایت کی ہے ‘ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ایک مسلمان ” بُدَیل “ نامی دو نصرانیوں تمیم دعدی اور عدی بن بداء کے ساتھ بغرض تجارت ملک شام کی طرف گیا۔ شام پہنچ کر بدیل بیمار ہوگیا۔ اس نے اپنے مال کی فہرست لکھ کر اسباب میں رکھ دی اور اپنے دونوں رفیقوں کو اطلاع نہ کی۔ مرض جب زیادہ بڑھا تو اس نے دونوں نصرانی رفقاء کو وصیت کی کہ کل سامان میرے وارثوں کو پہنچا دینا۔ انھوں نے سب سامان لا کر وارثوں کے حوالے کردیا ‘ مگر چاندی کا ایک پیالہ جس پر سونے کا ملمع یا نقش و نگار تھے اس میں سے نکال لیا۔ وارثوں کو فہرست اسباب میں سے دستیاب ہوئی ‘ انھوں نے اوصیاء سے پوچھا کہ میت نے کچھ مال فروخت کیا تھا یا کچھ زیادہ بیمار رہا کہ معالجہ وغیرہ میں خرچ ہو اہو ؟ ان دونوں نے اس کا جواب نفی میں دیا۔ آخر معاملہ نبی کریم ﷺ کی عدالت میں پیش ہوا چونکہ وارثوں کے پاس گواہ نہ تھے تو ان دونوں نصرانیوں سے قسم لی گئی کہ ” ہم نے میت کے مال میں کسی طرح کی خیانت نہیں کی نہ کوئی چیز اس کی چھپائی “ آخر قسم پر فیصلہ ان کے حق میں کردیا گیا۔ کچھ مدت کے بعد ظاہر ہوا کہ وہ پیالہ ان دونوں نے مکہ میں کسی سنار کے ہاتھ فروخت کیا ہے۔ جب سوال ہوا تو کہنے لگے کہ ہم نے میت سے خرید لیا تھا چونکہ خریداری کے گواہ موجود نہ تھے ‘ اس لیے ہم نے پہلے اس کا ذکر نہیں کیا ‘ مبادا ہماری تکذیب کردی جائے۔ میت کے وارثوں نے پھر نبی کریم ﷺ کی طرف رجوع کیا۔ اب پہلی صورت کے برعکس اوصیاء خریداری کے مدعی اور وارث منکر تھے۔ شہادت موجود نہ ہونے کی وجہ سے وارثوں میں سے دو شخصوں نے جو میت سے قریب تر تھے ‘ قسم کھائی کہ ” پیالہ میت کی ملک تھا اور یہ دونوں نصرانی اپنی قسم میں جھوٹے ہیں “۔ چناچہ جس قیمت پر انھوں نے فروخت کیا تھا (ایک ہزار درہم پر) وہ وارثوں کو دلائی گئی۔ شانِ نزول میں جو کچھ بیان کیا گیا ‘ اس میں ان تینوں آیات میں بیان کردہ احکام کا اجمالی تذکرہ موجود ہے۔ لیکن پھر بھی مناسب ہے کہ ان آیات میں جو احکام بیان کیے گئے ہیں ‘ اس کا ایک خلاصہ بیان کردیا جائے۔ خلاصہ احکام یہ ہے کہ جو آدمی اپنی موت کے قریب ہونے کو محسوس کرے اور چاہتا ہے کہ حاضر مال کے بارے میں اپنے گھر والوں کو وصیت کرے تو اسے چاہیے کہ دو مسلم گواہ بنائے ‘ اگر وہ سفر پر نہیں ہے اور جو کچھ وہ اپنے غیر حاضر رشتہ داروں کو دینا چاہتا ہے ‘ وہ ان کے سپرد کر دے۔ لیکن جب وہ سفر پر ہو اور اسے دو مسلم گواہ نہیں ملتے ‘ جن کی شہادت رکھے اور اپنا مال ان کے سپرد کرے تو دو گواہوں کا غیر مسلموں میں سے ہونا بھی جائز ہے۔ پھر اگر مسلمانوں کو شک ہوجائے یا میت کے گھر والے شک میں پڑجائیں کہ آیا یہ دو گواہ جو کچھ پہنچا رہے ہیں ‘ یہ سچ ہے یا نہیں اور جس چیز کو ان کی حفاظت میں دیا گیا تھا۔ آیا انھوں نے ادا کی ہے یا نہیں۔ تو وہ ان کو ادائے صلوٰۃ کے بعد ‘ ان کے عقیدے کے موافق (نماز کے بعد) کھڑا کریں تاکہ وہ اللہ کی قسم کھائیں کہ ” وہ اپنے فائدے یا کسی اور کے فائدے کی خاطر قسم نہیں کھا رہے ‘ گو ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اور جو کچھ ان کی حفاظت میں دیا گیا تھا ‘ وہ اس میں سے کچھ نہیں چھپائیں گے ‘ ورنہ وہ گنہگار ہوں گے “ اس قسم کے ساتھ ان کی گواہی نافذ ہوجائے گی۔ پھر اگر اس کے بعد ظاہر ہوجائے کہ ان دونوں نے جھوٹی گواہی دینے اور جھوٹی قسم کھانے کا ارتکاب کیا ہے اور جو کچھ ان کی حفاظت میں دیا گیا تھا ‘ اس کی ادائیگی میں انھوں نے بددیانتی کی ہے تو میت کے قریب ترین وارثوں میں دو آدمی اٹھیں۔ جن کے خلاف وہ گناہ واقع ہوا تھا۔ وہ اٹھ کر اللہ کی قسم کھائیں کہ ” ان کی شہادت پہلے دونوں گواہوں کی شہادت سے صادق تر ہے اور انھوں نے اس حقیقت کے اظہار میں کوئی تعدی نہیں کی “ پس اس سے پہلوں کی شہادت باطل ہوجائے گی اور یہ دوسری شہادت نافذ ہوجائے گی۔ پھر نص قرانی کہتی ہے کہ یہ احکام شہادت کو صحیح طور پر ادا کرنے کے زیادہ ضامن ہیں یا ان سے یہ خوف لاحق ہوجائے گا کہ پہلے دو گواہوں کی شہادت رد کی جائے گی اور یہ خوف ان کو صحیح بات کہنے پر آمادہ کرے گا۔ باہمی معاملات میں شہادت کے قانون کا خلاصہ ہم نے آپکے سامنے پیش کیا ہے۔ اسکے بارے میں چند نکات ذہن میں رہنے بہت ضروری ہیں۔ شہادت کے قانون کے متعلق چند اہم نکات 1 یہ قانون ‘ شہادت کی تمام ضرورتوں اور تمام حالات پر حاوی نہیں۔ اس کا تعلق ایک عارضی حالت سے ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک شخص قریب المرگ ہے اور وہ اپنا مال چند لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اب اس وقتی ضرورت میں اس کے لیے یہ بات آسان نہیں کہ عدالتی طریقے کو اپنائے اور قانون کی تمام ضروریات کو پورا کرے ‘ اس کے لیے آسان طریقہ اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ یہی ہے ‘ جو ان آیات میں بیان کیا گیا ہے اور اگر وہ حالت سفر میں ہے اور سفر بھی اس زمانے کا جب کہ تمدنی ضرورتوں کا دور ‘ دور فقدان تھا۔ ایسی صورت حال میں اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ ایک ایسا قانون دیا جائے ‘ جو ضرورت مند کے حالات کے مطابق ہو کیونکہ قانون سے الجھنیں پیدا کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ آسانیاں پیدا کرنا ‘ قانون کا اصل ہدف ہے۔ شہری زندگی میں جبکہ تمدنی اور قانونی ضرورتیں ہر طرح دستیاب ہوسکتی ہوں اسلام نے بعض دوسرے احکام پر عمل کرنے کی اجازت دی ہے ‘ جن کا ذکر فقہی کتابوں میں موجود ہے۔ 2 اس قانون میں مال جن دو آدمیوں کے حوالے کیا جا رہا ہے اور جنھیں فقہی اصطلاح میں وصی کہتے ہیں ‘ ان کے سلسلے میں اجازت دی گئی ہے کہ اگر مسلمان میسر نہ ہوں تو غیر مسلموں کو وصی مقرر کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی حالت ہے۔ عام معمول کی زندگی میں اس سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ 3 اوصیاء کے لیے عادل ہونے کی شرط لگائی گئی ہے۔ یہ مطلوب ضرور ہے ‘ لیکن ایسی لازمی شرط نہیں کہ ضرورت کے وقت بھی اس سے صرف نظر نہ کیا جاسکتا ہو۔ 4 اس قانون میں یہ بتایا گیا ہے کہ مدعی کے لیے گواہ پیش کرنا ضروری ہیں۔ اگر وہ ضابطہ شرعی کے مطابق گواہ پیش کر دے تو فیصلہ اس کے حق میں ہوگا اور اگر وہ پیش نہ کرسکے تو پھر مدعا علیہ سے قسم لی جاتی ہے۔ اگر وہ شرعی ضابطہ کے مطابق قسم کھالے تو مقدمہ اس کے حق میں ہوجائے گا ‘ لیکن اگر مدعا علیہ قسم کھانے سے انکار کر دے تو پھر مدعی مقدمہ جیت جائے گا۔ 5 اس قانون میں قسم لینے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ قسم میں شدت پیدا کرنے کا دارومدار حاکم کی رائے پر ہے۔ اس آیت کی رو سے لزوم ثابت نہیں ہوتا۔ 6 تَحْبِسُوْنَھُمَا سے ایک اصول معلوم ہوتا ہے کہ جس آدمی پر کسی کا کوئی حق واجب ہو ‘ اس کو اس حق کی ضرورت کے وقت قید کیا جاسکتا ہے۔ 7 بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ اس میں نماز کے بعد جو قسم لینے کا ذکر کیا گیا ہے ‘ اس سے عصر کی نماز مراد ہے۔ اس وقت کو اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہل کتاب اس وقت کی بہت تعظیم کرتے تھے ‘ ایسے وقت میں خصوصاً جھوٹ بولنا ‘ ان کے نزدیک بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قسم میں کسی خاص وقت یا خاص مقام وغیرہ کی قید لگا کر تغلیظ کرنا جائز ہے۔ اسلام قانون دیتے وقت ہر دور اور ہر زمان کو مدنظر رکھتا ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ یہ قانون ایک خاص نوعیت کا حامل ہے ‘ جس میں بعض خاص ضرورتوں کا لحاظ کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ تمام صورتوں پر حاوی نہیں ہوسکتا۔ اس سے بعض لوگوں کو یہ گمان ہوا کہ اسلام شاید کسی پسماندہ قوم کا وقتی قانون ہے ‘ کسی متمدن قوم میں چلنے کی اس میں صلاحیت نہیں ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ساری انسانیت کے لیے ہر زمانے اور ہر مکان کے لیے آیا ہے۔ دنیا کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں ‘ آج کچھ ہیں تو کل کچھ اور ہوں گے۔ ایک ملک کا ماحول دوسرے سے لازمی مختلف ہوتا ہے۔ ہر قوم و ملت کے تقاضے یکساں نہیں ہوتے۔ آج بھی دنیا میں ایسے علاقے موجود ہیں جہاں انسان بدویت کی طرف مائل ہے۔ اگرچہ یہ بدویت شہریت کی طرف محو سفر ہے ‘ لیکن شہری تقاضے بھی تو یکساں نہیں ہوتے اور انسانیت کو جن احکام کی ضرورت ہے ‘ وہ بحیثیت مجموعی ہیں ‘ جو ہر قسم کے احوال اور ہر قوم و ملت کی ضروریات کو پورا کرسکتے ہوں۔ اسلام نے ہر ضرورت کی کفالت کی ہے اور ہر قسم کے معاشرے کے لیے ہر قسم کے احوال میں احکام دیئے ہیں۔ انسانیت ایک دور سے ‘ جب دوسرے دور میں داخل ہوتی ہے اور دوسرے سے ‘ تیسرے میں تو اپنی تمام ضروریات کا حل اسے اسلام کے پاس مل جاتا ہے۔ کیا آج کے مہذب شہروں کی بالکل وہی ضروریات ہیں ‘ جو دیہات ‘ صحرائوں اور تہذیب و تمدن سے دور علاقوں کی ہیں ؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ پس قانون ایسا ہونا چاہیے ‘ جو ہر معاشرے ‘ ہر فرد ‘ ہر حالت اور ہر زمان و مکان میں راہنمائی کے لائق ہو۔ صرف شہری زندگی کی نہیں بلکہ بدوی اور صحرائی زندگی کی راہنمائی بھی کرے۔ دنیا کے ہر کونے میں اس پر عمل ہو سکے۔ وہ لچک دار بھی ہو اور ہر وقت اور ہر جگہ کی ضرورت کا بھی اس میں لحاظ ہو۔ انسان اپنی اور دوسرے انسانوں کی ضروریات کا رب العالمین سے زیادہ جاننے والا اور سمجھنے والا نہیں ہے۔ کائنات کا رب اپنی مخلوق کی مصلحتوں ‘ گو ناں گوں ضرورتوں اور مختلف احوال و ظروف کو مخلوقات سے زیادہ جانتا ہے۔ قانون صرف انھیں ایک اچھی زندگی گزارنے کی آسانیاں مہیا کرتا ہے ‘ جو دل کی آمادگی کے ساتھ قانون کی پیروی کرتے ہیں اور جن کے دلوں میں قانون کے بارے میں مخاصمانہ یا منافقانہ رویہ پایا جاتا ہو ‘ ان کے لیے قانون کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔ اسلامی قانون کی اصل روح اللہ کا تقویٰ اور اس کے احکام کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔ اسلامی قانون کے ماننے والے اللہ کی رضا کے حصول اور آخرت میں سرخروئی کے لیے اس قانون کی پابندی کرتے ہیں اور اگر یہ جذبہ مفقود ہوجائے تو اسلامی قانون اللہ کا قانون ہوتے ہوئے بھی ‘ اپنے ماننے والوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ اس لیے ان آیات کریمہ کے آخر میں فرمایا گیا : وَاتَّقُوا اللہ َ وَاسْمَعُوْا ط وَ اللہ ُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ ۔ ( اللہ سے ڈرو ! پیغمبر کی بات سنو ! جو اللہ سے نہیں ڈرتے اور پیغمبر کی بات نہیں سنتے ‘ وہ نافرمان ہیں اور اللہ ایسے نافرمانوں کو راہ یاب نہیں کرے گا۔ وہ دنیا میں بھٹکتے رہیں گے اور آخرت میں اپنے انجام بد سے دوچار ہوں گے)
Top