Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 27
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ١ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ١ؕ قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَ١ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ
وَاتْلُ : اور سنا عَلَيْهِمْ : انہیں نَبَاَ : خبر ابْنَيْ اٰدَمَ : آدم کے دو بیٹے بِالْحَقِّ : احوال واقعی اِذْ قَرَّبَا : جب دونوں نے پیش کی قُرْبَانًا : کچھ نیاز فَتُقُبِّلَ : تو قبول کرلی گئی مِنْ : سے اَحَدِهِمَا : ان میں سے ایک وَلَمْ يُتَقَبَّلْ : اور نہ قبول کی گئی مِنَ الْاٰخَرِ : دوسرے سے قَالَ : اس نے کہا لَاَقْتُلَنَّكَ : میں ضرور تجھے مار ڈالونگا قَالَ : اس نے کہا اِنَّمَا : بیشک صرف يَتَقَبَّلُ : قبول کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ مِنَ : سے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
اور ان کو آدم کے دو بیٹوں کی سرگزشت اس کی حکمت کے ساتھ سنائو ‘ جب کہ ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قربانی قبول نہیں ہوئی۔ وہ بولا کہ میں تجھے قتل کر کے رہوں گا۔ اس نے جواب دیا اللہ تو صرف اپنے متقی بندوں کی قربانی قبول کرتا ہے
تمہید اس سے پیشتر کے رکوع میں بنی اسرائیل کے بارے میں ہمیں یہ بتایا گیا کہ اللہ نے ان پر بیشمار انعامات فرمائے ‘ تورات ان پر نازل کی گئی ‘ موسیٰ (علیہ السلام) جیسا جلیل القدر نبی ان کی طرف مبعوث ہوا۔ لیکن اس کے باوجود جب انھیں فلسطین کو فتح کرنے کا حکم دیا گیا تو صرف اس لیے انھوں نے اس حکم پر عمل کرنے سے انکار کردیا کہ فلسطین میں ایک طاقتور قوم آباد ہے۔ ہم اپنے اندر اس کے مقابلے کی ہمت نہیں پاتے۔ جس کے نتیجے میں انھیں یہ سزا دی گئی کہ بیس سال کی عمر سے اوپر کے تمام لوگ اسی صحرائے تیہ میں سرگرداں رہیں گے اور یہیں ان کو موت آئے گی۔ فلسطین کو فتح کرنے کی توفیق ان کی اولاد کو ہوگی ‘ لیکن یہ اس سے محروم رہیں گے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ تمام بنی اسرائیل کے لوگ فرعون کی غلامی میں وہ تمام خصائص کھو چکے تھے ‘ جن کے نتیجے میں قومی خودداری ‘ خود اعتمادی اور سرفروشی جیسے خصائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے پروردگار نے یہ حکم دیا کہ یہ ہر طرح کی آزادی کی خصوصیات سے بےبہرہ لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ ان پر کسی آزاد ملک کی ذمہ داری ڈالی جائے۔ کیونکہ آزادی کی ذمہ داریوں کا بوجھ یا معرکہ کارزار میں سرخرو ہونے کی سعادت صرف ان کو نصیب ہوتی ہے جو آزاد فضا میں جیتے ہیں اور صحرائی زندگی میں تربیت پاتے ہیں۔ امت مسلمہ کو یہ سبق دیا گیا کہ تم اپنی شہری زندگی میں دیکھنا کبھی جفاکوشی ‘ سرفروشی اور جاں سپاری کی صفات کو اپنے اندر سے جانے نہ دینا ‘ ورنہ تمہارا انجام بھی بنی اسرائیل سے مختلف نہ ہوگا۔ جس رکوع کو اب ہم پڑھنے لگے ہیں اس میں پروردگار نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا قصہ بیان کیا ہے جس میں ایک نے دوسرے کو قتل کردیا تھا۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جس طرح اجتماعی زندگی میں سرفروشی اور ایثار و قربانی بنیادی صفات ہیں ‘ جس کے بغیر کوئی قوم اپنا تشخص باقی نہیں رکھ سکتی ‘ اسی طرح انفرادی زندگی کے باہمی معاملات میں ہمواری ‘ حسد ‘ بغض سے دوری ‘ اخلاص اور بےنفسی اس کی بقا کی ضامن ہیں۔ بنی اسرائیل اگر اجتماعی خصائص کھو دینے کی وجہ سے اللہ کے عذاب کے مستحق ٹھہرے تو قابیل انفرادی صفات سے محروم ہو کر شخصی نامرادی کی علامت بن گیا۔ اس لیے امت مسلمہ کو جہاں بنی اسرائیل کے انجام سے سبق سیکھنا ہے وہیں انھیں یہ بات بھی ذہن نشین کرنی ہے کہ کوئی اجتماعی زندگی ‘ انفرادی زندگی کی اصلاح کے بغیر استوار نہیں ہوتی۔ اجتماعی زندگی ایک کشتی کی مانند ہے اور انفرادی زندگی کشتی کے تختوں کی طرح۔ اگر کشتی کے تختے دیمک زدہ ہیں تو کشتی کبھی مضبوط اور پائیدار نہیں ہوسکتی۔ دوسری بات جو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کے قصے میں بہت نمایاں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ دونوں حقیقی بھائی کا رشتہ رکھتے تھے۔ لیکن جب ایک نے اپنی کمزوریوں کے علاج کی بجائے اپنے بھائی کی خوبیوں سے حسد کرنا شروع کیا اور اپنی محرومیوں کا سبب اپنے بھائی کی نیکیوں کو سمجھا تو نتیجہ یہ ہوا کہ اس سے ایک ایسا فعل سرزد ہوا جس سے اس کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوگئیں۔ اس قصے کے ذریعے بنی اسرائیل کو بتایا جا رہا ہے کہ بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل دونوں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں۔ دونوں میں ہم نسل ہونے کا رشتہ ہے لیکن بنی اسرائیل صرف اس لیے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں کہ وہ بجائے بنی اسرائیل کے بنی اسماعیل میں کیوں پیدا ہوگئے۔ نبوت تو ہمارے گھر میں آنا تھی ‘ یہ بنی اسماعیل میں کیسے چلی گئی۔ ان کو بھی اسی طرح حسد کا دورہ پڑا جیسے قابیل کو پڑا تھا۔ وہ یہ بات بھول گئے کہ نبوت سراسر اللہ کا عطا کردہ ایک اختصاص ہے ‘ جس میں کسی کی ذاتی پسند و ناپسند کا کوئی دخل نہیں۔ پہلے اگر اس نے بنی اسرائیل سے پیغمبر اٹھائے تو اب یہ سعادت اگر اس نے بنی اسماعیل کے گھر میں منتقل کردی ہے تو دین داری کا تقاضہ تو یہ ہے کہ بنی اسرائیل اسے آگے بڑھ کر اور اپنی متاع جان کر اس کی پیروی کریں نہ کہ حسد کی آگ میں جل کر اپنی قسمت کو آگ لگا دیں۔ چناچہ یہ بات سمجھانے کے لیے اس واقعہ کو بیان کیا جا رہا ہے۔ وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ م اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ ط قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ ط قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللہ ُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ ۔ (المائدہ : 27) (اور ان کو آدم کے دو بیٹوں کی سرگزشت اس کی حکمت کے ساتھ سنائو ‘ جب کہ ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قربانی قبول نہیں ہوئی۔ وہ بولا کہ میں تجھے قتل کر کے رہوں گا۔ اس نے جواب دیا اللہ تو صرف اپنے متقی بندوں کی قربانی قبول کرتا ہے) قصہ ہابیل اور قابیل کی بنیاد ” حسد “ اس آیت کریمہ میں سرگزشت کے لیے نبَاَ کا لفظ استعمال ہوا ہے نَبَا کسی عام خبر پر نہیں ‘ بلکہ بہت ہی اہم خبر پر بولا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے دوسری جگہ قیامت کے لیے النَبَأ الْعَظِیْم کا لفظ بولا ہے۔ اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے صرف دو لڑکوں کا قصہ بیان کیا ہے اور اس کو نبَاَ یعنی بہت اہم خبر قرار دینا ‘ بظاہر یہ عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو یہ بات عجیب نہیں لگتی بلکہ ایک بہت اہم حقیقت کی طرف نشاندہی کرتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ انسانی رویئے یا انسانی معاملات کی ساری خرابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ آدمی اپنی کمزوری کو سمجھنے کی بجائے اس کا ذمہ دار دوسرے کی نیک نامی کو ٹھہرائے اور بجائے اپنی اصلاح کرنے کے حسد کے مرض میں مبتلا ہوجائے۔ اگر یہ کیفیت کسی بھی آدمی میں پیدا ہوتی ہے تو کبھی بھی اس کی اصلاح کی امید نہیں کی جاسکتی۔ یہ ایک ایسا بخار ہے کہ جب کسی بھی انسان یا کسی بھی قوم کے دماغ کو چڑھتا ہے تو عدل اور احسان کا خون کیے بغیر نہیں اترتا اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ اس حسد کے نتیجے میں دوسرا شخص ظلم کا شکار ہوتا ہے ‘ لیکن حسد کے مریض کو اس سے کوئی آسودگی نہیں ملتی ‘ بلکہ وہ خود اپنی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ مزید غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اگرچہ ان دو لڑکوں میں سے ایک لڑکے میں اس مرض کی نشاندہی کی گئی ہے ‘ مگر فی الحقیقت تمام افراد انسانی یا تمام اقوام عالم اسی مرض کا شکار ہیں۔ دنیا میں ہمیشہ انسانوں کے دو ہی گروہ رہے ہیں۔ ایک وہ گروہ جس کی زندگی نیکی اور بھلائی سے عبارت ہے اور وہ دوسرے کی برائی کو بھی حتی الامکان نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسرے کے ظلم کو بھی اس وقت تک برداشت کرتا ہے ‘ جب تک وہ دوسرے مظالم کا پیش خیمہ نہیں بن جاتا۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو ہمیشہ دوسروں کی خوبیوں سے جلتا اور اپنی اصلاح کی بجائے دوسروں کی خوبیوں کو اپنی محرومیوں کا سبب سمجھتا ہے یہی دو گروہ ہمیشہ خیر و شر کی علامت رہے ہیں۔ چونکہ ان دونوں کا آغاز ہابیل اور قابیل کے رویئے سے ہوا ہے ‘ اس لیے قرآن کریم نے اسے ایک بہت اہم واقعہ قرار دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو انسانی رویئے اتنے ہی قدیم ہیں ‘ جتنی کہ خود انسان کی تاریخ۔ تاریخ پر مورخین کے ظلم دوسرا لفظ جو اس آیت کریمہ میں بہت توجہ طلب ہے وہ بِا الْحَقْ ہے ارشاد ہوا ہے : واَتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقْ (انھیں آدم کے دو بیٹوں کا قصہ حق کے ساتھ پڑھ کے سنایئے۔ ) یہاں حق کا لفظ دو باتوں کی طرف رہنمائی کررہا ہے ایک یہ کہ آپ اس اہم واقعہ کو بالکل ویسے ہی بیان کیجئے جیسا وہ واقعہ میں ہے۔ اس میں اپنی طرف سے کوئی پیوند کاری ہرگز نہ کیجئے کیونکہ کوئی بھی تاریخی سرگزشت اپنا صحیح اثر اس وقت پیدا کرتی ہے جب اسے اسی طرح بیان کیا جائے جس طرح حقیقت میں وہ واقع ہوئی ہے اور اگر اپنی طرف سے اس کی اثر اندازی کو نمایاں کرنے کے لیے کوئی بھی اضافہ کیا جائے گا تو عین ممکن ہے کہ سرگزشت کسی اور بات کی غمازی کر رہی ہو اور یہ اضافہ اسے کسی اور طرف لے جائے۔ ایسی صورت میں اس سرگزشت کو سنانے کا فائدہ کیا ہوگا۔ اب مشکل یہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ اسی انداز سے تاریخ پر مہربانیاں کی ہیں۔ تاریخ کا کوئی کردار اگر اپنا ممدوح ہے تو اس کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے اس میں ایسے ایسے اضافے کیے کہ حقیقت سے اس کا تعلق ختم ہوگیا اور اگر وہ مؤرخ کی نگاہ میں ناپسندیدہ کردار ہے تو اس کی تصویر بگاڑنے میں مؤرخ نے پورا زور قلم صرف کردیا۔ نتیجتاً تاریخ ہر مؤرخ کے ذاتی تأثرات کا اظہار بن کر رہ گئی ہے۔ اس لیے بالحق کے لفظ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں تاریخ پر یہ ظلم ہوتا رہا ‘ حتیٰ کہ آسمانی کتابیں بھی اس سے محفوظ نہ رہیں۔ اس لیے اس واقعہ کو اسی طرح بیان کیجئے جیسا وہ حقیقت میں ہے۔ اور دوسری بات جو اس سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ تاریخ کا مقصد محض قصہ گوئی اور اس کے نتیجے میں تفریح طبع نہیں ہے بلکہ مقصود اس سے نصیحت یا عبرت حاصل کرنا ہے۔ اس لیے صرف ایک واقعہ کو سادہ انداز میں بیان کردینا اور اس کے عبرت خیز اور نصیحت آموز پہلوئوں کو نمایاں نہ کرنا یہ تاریخ کی کوئی خدمت نہیں۔ فرمایا کہ اس واقعہ کو اس طرح بیان کرو کہ جس میں حق یعنی نصیحت اور عبرت اپنی ذات میں نمایاں ہوجائیں۔ چناچہ قرآن پاک کے بیان کردہ اس قصے کو جب ہم دیکھتے ہیں اور پھر اس کا مقابلہ تورات کے بیان کردہ قصے سے کرتے ہیں تو یہ حقیقت مزیدواضح ہوجاتی ہے۔ قرآن کریم نے اگرچہ اس واقعہ کو اپنے اسلوب کے مطابق نہایت اختصار سے بیان کیا ہے ‘ لیکن اس سے سرگزشت کے وہ پہلو جو سرگزشت کی جان ہیں انھیں نمایاں کر کے نصیحت و عبرت کا سامان کردیا گیا ہے۔ تاریخی روایات میں قصہ ہابیل و قابیل پہلی آسمانی کتابوں اور تاریخی روایات کو دیکھتے ہوئے جو پورا قصہ سامنے آتا ہے ‘ وہ یہ ہے کہ اللہ نے جب حضرت آدم (علیہ السلام) کو اولاد عطا کی جس میں بیٹیاں بھی تھیں اور بیٹے بھی۔ ظاہر ہے کہ سب ایک ماں باپ کی اولاد ہونے کی وجہ سے آپس میں بہن بھائی تھے اور بہن بھائی کا چونکہ آپس میں نکاح نہیں ہوسکتا اس لیے سوال پیدا ہوا کہ ان کا آپس میں نکاح کیسے کیا جائے اور اگر نکاح نہ کیا جائے تو نسل انسانی کی بقا کا کیا انتظام ہوگا۔ چناچہ پروردگار نے حکم دیا کہ ایک دفعہ جو بیٹا اور بیٹی پیدا ہو وہ آپس میں بہن بھائی ہوں گے اور جب دوسری دفعہ بیٹا اور بیٹی پیدا ہوں وہ آپس میں تو بہن بھائی ہوں گے لیکن پہلے پیدا ہونے والوں کے لیے اجنبی اور نامحرم ہوں گے۔ اس لیے ان دونوں میں نکاح ہوسکتا ہے۔ چناچہ واقعہ یہ پیش آیا کہ اللہ نے ہابیل اور قابیل کی شکل میں دو بیٹے عطا فرمائے۔ ہابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بدصورت تھی اور جو لڑکی قابیل کے ساتھ پیدا ہوئی وہ خوبصورت تھی۔ جب دونوں کے نکاح کا وقت آیا تو قاعدے کے مطابق قابیل کی شادی ہابیل کی بہن کے ساتھ اور ہابیل کی شادی قابیل کی بہن سے ساتھ قرار پائی۔ ہابیل کی بہن چونکہ خوبصورت نہیں تھی اس لیے قابیل نے اس سے نکاح کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ میری بہن چونکہ خوبصورت ہے اس لیے میں خود اس سے نکاح کروں گا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے ہرچند سمجھایا کہ نادان نہ بنو تمہارا نکاح اپنی بہن سے نہیں ہوسکتا۔ لیکن جب اس نے کسی طرح بھی ماننے سے انکار کردیا تو حضرت آدم (علیہ السلام) نے اتمام حجت کے لیے دونوں کو قربانیاں کرنے کا حکم دیا۔ دونوں نے اپنی اپنی قربانیاں ان کی اپنی شریعت کے مطابق ایک ٹیلے کی چوٹی پر جا کر رکھ دیں۔ آسمان سے ایک آگ آئی اور اس نے ہابیل کی قربانی کو جلا دیا گویا اس کو قبول کرلیا گیا کیونکہ یہی قبولیت کی علامت تھی اور قابیل کی قربانی کو آگ نے نہیں جلایا ‘ گویا اسے قبول نہیں کیا گیا۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے انبیاء کے یہاں جو قربانی قبول کی جاتی تھی اس کی علامت یہی تھی کہ آسمان سے ایک آگ آکر اسے جلا دیتی تھی۔ چناچہ بنی اسرائیل نے آنحضرت ﷺ پر جو اعتراضات کیے ان میں ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اگر آپ اللہ کے سچے نبی ہیں تو پھر آپ کی قربانی کو آگ کیوں نہیں جلاتی اور ہم تو آپ ﷺ پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم خود یہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔ اَلاَّ نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّیٰ یَاْتِیَنَا بِقُرْبَانٍ تَاْکُلُہُ النَّارُ ط (آل عمران 3: 183) ( ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں ‘ یہاں تک کہ وہ ہمارے پاس قربانی لائے جسے آگ کھالے) لیکن یہ سلسلہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ختم کردیا گیا اور قربانی کا گوشت کھانے کی اجازت دے دی گئی۔ مختصر یہ کہ جب قابیل کی قربانی قبول نہیں کی گئی تو اسے حسد کا بخار چڑھا اور اس نے اپنے بھائی کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا اور کہا : لَاَقْتُلَنَّکَ ” میں تجھے ضرور قتل کروں گا “۔ جواب میں ہابیل نے کہا : اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللہ ُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ ( اللہ تو قربانی صرف متقین سے قبول کرتا ہے) یعنی تمہیں میرے قتل کے درپئے ہونے کی بجائے قربانی کی عدم قبولیت کی اصل وجہ سمجھنی چاہیے ‘ وہ میری ذات نہیں بلکہ تمہارے اندر اخلاص کا نہ ہونا ہے۔ اب اگر تم مجھے قتل بھی کردو گے تو اس سے تمہاری قربانی قبول تو نہیں ہوجائے گی بلکہ یہ تو اس سے بھی بڑا جرم ہوگا اس لیے تمہیں اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے اور اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اندازہ فرمایئے کہ یہ کتنے واضح دو رویئے ہیں۔ ایک رویہ پوری طرح نفسانیت کا آئینہ دار ہے اور وہ خواہش نفس میں ڈوب کر دوسرے کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ دوسرا رویہ سراسر اللہ سے ڈرنے اور اس کی رضا کے لیے اس کا تقویٰ پیدا کرنے کی فکرکا غماز ہے۔ یہی دونوں رویئے شر اور خیر کی علامت ہیں۔ اس سے ایک اور بات کی طرف راہنمائی ہوتی ہے وہ یہ کہ آج کا مؤرخ اور دانشور یہ کہتا ہے کہ آج کا انسان جو توحید کا پرستار اور خیر کا علمبردار ہے ‘ یہ اپنی اس منزل تک نجانے کتنے ہزاروں سال کے سفر کے بعد پہنچا ہے۔ شروع شروع میں انسان نجانے کس کس کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا تھا ‘ نجانے کس کس مظہر قدرت کے سامنے جھکتا تھا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ توحید تک آیا۔ لیکن اس واقعہ سے ہمیں صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ تاریخ انسانی کے پہلے دو افراد ہیں جو خیر اور شر کی پوری طرح نمائندگی کر رہے ہیں۔ جو بات ہابیل نے قابیل سے کہی کہ کوئی نیک عمل بھی اخلاص کے بغیر قبول نہیں ہوتا۔ وہی سب سے آخر میں آنے والی کتاب قرآن کریم نے ہمیں بتائی کہ تم جو قربانیاں دیتے ہو ان کا گوشت اور پوست اللہ کو نہیں پہنچتا : وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ (الحج : 37) ( بلکہ تمہارا تقویٰ اللہ تک پہنچتا ہے) یعنی وہی ہابیل کی بات قرآن کریم اس امت کو سمجھا رہا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو جب دنیا میں بھیجا گیا تھا تو اللہ اور اس کی صفات اور انسان کا اپنے اللہ سے تعلق اور عبودیت اور الوہیت کے مابین رشتے کی پوری تفہیم کے ساتھ بھیجا گیا تھا۔
Top