Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 4
یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَاۤ اُحِلَّ لَهُمْ١ؕ قُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰتُ١ۙ وَ مَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ١٘ فَكُلُوْا مِمَّاۤ اَمْسَكْنَ عَلَیْكُمْ وَ اذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
يَسْئَلُوْنَكَ
: آپ سے پوچھتے ہیں
مَاذَآ
: کیا
اُحِلَّ
: حلال کیا گیا
لَهُمْ
: ان کے لیے
قُلْ
: کہ دیں
اُحِلَّ
: حلال کی گئیں
لَكُمُ
: تمہارے لیے
الطَّيِّبٰتُ
: پاک چیزیں
وَمَا
: اور جو
عَلَّمْتُمْ
: تم سدھاؤ
مِّنَ
: سے
الْجَوَارِحِ
: شکاری جانور
مُكَلِّبِيْنَ
: شکار پر دوڑائے ہوئے
تُعَلِّمُوْنَهُنَّ
: تم انہیں سکھاتے ہو
مِمَّا
: اس سے جو
عَلَّمَكُمُ
: تمہیں سکھایا
اللّٰهُ
: اللہ
فَكُلُوْا
: پس تم کھاؤ
مِمَّآ
: اس سے جو
اَمْسَكْنَ
: وہ پکڑ رکھیں
عَلَيْكُمْ
: تمہارے لیے
وَاذْكُرُوا
: اور یاد کرو (لو)
اسْمَ
: نام
اللّٰهِ
: اللہ
عَلَيْهِ
: اس پر
وَاتَّقُوا
: اور ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
سَرِيْعُ
: جلد لینے والا
الْحِسَابِ
: حساب
تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لیے حلال ہیں ؟ کہہ دیجئے کہ تمام پاکیزہ چیزیں تمہارے لیے حلال ہیں اور جو ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو جس طرح سے اللہ نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے ‘ (اس طریقے سے) تم نے ان کو سکھایا ہو۔ تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ رکھیں اس کو کھالیا کرو (اور شکاری جانور چھوڑتے وقت) اللہ کا نام لے لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔
یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَآ اُحِلَّ لَھُمْ ط قُلْ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ لا وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَھُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللہ ُ ز فَکُلُوْا مِمَّآ اَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَیْہِ ص وَاتَّقُوا اللہ َ ط اِنَّ اللہ َ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ۔ (المائدہ : 4) ” تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لیے حلال ہیں ؟ کہہ دیجئے کہ تمام پاکیزہ چیزیں تمہارے لیے حلال ہیں اور ان سدھے ہوئے شکاری جانوروں کا شکار جو شکار پر چھوڑے جاتے ہیں۔ تم ان کو اس طریقہ پر سکھاتے ہو جو تمہیں اللہ نے سکھایا ہے۔ تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ رکھیں اس کو کھالیا کرو (اور شکاری جانور چھوڑتے وقت) اللہ کا نام لے لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اللہ جلد حساب لینے والا ہے “۔ اسلام میں شکار کا طریقہ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب دیا گیا ہے۔ سوال اختصار سے اور جواب وضاحت کے ساتھ ہے۔ یہ قرآن کا خاص اسلوب ہے کہ وہ عموماً سوال ذکر ہی نہیں کرتا اور اگر کرتا بھی ہے تو نہایت اختصار سے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ صحابہ ( رض) اس قدر مزاج شناس قرآن اور مزاج شناس رسول ﷺ ہوچکے تھے کہ انھیں قرآن اور آنحضرت ﷺ کی بات سمجھنے میں بہت کم دشواری پیش آتی تھی۔ اس لیے پورے قرآن پاک میں صحابہ کی طرف سے جو سوال ہوئے ہیں ‘ وہ کل نو ہیں۔ تیئس سالوں کے عرصے میں مجموعی طور پر جو سوالات ہوئے ہیں ‘ ان کی تعداد غالباً سترہ ہے۔ جس طرح آدمی کسی چیز کا مزاج آشنا ہوجاتا ہے اور وہ چیز اسے فوراً سمجھ میں آجاتی ہے ‘ بالکل اسی طرح صحابہ رـضوان اللہ اجمعین مزاج شناس رسول ﷺ بھی تھے اور مزاج شناس قرآن بھی۔ لیکن جب کہیں بات الجھتی تھی چونکہ معاملہ آخرت کا تھا ‘ اس لیے پوچھ بھی لیتے تھے۔ یہاں یہ بات الجھی کہ یہ جو کہا گیا کہ جس کو درندہ کھالے اور وہ مرجائے تو حلال نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ زندہ تمہارے قابو میں آجائے تو پھر تم ذبح کر کے اسے پاک کرسکتے ہو۔ اس سے سوال پیدا ہوا کہ اگر درندے کے زخمی کرنے سے وہ جانور مرجائے تو وہ حرام ہے تو کیا درندے کے ذریعے شکار کرنا بھی جائز ہے یا نہیں ؟ اس لیے کہ عربوں کی زندگی کے گذربسر کا دارومدار تین باتوں پر تھا۔ ایک تجارت ‘ دوسرا گلہ بانی اور تیسرا شکار۔ ان کا شکار ہمارے ہاں کے جاگیردار اور زمیندار کا سا نہیں تھا ‘ جنھیں کچھ اور نہیں سوجھتا تو شکار کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ عربوں کا تو یہ حال تھا کہ ان کی تو غذائی ضرورت ہی ایک حد تک شکار سے پوری ہوتی تھی۔ عدی بن حاتم طائی جب مسلمان ہوئے تو وہ بڑے شکاری تھے اور نجد کے علاقے میں شکار ہوتا بھی زیادہ تھا ‘ اس لیے ان کی گزر بسر کا بہت بڑا ذریعہ شکار تھا انھوں نے یہ سوال کیا کہ حضور ! میں کتے کے ذریعے شکار کرتا ہوں اور کتا ایک درندہ ہے۔ جب وہ شکار پکڑے تو ضروری نہیں ہے کہ وہ زندہ ہی میرے پاس لے آئے۔ جو جانور اس نے پکڑا ہے اگرچہ اپنی ذات میں وہ حلال ہے ‘ مگر اس کے پکڑنے سے اگر وہ مرگیا تو وہ اس آیت کے حوالے سے تو حرام ہوجائے گا ؟ سوال تو صرف اتنا ہی تھا ‘ لیکن قرآن کا اسلوب یہ ہے کہ اس سے ایک بوند مانگی جاتی ہے تو وہ بارش برسا دیتا ہے۔ سوال تو یہ تھا کہ کتے کے ذریعے کیے جانے والے شکار کے بارے میں وضاحت ہوجائے۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے شکار کے حوالے سے ساری اصولی باتیں بیان فرما دیں بلکہ یہ بھی فرما دیا کہ ساتھ یہ بھی جان لو کہ حلال اور حرام کی بنیاد کیا ہے ؟ کچھ لوگ تو وہ ہیں جنھیں مذہب سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ‘ انھیں تو جانے دیجئے۔ لیکن کچھ لوگ وہ ہیں جو مذہب کے بہت مخلص پیروکار ہیں لیکن ان کے گہرے تقشف کے باعث ان میں ایک خاص مزاج پروان (Develop) چڑھتا ہے ‘ ان کا یہ حال ہوتا ہے کہ جب تک ان کو بتا نہ دیا جائے کہ شریعت نے اس چیز کو حلال کیا ہے ‘ وہ اس وقت تک وہم کا شکار رہتے ہیں کہ پتہ نہیں یہ حلال ہے یا حرام۔ یعنی ان کی فکری بنیاد دراصل انھیں یہود سے ملی ہے ‘ جنھوں نے اپنی شریعت میں بہت پابندیاں لگا لی تھیں۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہر چیز حرام ہے ‘ بجز اس کے جسے شریعت نے حلال قرار دے دیا یعنی جب تک کسی چیز کے حلال ہونے کی سند ہمارے پاس نہیں ہے ‘ وہ چیز حرام ہے۔ قرآن کریم نے اس صورت حال کو بالکل بدل ڈالا اور یہی وجہ ہے کہ قیامت تک یہ دین چل سکتا ہے۔ فرمایا : لوگو ! تمہارے لیے ہر چیز حلال ہے ‘ سوائے اس کے جسے اللہ نے حرام کردیا۔ تم ڈھونڈتے ہو حلال کیا ہے حالانکہ تمہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ حرام کیا ہے۔ البتہ ! حلت کی چند شرطیں ہیں۔ اللہ نے چونکہ تمام پاکیزہ چیزیں تمہارے لیے حلال کردی ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے یہ دیکھو کہ وہ چیز طیب اور پاکیزہ ہے یا نہیں ‘ اگر وہ چیز طیب اور پاکیزہ ہے تو سمجھ لو کہ وہ حلال ہے اور اس میں یہ جاننے کی ضرورت نہیں ہے کہ قرآن اور حدیث میں اس کا ذکر آیا ہے یا نہیں ‘ صرف اسے طیب ہونا چاہیے۔ جتنی چیزیں اللہ نے حلال کی ہیں ‘ وہ ساری طیب ہیں۔ دوسرا یہ کہ وہ جانور ایسا نہیں ہونا چاہیے جس جانور کی شکل پر لوگوں کی شکلیں تبدیل یعنی بگاڑ دی گئیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب قوموں پر عذاب آیا تو بعض قوموں کے چہرے بگاڑ کے بعض جانوروں کی شکلوں جیسے بنا دیئے گئے ‘ یہ جانور مستقلاً حرام ہیں۔ مثلاً یہود کے ایک گروہ پر عذاب آیا وَجَعَلَ مِنْھُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَ (انھیں اللہ نے بندروں اور خنزیروں کی شکل میں بدل دیا) اس لیے سور اور بندر سارے حرام ہیں۔ دوسرا یہ کہ وہ جانور جو خود شکار کرتے ہیں اور گوشت کھاتے ہیں یعنی تمام کچلیوں والے جانور ‘ جنھیں ہم درندہ کہتے ہیں ‘ حرام ہیں۔ اس طرح وہ سارے جانور جو پنجے رکھتے ہیں اور پنجوں کے ذریعے شکار پکڑتے ہیں ‘ جیسے باز ‘ عقاب اور شکرا وغیرہ سب حرام ہیں۔ اسی طرح تمام مردار خور جانور حرام ہیں کیونکہ ان کی فطرت میں پاکیزگی کہاں رہ سکتی ہے ؟ اس طرح وہ عام جانور جو زمین کھود کھود کر گندگی کھاتے ہیں ‘ حرام ہیں اور ہر وہ جانور جسے انسان کی فطرت سلیمہ قبول کرنے سے انکار کر دے ‘ حرام ہے۔ ایسی فطرت جو شریعتِ الٰہی کے مطابق عمل کرنے کی وجہ سے خاص قالب میں ڈھل جاتی ہے ‘ اس کا ایک مزاج بن جاتا ہے ‘ آپ اس کے سامنے کوئی ایسی چیز لائیں گے جو حرام کے قریب ہے تو وہ اس سے گھن کھائے گا ‘ اس کو وہ کبھی قبول نہیں کرے گا۔ یہ اس طبیعت کی بات نہیں ہے جو شراب پی پی کر اپنا سب کچھ بگاڑ چکی ہے ‘ اسے تو چائے بری لگے گی شراب اچھی لگے گی۔ بات فطرتِ سلیمہ کی ہورہی ہے اور فطرتِ سلیمہ کی نمائندہ شخصیات چونکہ دنیا میں اللہ کے نبی ہوتے ہیں ‘ وہ چونکہ معصوم ہوتے ہیں اس لیے جس چیز سے انھوں نے طبعاً اپنے آپ کو کھانے سے روکا ہے ‘ انسان کو اس سے رک جانا چاہیے ‘ اس کا مطلب ہے کہ وہ پاکیزہ نہیں ہے ‘ اس میں کوئی نہ کوئی گندگی ہے اور آخری بات یہ کہ جو جانور پاکیزہ ہو لیکن اس میں غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے کی وجہ سے یا کسی استھان پر ذبح کرنے کی وجہ سے گندگی آئی ہو ‘ اس میں معنوی گندگی ہے۔ یہ بھی طیبات میں شامل نہیں ہے، تو جو چیزیں طیبات میں شامل نہیں ہیں ‘ وہ ساری حرام ہیں۔ باقی ہر طیب و طاہر چیز حلال ہے۔ کسی جانور یا پرندے کا پکڑا شکار حلال ہے وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ سے اصل سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ یہاں ” جَوَارِحْ “ کا لفظ آیا جو ” جَارِحْ “ کی جمع ہے ‘ درندے کو کہتے ہیں۔ صرف کتا ہی درندہ نہیں ہے ‘ آپ چاہیں تو چیتا ‘ ریچھ ‘ باز ‘ عقاب وغیرہ سے شکار کریں۔ اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ تم نے اسے سدھایا ہو۔ سدھے ہوئے جانور کی اور ناسدھے جانور کی پہچان درندوں میں سے یہ ہے کہ جب تم اسے جانور پکڑنے کے لیے چھوڑو مثلاً خرگوش پر چھوڑتے ہو تو وہ اسے پکڑ کر اپنے مالک کے پاس لائے ‘ خود اس میں سے بالکل نہ کھائے۔ اگر اس میں سے خود کھاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سدھایا ہوا نہیں ہے ‘ ابھی اس کی تربیت (Training) مکمل نہیں ہوئی ہے۔ حضرت عدی بن حاتم کے سوال کے جواب میں حضور اکرم ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ تم اگر اپنا جانور چھوڑو اور وہ جانور اس میں سے خود کھالے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی اس کی تربیت (Training) میں کمی ہے ‘ تم اسکو مت کھانا ‘ وہ تمہارے لیے حرام ہے۔ اگر وہ شکار کو محفوظ حالت میں تمہارے پاس پکڑ کرلے آئے تو پھر ٹھیک ہے۔ پرندوں کے لیے فرمایا کہ جب تم پرندے کو کسی پرندے کو پکڑنے کے لیے چھوڑو اور وہ ابھی اڑا ہی ہو اور اتنی دور گیا ہو کہ تمہاری آواز سن سکتا ہو ‘ تم اسے کہو واپس آجا۔ اگر وہ تمہارے کہنے پر واپس آجاتا ہے تو اس کا پکڑا ہوا جانور حلال ہے ‘ اگرچہ وہ مرجائے اور اگر وہ واپس نہیں آتا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ سدھایا ہوا جانور نہیں ہے ‘ اب اگر وہ پکڑ کرلے بھی آئے تو تمہارے لیے حلال نہیں ہے۔ ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے چار پانچ باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ مُکَلِّبِیْنَ کا اصل مفہوم پہلی بات یہ کہ سدھائے ہوئے جانور کا شکار حلال ہے ‘ غیر سدھائے ہوئے کا نہیں۔ دوسری بات یہ کہ تم اس کو شکار پر خود چھوڑو ‘ اگر وہ شکار کو دیکھ کر خود ہی دوڑ پڑے اور شکار مار لائے تو وہ تمہارے لیے حلال نہیں ہے۔ یہ بات ہم نے لفظ ” مُکَلِّبِیْنَ “ سے لی ہے۔ عام طور پر لوگ اس کا ترجمہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کا مفہوم سمجھ لیں کیونکہ اس کا ترجمہ اردو زبان کی گرفت میں آتا بھی نہیں ہے۔ مُکَلِّبِیْنَ ” تکلیب “ سے ہے ‘ جس کا لفظی معنی ” کتے کو تربیت (Training) دینا ہے “ پھر اس کا استعمال شکاری جانوروں کی تربیت کے لیے عام ہوگیا خواہ کتا ہو یا شکاری درندوں اور پرندوں میں سے کوئی اور جانور۔ اس سے فقہاء نے یہ سمجھا کہ اگر کوئی اپنے سدھائے ہوئے جانور کو خود چھوڑے گا تو اس کا پکڑا ہوا جانور حلال ہوگا ‘ ورنہ نہیں ہوگا۔ تیسری بات یہ فرمائی کہ اگر وہ زخمی کر کے لے آئے مگر جانور زندہ ہو اب تم اسے ” بسم اللہ “ پڑھ کر خود ذبح کرو گے تو وہ حلال ہوگا ‘ ورنہ نہیں ہوگا۔ ایک اور بات جسے امام ابوحنیفہ ( رح) ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شکاری درندے کا پکڑا ہوا جانور زخمی بھی ہو ‘ اگر وہ زخمی نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے گلا گھونٹ کر مارا گیا ہے ‘ ظاہر ہے گلا گھٹ کر مرا ہوا جانور حرام ہے۔ پانچویں بات یہ کہ جب تم اسے چھوڑو ” بسم اللہ “ پڑھ کر چھوڑو ‘ اگر تم نے ” بسم اللہ “ پڑھ کر نہیں چھوڑا تب بھی اس کا پکڑا ہوا جانور حلال نہیں ہوگا۔ غیر مسلم اور مسلم کے شکاری جانور میں فرق : اب آیت کو ایک اور پہلو سے ذرا ملاحظہ کریں۔ فرمایا کہ ” تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں پاکیزہ چیزیں (اور پھر سوال کا جواب دیا اور) وہ شکاری جانور جن کو تم سدھاتے ہو اور اسے خود چھوڑتے ہو اور شکار کو پکڑنے کے لیے جن کو تم تعلیم دیتے ہو اس تعلیم میں سے جو اللہ نے تمہیں دی ہے “ اس سے بعض مفسرین نے بڑی خوبصورت بات سمجھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مربی اور تربیت دینے والا جسے تربیت دیتا ہے ‘ اس کا ذوق تربیت اس میں منتقل ضرور ہوتا ہے۔ خواہ وہ انسان ہو یا حیوان کیونکہ جب استاد کسی کو تربیت دے گا تو اس کا ذوق بھی علم کے ساتھ منتقل ہوگا۔ فرمایا کہ اللہ نے تمہیں سکھایا پڑھایا ‘ تم نے قرآن اور حضور ﷺ کی صحبت سے ساری باتیں سیکھیں ‘ اب دیکھو ! تم جب اپنے جانوروں کو تربیت دو (تربیت تو غیر مسلم بھی اپنے جانوروں کو دیتے ہیں) تو تمہارے تربیت یافتہ جانور اور غیر مسلم کے تربیت یافتہ جانور میں ذوق کے اعتبار سے فرق ہونا چاہیے اور وہ فرق یہ ہے کہ غیر مسلم جب اپنے جانور کو چھوڑتا ہے تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ میں کس شکار کو پکڑ رہا ہوں۔ لیکن جب مسلمان اپنا جانور چھوڑتا ہے تو اس کا سدھایا ہوا جانور یہ خیال رکھتا ہے کہ میں خرگوش پکڑوں ‘ بِجّو نہ پکڑوں۔ اسے پتہ ہے کہ بِجّو پکڑ کرلے بھی جاؤں تو میرا مالک نہیں کھائے گا کیونکہ بِجّو فی نفسہٖ حرام ہے ‘ طیبات میں سے نہیں ہے کیونکہ وہ مردار کھاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ جیسے تمہارے ذوق میں اور غیر مسلم کے ذوق میں فرق ہے ‘ ایسے ہی تمہارے سدھائے ہوئے جانور میں اور غیر مسلم کے سدھائے ہوئے جانور کے ذوق میں بھی فرق ہونا چاہیے اور اس فرق کو تربیت دینے والے اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا : فَکُلُوْا مِمَّآ اَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْامساک کے معنی ” روکنے اور تھامنے “ کے ہیں جب اس کے ساتھ علی آئے جیسا کہ اُمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ میں ہے تو اس کے اندر اختصاص کا مفہوم بھی پیدا ہوجاتا ہے یعنی کسی خاص شے کو کسی خاص کے لیے روک یا سینت رکھنا۔ اب یہ سوال کا اصل جواب ہے فرمایا کہ اگر مذکورہ شرائط کے مطابق تربیت کیا ہوا جانور ہو تو اس کے کیے ہوئے شکاروں میں سے وہ شکار تمہارے لیے جائز ہوگا جو وہ خاص تمہارے لیے روک رکھے اور اگر وہ شکاری جانور شکار میں سے کچھ کھالے تو وہ شکار جائز نہ ہوگا کیونکہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عدی ابن حاتم کے سوال پر ارشاد فرمایا تھا کہ اگر شکاری جانور نے شکار میں سے کچھ کھالیا ہو تو مت کھائو کیونکہ اس نے شکار کو دراصل اپنے لیے پکڑا ہے (تمھارے لیے نہیں) ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شکار میں سے شکاری جانور کھالے تو اس جانور کا کھانا حلال نہیں رہتا۔ اس کے بعد پروردگار نے ارشاد فرمایا : وَاذْکُرُو اسْمَ اللہِ عَلَیْہِاس میں ضمیر مجرور کے مرجع سے متعلق اختلاف کرتے ہوئے بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس کا تعلق علمتم من الجوارح سے ہے یعنی جس جانور کو چھوڑنا ہے پہلے اس پر بسم اللہ پڑھوبعض لوگوں نے کہا کہ نہیں اس کا مرجع مَآ اَمْسَکْنَہے یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ جب تم شکار کو پکڑ لو اسے ذبح کرتے ہوئے بسم اللہ پڑھو۔ لیکن اس قول میں ضعف محسوس ہوتا ہے کیونکہ اس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ اس کا تعلق فَکُلُوْا سے ہے کہ جب اسے کھانے لگو تو ” بسم اللہ “ پڑھو حالانکہ یہ بات اس لیے زیادہ مناسب معلوم نہیں ہوتی کہ کھاتے ‘ پیتے وقت کیا پڑھنا چاہیے کیا نہیں پڑھنا ‘ اس کا تعلق آداب سے ہے اور قرآن کریم عام طور پر آداب کا ذکر نہیں کرتا ‘ احکام کا ذکر کرتا ہے۔ آداب ہمیں حدیث اور سنت سے معلوم ہوتے ہیں ‘ اس لیے درست بات یہ ہے کہ اس کا تعلق مَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِسے ہے یعنی جب تم سدھایا ہوا جانور چھوڑنے لگو تو ” بسم اللہ “ پڑھو۔ اس کی تائید میں آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث ہے جو حضرت عدی سے مروی ہے۔ ” حضرت عدی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے پوچھا کہ میں اپنے سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑوں اور کوئی دوسرا کتا بھی اس میں شریک بن جائے تو اس کا کیا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا ایسا شکار نہ کھانا کیونکہ تم نے اللہ کا نام اپنے کتے پر لیا ہے دوسرے کتے پر نہیں لیا “۔ شکار کرنا عرب کی شدید ضرورت رہی ہے اور جب ضرورت کے تحت آدمی کسی جانور کو پکڑتا ہے تو پھر وہ احتیاطوں کی زیادہ پرواہ نہیں کرتا ‘ صرف بھوک اور ضرورت اس کے سر پر مسلط ہوتی ہے اور وہ ایسے معاملات میں حدود کو نظر انداز بھی کرجاتا ہے ‘ اس لیے فرمایا کہ حدود کو نظر انداز نہ کرنا تم ہزار اس سے لاپرواہی کرو اللہ تو جانتا ہے ‘ اس لیے اللہ سے ڈرتے رہنا ‘ بیشک اللہ جلدی حساب لینے والا ہے۔
Top