Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 50
اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ١ؕ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۠ ۧ
اَفَحُكْمَ
: کیا حکم
الْجَاهِلِيَّةِ
: جاہلیت
يَبْغُوْنَ
: وہ چاہتے ہیں
وَمَنْ
: اور کس
اَحْسَنُ
: بہترین
مِنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
حُكْمًا
: حکم
لِّقَوْمٍ
: لوگوں کے لیے
يُّوْقِنُوْنَ
: یقین رکھتے ہیں
اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں) تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ‘ ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے
اَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ ط وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ ۔ (المائدہ : 50) (اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں) تو کیا یہ لوگ پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ‘ ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے) جاہلیت کا لفظ مَا اَنْزَلَ اللہ ُ کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی جو چیز بھی مَا اَنْزَلَ اللہ ُ کے مقابل ہے یا اس کے خلاف ہے ‘ وہ جاہلیت ہے کیونکہ اسلام کی بنیاد اس علم پر ہے ‘ جسے اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے اور جو فی الواقع حقیقی علم کہلانے کا مستحق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام حقائق کا علم رکھتا ہے ‘ چاہے ان کا تعلق علم کے کسی شعبہ سے بھی ہو۔ اس کا علم نہ گمان پر مبنی ہے اور نہ کسی ایک شعبے میں محدود۔ اس کے برعکس ہر وہ طریقہ جو اسلام سے مختلف ہے ‘ جاہلیت کا طریقہ ہے۔ عرب کے زمانہ قبل اسلام کو جاہلیت کا دور اسی معنی میں کہا گیا ہے کہ اس زمانہ میں علم کے بغیر محض وہم یا قیاس و گمان یا خواہشات کی بنا پر انسانوں نے اپنے لیے زندگی کے طریقے مقرر کرلیے تھے۔ یہ طرز عمل جہاں جس دور میں بھی انسان اختیار کرے ‘ اسے بہرحال جاہلیت ہی کا طرز عمل کہا جائے گا۔ مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے ‘ وہ محض ایک جزوی علم ہے اور کسی معنی میں بھی انسان کی راہنمائی کے لیے کافی نہیں ہے۔ لہٰذا اللہ کے دیئے ہوئے علم سے بےنیاز ہو کر جو نظام زندگی اس جزوی علم کے ساتھ ظنون و اوہام اور قیاسات و خواہشات کی آمیزش کر کے بنا لیے گئے ہیں ‘ وہ بھی اسی طرح جاہلیت کی تعریف میں آتے ہیں ‘ جس طرح قدیم زمانے کے جاہلی طریقے اس تعریف میں آتے تھے۔ اہل کتاب اپنی ساری گمراہیوں کے باوجود علم اور جاہلیت کے اس فرق کو کسی نہ کسی حد تک ضرور سمجھتے تھے۔ اس لیے ان کی عقل سے اپیل کی گئی ہے کہ جب تم یہ جانتے ہو کہ علم تو وہ ہے ‘ جو اللہ کی طرف سے آئے اور تم تسلیم کرو یا نہ کرو ‘ لیکن تم اپنی کتابوں کی دی ہوئی خبر کے مطابق رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم کو پہچانتے ہو کہ یہ ضابطہ حیات اللہ کی طرف سے آیا ہے ‘ جو سراسر علم پر مبنی ہے تو کیا یہ جانتے ہوئے بھی تم پھر جاہلیت کے راستے پر چلنا چاہتے ہو ؟ لیکن تمہاری مصیبت یہ ہے کہ اس حقیقت سے بےبہرہ نہیں ہو بلکہ یقین وایقان سے عاری ہو اور وہ علم جو یقین کی قوت سے محروم ہو ‘ وہ محض ذہن کی ورزش ہے اور ذوق کی عیاشی۔ ایسے علم سے علمی مجالس میں رونق کا سامان کیا جاسکتا ہے ‘ علمی مغالطے پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن انسانی زندگی کی فوزو فلاح کے لیے جس سیرت و کردار کی ضرورت ہوتی ہے ‘ وہ تو صرف یقین و ایمان سے ہی پیدا ہوتی ہے اور اہل کتاب اسی نعمت سے محروم ہیں ؎ یقین افراد کا سرمایہ تعمیرِ ملت ہے یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیر ملت ہے پیش نظر آیات کو پڑھنے سے پہلے چند حقائق کا ادراک بہت ضروری ہے۔ انسان کی کامیابی کا انحصار اپنے مقصد حیات سے سنجیدہ وابستگی سے ہے 1 وہ قومیں ‘ جو کسی نظریہ حیات سے وابستہ ہوتی ہیں ‘ ان کی زندگی اور بقاء کی ضمانت صرف نظریہ حیات سے غیر مشروط وابستگی ہوتی ہے۔ ان کی تمام تر قوت کا سرچشمہ ‘ اسی نظریہ حیات کے بارے میں یکسو ہونا ہے۔ وہ جب کبھی بھی اس نظریہ حیات کے بارے میں تشکک و ارتیاب کا شکارہوتی ہیں ‘ اسی وقت ان کی اجتماعی قوت میں کمی آنے لگتی ہے اور ان کی بقاء کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ اس کو اگر ہم سمجھنا چاہیں تو ہم اپنی روز مرہ کی مثالوں سے بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ مثلا : اگر آپ اپنے بچے کو کسی تعلیمی ادارے میں پڑھنے کے لیے داخل کراتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد آپ کو یہ شکایت ملتی ہے کہ آپ کا بچہ روزانہ سکول آتا تو ہے ‘ لیکن نہ سکول کی تعلیم میں دلچسپی لیتا ہے اور نہ ہوم ورک کر کے آتا ہے۔ آپ پریشانی سے جب بچے کا جائزہ لیتے ہیں تو بالآخر آپ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بچہ سکول ضرور جاتا ہے ‘ لیکن سکول جانے کا جو مقصد ہے ‘ یعنی علم کا حصول ‘ اس کے ساتھ اس کی وابستگی برائے نام بھی نہیں۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ سکول میں آمدورفت ‘ بس یہی اس کا مقصد ہے۔ رہا علم کا حصول ‘ اس کے لیے اسکے دماغ میں کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ یہ وجہ ہے ‘ جسکے باعث وہ تعلیم سے کورا رہتا ہے۔ اگر آپ اس کی تعلیمی حالت کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو اسکی ایک ہی صورت ہے کہ آپ اسے مقصد سے بہرہ ور کرنے کی کوشش کریں اور پھر اس کی تمام تر صلاحیتوں کو اس کے ساتھ یکسو کردیں۔ تب آپ دیکھیں گے کہ چند ہی دنوں میں آپ کا بچہ بہتر نتائج دینے لگے گا۔ ہماری قریبی تاریخ میں لکھنؤ کے ایک اچھے عالم دین گزرے ہیں ‘ جن کا نام مولانا محمد منظور نعمانی تھا۔ انھوں نے اپنے حالات میں لکھا کہ مجھے میرے والدین نے ایک دینی مدرسے میں داخل کروا دیا۔ لیکن میں کئی سال تک اس کی ابتدائی کتابوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ والدین اور اساتذہ دونوں حیران تھے کہ بچے کی ذہنی صلاحیت تو بری نہیں ‘ لیکن یہ آگے کیوں نہیں بڑھ پا رہا۔ اتفاق سے ان کے شہر میں مفتی محمد نعیم لدھیانوی صاحب نے ایک مدرسہ قائم کیا تو ان کے والد صاحب نے اس مدرسے میں ان کو داخل کرا دیا۔ مفتی صاحب مذکور نے ان کی تعلیمی حالت اور ان کی عمر کا اندازہ کر کے یہ محسوس کرلیا کہ یہ بچہ اپنے مقصد حیات کے ساتھ سنجیدہ نہیں۔ چناچہ انھوں نے ایک دن ‘ بقول مولانا کے ‘ انھیں بٹھا کر پوچھا کہ بیٹے تم مجھے سچ سچ بتائو کہ تم پڑھنا چاہتے ہو یا نہیں ؟ مولاناکہتے ہیں کہ میں نے پوری طرح سوچ بچار کے بعد انھیں جواب دیا کہ ہاں ! میں اب پڑھنا چاہتا ہوں۔ چناچہ جب انھوں نے اپنے ارادے کے بارے میں سنجیدگی اور یکسوئی کے ساتھ محنت کرنا شروع کی تو نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لڑکا جو کئی سالوں سے ابتدائی کتابوں میں رکا ہوا تھا ‘ اب وہ ہفتوں میں مہینوں کا کام کرنے لگا۔ اس مثال سے یہ بات سمجھنا آسان ہوجاتی ہے کہ افراد ہوں یا قوم ‘ وہ جس نظریہ حیات کو اپنی زندگی اور مقصد زندگی طے کرچکے ہوں ‘ جب تک اس کے بارے میں ان کے اندر سنجیدگی ‘ وابستگی اور یکسوئی پیدا نہیں ہوتی ‘ اس وقت تک ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قوت کے وہ سرچشمے ابلنا شروع نہیں کرتے ‘ جس کے نتیجے میں ایک کامیاب زندگی کا راستہ کھلتا ہے۔ مسلمان کا مقصد حیات 2 محولہ بالا حقیقت سے ایک دوسری حقیقت آپ سے آپ جنم لیتی ہے کہ جب ایک نظریہ حیات سے وابستگی اور یکسوئی پیدا ہوجاتی ہے تو پھر وہی نظریہ اور وہی مقصد افراد اور اقوام سے تعلقات کا حوالہ بن جاتا ہے۔ اسے ان افراد سے اور اقوام سے محبت ہوجاتی ہے ‘ جو اس کے نظریہ حیات یا مقصد حیات کے بارے میں ہمدردانہ اور مخلصانہ رویہ رکھتی ہوں۔ ان سے راہ و رسم رکھنا اور ان سے اعتماد کا برتائو کرنا اور ان پر اعتماد کرنا ‘ اسے محبوب ہوجاتا ہے۔ لیکن جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ بعض افراد یا بعض قومیں ‘ اس کے نظریہ حیات یا مقصد حیات کے ساتھ دوستی کا نہیں ‘ بلکہ دشمنی کا رویہ رکھتی ہیں اور انھیں یہ ہرگز گوارا نہیں کہ یہ شخص یا یہ قوم اپنے نظریہ حیات کے مطابق زندگی گزارے ‘ ترقی کرے اور مقاصد حیات کو پا سکے تو پھر اس شخص یا اس قوم کے لیے چونکہ اپنا نظریہ حیات ہر چیز سے زیادہ عزیز ہوتا ہے اور وہ اسکے مقابلے میں ہر چیز کو چھوڑ سکتا ہے ‘ اسے پھر یہ فیصلہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ مجھے ایسے شخص یا ایسی قوم سے کسی قسم کا کوئی بھی رشتہ نہیں رکھنا ہے بلکہ مجھے پوری طرح بیدار اور ہوشیار رہنا ہے کہ یہ لوگ مجھے نقصان نہ پہنچا سکیں۔ ہم نے اپنی گفتگو میں بار بار نظریہ حیات یا مقصد حیات کا ذکر کیا ہے جس سے وابستگی ہی ایک مسلمان کی قوت و توانائی کا سرچشمہ ہے۔ ضروری ہے کہ اختصار کے ساتھ اس کی وضاحت کردی جائے۔ مختصراً گزارش ہے کہ ہمارے تمام تر تعلقات کی بنیاد اور ہمارے تمام افکار کی جڑ خالق کائنات سے ہمارے صحیح تعلق پر استوار ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی تخلیق فرمائی ہے ‘ ہمیں بھی اسی نے پیدا فرمایا ہے۔ اسی نے ہمیں زندگی کے امکانات مہیا کیے ہیں۔ اسی نے ہماری بقاء کے تمام اسباب عطا فرمائے ہیں ‘ اسی نے ہمیں حواس خمسہ کے ساتھ عقل اور شعور سے نوازا ہے اور وہ برابر اپنی بیشمار نعمتوں سے ہمیں گراں بار کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی علم و حکمت رکھنے والی ذات اپنی تخلیق کو ‘ جسے اس نے عقل و شعور سے بھی نوازا ہو ‘ بےمقصد تو پیدا نہیں کرسکتی۔ یقیناً اس نے انسان کا ایک مقصد زندگی رکھا ہے۔ چناچہ انسان کو اس مقصد زندگی سے آگاہ کرنے کے لیے ‘ اس نے وحی اور رسالت کا سلسلہ شروع کیا اور حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر رسول اللہ ﷺ تک اس قافلہ انسانی کو کسی دور میں بھی اس نے اس بات سے محروم نہیں رکھا کہ اس کو یہ پتہ نہ ہو کہ مجھے زندگی کس طرح گزارنی ہے ‘ میری زندگی کے مقاصد کیا ہیں ‘ میرا اللہ ‘ جو میرا خالق ومالک ہے ‘ وہ کن باتوں میں راضی ہے اور کن باتوں میں ناراض ہے۔ یہی وہ نظریہ حیات ہے یعنی اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اس کی ہدایات اور احکام پر چلتے ہوئے اللہ کے رسول کے سکھائے ہوئے طریقے پر ‘ اس یقین کے ساتھ گزارنا کہ اس دنیا میں مجھے ہمیشہ نہیں رہنا بلکہ مجھے بھی ہر انسان کی طرح اپنی طبعی زندگی گزارنے کے بعد موت سے ہمکنار ہونا ہے ‘ پھر ایک ایسا دن آئے گا ‘ جب اس دنیا کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور قیامت قائم ہوجائے گی۔ تمام انسان زندہ کیے جائیں گے ‘ اللہ کی عدالت میں سب کی پیشی ہوگی ‘ وہاں زندگی میں انجام دیئے ہوئے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا ‘ ایک ایک عمل اور ایک ایک لمحے کا حساب ہوگا ‘ بس اس دن کی کامیابی اصل کامیابی ہے اور اس دن کی ناکامی اصل ناکامی ہے۔ یہ وہ نظریہ حیات ہے ‘ جس کے مطابق زندگی گزارنا تبھی ممکن ہے ‘ جب ایک مسلمان اپنے اس نظریہ حیات کے ساتھ نہایت یکسوئی سے وابستہ رہے۔ 3 دنیا میں قدم قدم پر اس نظریہ حیات کے مطابق زندگی گزارتے ہوئے موانع پیش آتے ہیں۔ ایک مسلمان اس نظریہ حیات کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ‘ یعنی اپنے گھر سے لے کر ریاست کے تمام اداروں تک ‘ اللہ کی حکمرانی کے سوا کسی اور کی حکمرانی کو قبول نہیں کرسکتا۔ قومی اور بین الاقوامی تعلقات میں ‘ اللہ ہی کی حکمرانی کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا اور ہر سطح پر اس کی بالادستی کو قائم رکھنا ‘ ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں کوئی وجہ نہیں کہ غیر مسلم قوتوں کے ساتھ تصادم کی نوبت نہ آئے اور بالخصوص وہ قوتیں جو اللہ کی حاکمیت پر مبنی نظریہ حیات کے ساتھ مخاصمت کا رویہ رکھتی ہیں ‘ انھیں کسی صورت بھی یہ گوارا نہیں ہوتا کہ ایسی کوئی قوم یا ایسی کوئی ریاست دنیا میں وجود پائے اور پھر ترقی کرے ‘ جو ان کی حاکمیتوں اور ان کے نظریہ ہائے حیات کے لیے چیلنج بن سکے۔ چناچہ وہ اپنی تمام تر قوتوں کو بروئے کار لا کر مختلف طریقوں سے اس نوزائیدہ قوت کو ناکام کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اب اس نظریہ حیات سے وابستہ شخص یا قوم ایسی قوتوں کا پوری طرح شعور نہیں رکھتی اور وہ ان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں اگر پوری طرح یکسو نہیں ہے بلکہ اس کا رویہ تذبذب کا شکار رہتا ہے تو زندگی کے سفر میں وہ کبھی بھی کوئی معرکہ سرانجام نہیں دے سکتی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی بقاء کے لیے بھی خطرات پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ تین حقائق جو اجمالی انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ انھیں ذہن میں رکھ کر پیش نظر آیات کو پڑھیئے تو انشاء اللہ ان آیات کا اصل پیغام سمجھنا مشکل نہیں ہوگا۔
Top