Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 58
وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ اتَّخَذُوْهَا هُزُوًا وَّ لَعِبًا١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ
وَاِذَا : اور جب نَادَيْتُمْ : تم پکارتے ہو اِلَى : طرف (لیے) الصَّلٰوةِ : نماز اتَّخَذُوْهَا : وہ اسے ٹھہراتے ہیں هُزُوًا : ایک مذاق وَّلَعِبًا : اور کھیل ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لیے کہ وہ قَوْمٌ : لوگ لَّا يَعْقِلُوْنَ : عقل نہیں رکھتے ہیں (بےعقل)
اور جب تم نماز کے لیے منادی کرتے ہو تو یہ اس کو مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ یہ ایسے لوگ ہیں ‘ جو عقل نہیں رکھتے
وَاِذَانَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْھَا ھُزُوًا وَّ لَعِبًا ط ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لاَّ یَعْقِلُوْنَ ۔ (المائدہ : 58) ” اور جب تم نماز کے لیے منادی کرتے ہو تو یہ اس کو مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ یہ ایسے لوگ ہیں ‘ جو عقل نہیں رکھتے “۔ ان یہودی اشرار کی اسلام دشمنی یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ یہ اذان کا مذاق اڑانے سے بھی باز نہیں آتے۔ اس کی بھونڈی نقلیں اتارتے ہیں اور ہنستے اور مذاق اڑاتے ہیں۔ اس سلسلے میں احادیث میں ایک واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک یہودی تھا ‘ جس کا معمول یہ تھا کہ جب بھی اذان ہوتی تو وہ اس کی نقل اتارتا اور مذاق اڑاتا اور جب کہا جاتا ” اشھد ان محمد رسول اللہ “ تو وہ کہتا ” احرق اللہ الکاذب “ اللہ جھوٹے کو جلائے۔ یعنی وہ حضور ﷺ کو جھوٹا کہتا اور آپکے جلانے کی بددعا دیتا۔ اللہ نے اس کو سزا دی کہ ایک رات جب وہ اور اس کے گھر والے سب سو رہے تھے ‘ اس کا غلام آگ لے کر گھر میں داخل ہوا نہ جانے کیسے کوئی شعلہ اڑ کر کسی کپڑے پر جاپڑا۔ وہ غلام جا کر سو گیا۔ رات کے کسی حصے میں آگ بھڑک اٹھی اور اس یہودی سمیت اس کے تمام اہل خانہ جل کر بھسم ہوگئے۔ ان کا یہ رویہ اسلام کے اس حکم کے بارے میں تھا ‘ جس کے بارے میں اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شعائر اسلام میں سے ہے۔ جس کی عزت و حرمت کا تحفظ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ جب ان کی ان خباثتوں سے شعائر اسلام بھی محفوظ نہیں ہیں تو اس سے ان کی اسلام دشمنی کی گہرائی کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ مگر کمال ہے ان نام نہاد مسلمانوں پر جو یہود کی اسلام دشمنی کی گہرائی کو محسوس بھی کرتے ہیں مگر پھر بھی ان کی حمیت و غیرت پر آنچ نہیں آتی۔ اس آیت کریمہ کے دوسرے حصے میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں ‘ جو عقل نہیں رکھتے۔ اس سے ایک اہم حقیقت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ اذان فی الحقیقت نماز یعنی عبادت کی طرف بلانے کا ایک ذریعہ ہے۔ عبادت کی طرف بلاوا چاہے کسی مذہب کی طرف سے بھی آئے وہ لائق احترام ہے۔ عام انسانی عقل بھی اس کی تائید کرتی ہے ‘ کیونکہ عبادت دنیا کے ہر مذہب میں رہی ہے۔ آسمانی مذاہب میں تو نماز کا حکم بھی ہمیشہ موجود رہا۔ خود یہود کے لیے تورات میں اس کا حکم نازل کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان بدبختوں نے سب سے پہلے نماز ہی کو ضائع کیا۔ قرآن کریم ان کی اس گمراہی کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : فََخَلَفَ مِنْم بَعْدِھِمْ خَلْفٌ اَضَاعُو الصّٰلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوَاتِ (مریم 19: 59) (پھر ان کے بعد نالائق جانشین آئے ‘ جنھوں نے نماز کو ضائع کردیا اور شہوات کی پیروی کرنے لگے) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمانی مذاہب رکھنے والی قومیں ‘ جب تنزل کا شکار ہوتی ہیں تو سب سے پہلے نماز ہی ان کی زندگیوں سے خارج ہوتی ہے اور نماز کا اہتمام رفتہ رفتہ ان سے جاتا رہتا ہے۔ مسلمان بھی اہل کتاب ہی کی طرح ایک امت ہیں ‘ جن کے بارے میں آنحضرت ﷺ کی یہ تنبیہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ جن راستوں سے برائیاں اہل کتاب میں آئیں ‘ انہی راستوں سے تم میں بھی آئیں گی۔ اس لیے ہماری یہ ملی اور دینی ذمہ داری ہے کہ اہل کتاب چونکہ نماز چھوڑ کر گمراہ ہوئے۔ ہم اپنی قوم کو اس بربادی کے راستے پر چلنے سے روکیں اور اسے تباہی سے بچائیں اور اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو جس طرح سابقہ امتیں تباہ ہوئیں ‘ اس امت کو بھی تباہی سے بچایا نہیں جاسکے گا۔ اس وقت اس امت کی غالب اکثریت نماز سے بیگانہ ہوچکی ہے ‘ جمعہ تک کی پابندی ختم ہوگئی ہے اور جہاں تک نماز کی حقیقی روح کا تعلق ہے ‘ اس کا وجود تو شاید تلاش کرنے سے بھی مشکل سے ملے۔ کہنا یہ ہے کہ نماز ہر مذہب میں موجود رہی اور نماز کی طرف بلانے کا کوئی نہ کوئی ذریعہ بھی رہا ‘ جس کو اذان کہا جاتا ہے۔ اب اگر اہل کتاب اس نماز اور نماز کی طرف بلانے والی ندا کی توہین کرنے پر تل جائیں تو اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ بنیادی طور پر عقل سے محروم ہوگئے ہیں۔ کیونکہ انھیں اگر دشمنی ہے تو وہ اسلام اور مسلمانوں سے ہے ‘ لیکن اللہ کا نام لینا اور اللہ کا نام لے کر نماز کی طرف بلانا ‘ اس میں تو کوئی ایسی بات نہیں ہے جو ان کی دشمنی کو انگیخت کرتی ہو۔ لیکن اگر یہ بھی انھیں گوارا نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمنی نے ان کی عقل پر غلبہ پا لیا ہے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو عقل نہیں رکھتے ‘ اس کے برخلاف ہم مسلمانوں کا رویہ یہ دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے کبھی ان کی عبادت گاہوں کی توہین نہیں کی۔ حضرت صدیق اکبر ( رض) نے حضرت اسامہ کے لشکر کو روانہ کرتے ہوئے جو ہدایات دی تھیں ‘ اس میں واضح طور پر یہ حکم دیا تھا کہ تم راستے میں اہل کتاب کی عبادت گاہوں سے گزرو گے ‘ دیکھنا ! انھیں نقصان نہ پہنچانا۔ ان عبادت گاہوں میں تمہیں تارک الدنیا راہب ملیں گے ان سے تعرض نہ کرنا کیونکہ عبادت تو ایک مشترکہ سرمایہ ہے۔ بنیادی اعتقادات اور شرعی معاملات زیر بحث آسکتے ہیں لیکن مشترکہ اقدار پر تو دشمنی کا تماشہ نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اہل کتاب اپنی دشمنی میں حد سے گزر چکے تھے۔ اس لیے منافقین کو اس طرف توجہ دلاتے ہوئے اصل حقیقت کو سمجھنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اس طرح ممکن ہے کہ ان نام نہاد مسلمانوں کے پندار کو ٹھیس لگے اور وہ راہ راست اختیار کرنے پر تیار ہوجائیں۔
Top