Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 112
اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ١ؕ قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِذْ قَالَ
: جب کہا
الْحَوَارِيُّوْنَ
: حواری (جمع)
يٰعِيْسَى
: اے عیسیٰ
ابْنَ مَرْيَمَ
: ابن مریم
هَلْ
: کیا
يَسْتَطِيْعُ
: کرسکتا ہے
رَبُّكَ
: تمہارا رب
اَنْ
: کہ وہ
يُّنَزِّلَ
: اتارے
عَلَيْنَا
: ہم پر
مَآئِدَةً
: خوان
مِّنَ
: سے
السَّمَآءِ
: آسمان
قَالَ
: اس نے کہا
اتَّقُوا اللّٰهَ
: اللہ سے ڈرو
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
مُّؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع)
یاد کرو جبکہ حواریوں نے کہا کہ اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تمہارا رب یہ کرسکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے خوان اتارے ؟ اس نے کہا : اللہ سے ڈرو ! اگر تم سچے مومن ہو
اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ھَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآئِ ط قَالَ اتَّقُوا اللہ َ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۔ قَالُوْ نُرِیْدُ اَنْ نَّاکُلَ مِنْھَا وَ تَطْمَئِنَّ قُلُوْبُنَا وَ نَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَ نَکُوْنَ عَلَیْھَا مِنَ الشّٰھِدِیْنَ ۔ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآئِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لاَِّوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَۃً مِّنْکَ ط وَارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ ۔ قَالَ اللہ ُ اِنِّیْ مُنَزِّلُھَا عَلَیْکُمْ ج فَمَنْ یَّکْفُرْ بَعْدُ مِنْکُمْ فَاِنِّیْٓ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لآَّ اُعَذِّبُہٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ ۔ (112 تا 115) ” یاد کرو ! جبکہ حواریوں نے کہا کہ اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تمہارا رب یہ کرسکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے خوان اتارے ؟ اس نے کہا : اللہ سے ڈرو ! اگر تم سچے مومن ہو “۔ ” وہ بولے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوں اور ہم یہ جان لیں کہ تم نے سچ کہا اور ہم اس کی گواہی دینے والے بنیں “۔ ” عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی ‘ اے اللہ ! ہمارے پروردگار تو ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار ‘ جو ہمارے لیے یادگار بن جائے ‘ ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے اور تیری طرف سے ایک نشانی ٹھہرے ‘ عطا فرما تو بہترین عطا فرمانے والا ہے “۔ ” اللہ نے فرمایا : میں یہ خوان ضرور تم پر اتاروں گا لیکن اس کے بعد ‘ جو تم میں سے کفر کرے گا تو میں اس کو سزا بھی وہ دوں گا ‘ جو جہاں والوں میں سے کسی کو نہ دوں گا “۔ سب سے پہلے ان آیات کے بعض نکات پر غور فرمایئے۔ 1 حواری جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے براہ راست شاگرد اور آپ کے مقرب ترین صحابہ ہیں پہلی آیت کے آغاز ہی میں دیکھئے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو خطاب کرتے ہوئے ” اے عیسیٰ ابن مریم “ کہہ رہے ہیں۔ نہ انھیں اللہ کہہ رہے ہیں ‘ نہ ابن اللہ ‘ نہ اس طرح کا کوئی اور لقب۔ اگر اس طرح کی کسی بات کی گنجائش ہوتی تو عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کے اصل رازدان تو یہی لوگ تھے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے مزاج شناس بھی یہی تھے۔ وہ یقینا اس گنجائش سے فائدہ اٹھاتے اور آپ کو عیسیٰ ابن مریم کہنے کی جسارت کبھی نہ کرتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو جو دین سکھایا تھا اور دین کی جن بنیادی باتوں پر ان کی تربیت کی تھی ‘ اس کے حوالے سے وہ آپ کو عیسیٰ ابن مریم ہی سمجھتے تھے کیونکہ یہی اس کا تقاضہ تھا اور اس سے زیادہ یا کم کسی اور لفظ کا استعمال وہ ہرگز آپ کے لیے مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے ذہن میں عیسیٰ (علیہ السلام) ایک انسان تھے الوہیت کا کوئی تصور ان سے چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ اس لیے وہ اس سے مختلف کوئی بات آپ کے بارے میں نہ سوچ سکتے تھے اور نہ کہنے کی جسارت کرسکتے تھے۔ 2 اس سے پہلے کی آیت میں جیسا کہ ہم اشارہ کرچکے ہیں ‘ حواریوں نے جس دین کو قبول کیا ‘ اسے انھوں نے اسلام کا نام دیا اور اپنے آپ کو انھوں نے مسلمان کہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اچھی طرح اس بات کو سمجھتے تھے کہ یہ دین یہودیت یا نصرانیت نہیں بلکہ اسلام ہے۔ 3 ان آیات میں عیسیٰ (علیہ السلام) سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ وہ اپنے رب سے یہ دعا کریں کہ وہ ہم پر ایک خوان نعمت نازل کرے۔ اس آیت میں انھوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے براہ راست یہ نہیں کہا کہ آپ آسمان سے ہمارے لیے خوان نعمت اتاریں بلکہ ان سے درخواست کی جارہی ہے کہ آپ اللہ سے دعا مانگیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کو بالذات معجزات کا دکھانے والا نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کو صرف ان کے ظہور کا ایک ذریعہ جانتے تھے اور یہی وہ بنیادی تصور ہے ‘ جو ایک آدمی کو راہ راست پر رکھ سکتا ہے کیونکہ جب آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اصل قدرت کا مالک ‘ وہ پروردگار ہے اور جس کے ہاتھ سے اس قدرت کا اظہار ہو رہا ہے وہ صرف ایک ذریعہ ہے ‘ قدرت کا مالک نہیں۔ اب وہ جو کچھ بھی عبودیت کے احساسات اپنے اندر محسوس کرے گا اور پھر اس کی اچھی سے اچھی تعبیر لانے کی بھی کوشش کرے گا تو اس کی مصداق پروردگار کی ذات ہوگی اور وہ پیغمبر یا رسول مصداق نہیں ہوگا ‘ جس کے ہاتھ سے ان معجزات کا ظہور ہوتا ہے۔ آیت نمبر 12 میں ایک لفظ استعمال ہوا ہے ” ھَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ “ کہ اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تیرا رب طاقت رکھتا ہے کہ وہ ہماری مطلوب نعمت کو اتار سکے۔ اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ یہ حواری جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے صحابہ ہیں ‘ کیا انھیں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی طاقت کے بارے میں کچھ شبہ تھا کہ وہ بعض کام کرسکتا ہے اور بعض نہیں کرسکتا ‘ ظاہر ہے کوئی بھی مومن جو اللہ کو قادر مطلق مانتا ہے ‘ وہ کبھی بھی ایسے شب ہے کا اظہار نہیں کرسکتا۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس لفظ کا یہاں وہ مفہوم نہیں ہے ‘ جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ وہ اصل میں یہ کہنا چاہتے تھے کہ ” آپ اللہ سے اس نعمت کے نازل کرنے کے لیے دعا فرمائیں ‘ لیکن پہلے یہ معلوم کرلیں کہ کیا اللہ کی حکمت میں اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ ایسے معجزے کو ظاہر فرمائے اور ہمیں اس کی اجازت دے کہ ہم اس معجزے کا مطالبہ کرسکیں “ یعنی یہاں مقصود یہ نہیں ہے کہ ایسا کرنا اس کی قدرت میں ہے یا نہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ اس کی قدرت کا ظہور ہمیشہ اس کی حکمت کے ساتھ ہوتا ہے ‘ تو کیا ایسا معجزہ طلب کرنا اس کی حکمت کے مطابق بھی ہے یا نہیں۔ حواری صاحب ایمان لوگ تھے۔ وہ جانتے تھے کہ معجزات طلب کرنا ‘ اسکی بھی ایک خاص حد ہے۔ جب یہ طلب اس حد سے آگے نکل جائے اور وہ ایمان کے بنیادی تقاضوں ہی کو پامال کرنے لگے تو پھر اس کی اجازت نہیں دی جاتی بلکہ بعض دفعہ اس پر خدا کا عذاب آجاتا ہے۔ وہ یقینا اس مثال سے واقف تھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب کوہ طور پر تورات لینے کے لیے گئے تو اپنے ساتھ بنی اسرائیل کے چند اشراف کو بھی لے گئے۔ لیکن وہاں پہنچ کر ان اللہ کے بندوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے عجیب و غریب چیزوں کا مطالبہ شروع کردیا۔ وہ یہاں تک بڑھے ‘ کہنے لگے : لَنْ نُّوْمِنَ لَکَ حَتیٰ نَرَیٰ اللہ َ جَھْرَۃً (البقرۃ 2: 55) (ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے ‘ تاوقتیکہ کھلم کھلا اللہ کو نہ دیکھ لیں) اس پر وہ اللہ کے عذاب کی لپیٹ میں آگئے کیونکہ اللہ پر ایمان لانا ‘ ایک آزمائش ہے اور یہ آزمائش اس وقت تک ہے ‘ جب تک بن دیکھے اللہ کو مانا جائے اور اگر یہ شرط لگا دی جائے کہ میں اللہ کو دیکھ کر ایمان لائوں گا تو پھر یہ آزمائش نہیں رہتی کیونکہ دیکھ کر کسی چیز کو مان لینا ‘ یہ تو ایک معمول کی بات ہے۔ ایمان تو اصل میں اللہ کے نبی پر اعتماد کرتے ہوئے تمام ان باتوں کو ماننا ہے ‘ جنھیں مانے بغیر آدمی مومن نہیں ہوسکتا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے ‘ جیسے میں کسی سے یہ کہوں کہ فلاں جگہ ‘ فلاں واقعہ پیش آیا اور وہ مجھے پلٹ کر یہ کہے کہ اس طرح ہم نہیں مانتے۔ آپ ہمیں وہاں لے جا کر دکھایئے ‘ دیکھنے کے بعد ہم مانیں گے۔ آپ اندازہ فرمایئے کہ اگر وہ دیکھ کر مان بھی گئے تو اس کی میرے نزدیک کیا قدر و قیمت ہوگی کیونکہ میرے نزدیک قدر و قیمت تو تب ہوگی ‘ جب میرے اعتماد پر اسے تسلیم کیا جائے۔ یہ باتیں حواری جانتے تھے۔ اس لیے انھوں نے اللہ سے ڈرتے ہوئے یہ بات کہی کہ ہم اپنی آنکھوں سے یہ معجزہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے آپ اس کا اطمینان کرلیں کہ یہ پروردگار کی حکمت کے مطابق ہے یا نہیں۔ اگرچہ یہ مطالبہ ایسا تو نہیں تھا ‘ جسے ایمانی حقیقت کے خلاف قرار دیا جاتا۔ لیکن یہ ضرور تھا کہ یہ پیغمبر کے اصحاب کے مقام و مرتبہ سے میل نہیں کھاتا تھا۔ اس لیے حضرت عیسیٰ ٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : اللہ سے ڈرو ! اگر تم مومن ہو۔ ایمان لانے کے بعد معجزات کی طلب ‘ کوئی پسندیدہ روش نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام کے بارے میں کوئی ایک واقعہ بھی ریکارڈ پر نہیں کہ ایمان کے دائرے میں آنے کے بعد کبھی بھی اس طرح کے کسی مطالبے کے بارے میں انھوں نے سوچا بھی ہو۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری یقینا برگزیدہ لوگ تھے ‘ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس دور کا واقعہ ہے ‘ جبکہ وہ ابھی زیر تربیت تھے اور پھر یہ بات بھی ہے کہ اصحاب محمد ﷺ اور اصحاب عیسیٰ (علیہ السلام) دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے۔ ان آیات کے سلسلے میں ایک بات مزید کہنے کی ہے ‘ وہ یہ کہ یہاں جس خوان نعمت کا مطالبہ کیا گیا ہے ‘ کیا وہ نازل کیا گیا یا نہیں ؟ اس بارے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے کیونکہ قرآن کریم میں اس کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا اور انجیل میں تو سرے سے اس واقعے کا تذکرہ ہی نہیں۔ اس لیے اکثر اہل علم کی رائے یہ ہے کہ جب پروردگار نے یہ تنبیہ کی کہ تمہارے مطلوبہ معجزے کو میں نازل تو کر دوں گا ‘ لیکن اس کے بعد اگر کسی نے کفرانِ نعمت کیا تو سزا ایسی دوں گا ‘ جو آج تک کسی کو نہیں ملی ہوگی۔ اس سے حواری خوفزدہ ہوگئے۔ چناچہ انھوں نے اپنی درخواست واپس لے لی۔ لیکن بعض لوگ اِنِّیْ مُنَزِّلُھَا عَلَیْکُمْ سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایک طرح سے پروردگار کا وعدہ ہے۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ یہ مائدہ نازل نہ کیا گیا ہو۔ اب سوال صرف یہ ہے کہ اگر یہ نازل کیا گیا تو اس کے بعد کیا ہوا ؟ اس کے بارے میں کوئی بات کہنا ممکن نہیں کیونکہ جتنی باتیں اس حوالے سے کہی گئی ہیں ‘ ان میں سے کوئی بات بھی ثبوت کے مقام کو نہیں پہنچتی۔ تمہید سابقہ آیات میں عیسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ کے احسانات کا ذکر ہوا تاکہ یہود پر اتمام حجت ہوجائے۔ پھر اس میں ” بِاِذْنِیْ “ کی تکرار سے عیسائیوں پر اتمامِ حجت کیا گیا کہ تم ان معجزات کو عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف بالذات منسوب نہ کرو ‘ وہ صرف ان کا واسطہ ہیں۔ اصل فاعل اللہ کی ذات ہے۔ اس لیے تمہیں اللہ کی قدرت کا قائل ہونا چاہیے نہ یہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کے منصب پر فائز کردو۔ پھر حواریوں کے تذکرے سے مزید عیسائیوں کو سمجھایا گیا کہ دیکھو ! جو براہ راست حضرت مسیح کے شاگرد تھے ‘ ان کا تصور حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں کیا تھا اور تم ان کو کیا سمجھے بیٹھے ہو۔ ان باتوں کو ذکر کرنے کے بعد اگلی آیات میں عجیب منظر نامہ ہمارے سامنے پیش کیا جا رہا ہے ‘ جس کا ایک ایک لفظ دل کو ہلا دینے کے لیے کافی ہے۔ اس میں جہاں عیسائیوں کے لیے بہت عبرت کے مقامات ہیں ‘ وہاں مسلمانوں کے لیے بھی غور و فکر کا بہت مواد ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک امت کی بےاعتدالیاں ‘ کس طرح ایک برگزیدہ پیغمبر کو عدالت ِ خداوندی کے کٹہرے میں کھڑا کردیں گی اور کس طرح ان کی بداعمالیوں کا حساب ان کے برگزیدہ پیغمبر سے لیا جائے گا۔ اسکو دیکھتے ہوئے یہ اندیشہ ہونے لگتا ہے کہ کہیں امت مسلمہ کی بےاعتدالیاں ‘ جو وہ اولیائے امت کے بارے میں روا رکھتے ہیں ‘ کہیں ان اولیائے کرام کو اللہ کی عدالت میں کھڑا ہونے پر مجبور نہ کردیں۔ آج جو کچھ ہم بڑے بڑے بزرگانِ دین کے مزاروں پر کر رہے ہیں اور جیسے جیسے تصورات ‘ ان کے بارے میں ہم نے اختیار کرلیے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان بزرگوں کو ان کی جواب دہی کرنا پڑے حالانکہ یہی وہ بزرگ ہیں ‘ جو برصغیر کے ایک ایک مسلمان کے محسن ہیں۔ لاہور میں حضرت شیخ علی ہجویری المعروف داتا صاحب اور پاکپتن میں حضرت بابا فرید الدین گنج شکر اور اسی طرح اور بزرگان دین ‘ اگر نہ ہوتے تو پنجاب میں لوگ شاید مڑھیاں پوج رہے ہوتے۔ نہ جانے کتنے لوگ آج تک اسلام کی دولت سے محروم ہوتے۔ اس لحاظ سے ہمارا رواں رواں ان کا شکر گزار ہے۔ لیکن دکھ کی بات تو یہ ہے کہ انھوں نے ہمیں تعلیم کیا دی تھی اور ہم ان کے مزاروں پر کیا کر رہے ہیں ؟ بعض دفعہ ایسی ایسی باتیں سننے میں آتی ہیں کہ آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ ایک مسلمان بھی کبھی اس طرح سوچ سکتا ہے۔ ایک ذمہ دار آدمی نے مجھے یہ صحیح واقعہ سنایا کہ لاہور کی ایک فیملی حج کرنے گئی ‘ چند دنوں کے بعد اس خاندان کی بڑی اماں کا اہل خانہ کو خط ملا کہ اللہ کا شکر ہے ‘ ہم خیریت سے مکہ معظمہ میں ہیں۔ عمرہ ادا ہوگیا ہے۔ روزانہ حرم میں نماز پڑھتے ہیں ‘ طواف کرتے ہیں ‘ اب صرف حج کا انتظار ہے۔ آپ سب لوگ داتا صاحب کے مزار پر جا کر دعا کرنا کہ اللہ ہمیں خیریت سے واپس لائے۔ شاید ایسے ہی احساسات تھے جن کی وجہ سے آنحضرت ﷺ آخری دنوں میں بار بار اس فکر مندی کا اظہار فرماتے تھے کہ جن باتوں سے اہل کتاب گمراہ ہوئے ‘ کہیں وہ باتیں اس امت میں بھی نہ آجائیں۔ صحابہ ( رض) کہتے ہیں کہ آپ بار بار یہ فرما رہے تھے : لعن اللہ الیہود والنصاری اتخذوا قبور انبیائھم مساجدًا ( اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے ‘ انھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا) اس سے امت کو یہ سمجھانا مقصود تھا کہ دیکھو ! اگر نبیوں کی قبریں سجدہ گاہ نہیں بن سکتیں تو پھر اولیاء امت کی قبریں سجدہ گاہ کیسے بن سکتی ہیں ‘ اس لیے دیکھنا تم کسی افراط وتفریط کا شکار نہ ہونا۔ اب اگلی آیات کو ملاحظہ فرمایئے جس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ان کی امت کی بےاعتدالیوں کے حوالے سے جواب طلبی کی گئی ہے :
Top