Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 21
یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِیْ كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَرْتَدُّوْا عَلٰۤى اَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ
يٰقَوْمِ : اے میری قوم ادْخُلُوا : داخل ہو الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ : ارضِ مقدس (اس پاک سرزمین) الَّتِيْ : جو كَتَبَ اللّٰهُ : اللہ نے لکھ دی لَكُمْ : تمہارے لیے وَلَا تَرْتَدُّوْا : اور نہ لوٹو عَلٰٓي : پر اَدْبَارِكُمْ : اپنی پیٹھ فَتَنْقَلِبُوْا : ورنہ تم جا پڑوگے خٰسِرِيْنَ : نقصان میں
اے میرے ہم قومو ! اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجائو ‘ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور پیٹھ پیچھے نہ پھرو۔ ورنہ ! نامرادوں میں سے ہو کر رہ جائو گے
یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللہ ُ لَکُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ ۔ (المائدہ : 21) (اے میرے ہم قومو ! اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ ‘ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور پیٹھ پیچھے نہ پھرو۔ ورنہ ! نامرادوں میں سے ہو کر رہ جاؤ گے) کوہِ سینا پر بنی اسرائیل کی پرورش ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو لے کر بحرقلزم سے نکلے اور جزیرہ نما سینا میں داخل ہوئے ‘ آپ کی منزل کوہ سینا تھی ‘ جسے ہم ” کوہ طور “ کہتے ہیں۔ آپ اس کے دامن میں جا کر ٹھہرنا چاہتے تھے۔ یہ صحرا ایسا نہیں تھا کہ سرے سے اس میں انسانوں کا نشان نہ ہو بلکہ راستے میں بہت سی بستیاں بھی تھیں جن میں بعض قبائل آباد تھے اور ان بستیوں کے نام بھی تاریخ میں محفوظ ہیں۔ چناچہ آپ مارہ ‘ ایلیم اور عیدیم کی بستیوں سے ہوتے ہوئے کوہ سینا کی طرف آئے اور ایک سال سے بھی زائد مدت تک اس مقام پر ٹھہرے رہے۔ یہیں پر تورات کے بیشتر احکام نازل ہوئے اور یہیں وہ بڑے بڑے معجزات پیش آئے جس کا قرآن کریم نے بھی ذکر کیا ہے اور تاریخ بھی اس کا ذکر کرتی ہے۔ مثلاً ابر کا سایہ کرنا ‘ چٹان سے بارہ چشموں کا پھوٹنا ‘ من وسلویٰ کا نازل ہونا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر ایسے ایسے احسانات کیے ہیں ‘ جس کی مثال ہمیں اور کہیں نہیں ملتی۔ ورنہ انسانوں کا یہ ہجوم کہ اسرائیلی روایات کے مطابق اس کی تعداد چھ لاکھ تک پہنچتی ہے۔ اچانک صحرائے سینا میں پہنچا ہے ‘ جہاں زندگی گزارنے کے کوئی امکانات نہیں۔ اگر اس طرح قدرت ان کی پاسبانی نہ کرتی اور ان کو زندگی گزارنے کے امکانات مہیا نہ کرتی تو یہ بھوک اور پیاس کی شدت اور موسمی حملوں سے ہلاک ہوجاتے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کسی ملک میں کوئی ایسا بڑا حادثہ ہوجاتا ہے ‘ جس کے نتیجے میں وہاں سے چند لاکھ مہاجرین نکلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں تو جس پڑوسی ملک میں مہاجرین کا یہ قافلہ داخل ہوتا ہے ‘ وہ ملک سراپا احتجاج بن جاتا ہے اور نتیجتاً اس کی استعانت اور استمداد کا دائرہ پوری دنیا تک پھیل جاتا ہے ‘ اقوام متحدہ حرکت میں آتی ہے ‘ تب بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہونے پاتا حالانکہ آج کی دنیا کے پاس وسائلِ رزق اور وسائلِ مواصلات کی وہ فراوانی ہے جس کا اس دور میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ لیکن قدرت کی کارفرمائی دیکھئے کہ اس نے اتنی بڑی تعداد میں ایک امت کو زندہ رکھا اور اپنی طرف سے اس پر ایسے حیرت انگیز انتظامات کیے جس کا تصور بھی آج مشکل ہے۔ ” من “ یعنی ایک طرح کی گوند نما چیز زمین پر گرتی اور یہ اس کو اٹھا کر اس کی روٹی بنا لیتے جو حلوے سے زیادہ لذیذ ہوتی تھی۔ ” سَلْوٰی “ بٹیر کی طرح کا ایک پرندہ تھا جو ان کے خیموں سے ٹکرا ٹکرا کے گرتا اور یہ اس کے گوشت سے محظوظ ہوتے۔ پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اسے عصائے موسیٰ کی ضرب سے اللہ تعالیٰ نے ایک چٹان سے بارہ چشموں کی صورت میں ایسے رواں کردیا کہ ہر قبیلے کے لیے الگ الگ گھاٹ مقرر کردیئے گئے۔ بنی اسرائیل کا جہاد سے انکار اسی کوہ سینا میں جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی معرفت بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا کہ تم ارض مقدسہ یعنی فلسطین کی طرف جاؤ اور اسے فتح کرلو ‘ اللہ نے اسے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔ یعنی اسے تمہاری میراث بنادیا ہے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لیے ہوئے تبعیر اور حصیرات کے راستے جب دشت فاران میں تشریف لائے تو وہاں آپ نے اپنی قوم کو یہ حکم سنایا اور وہیں آپ نے ان میں سے بارہ نقیب مقرر فرمائے اور انھیں فلسطین کے حالات معلوم کرنے کے لیے روانہ فرمایا۔ یہ بارہ افراد پر مشتمل وفد کئی دن گزارنے کے بعد (بعض روایات کے مطابق چالیس دن تک) فلسطین کے مختلف علاقوں کا جائزہ لینے کے بعد واپس آیا اور قادس جو دشت فاران کا آخری علاقہ ہے ‘ وہاں آکر انھوں نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ حضرت یوشع اور کالب کے سوا پورے وفد کی رپورٹ نہایت حوصلہ شکن تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اس علاقے میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں ‘ بڑا خوشحال علاقہ ہے ‘ نعمتوں کی فراوانی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم نے وہاں بنی عناق کی نسل کے لوگوں کو دیکھا ہے (جن کو تورات اور قرآن کریم نے ” جبار “ کہا ہے) ” جبار “ عربی زبان میں کھجور کے ان درختوں کو کہتے ہیں جو بہت قدآور ہوں اور بڑا سایہ دیں۔ انسانوں میں بھی ” جبار “ بڑے مضبوط اور قدآور لوگوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ایسے قدوقامت کے لوگ ہیں کہ ہم ان کی نظروں میں ایسے لگتے تھے جیسے ٹڈے۔ کہنے لگے کہ اگر وہ لوگ وہاں نہ ہوں تو وہاں کی خوشحالی اور فارغ البالی کے باعث ہم ہر وقت وہاں جانے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن ان کی موجودگی میں ہم وہاں جائیں ‘ یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ ان کی موجودگی میں جانے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہاں جا کر ہم ان کی تلواروں کا قیمہ بنیں۔ چناچہ یہ ساری قوم رات بھر روتی رہی اور موسیٰ (علیہ السلام) سے شکایت کرتی رہی کہ تم ہمیں یہاں اس لیے لائے تھے کہ ہمارا قیمہ بنواؤ اور اس کے بعد ہماری بیویاں اور بیٹیاں ان کی لونڈیاں اور بچے غلام بن جائیں اور پھر آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ آئو ہم کسی کو اپنا سردار بنالیں اور مصر کو لوٹ چلیں۔ اس پر ان بارہ نقیبوں (سرداروں) میں سے جو فلسطین کے دورے پر بھیجے گئے تھے۔ دو سردار یوشع اور کالب اٹھے اور انھوں نے اس بزدلی پر قوم کو ملامت کی۔ کالب نے کہا چلو ہم ایک دم جا کر اس ملک پر قبضہ کرلیں کیونکہ ہم اس قابل ہیں کہ اس پر تصرف کریں۔ پھر دونوں نے یک زبان ہو کر کہا اگر خدا ہم سے راضی رہے تو وہ ہم کو اس ملک میں پہنچائے گا۔ صرف یہ ہونا چاہیے کہ تم خداوند خدا سے بغاوت نہ کرو اور نہ اس ملک کے لوگوں سے ڈرو اور ہمارے ساتھ خداوند ہے ‘ سو ان کا خوف نہ کرو۔ مگر قوم نے جواب یہ دیا کہ انھیں سنگسار کردو۔
Top