Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 111
وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَى الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَ بِرَسُوْلِیْ١ۚ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ اشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَوْحَيْتُ : میں نے دل میں ڈال دیا اِلَى : طرف الْحَوَارِيّٖنَ : حواری (جمع) اَنْ : کہ اٰمِنُوْا بِيْ : ایمان لاؤ مجھ پر وَبِرَسُوْلِيْ : اور میرے رسول پر قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَاشْهَدْ : اور آپ گواہ رہیں بِاَنَّنَا : کہ بیشک ہم مُسْلِمُوْنَ : فرمانبردار
اور یاد کرو کہ جب حواریوں کے دل میں ‘ میں نے یہ بات ڈالی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لائو ‘ تو وہ بولے کہ ہم ایمان لائے اور تو گواہ رہ کہ ہم مسلم ہیں
وَاِذْ اَوْ حَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَ بِرَسُوْلِیْ ج قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاشْھَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ ۔ (111) ” اور یاد کرو کہ جب حواریوں کے دل میں ‘ میں نے یہ بات ڈالی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لائو ‘ تو وہ بولے کہ ہم ایمان لائے اور تو گواہ رہ کہ ہم مسلم ہیں “۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کا مذہب اسلام تھا ” حَوَارِیُّوْنَ “ حواری کی جمع ہے۔ یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے ‘ جس کا معنی ہے ” ہمدرد ‘ خیر خواہ ‘ غمگسار اور مددگار “۔ یوں کہنا چاہیے کہ یہ ” انصار “ کا ہم معنی لفظ ہے۔ جس طرح مدینے کے مسلمان ‘ اسلام کی نصرت و تائید اور مسلمانوں کی ہر طرح کی مدد کی وجہ سے ” انصار “ کہلائے اور اسلامی تاریخ میں نہایت عزت و وقار کی علامت بن گئے۔ اس کے قریب قریب مقام، عیسائیت میں ان حواریوں کا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں ‘ جنھوں نے ناگفتہ بہ حالات میں یہود کی دشمنی کی دہکتی آگ کے باوجود ایمان لانے کی ہمت کی۔ پھر اللہ کے اس دین کی تبلیغ و دعوت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی مدد کی اور انہی کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلفاء کی حیثیت بھی حاصل ہوئی۔ اس لیے بطور خاص ان کے ایمان کا تذکرہ کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ جبکہ ماحول قبولیتِ اسلام کے لیے بالکل ناسازگار تھا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی تبلیغ و دعوت مسلسل ناکامی کے زخم اٹھا رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ احسان فرمایا کہ ان غریب لوگوں کو اسلام لانے کی توفیق عطا فرمائی اور مزید اس میں ایک اور بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ لوگ جب اسلام لے آئے اور انھوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت قبول کرلی تو انھوں نے یہ نہیں کہا کہ ہم مسیحی ہیں بلکہ یہ کہا کہ ہم مسلمان ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جب بھی اللہ کا کوئی نبی یا کوئی رسول اللہ کے جانب سے دین لے کر آیا ہے تو اسکے ماننے والے ہمیشہ مسلمان ہی کہلائے ہیں۔ لیکن جب ان میں بگاڑ پیدا ہوا تو پھر اسکی انتہاء یہ ہوئی کہ وہ اپنا اصل نام گم کر بیٹھے اور کہیں وہ یہود ہوگئے اور کہیں مسیحی بن گئے۔ امت مسلمہ کے لیے یہ بات نہایت فکرمندی کی ہے کہ پہلی امتیں جس فساد کا شکار ہوئیں اور اپنا نام تک انھوں نے کھو دیا ‘ ہمیں اس حوالے سے نہایت احتیاط کی ضرورت ہے۔ یہ جو آئے دن نئے نئے انتسابات اس امت میں پیدا ہو رہے ہیں اور نئے نئے نام اختراع کیے جا رہے ہیں اگر اس صورتحال کو نہ روکا گیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی یہودو نصاریٰ کی طرح اپنے انجام کی گرفت میں آجائیں۔ ابھی میں نے عرض کیا کہ حواریوں کا عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کیا رشتہ تھا اور تبلیغ و دعوت میں ان کا کیا مقام رہا ہے اور امت عیسائیت پر ان کے کیا کیا احسانات ہیں چونکہ اس سلسلہ مضمون میں ان کا ذکر آگیا ہے تو اپنی اس اہمیت کی وجہ سے پروردگار نے یہ ضروری سمجھا ہے کہ عیسائی جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کو صحیح نہ سمجھنے کے باعث گمراہی کا شکار ہوئے ‘ اسی طرح انھوں نے حواریوں کی طرف بھی بعض غلط باتیں منسوب کردیں اور پھر اسی کو سند جان کر بہت ساری بدعات کو فروغ دینے میں کامیاب ہوگئے۔ اس لیے یہاں حواریوں کا تذکرہ کر کے عیسائیوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ تم حواریوں کے بارے میں نجانے کیا کیا غلط انتسابات کرچکے ہو۔ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ حواری پروردگار اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کیا تصورات رکھتے تھے۔
Top