Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 50
اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ١ؕ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۠   ۧ
اَفَحُكْمَ : کیا حکم الْجَاهِلِيَّةِ : جاہلیت يَبْغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں وَمَنْ : اور کس اَحْسَنُ : بہترین مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ حُكْمًا : حکم لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يُّوْقِنُوْنَ : یقین رکھتے ہیں
اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں) تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ‘ ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے
اَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ ط وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ ۔ (المائدہ : 50) (اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں) تو کیا یہ لوگ پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ‘ ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے) جاہلیت کا لفظ مَا اَنْزَلَ اللہ ُ کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی جو چیز بھی مَا اَنْزَلَ اللہ ُ کے مقابل ہے یا اس کے خلاف ہے ‘ وہ جاہلیت ہے کیونکہ اسلام کی بنیاد اس علم پر ہے ‘ جسے اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے اور جو فی الواقع حقیقی علم کہلانے کا مستحق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام حقائق کا علم رکھتا ہے ‘ چاہے ان کا تعلق علم کے کسی شعبہ سے بھی ہو۔ اس کا علم نہ گمان پر مبنی ہے اور نہ کسی ایک شعبے میں محدود۔ اس کے برعکس ہر وہ طریقہ جو اسلام سے مختلف ہے ‘ جاہلیت کا طریقہ ہے۔ عرب کے زمانہ قبل اسلام کو جاہلیت کا دور اسی معنی میں کہا گیا ہے کہ اس زمانہ میں علم کے بغیر محض وہم یا قیاس و گمان یا خواہشات کی بنا پر انسانوں نے اپنے لیے زندگی کے طریقے مقرر کرلیے تھے۔ یہ طرز عمل جہاں جس دور میں بھی انسان اختیار کرے ‘ اسے بہرحال جاہلیت ہی کا طرز عمل کہا جائے گا۔ مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے ‘ وہ محض ایک جزوی علم ہے اور کسی معنی میں بھی انسان کی راہنمائی کے لیے کافی نہیں ہے۔ لہٰذا اللہ کے دیئے ہوئے علم سے بےنیاز ہو کر جو نظام زندگی اس جزوی علم کے ساتھ ظنون و اوہام اور قیاسات و خواہشات کی آمیزش کر کے بنا لیے گئے ہیں ‘ وہ بھی اسی طرح جاہلیت کی تعریف میں آتے ہیں ‘ جس طرح قدیم زمانے کے جاہلی طریقے اس تعریف میں آتے تھے۔ اہل کتاب اپنی ساری گمراہیوں کے باوجود علم اور جاہلیت کے اس فرق کو کسی نہ کسی حد تک ضرور سمجھتے تھے۔ اس لیے ان کی عقل سے اپیل کی گئی ہے کہ جب تم یہ جانتے ہو کہ علم تو وہ ہے ‘ جو اللہ کی طرف سے آئے اور تم تسلیم کرو یا نہ کرو ‘ لیکن تم اپنی کتابوں کی دی ہوئی خبر کے مطابق رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم کو پہچانتے ہو کہ یہ ضابطہ حیات اللہ کی طرف سے آیا ہے ‘ جو سراسر علم پر مبنی ہے تو کیا یہ جانتے ہوئے بھی تم پھر جاہلیت کے راستے پر چلنا چاہتے ہو ؟ لیکن تمہاری مصیبت یہ ہے کہ اس حقیقت سے بےبہرہ نہیں ہو بلکہ یقین وایقان سے عاری ہو اور وہ علم جو یقین کی قوت سے محروم ہو ‘ وہ محض ذہن کی ورزش ہے اور ذوق کی عیاشی۔ ایسے علم سے علمی مجالس میں رونق کا سامان کیا جاسکتا ہے ‘ علمی مغالطے پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن انسانی زندگی کی فوزو فلاح کے لیے جس سیرت و کردار کی ضرورت ہوتی ہے ‘ وہ تو صرف یقین و ایمان سے ہی پیدا ہوتی ہے اور اہل کتاب اسی نعمت سے محروم ہیں ؎ یقین افراد کا سرمایہ تعمیرِ ملت ہے یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیر ملت ہے پیش نظر آیات کو پڑھنے سے پہلے چند حقائق کا ادراک بہت ضروری ہے۔ انسان کی کامیابی کا انحصار اپنے مقصد حیات سے سنجیدہ وابستگی سے ہے 1 وہ قومیں ‘ جو کسی نظریہ حیات سے وابستہ ہوتی ہیں ‘ ان کی زندگی اور بقاء کی ضمانت صرف نظریہ حیات سے غیر مشروط وابستگی ہوتی ہے۔ ان کی تمام تر قوت کا سرچشمہ ‘ اسی نظریہ حیات کے بارے میں یکسو ہونا ہے۔ وہ جب کبھی بھی اس نظریہ حیات کے بارے میں تشکک و ارتیاب کا شکارہوتی ہیں ‘ اسی وقت ان کی اجتماعی قوت میں کمی آنے لگتی ہے اور ان کی بقاء کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ اس کو اگر ہم سمجھنا چاہیں تو ہم اپنی روز مرہ کی مثالوں سے بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ مثلا : اگر آپ اپنے بچے کو کسی تعلیمی ادارے میں پڑھنے کے لیے داخل کراتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد آپ کو یہ شکایت ملتی ہے کہ آپ کا بچہ روزانہ سکول آتا تو ہے ‘ لیکن نہ سکول کی تعلیم میں دلچسپی لیتا ہے اور نہ ہوم ورک کر کے آتا ہے۔ آپ پریشانی سے جب بچے کا جائزہ لیتے ہیں تو بالآخر آپ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بچہ سکول ضرور جاتا ہے ‘ لیکن سکول جانے کا جو مقصد ہے ‘ یعنی علم کا حصول ‘ اس کے ساتھ اس کی وابستگی برائے نام بھی نہیں۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ سکول میں آمدورفت ‘ بس یہی اس کا مقصد ہے۔ رہا علم کا حصول ‘ اس کے لیے اسکے دماغ میں کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ یہ وجہ ہے ‘ جسکے باعث وہ تعلیم سے کورا رہتا ہے۔ اگر آپ اس کی تعلیمی حالت کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو اسکی ایک ہی صورت ہے کہ آپ اسے مقصد سے بہرہ ور کرنے کی کوشش کریں اور پھر اس کی تمام تر صلاحیتوں کو اس کے ساتھ یکسو کردیں۔ تب آپ دیکھیں گے کہ چند ہی دنوں میں آپ کا بچہ بہتر نتائج دینے لگے گا۔ ہماری قریبی تاریخ میں لکھنؤ کے ایک اچھے عالم دین گزرے ہیں ‘ جن کا نام مولانا محمد منظور نعمانی تھا۔ انھوں نے اپنے حالات میں لکھا کہ مجھے میرے والدین نے ایک دینی مدرسے میں داخل کروا دیا۔ لیکن میں کئی سال تک اس کی ابتدائی کتابوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ والدین اور اساتذہ دونوں حیران تھے کہ بچے کی ذہنی صلاحیت تو بری نہیں ‘ لیکن یہ آگے کیوں نہیں بڑھ پا رہا۔ اتفاق سے ان کے شہر میں مفتی محمد نعیم لدھیانوی صاحب نے ایک مدرسہ قائم کیا تو ان کے والد صاحب نے اس مدرسے میں ان کو داخل کرا دیا۔ مفتی صاحب مذکور نے ان کی تعلیمی حالت اور ان کی عمر کا اندازہ کر کے یہ محسوس کرلیا کہ یہ بچہ اپنے مقصد حیات کے ساتھ سنجیدہ نہیں۔ چناچہ انھوں نے ایک دن ‘ بقول مولانا کے ‘ انھیں بٹھا کر پوچھا کہ بیٹے تم مجھے سچ سچ بتائو کہ تم پڑھنا چاہتے ہو یا نہیں ؟ مولاناکہتے ہیں کہ میں نے پوری طرح سوچ بچار کے بعد انھیں جواب دیا کہ ہاں ! میں اب پڑھنا چاہتا ہوں۔ چناچہ جب انھوں نے اپنے ارادے کے بارے میں سنجیدگی اور یکسوئی کے ساتھ محنت کرنا شروع کی تو نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لڑکا جو کئی سالوں سے ابتدائی کتابوں میں رکا ہوا تھا ‘ اب وہ ہفتوں میں مہینوں کا کام کرنے لگا۔ اس مثال سے یہ بات سمجھنا آسان ہوجاتی ہے کہ افراد ہوں یا قوم ‘ وہ جس نظریہ حیات کو اپنی زندگی اور مقصد زندگی طے کرچکے ہوں ‘ جب تک اس کے بارے میں ان کے اندر سنجیدگی ‘ وابستگی اور یکسوئی پیدا نہیں ہوتی ‘ اس وقت تک ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قوت کے وہ سرچشمے ابلنا شروع نہیں کرتے ‘ جس کے نتیجے میں ایک کامیاب زندگی کا راستہ کھلتا ہے۔ مسلمان کا مقصد حیات 2 محولہ بالا حقیقت سے ایک دوسری حقیقت آپ سے آپ جنم لیتی ہے کہ جب ایک نظریہ حیات سے وابستگی اور یکسوئی پیدا ہوجاتی ہے تو پھر وہی نظریہ اور وہی مقصد افراد اور اقوام سے تعلقات کا حوالہ بن جاتا ہے۔ اسے ان افراد سے اور اقوام سے محبت ہوجاتی ہے ‘ جو اس کے نظریہ حیات یا مقصد حیات کے بارے میں ہمدردانہ اور مخلصانہ رویہ رکھتی ہوں۔ ان سے راہ و رسم رکھنا اور ان سے اعتماد کا برتائو کرنا اور ان پر اعتماد کرنا ‘ اسے محبوب ہوجاتا ہے۔ لیکن جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ بعض افراد یا بعض قومیں ‘ اس کے نظریہ حیات یا مقصد حیات کے ساتھ دوستی کا نہیں ‘ بلکہ دشمنی کا رویہ رکھتی ہیں اور انھیں یہ ہرگز گوارا نہیں کہ یہ شخص یا یہ قوم اپنے نظریہ حیات کے مطابق زندگی گزارے ‘ ترقی کرے اور مقاصد حیات کو پا سکے تو پھر اس شخص یا اس قوم کے لیے چونکہ اپنا نظریہ حیات ہر چیز سے زیادہ عزیز ہوتا ہے اور وہ اسکے مقابلے میں ہر چیز کو چھوڑ سکتا ہے ‘ اسے پھر یہ فیصلہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ مجھے ایسے شخص یا ایسی قوم سے کسی قسم کا کوئی بھی رشتہ نہیں رکھنا ہے بلکہ مجھے پوری طرح بیدار اور ہوشیار رہنا ہے کہ یہ لوگ مجھے نقصان نہ پہنچا سکیں۔ ہم نے اپنی گفتگو میں بار بار نظریہ حیات یا مقصد حیات کا ذکر کیا ہے جس سے وابستگی ہی ایک مسلمان کی قوت و توانائی کا سرچشمہ ہے۔ ضروری ہے کہ اختصار کے ساتھ اس کی وضاحت کردی جائے۔ مختصراً گزارش ہے کہ ہمارے تمام تر تعلقات کی بنیاد اور ہمارے تمام افکار کی جڑ خالق کائنات سے ہمارے صحیح تعلق پر استوار ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی تخلیق فرمائی ہے ‘ ہمیں بھی اسی نے پیدا فرمایا ہے۔ اسی نے ہمیں زندگی کے امکانات مہیا کیے ہیں۔ اسی نے ہماری بقاء کے تمام اسباب عطا فرمائے ہیں ‘ اسی نے ہمیں حواس خمسہ کے ساتھ عقل اور شعور سے نوازا ہے اور وہ برابر اپنی بیشمار نعمتوں سے ہمیں گراں بار کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی علم و حکمت رکھنے والی ذات اپنی تخلیق کو ‘ جسے اس نے عقل و شعور سے بھی نوازا ہو ‘ بےمقصد تو پیدا نہیں کرسکتی۔ یقیناً اس نے انسان کا ایک مقصد زندگی رکھا ہے۔ چناچہ انسان کو اس مقصد زندگی سے آگاہ کرنے کے لیے ‘ اس نے وحی اور رسالت کا سلسلہ شروع کیا اور حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر رسول اللہ ﷺ تک اس قافلہ انسانی کو کسی دور میں بھی اس نے اس بات سے محروم نہیں رکھا کہ اس کو یہ پتہ نہ ہو کہ مجھے زندگی کس طرح گزارنی ہے ‘ میری زندگی کے مقاصد کیا ہیں ‘ میرا اللہ ‘ جو میرا خالق ومالک ہے ‘ وہ کن باتوں میں راضی ہے اور کن باتوں میں ناراض ہے۔ یہی وہ نظریہ حیات ہے یعنی اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اس کی ہدایات اور احکام پر چلتے ہوئے اللہ کے رسول کے سکھائے ہوئے طریقے پر ‘ اس یقین کے ساتھ گزارنا کہ اس دنیا میں مجھے ہمیشہ نہیں رہنا بلکہ مجھے بھی ہر انسان کی طرح اپنی طبعی زندگی گزارنے کے بعد موت سے ہمکنار ہونا ہے ‘ پھر ایک ایسا دن آئے گا ‘ جب اس دنیا کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور قیامت قائم ہوجائے گی۔ تمام انسان زندہ کیے جائیں گے ‘ اللہ کی عدالت میں سب کی پیشی ہوگی ‘ وہاں زندگی میں انجام دیئے ہوئے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا ‘ ایک ایک عمل اور ایک ایک لمحے کا حساب ہوگا ‘ بس اس دن کی کامیابی اصل کامیابی ہے اور اس دن کی ناکامی اصل ناکامی ہے۔ یہ وہ نظریہ حیات ہے ‘ جس کے مطابق زندگی گزارنا تبھی ممکن ہے ‘ جب ایک مسلمان اپنے اس نظریہ حیات کے ساتھ نہایت یکسوئی سے وابستہ رہے۔ 3 دنیا میں قدم قدم پر اس نظریہ حیات کے مطابق زندگی گزارتے ہوئے موانع پیش آتے ہیں۔ ایک مسلمان اس نظریہ حیات کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ‘ یعنی اپنے گھر سے لے کر ریاست کے تمام اداروں تک ‘ اللہ کی حکمرانی کے سوا کسی اور کی حکمرانی کو قبول نہیں کرسکتا۔ قومی اور بین الاقوامی تعلقات میں ‘ اللہ ہی کی حکمرانی کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا اور ہر سطح پر اس کی بالادستی کو قائم رکھنا ‘ ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں کوئی وجہ نہیں کہ غیر مسلم قوتوں کے ساتھ تصادم کی نوبت نہ آئے اور بالخصوص وہ قوتیں جو اللہ کی حاکمیت پر مبنی نظریہ حیات کے ساتھ مخاصمت کا رویہ رکھتی ہیں ‘ انھیں کسی صورت بھی یہ گوارا نہیں ہوتا کہ ایسی کوئی قوم یا ایسی کوئی ریاست دنیا میں وجود پائے اور پھر ترقی کرے ‘ جو ان کی حاکمیتوں اور ان کے نظریہ ہائے حیات کے لیے چیلنج بن سکے۔ چناچہ وہ اپنی تمام تر قوتوں کو بروئے کار لا کر مختلف طریقوں سے اس نوزائیدہ قوت کو ناکام کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اب اس نظریہ حیات سے وابستہ شخص یا قوم ایسی قوتوں کا پوری طرح شعور نہیں رکھتی اور وہ ان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں اگر پوری طرح یکسو نہیں ہے بلکہ اس کا رویہ تذبذب کا شکار رہتا ہے تو زندگی کے سفر میں وہ کبھی بھی کوئی معرکہ سرانجام نہیں دے سکتی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی بقاء کے لیے بھی خطرات پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ تین حقائق جو اجمالی انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ انھیں ذہن میں رکھ کر پیش نظر آیات کو پڑھیئے تو انشاء اللہ ان آیات کا اصل پیغام سمجھنا مشکل نہیں ہوگا۔
Top