Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 109
یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَاۤ اُجِبْتُمْ١ؕ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ
يَوْمَ : دن يَجْمَعُ : جمع کرے گا اللّٰهُ : اللہ الرُّسُلَ : رسول (جمع) فَيَقُوْلُ : پھر کہے گا مَاذَآ : کیا اُجِبْتُمْ : تمہیں جواب ملا قَالُوْا : وہ کہیں گے لَا عِلْمَ : نہیں خبر لَنَا : ہمیں اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو عَلَّامُ : جاننے والا الْغُيُوْبِ : چھپی باتیں
اس دن کو یاد رکھو ! ) جس دن اللہ سب رسولوں کو جمع کرے گا ‘ پھر پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا ؟ وہ کہیں گے ہمیں کچھ علم نہیں غیب کی باتوں کا جاننے والا تو بس تو ہی ہے
تمہید سورة المائدہ عہد و میثاق کی سورة ہے۔ اس لیے جن اساسی باتوں پر امت اسلامیہ کی بنیاد اٹھائی جا رہی تھی ‘ ان تمام باتوں کا اس سورة میں تذکرہ کیا گیا ہے اور اس کی پابندی کا عہد لیا گیا ہے۔ مزید برآں احکام کے سلسلے میں تکمیلی پہلوئوں سے جن مزید احکامات کی ضرورت تھی یا اس سلسلے میں جو مزید ہدایات ناگزیر تھیں ‘ ان کا بھی اس سورة میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ پھر تکمیلِ دین کی نعمت کا ذکر فرما کر مسلمانوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا گیا ہے اور حلّت و حرمت کے تصور کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کر کے ‘ حاکمیت الہٰیہ کے بنیادی عقیدے کو دل و دماغ میں راسخ کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ مزید برآں شریعت اسلامی کی پابندی اور اللہ کی توحید کا عہد و پیمان لیتے ہوئے دوسری امتوں کا تذکرہ ‘ اس لحاظ سے کیا گیا ہے کہ اساسی اعتقادات اور شریعتِ اسلامی کی پابندی کا عہد ‘ یہ اللہ کی ایسی سنت ہے ‘ جس پر ہمیشہ عمل ہوتا رہا ہے۔ جب بھی اللہ نے کسی انسانی گروہ کو اپنی شریعت کی پابندی کے لیے چنا اور اس کو دعوت کا علمبردار بنایا ہے تو اس سے اس کی پابندی کا عہد ضرور لیا گیا ہے اور اسی عہد کی پابندی کی صورت میں ان کی دنیوی سرفرازی اور اخروی سرخروئی کا وعدہ فرمایا گیا۔ یوں بھی اگر دیکھا جائے کہ جب بھی کوئی آدمی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا دعویٰ کر کے ‘ اس کے رسول کی امت کا ایک فرد بنتا ہے تو اصلاً وہ اللہ اور اس کے رسول سے ایک عہد و پیمان کرتا ہے کہ میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں اللہ کی عبودیت میں کسی کو شریک نہیں کروں گا اور اللہ کے رسول کے مقابلے میں کسی شخصیت کو نہ اپنا رہنما سمجھوں گا اور نہ آئیڈیل کے طور پر قبول کروں گا۔ اس سورة میں بار بار ایسے ہی عہد و پیمان کی طرف نہ صرف یہ کہ متوجہ کیا گیا ‘ بلکہ اس عہد کی پاسداری کو مستحکم اور استوار رکھنے کے لیے ‘ ان تمام احکام اور اعمال پر بھی زور دیا گیا ہے ‘ جس سے اس عہد و پیمان کی یاددہانی اور اسے زندہ اور توانا رکھنے میں مدد مل سکے۔ عہد و پیمان کی یہ تمام تر تاکید اور امت اسلامیہ کی اصل حیثیت کا احساس ‘ اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو صرف اسی وقت تک توانا رہ سکتا ہے ‘ جب کہ ایک ایک فرد کے دل میں اس بات کا تصور زندہ رہے کہ مرنے کے بعد ایک دن ایسا ضرور آنے والا ہے ‘ جس دن ہمیں اللہ کی بارگاہ اور اس کی عدالت میں کھڑا کیا جائے گا اور ہم سے اس عہد و پیمان کے حوالے سے اور اسی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اعمال کے حوالے سے ‘ جواب طلبی ہوگی اور اگر ہم اپنے اس عہد و پیمان میں اس عدالت کے سامنے پورا اترنے میں کامیاب ٹھہرے ‘ تو ابدی نعمتوں سے ہمیں نوازا جائے گا اور اگر خدانخواستہ ہم ناکام ہوگئے تو ہمیشہ کا عذاب اور ذلت ہمارا مقدر بنے گی۔ چناچہ اس سورة کے آخری جو دو رکوع ہمارے پیش نظر ہیں ‘ ان میں اسی احساس کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ لیکن بات کا انداز اور اسلوب کلام کے تیور ایسے موثر اور تیکھے ہیں ‘ جسے پڑھتے ہوئے آدمی سہم سہم جاتا ہے۔ یَوْمَ یَجْمَعُ اللہ ُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ط قَالُوْا لاَ عِلْمَ لَنَا ط اِنَّکَ اَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ ۔ (اس دن کو یاد رکھو ! ) جس دن اللہ سب رسولوں کو جمع کرے گا ‘ پھر پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا ؟ وہ کہیں گے ہمیں کچھ علم نہیں ‘ غیب کی باتوں کا جاننے والا تو بس تو ہی ہے “۔ بارگاہِ الٰہی میں جوابدہی کا تصور اور اس کی عظمت اس آیت کریمہ میں ‘ اس آیت کا پہلا لفظ ” یَوْمَ “ سب سے پہلے قابل توجہ ہے۔ قبل اس کے کہ یہ بتایا جائے کہ اس دن کیا ہوگا اور اصل میں جس بات کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے ‘ وہ کیا ہے ‘ یَوْمَ کا لفظ کہہ کر اس دن کی ہولناکی کو نمایاں کیا گیا ہے کہ آج تمہیں جس عہد و پیمان کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے ‘ تمہیں کچھ خبر بھی ہے کہ اس عہد و پیمان کے بارے میں ‘ تمہیں جس عدالت کے سامنے کھڑے ہونا ہے ‘ وہ کوئی دنیا کی عدالت نہیں بلکہ وہ تو ایک ایسے دن کی عدالت ہے ‘ جس میں جج اور منصف کے منصب پر خود خداوند ذوالجلال فائز ہوں گے اور اس کے جلال اور اس کی ہیبت سے ہر چیز لرزہ براندام ہوگی۔ ایک بےکراں انسانی سمندر ‘ امید و بیم کی کیفیت میں سرتاپا محو انتظار ہوگا۔ اچانک ایک آواز گونجے گی ” لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ “ انسانو ! تم نے دنیا میں کیسی کیسی بادشاہتوں کے تخت و تاج بچھا رکھے تھے اور کیسی کیسی عظمتوں کے آستانے قائم کر رکھے تھے ‘ اپنے اقتدار اور اپنی بڑائی کے کیسے کیسے دعوے تھے ‘ بتائو ! آج کس کی حکومت ہے ؟ کون ہے جو مطلق العنان بادشاہ ہے ؟ جس کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں ؟ پھر خود ہی جواب دیا جائے گا : لِلَّہِ الْوَاحِدِ القَھَّارِ (آج اس اللہ کی حکومت ہے ‘ جو ایک ہے اور قہار ہے) مزید دل ہلا دینے والی بات یہ ہے کہ ایسے ہولناک اور ہیبت ناک دن میں ‘ سب سے پہلے جن کو حاضری کے لیے بلایا جائے گا ‘ وہ میرے اور آپ جیسے گناہ گار لوگ نہیں ہوں گے بلکہ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی عظمت پاکو فرشتے سلام کرتے ہیں۔ ساری کائنات مل کر جن میں سے کسی ایک کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ اللہ نے جنھیں معصوم پیدا فرمایا اور ہمیشہ انھیں اپنی حفاظت میں رکھا ‘ جنھوں نے انسانوں کو انسانیت کا جوہر عطا کیا اور جن کے احسانات سے آج تک دنیا میں خیر کا وجود زندہ ہے۔ جنھیں ہم انبیاء و رسل کے نام سے جانتے ہیں۔ اس دن اللہ تعالیٰ ان رسولوں کو جمع فرمائے گا اور سب سے پہلے جواب طلبی اور باز پرس ان سے ہوگی اور قرآن کریم میں دنیا ہی میں اس بات کا تذکرہ اس لیے فرمادیا گیا تاکہ نوع انسانی کے افراد اس دن کی اہمیت اور اس دن میں جواب دہی کی نزاکت کو آج ہی اچھی طرح محسوس کر کے اس کے لیے تیاری کرلیں اور یہ باور کرلیں کہ جس عدالت کے سامنے نوع انسانی کے گل ہائے سرسبد کھڑے ہونے پر مجبور ہوں گے ‘ اس میں ما و شما کا کیا حال ہوگا اور اگر آج اس دن کی تیاری نہ کی گئی تو پھر جس صورت حال سے دوچار ہونا پڑے گا ‘ آج شاید اس کا تصور کرنا بھی آسان نہ ہو۔ اللہ کے جن بندوں نے دنیا میں اس عدالت کی ہولناکی اور اس کی عظمت کو سمجھ لیا ‘ ان کی زندگی گناہوں سے پاک ہوگئی اور وہ اپنی ساری عظمتوں کے باوجود ‘ ہمیشہ اس تصور سے خوفزدہ رہے کہ بارگاہِ خداوندی میں کس طرح پیش ہو سکیں گے۔ تاریخ میں آتا ہے کہ کسی صاحب کو امام ابوحنیفہ (رح) سے کوئی کام تھا۔ اس نے سوچا امام صاحب نماز میں مل جائیں گے ‘ چناچہ وہ عشاء کی نماز میں مسجد میں چلا آیا۔ اتفاق سے نماز میں امام صاحب نے جو آیات تلاوت کیں ‘ اس میں یہ جملہ بھی تھا : وَاَمْتَازَو الْیَوْمَِ اَیُّھَا الْمُجْرِمْوُنَ (اے مجرمو ! آج الگ ہو کر کھڑے ہوجاؤ ) یعنی تمہیں اللہ کے نیکوکار بندوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی اجازت نہیں ‘ تمہیں الگ سے کھڑا ہونا ہوگا تاکہ تمہارے جرائم کے مطابق تم سے سلوک کیا جائے۔ یہ شخص جو امام صاحب سے ملنے کے لیے گیا تھا وہ کہتا ہے کہ نماز کے بعد میں نے امام صاحب کو دیکھا کہ بیٹھے ہوئے آہیں کھینچ رہے ہیں اور بار بار اس آیت کی تلاوت کر رہے ہیں۔ کہتا ہے میں نے دیر تک انتظار کیا ‘ حتیٰ کہ جب رات ڈھلنے لگی تو میں ناامید ہو کے اٹھ آیا۔ تہجد کے وقت پہنچا تو امام صاحب کو اسی کیفیت میں پایا۔ زار و قطار رو رہے تھے اور اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے یہ درخواست کر رہے تھے ‘ یا اللہ ! جس دن مجرموں کو الگ کیا جائے گا ‘ اپنے غلام نعمان پر رحم فرمانا اور اس کو بخش دینا۔ یہی وہ احساس ہے جو انسان کو راہ راست پر رکھتا ہے۔ چناچہ اس آیت کے پہلے ہی جملے میں یہ تصور دیا جا رہا ہے کہ قیامت کے دن کی ہولناکی کا کیا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جس میں اللہ کے نبیوں اور رسولوں کو بھی جواب دہی کے لیے کھڑا ہونا پڑے گا اور پھر اللہ ان سے سوال فرمائے گا : مَاذَآ اُجِبْتُمْبتائو تمہاری امتوں کی طرف سے تمہیں کیا جواب دیا گیا ؟ یہ سوال دوہری نوعیت کا ہے۔ اس میں پہلا سوال جو مضمر ہے ‘ وہ یہ ہے کہ بتائو اللہ نے جو شریعت تم پر اتاری تھی اور نبوت اور رسالت کے جس عظیم منصب پر تمہیں فائز کیا گیا تھا ‘ کیا تم نے اس کا پورا حق ادا کیا ‘ اللہ کے بندوں تک اس کی شریعت کا ایک ایک حکم پہنچایا اور پھر اس کے جواب میں تمہاری امتوں نے اس پیغام اور تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا۔ انھوں نے قبول کیا یا اسے رد کردیا ؟ اندازہ فرمایئے ! اس سورة میں تو بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ عہد و پیمان صرف ان لوگوں سے لیا جا رہا ہے ‘ جو اللہ کے رسول پر ایمان لائے ہیں۔ لیکن یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ ایمان لانے والے تو اس عہد و پیمان کے حوالے سے عدالت کے کٹہرے میں کھڑے کیے ہی جائیں گے ‘ وہ رسول بھی جواب دہی پر مجبور ہوں گے ‘ جو ان امتوں کی طرف مبعوث کیے گئے۔ اس سے اس عہد و پیمان اور اس کی جواب دہی کی عظمت کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ پیغمبر اس کے جواب میں کہیں گے کہ ہمیں اس کا کوئی علم نہیں کہ ہماری امتوں نے ہماری دعوت کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ان کے جواب کا مفہوم یہ ہے کہ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جنھوں نے ہماری دعوت کو رد کردیا ‘ ان کو تو پیغمبر جانتے ہیں۔ لیکن یہاں سوال ان کے بارے میں نہیں ‘ بلکہ سوال ان لوگوں کے بارے میں ہے ‘ جنھوں نے اس دعوت کو قبول کیا اور پھر اس کے تقاضوں اور ذمہ داریوں کے حوالے سے کیا کردار ادا کیا۔ ظاہر ہے ‘ اس بات کا جواب دینا پیغمبروں کے لیے ممکن نہ تھا۔ کیونکہ جواب کا تعلق دو باتوں سے ہے۔ ایک تو یہ کہ جن لوگوں نے اس دعوت کو قبول کیا ‘ کیا انھوں نے اسے ظاہری طور پر قبول کیا یا دل و دماغ کی آمادگی بھی اس کے ساتھ تھی اور انھوں نے واقعی اس کا ویسے ہی حق ادا کیا ‘ جیسے کرنا چاہیے تھا ؟ اس بات کا تعلق چونکہ انسان کے باطن سے ہے اور باطن کا جاننے والا تو صرف اللہ تعالیٰ ہے اور دوسری یہ بات کہ پیغمبروں کے دنیا سے اٹھائے جانے کے بعد ‘ ان کی امتوں نے اس دعوت کے ساتھ کیا سلوک کیا ‘ اس دعوت کے کیا نتائج نکلے اور اگلی نسلوں میں اس کے کیا برگ و بار پیدا ہوئے ؟ اس بات کا علم بھی پیغمبروں کو نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لیے انھوں نے عرض کیا کہ ہمیں اس کا کوئی علم نہیں۔ یعنی ہم اس کے بارے میں نہ تو یقینی طور پر کچھ جانتے ہیں اور نہ پوری تفصیل سے جانتے ہیں کیونکہ ان دونوں باتوں کا تعلق غیب سے ہے اور غیب کا علم رکھنے والا الٰہی تو ہی ہے ‘ ہم تو غیب کے جاننے والے نہیں : اِنَّکَ اَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ (بےشک غیبوں کے جاننے والے تو آپ ہی ہیں) علمِ غیب کی حقیقت یہاں ایک بات سمجھ لینی چاہیے اس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ہم ایک بےکار بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ اہل علم نے علم کی پاسداری چھوڑ دی ہے۔ لہٰذا معاملہ جہلا کے ہاتھوں میں ہے ‘ وہ بلا وجہ عوام کو آپس میں لڑاتے رہتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جہاں تک اللہ کے نبیوں اور رسولوں کے علم کا تعلق ہے ‘ وہ بلاشبہ اپنے دور کے سب سے بڑے عالم اور سب سے زیادہ باخبر لوگ ہوتے ہیں بلکہ ان کے علم کی رسائی وہاں تک ہوتی ہے ‘ جہاں دوسروں کے لیے دم مارنے کی مجال نہیں۔ پھر ان کے علم کی بنیادیں قیاسات اور تخمینوں پر نہیں اٹھائی جاتیں بلکہ ان کے علم کا ذریعہ اللہ کی وحی ہے ‘ جس میں غلطی اور گمان تک کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ وہ دنیا کو علم اور یقین سے بہرہ ور کرتے ہیں اور دنیا میں پروردگار انھیں علم اور یقین کے سرچشمے کی حیثیت سے بھیجتا ہے۔ لیکن ان کے پاس جو بھی اور جتنا بھی علم ہوتا ہے وہ ان کا ذاتی نہیں بلکہ پروردگار کی عطا اور اس کی دین ہے۔ وہ دین کے بارے میں کبھی یہ نہیں کہتے کہ ہم اس کو ازخود جانتے ہیں بلکہ ہمیشہ وہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ وہ دنیا میں دین کے حوالے سے کسی کے شاگرد نہیں ہوتے ‘ بلکہ وہ براہ راست اور کبھی جبرائیل کے واسطے سے ‘ اپنے پروردگار سے استفادہ فیض کرتے ہیں۔ جہاں تک علم غیب کا تعلق ہے اس کی تعریف یہ ہے کہ علم غیب اس علم کو کہتے ہیں جو از خود ہو، کوئی اس کا ذریعہ نہ ہو، ایسا علم ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نہیں ہے ہمارے رسول پاک ﷺ علم الاولین والاخرین کے مالک ہیں لیکن آپ کا یہ تمام تر علم اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے، وہ کبھی جبرائیل کے واسطے سے اترتا ہے کبھی براہ راست اللہ کی طرف سے القاء ہوتا ہے یہی حال باقی انبیاء و رسل کا بھی ہے اس لیے علمی لحاظ سے ان کے تمام علوم کو جن تک دنیا کی رسائی نہیں ہے علم غیب نہیں کہا جاسکتا یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے رسول اللہ ﷺ یا کسی اور نبی کے لیے عالم الغیب کا لفظ اختیار نہیں فرمایا اس رکوع میں بھی یہی کہا گیا کہ ہم تو کچھ نہیں جانتے علام الغیوب تو آپ ہیں۔ اگر اتنی سی بات کو سمجھ لیا جائے کہ یہ صرف ایک علمی اصطلاح کا معاملہ ہے نفس علم کا تو کوئی جھگڑا نہیں جو آدمی انبیاء کرام کے تمام دنیا سے زیادہ علم کا قائل نہیں وہ تو سرے سے مسلمان ہی نہیں سوال تو صرف یہ ہے کہ کیا ان کا یہ علم اپنے طور سے ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر نازل ہوتا تھا اگر دوسری صورت ہے تو اس کو علم تو کہیں گے علم غیب نہیں کہیں گے اور اگر پہلی بات ہے تو ایسا علم کسی پیغمبر کو حاصل نہیں یہ صرف اللہ کی صفت ہے۔ اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھ لیجئے۔ مشہور واقعہ ہے جس سے ہم سب واقف ہیں کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے صاحبزادے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بچپن میں ان کے بھائیوں نے کنعان کے ایک کنویں میں پھینک دیا اور گھر آکر اپنے والد گرامی سے یہ کہا کہ ان کو بھیڑیا کھا گیا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) باوجود پیغمبر ہونے کے یہ نہ جان سکے کہ بیٹا تین میل کے فاصلے پر کنویں میں پڑا ہے حتیٰ کہ یہ بیٹا ایک قافلے کی مدد سے مصر پہنچا عزیزمصر کے گھر میں پلا بڑھا پروردگار نے محض اپنے فضل و کرم سے اسے تخت و تاج کا وارث بنادیا لیکن حضرت یعقوب (علیہ السلام) اس کی جدائی میں روتے رہے پھر ایک وقت آیا کہ خود یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کو بتایا کہ میں ہی تمہارا بھائی یوسف ہوں۔ ان کو وہاں سے اپنا پیراہن دے کر روانہ کیا کہ جا کر ابا جان کی آنکھوں پر ڈال دینا وہ جو رو رو کے اندھے ہوگئے ہیں انشاء اللہ ان کی بینائی بحال ہوجائے گی۔ چناچہ جیسے ہی وہ پیراہن مصر سے چلا سینکڑوں میل پر بیٹھے ہوئے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے کہا کہ اگر تم یہ نہ کہو کہ میں بڑھاپے میں سٹھیا گیا ہوں تو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں یوسف کی خوشبو سونگھ رہا ہوں۔ شیخ سعدی نے اسی سوال کو منظوم کرتے ہوئے کہا ؎ یکے پرسید زاں گم کردہ فرزند زمصرش بوئے پیراہن شمیدی بگفت احوالِ ما برق جہاں است گہے بر طار اعلیٰ می نشینیم کہ اے روشن گہر پیر خرد مند چرا در چاہ کنعانش ندیدی دمِ پیدا و دیگر دم نہاں است گہے بر پشت پائے خود نہ بینیم (ایک آدمی نے اس بزرگ سے ‘ جس کا بیٹا گم ہوگیا تھا ‘ پوچھا کہ اے روشن گہر اور اے پیر خرد مند تو نے مصر سے تو بیٹے کے کرتے کی بو سونگھ لی ‘ لیکن کنعان کے کنویں میں تو اس کو کیوں نہ دیکھ سکا ؟ اس مردبزرگ (حضرت یعقوب۔ ) نے جواب دیا کہ ہم لوگوں کی حالت دنیا کی بجلی جیسی ہے ‘ ادھر چمکتی ہے ‘ ادھر بجھ جاتی ہے۔ کبھی تو ہمارا یہ حال ہوتا ہے کہ ہمیں ایک اونچے بالا خانے پر بٹھا دیا جاتا ہے (اور ہم سب کچھ دیکھتے ہیں) اور کبھی ہمارا یہ حال ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے پائوں کی پشت کی خبر نہیں ہوتی) اس واقعہ سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ پیغمبر کا علم سراسر اللہ کا عطیہ ہے۔ وہ جب چاہتا ہے ‘ جتنا چاہتا ہے ‘ عطا کرتا ہے اور جس کی ضرورت نہیں سمجھتا ‘ وہ عطا نہیں کرتا۔ اس لیے پیغمبر دنیا کو جن بےکراں علوم سے مالا مال کرتے ہیں ‘ وہ ان کی اپنی کاوشوں کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کی وحی کے ذریعے دنیا میں آتا ہے۔ اس لیے شیخ سعدی مرحوم نے فرمایا : علم غی بےکس نمی داند بجز پروردگار مصطفیٰ ہرگز نہ گوید تا نہ گوید جبرائیل ہر کسے گوید کہ می داند ازو باور مدار جبرائیل ہرگز نہ گوید تا نہ گوید کردگار ( اللہ کے سوا علم غیب کوئی نہیں جانتا۔ اگر کوئی شخص کہے کہ کوئی جانتا ہے تو اس کا یقین مت کروکیون کہ مصطفیٰ ﷺ کبھی کچھ نہیں فرماتے جب تک جبرائیل وحی لے کر نہیں آتے اور جبرائیل (علیہ السلام) ہرگز کبھی کچھ نہیں کہتے تاوقتیکہ پروردگار کا حکم نہیں ہوتا) تمام انبیاء و رسل کے اجمالی تذکرے کے بعد ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اسی جواب دہی کے حوالے سے ‘ کسی حد تک تفصیلی تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) انبیائے بنی اسرائیل کے سلسلے کے آخری رسول تھے اور مزید یہ بھی کہ ان کی تعلیم کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں دو قومیں تباہ ہوئیں۔ قوم یہود ان کی دشمنی کی وجہ سے اور عیسائی ان سے محبت میں غلو کے نتیجے میں۔ اس لیے یہاں بطور خاص ان کا تذکرہ کیا جا رہا ہے ‘ تاکہ یہودی اس کو سمجھ کر اپنی غلطی کو محسوس کریں اور عیسائی صحیح صورت حال سے آگاہ ہونے کے بعد اپنے عقائد کی اصلاح کریں۔
Top