Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 120
لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا فِیْهِنَّ١ؕ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
لِلّٰهِ : اللہ کے لیے مُلْكُ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَ : اور مَا : جو فِيْهِنَّ : ان کے درمیان وَهُوَ : اور وہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت والا۔ قادر
آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے ‘ سب کی بادشاہی ‘ اللہ ہی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے
لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالاَْرْضِ وَمَا فِیْھِنَّ ط وَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرُٗ ۔ (المائدہ : 120) ” آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے ‘ سب کی بادشاہی ‘ اللہ ہی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے “۔ انسان کی فلاح کا حقیقی نسخہ یہ سورة مائدہ کی آخری آیت ہے۔ اس میں نہ صرف سورة مائدہ کی تعلیمات کی روح کھینچ لی گئی ہے بلکہ یہ تمام اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ انسان کی تمام گمراہیوں کا اصلی سبب یہ ہے کہ وہ اپنی ذات سمیت ‘ تمام زیر تصرف دنیا کا مالک اور حاکم انسانوں کو سمجھتا ہے اور یا ان قوتوں کو جن کے بارے میں اس نے کچھ تصورات اختیار کر رکھے ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ وہ انسانوں اور ان قوتوں کے سامنے اپنی ضرورتوں کے لیے دست سوال دراز کرتا ہے۔ اپنی تنہائیوں میں انھیں سے مناجاتیں کرتا ہے اور محسوس دنیا میں انھیں کے سامنے جھکتا اور انھیں کو اختیارات کا مالک سمجھتا ہے۔ قانون کی ضرورت پڑتی ہے تو انسانوں کے وضعی قوانین کو اختیار کرتا ہے۔ تہذیب اور تمدن کے لیے ‘ انھیں کی دریوزہ گری کرتا ہے۔ خوف اور امید میں انھیں کو اپنا آستانہ سمجھتا ہے۔ گویا خود انسان اور انسانی ادارے اس کی عبادت گاہ بھی ہیں اور اس کی عقیدت کا مرکز بھی۔ وہی اس کے لیے تخت و تاج کی حیثیت رکھتے ہیں اور انھیں کی قوتیں اور طاقتیں ‘ اس کے لیے پناہ گاہیں ہیں۔ انہی تصورات نے انسانوں کو ہمیشہ اللہ سے یکسر بیگانہ کیا ہے۔ اس لیے اس بنیادی خرابی کا علاج کرنے کے لیے ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ زمین و آسمان اور ان کے درمیان بسنے والی قوتیں اور مخلوقات ‘ ان تمام کا اگر کوئی مالک ہے ‘ کوئی حاکم ہے اور کسی کو ان پر حکومت چلانے کا حق ہے اور کوئی ان کو قانون کی اطاعت پر مجبور کرسکتا ہے تو وہ صرف ایک اللہ ہے۔ اسی کی قدرتیں بےپناہ ہیں۔ ساری دنیا کی قوتیں اس کے سامنے پرکاہ جیسی حیثیت بھی نہیں رکھتیں۔ اس کی قدرتوں میں ‘ اس کے علم میں ‘ اس کی حاکمیت میں ‘ کوئی اس کا شریک وسہیم نہیں۔ یہی وہ تصور ہے جس نے ہمیشہ انسانی زندگی کی اصلاح کی اور آج بھی اسلام اسی کی دعوت دیتا ہے اور یہی انسانی زندگی کے بگاڑ کو دور کرنے کا حقیقی نسخہ ہے کیونکہ باقی تمام نسخے انسان کو بگاڑ تو سکتے ہیں سنوار کچھ نہیں سکتے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے انہی تصورات کو سمیٹتے ہوئے کہا : کہ ہے ذات واحد عبادت کے لائق اسی کے ہیں فرماں اطاعت کے لائق لگائو تو لو اپنی اس سے لگائو اسی پر ہمیشہ بھروسہ کرو تم اسی کے غضب سے ڈرو ‘ گر ڈرو تم مبرا ہے شرکت سے اس کی خدائی زباں اور دل کی شہادت کے لائق اسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق جھکائو تو سر اس کے آگے جھکائو اسی کے سدا عشق کا دم بھرو تم اسی کی طلب میں مرو ‘ جب مرو تم نہیں اس کے آگے کسی کو بڑائی
Top