Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِ١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُ١ؕ مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : وہ جو ایمان لائے (ایمان والے) اِذَا : جب قُمْتُمْ : تم اٹھو اِلَى الصَّلٰوةِ : نماز کے لیے فَاغْسِلُوْا : تو دھو لو وُجُوْهَكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيَكُمْ : اور اپنے ہاتھ اِلَى : تک الْمَرَافِقِ : کہنیاں وَامْسَحُوْا : اور مسح کرو بِرُءُوْسِكُمْ : اپنے سروں کا وَاَرْجُلَكُمْ : اور اپنے پاؤں اِلَى : تک الْكَعْبَيْنِ : ٹخنوں وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو جُنُبًا : ناپاک فَاطَّهَّرُوْا : تو خوب پاک ہوجاؤ وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو مَّرْضٰٓى : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر (میں) سَفَرٍ : سفر اَوْ : اور جَآءَ : آئے اَحَدٌ : کوئی مِّنْكُمْ : تم میں سے مِّنَ الْغَآئِطِ : بیت الخلا سے اَوْ لٰمَسْتُمُ : یا تم ملو (صحبت کی) النِّسَآءَ : عورتوں سے فَلَمْ تَجِدُوْا : پھر نہ پاؤ مَآءً : پانی فَتَيَمَّمُوْا : تو تیمم کرلو صَعِيْدًا : مٹی طَيِّبًا : پاک فَامْسَحُوْا : تو مسح کرو بِوُجُوْهِكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيْكُمْ : اور اپنے ہاتھ مِّنْهُ : اس سے مَا يُرِيْدُ : نہیں چاہتا اللّٰهُ : اللہ لِيَجْعَلَ : کہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنْ : کوئی حَرَجٍ : تنگی وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّرِيْدُ : چاہتا ہے لِيُطَهِّرَكُمْ : کہ تمہیں پاک کرے وَلِيُتِمَّ : اور یہ کہ پوری کرے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكُمْ : تم پر لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : احسان مانو
اے اہل ایمان ! جب تم نماز کا قصد کیا کرو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لیا کرو ‘ اور سر کا مسح کرلیا کرو ‘ اور ٹخنوں تک پائوں (دھو لیا کرو) اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہوجایا کرو۔ اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور تیمم کرلو یعنی اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح کرلو۔ اللہ تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنا چاہتا ‘ بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر پوری کرے تاکہ تم شکر کرو۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَ اَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُئُوْسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ ط وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوْا ط وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ ط مَا یُرِیْدُ اللہ ُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔ (المائدہ : 6) ( اے اہل ایمان ! جب تم نماز کا قصد کیا کرو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لیا کرو اور سر کا مسح کرلیا کرو اور ٹخنوں تک پائوں (دھو لیا کرو) اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہوجایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور تیمم کرلو یعنی اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح کرلو۔ اللہ تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر پوری کرے تاکہ تم شکر کرو) اسلامی تہذیب کی بنیاد نماز ہے : اس سے پہلی آیتوں میں ہم نے کھانے پینے کی اشیاء اور عورتوں کے حوالے سے طیبات اور خبائث کا ذکر پڑھا۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ کونسی کھانے کی چیزیں ہمارے لیے طیب اور حلال ہیں اور کون سی خبیث ہیں۔ اسی طرح کن عورتوں سے نکاح ہوسکتا ہے اور کن سے نہیں ہوسکتا۔ یہ گویا جنس اور شکم سے متعلق جسمانی ضرورتوں کی ایک تہذیب کا ذکر ہے۔ اب اس آیت میں ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ تمہاری معنوی ‘ اخلاقی اور روحانی بھی ایک تہذیب ہے ‘ جس کا سارا دارومدار نماز پر ہے۔ یعنی نماز سے اس تہذیب اور تطہیر کا آغاز ہوتا ہے جو قرآن کریم کے پیش نظر ہے اور نماز کے آغاز کے لیے ضروری ہے کہ وضو کیا جائے حالانکہ نماز سے مقصود تو انسان کی روحانی تطہیر ہے ‘ یعنی آدمی کے اندر کی پاکیزگی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ظاہر آدمی کے باطن پر اور باطن آدمی کے ظاہر پر اثرانداز ہوتا ہے کیونکہ اگر آدمی ظاہری طور پر گندا ہو ‘ ممکن نہیں کہ وہ باطنی طور پر پاک رہ سکے اور جو باطنی طور پر گندا ہو ممکن نہیں کہ وہ ظاہری طور پر پاک ہو۔ اس لیے جا بجا قرآن کریم ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی صفائی کا حکم دیتا ہے۔ اسلام نے باطنی صفائی کے ساتھ ساتھ ظاہری صفائی پر جس قدر زور دیا ہے ‘ اتنا زور کسی اور مذہب یا تہذیب نے نہیں دیا۔ میرے علم میں نہیں کہ کسی بھی مذہب نے طہارت کو نصف ایمان قرار دیا ہو۔ طہارت کی جو تفصیلات ہمیں مہیا کی گئی ہیں ‘ ان کو دیکھتے ہوئے تو صاف نظر آتا ہے کہ جس قدر طہارت کی تفصیلات طے کرتے ہوئے اسلام نے عرق ریزی اور جز ُ رسی سے کام لیا ہے ‘ دوسرے مذاہب میں اس کا دور دور تک کوئی نشان نہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی کہہ لیجئے کہ اسلام میں جن چیزوں پر بہت زیادہ زور دیا گیا تھا ‘ ہم نے ان کے بارے میں اتنی ہی زیادہ بےتعلقی اختیار کر رکھی ہے۔ بہرحال تہذیبِ نفس کے لیے ضروری ہے کہ ہم نماز پڑھیں اور چونکہ نماز میں اللہ کے آگے حاضر ہونا ہے ‘ اس کے لیے ظاہری صفائی ضروری ہے۔ ظاہری صفائی کے دو ذرائع ہیں : ایک وضو اور دوسرا غسل۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وضو یا غسل کے لیے پانی نہ ملے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پانی میسر ہو ‘ لیکن آدمی استعمال کرنے پر قادر نہ ہو ‘ مثلاً کسی بیماری کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو۔ یہ وہ مسائل ہیں جنھیں اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ فرمایا : یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اَمَنُوْ اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامَ کا لفظ جس سے قُمْتُمْ بنا ہے ‘ اس کے ساتھ جب اِلٰی کا صیغہ آتا ہے تو اس کا معنی ہوتا ہے ” ارادہ کرنا “۔ فرمایا : اے مسلمانو ! جب تم نماز کا ارادہ کرو اور نماز کا اہتمام کرنا چاہو تو دیکھو ! یونہی بغیر وضو اور بغیر ظاہری تطہیر کے اللہ کے سامنے جا کر کھڑے مت ہوجانا بلکہ اس کے لیے پہلے تمہیں وضو کرنا ہے ‘ اپنے کچھ اعضا دھونے ہیں۔ یہاں ایک بات ذہن میں رکھئے کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی باوضو تھا ‘ لیکن اسے یاد نہیں رہا کہ اس کا وضو ٹوٹ چکا ہے لہٰذا اس نے نماز پڑھ لی۔ کچھ دیر بعد اسے اگر یاد آجائے کہ میرا تو وضو ٹوٹ چکا تھا اور میں نے بےخیالی میں نماز پڑھ لی ہے تو اسے نماز لوٹا لینی چاہیے ‘ اس سے گناہ نہیں ہوگا۔ لیکن اگر کوئی آدمی جانتا تھا کہ میں بےوضو ہوں یا مجھ پر غسل واجب ہے اور اس نے پھر بھی جان بوجھ کر نماز پڑھنے کی کوشش کی تو یہ بہت بڑا جرم (گناہ) ہے ‘ اس سے آدمی کافر ہوجاتا ہے یعنی قصداً اللہ کے سامنے ناپاکی کی حالت میں آنا اتنی بڑی جسارت ہے کہ اس میں عمل تو برباد ہوتا ہی ہے ‘ ایمان بھی جاتا رہتا ہے۔ وضو کا طریقہ اسی لیے یہاں واضح طور پر فرمایا جا رہا ہے کہ جب تم نماز کا ارادہ کرو تو سب سے پہلے وضو کرو۔ یہاں چار چیزیں بیان کی گئی ہیں اور یہ اصل میں وضو کے چار فرائض ہیں۔ وضو میں باقی چیزیں ‘ سنتیں اور مستحبات ہیں جنھیں آداب کہا جاتا ہے ان کی تعلیم قرآن پاک نہیں دیتا ‘ ان کی تعلیم پیغمبر دیتا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ احکام کا ذکر قرآن پاک کرتا ہے اور آداب کا ذکر سنت کرتی ہے۔ وضو میں جن چیزوں کا کرنا فرض ہے وہ چار ہیں ‘ ان کا ذکر قرآن پاک نے کردیا ہے اور جن چیزوں کا تعلق آداب سے ہے ‘ جنھیں ہم سنتیں یا مستحبات کہتے ہیں ‘ ان کا ذکر آنحضرت ﷺ نے کرتے ہوئے فرمایا کہ جب وضو کا ارادہ کرو تو سب سے پہلے ہاتھ دھوئو۔ ظاہر ہے جب ہاتھ ہی پلید ہوں گے اور تم ہاتھوں سے پانی اٹھا کر منہ پر ڈالو گے تو وہ بھی پلید ہوجائے گا یا جس برتن میں ہاتھ ڈالو گے اس کو بھی پلید کردو گے ‘ اس لیے سب سے پہلے ہاتھ دھوئو چونکہ حکم دیا جا رہا ہے چہرے کو دھونے کا اور آدمی کا منہ اور ناک بھی چہرے میں شامل ہے ‘ اس لیے اس کی وضاحت حضور اکرم ﷺ نے فرمائی کہ کلی کرو ‘ اس کے بعد ناک میں پانی ڈالو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو وضو مکروہ ہوجائے گا اور نماز بھی مکروہ ہوجائے گی۔ یہ آداب حضور اکرم ﷺ نے ہمیں سکھائے۔ کوئی بھی حدیث کی کتاب کھول کر اس کے ” باب الوضو “ میں آپ جا بجا دیکھ سکتے ہیں کہ خلفائے راشدین سے لے کر عام اصحابِ کرام ( رض) تک نے ان احکام اور آداب کو جو آنحضرت ﷺ نے دئیے ‘ بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے یعنی ان میں کوئی چیز ایسی نہیں جو بعد میں وضع کی گئی ہو اور اس پر امت کا تعامل نہ رہا ہو۔ ایک تو یہ کہ اسے زبانی طور پر تواتر کے ساتھ ذکر کیا گیا اور دوسرے یہ کہ امت کا عمل آگے منتقل ہوتا رہا ہے۔ نماز بھی عمل اور قول دونوں شکلوں سے منتقل ہوئی ہے اور وضو بھی قول اور عمل ‘ دونوں سے آگے منتقل ہوا ہے۔ حضرت عثمان غنی ( رض) اور حضرت جابر ( رض) کی اس سے متعلق کئی روایات ہیں۔ اسی طرح حضرت ابوذر ‘ حضرت عمر اور حضرت علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کافی روایات ہیں جن میں انھوں نے لوگوں سے فرمایا کہ آئو ! میں تمہیں وضو کر کے دکھائوں کہ حضور ﷺ کا وضو کیسا ہوتا تھا۔ اس لیے وضو کے بارے میں جتنی بھی روایات ہیں ‘ ان کے بارے میں یہ ذہن نشین کرلیجئے کہ وہ ہم تک تواتر کے ساتھ پہنچی ہیں۔ تواتر یہ ہوتا ہے کہ کسی بات کو آگے ذکر اور روایت کرنے والے اس کثرت اور اتنی بڑی تعداد میں ہوں کہ انسان اس کا تصور بھی نہ کرسکے کہ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کبھی جھوٹ پر جمع ہوسکتی ہے یعنی جسے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نقل کرنے والی ہو ‘ اسے تواتر کہتے ہیں اور اگر یہ تواتر دوہرا ہوجائے یعنی ایک تواتر قولی اور دوسرا عملی۔ تواتر قولی یہ کہ لوگ مسلسل اس بات کو بیان کرتے رہیں ‘ جیسے حضرت عمر ‘ حضرت علی ( رض) مانے بیان فرمایا کہ دیکھو ! میں تمہیں بتاتا ہوں کہ حضور اکرم ﷺ کیسے وضو فرماتے تھے۔ تواتر عملی یہ ہے کہ اسے کر کے بھی دکھایا جائے یعنی یہ لوگ وضو کر کے بھی دکھاتے تھے۔ وضو بیان کرنے اور کر کے دکھانے والوں کی اتنی بڑی تعداد ہے کہ کوئی آدمی یہ تصور نہیں کرسکتا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ کبھی جھوٹ پر جمع ہوسکتے ہیں۔ اس لیے جس چیز کو تواتر کے ساتھ ذکر کیا جائے ‘ یاد رکھئے ! اس کا انکار کفر ہوتا ہے۔ قرآن کریم بھی ہم تک ان دونوں قسم کے تواتر سے پہنچا ہے ‘ تواتر قولی سے بھی اور عملی سے بھی۔ اسی طرح نماز اور وضو بھی ہم تک قولی اور عملی تواتر سے پہنچے ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے فرمایا کہ تم ہاتھ دھونے ‘ کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے (استنشاق) کے بعد اپنا پورا چہرہ دھوئو ‘ یعنی پیشانی کے بالوں سے کانوں کی لوئوں اور نیچے ٹھوڑی تک کا پورا چہرہ دھونے کے بارے میں فرمایا کہ ” فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ “ اپنے چہروں کو دھو لو اور چہرے کو دھونے کے بعد دوسرا کام یہ کرنا کہ اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو لو۔ ہمارے ہاتھ کلائیوں تک ہیں۔ یہاں چونکہ ” اِلَی الْمَرَافِقِ “ کا ذکر ہے ‘ لہٰذا یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ اس میں کہنیاں بھی شامل ہیں۔ یاد رکھیئے ! اگر اس کا کچھ حصہ بھی خشک رہ جائے گا تو وضو نہیں ہوگا۔ اس کے بعد فرمایا : (وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ ) ” اور اپنے سروں کا مسح کرو “۔ مسح ” ہاتھ پھیرنے “ کو کہتے ہیں۔ کسی عضو پر پانی والا (گیلا) ہاتھ پھیرنا مسح کہلاتا ہے۔ فرمایا کہ اپنے سروں کا مسح کرو۔ وضو میں پائوں دھونا فرض ہے پھر فرمایا : (وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ ) ” اپنے پائوں کو ٹخنوں تک دھو لیا کرو “۔ یہاں دو تین باتیں بہت اہم ہیں۔ ہمارے ہاں اہل علم کا ایک طبقہ ایسا ہے جو یہ کہتا ہے کہ اصل میں اَرْجُلَکُمْ نہیں بلکہ اَرْجُلِکُمْ بالکسر ہے اور اس کا عطف ” بِرُئُ وْسِکُمْ “ پر ہے ‘ اَیِْدِیَکُمْ پر نہیں۔ جمہوراہلِ سنت کا موقف یہ ہے کہ اَرْجُلِکُمْ بالکسر نہیں بلکہ اَرْجُلَکُمْ بالفتح ہے اور اس کا عطف اَیِْدِیَکُمْ پر ہے بِرُئُ وْسِکُمْ پر نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں میں فرق کیا ہے ؟ اگر ہم اسے ” اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ “ پڑھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پائوں کا دھونا بھی فرض ہے۔ لیکن اگر ہم اسے ” اَرْجُلِکُمْ “ پڑھتے ہیں تو مطلب یہ ہوگا کہ پائوں کا دھونا فرض نہیں بلکہ اس کا مسح کرنا فرض ہے۔ لیکن ہم سب لوگ ” اَرْجُلَکُمْ “ پڑھتے ہیں اور پائوں کا دھونا فرض سمجھتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جتنی احادیث تواتر سے ہم تک پہنچی ہیں ‘ ان سب میں کہیں ” اَرْجُلِکُمْ “ کا ذکر نہیں ‘ ان میں اَرْجُلَکُمْ لام کے فتح کے ساتھ مذکور ہے۔ اب جو روایات ہمیں متواتر پہنچی ہوں ان کا انکار کفر ہوگا۔ اگر کوئی آدمی کسی خاص حوالے سے ان کی علمی تاویل کرے تو اسے کفر تو نہیں کہا جاسکتا ‘ لیکن یہ گمراہی تو پھر بھی ہوگی۔ اس لیے کہ ہم کبھی اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ متواتر روایت میں کہیں غلطی رہ گئی ہو۔ تمام صحابہ کرام ( رض) تواتر سے ” اَرْجُلَکُمْ “ پڑھتے رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہی وہ روایت ہے جس کو ہمیں قبول کرنا ہوگا۔ دوسرے جو قرآء کی مختلف روایات ہم تک پہنچی ہیں ‘ ان میں بھی جو قرأت تواتر سے ثابت ہے ‘ وہ اَرْجُلَکُمْ کی ہے۔ نیز آنحضرت ﷺ کا خود پائوں دھونا بھی تواتر سے ثابت ہے جبکہ ایک دفعہ بھی حضور اکرم ﷺ کا مسح کرنا ثابت نہیں ‘ ظاہر ہے ہم اسی پر عمل کریں گے۔ رہی یہ بات کہ یہاں قرآن کریم نے آخر اسے بعد میں کیوں ذکر کیا ؟ تو اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں یہ بات بتانا مقصود ہے کہ جس طرح چہرے کا دھونا ‘ ہاتھوں کا کہنیوں تک دھونا ‘ سر کا مسح کرنا اور پھر پائوں کا دھونا فرض ہے ‘ اسی طرح اس کی بیان کردہ ترتیب بھی ضروری ہے۔ اسی ترتیب کی طرف اشارہ کرنے کے لیے وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ کو درمیان میں لایا گیا۔ اگر اسے بعد میں لے جایا جاتا تو پھر ترتیب کا ذکر نہ ہو پاتا۔ اس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ ترتیب فطری بھی ہے اور شرعی بھی ہے یعنی شریعت اور قرآن کریم نے بھی اسے لازم کیا ہے اور فطری ترتیب بھی یہی ہے کہ آپ پہلے منہ دھوئیں ‘ پھر ہاتھ دھوئیں ‘ پھر سر کا مسح کریں ‘ پھر پائوں دھوئیں۔ بالکل یہی ترتیب قرآن کریم نے ملحوظ رکھی ہے ‘ اس ترتیب کو ذکر کرنے کے لیے اس کو درمیان میں ذکر کیا گیا ہے۔ کوئی آدمی کہہ سکتا ہے ” عربیت “ کے لحاظ سے اگر اسے ” اَرْجُلِکُمْ “ لام کے کسرہ کے ساتھ پڑھ لیا جائے تو کیا حرج ہے ؟ حرج یہ ہے کہ صحیح عربی زبان کا ذوق اسے قبول نہیں کرتا کیونکہ جہاں بھی مسح کا حکم دیا جاتا ہے اس کے ساتھ یہ ذکر نہیں کیا جاتا کہ مسح کہاں تک کرنا ہے ؟ دھونے میں تو ابتداء و انتہاء کا ذکر ہوتا ہے ‘ مسح میں نہیں۔ مثلاً دیکھئے ! اس کے بعد اسی آیت میں آگے آرہا ہے : وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍاَوْجَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْلٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ مِنْہُ (اگر تم بیمار ہو ‘ سفر میں ہو ‘ بیت الخلا سے آئے ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہیں ملتا تو پاک مٹی کا قصد کرو ‘ وہ اس طرح کہ تم مسح کرو اپنے چہروں کا اور اپنے ہاتھوں کا) غور کریں کہ یہاں ہاتھوں کے مسح کے حکم میں ” اِلَی الْمَرَافِقِ “ کے الفاظ نہیں ہیں۔ معلوم ہوا کہ مسح میں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ مسح کہاں سے کہاں تک کرنا ہے۔ ” مسح “ صرف ہاتھ پھیر دینے کا نام ہے۔ اسی طرح اگر ” وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ “۔ میں پائوں کا مسح مقصود ہوتا تو اِلَی الْکَعْبَیْنِکے ذکر کی ضرورت نہیں تھی۔ جیسے آگے چل کر آپ نے دیکھا کہ جہاں مسح کا ذکر آیا وہاں ” اِلَی الْمَرَافِقِ “ کے الفاظ کو ختم کردیا گیا۔ مختصر یہ کہ پائوں دھونے کا حکم امت تک متواتر سنت سے پہنچا ہے اور اَرْجُلَکُمْ (بالفتح) کی قرآت بھی تواتر سے ثابت ہے اور اعلیٰ عربیت کا تقاضا بھی یہی ہے۔ یہ تین حوالے ہیں جن سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ” اَرْجُلَکُمْ ہے ‘ اَرْجُلِکُمْ “ نہیں یعنی مسح ہم صرف اپنے سروں کا کریں گے ‘ جہاں تک پائوں کا تعلق ہے ‘ اسے دھویا جائے گا۔ حالت جنابت میں غسل کا حکم : فرمایا : وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوْا ط ” اگر تم حالت جنابت میں ہو تو پاک ہوجاؤ “۔ جُنُبًاکا مطلب ہوتا ہے : اجنبی اور بیگانہ۔ یہ واحد جمع، مذکر مؤنث سب میں ایک ہی حالت میں رہتا ہے ‘ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اور قرآن کریم نے بھی اس معنی میں اس کو استعمال کیا ہے۔ مثلًا وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ “ (النساء : 36) (جو قریبی ہمسایہ ہے ‘ اس کے بھی حقوق ہیں اور جو اجنبی ہمسایہ ہے ‘ اس کے بھی حقوق ہیں) تو یہاں ” جُنُب “ اجنبی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح یہ لفظ جو اجنبی کے لیے استعمال ہوتا ہے ‘ یہی جنابت والے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جنابت کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی شادی شدہ ہے اور وہ اپنی بیوی سے ہم بستری کرے اور جو شادی شدہ نہیں ہے وہ ویسے ہی ناپاک ہوجائے ‘ تو ہم کہتے ہیں کہ وہ شخص حالت جنابت میں ہے اور اسیجُنبی کہتے ہیں۔ یہاں فرمایا گیا کہ اگر تم میں سے کوئی جُنبی ہوجائے تو ” فَاطَّھَّرُوْا “ اب یہ بات کافی نہیں ہے کہ تم وضو کرلو ورنہ فَاطھَرُوْا کہا جاتا۔ عربی کا قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی مصدر یا مادہ کے الفاظ میں کثرت کردی جاتی ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ وہ کثرت معنی پر دلالت کرتی ہے۔ یہاں پر بھی جب اسکے الفاظ میں کثرت ہوگی تو اس کا معنی یہ نہیں کہ آپ صرف وضو کریں بلکہ معنی یہ ہے کہ آپ غسل کریں یعنی اگر وضو ٹوٹ گیا ہے تو اس کے لیے تو وضو کافی ہے ‘ لیکن اگر جنابت ہوگئی ہے ‘ تو اب صرف وضو کافی نہیں بلکہ اب آپکو غسل کرنا ہوگا۔ یہ تو وہ مفہوم ہے جو الفاظ بتاتے ہیں اور جہاں تک ان الفاظ کے حوالے سے آنحضرت ﷺ کا عمل اور صحابہ کرام ( رض) کے عمل کا تعلق ہے ‘ وہ بھی اسی بات کی تائید کرتا ہے کہ جنابت میں صرف وضو کافی نہیں ہوتا ‘ بلکہ اس میں غسل کرنا ضروری ہے۔ تیمم کی حالتوں کا بیان حدث اصغر ہو یاحدث اکبر یا حالت جنابت ‘ پاکیزگی کے لیے وضو یا غسل ضروری ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پانی دستیاب نہیں ہوتا یا کبھی ایسی مجبوری لاحق ہوتی ہے کہ پانی ہوتے ہوئے بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی صورت حال میں پاکیزگی حاصل کرنے کے کیا احکام ہیں اب ان کو ذکر کیا جارہا ہے۔ 1 فرمایا : ” وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی “ اگر تم بیمار ہو یعنی پانی تو ہے لیکن اس کا استعمال تمہیں مزید بیمار کرسکتا ہے۔ اب تمہیں اس کے استعمال کی اجازت نہیں ہے یا یہ ضروری نہیں کہ تم اس کا استعمال کرو۔ اگر تم بلاوجہ پانی استعمال کر کے اپنی بیماری کو بڑھا دو گے اور اس سے اللہ نہ کرے تمہاری موت واقع ہوجائے تو تم اس کے ذمہ دار ٹھہرو گے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص سفر میں سر پر چوٹ لگنے سے زخمی ہوگیا اور اس کا سر پھٹ گیا۔ لیکن وہ ساتھ جُنبی بھی ہوگیا یا پہلے سے جُنبی تھا۔ اب صبح کی نماز کا جب وقت ہوا تو اس نے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے ؟ سر پھٹا ہوا ہے ‘ پانی نقصان دے گا۔ ان کو اس مسئلے کا علم نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ نماز پڑھنی بھی ضروری ہے اور اس کے لیے طہارت بھی ضروری ہے ‘ چناچہ اسے نہلا دیا۔ نہلانے سے اس کی تکلیف اتنی بڑھی کہ بالآخر اس کی موت واقع ہوگئی۔ آنحضرت ﷺ کو علم ہوا تو آپ ﷺ اس قدر برہم ہوئے کہ فرمایا : اگر تمہاری بےعلمی اور بیخبر ی تمہارا عذر نہ ہوتی تو میں تمہیں اس کے انتقام میں قتل کروا دیتا۔ تم نے ایک آدمی کی جان لے لی۔ اس لیے فرمایا کہ اگر کوئی آدمی حالت جنابت میں ہے اور ساتھ ہی بیمار بھی ہے اور اسے پانی تکلیف دیتا ہے تو اسے پانی استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ طبیب اور ڈاکٹر سے رائے لے خود سے اس کا فیصلہ نہ کرے۔ 2 فرمایا : اَوْ عَلیٰ سَفَرٍ ” اگر آدمی سفر کی حالت میں ہو “۔ اس میں بھی علماء اختلاف کرتے ہیں کہ بندے کا سفر کی حالت میں ہونے سے کیا مراد ہے ؟ مثلاً سفر اگر ہوائی جہاز کا ہے یا ٹرین کا ہے ‘ اعلان ہوتا ہے کہ جلدی جہاز یا ٹرین میں پہنچو اور ادھر آپ نے ابھی وضو کرنا ہے۔ پانی میسر تو ہے ‘ لیکن اگر آپ وضو کرتے ہیں تو آپ کو فلائٹ کے نکل جانے یا کسی اور دشواری (Disturbance) کا خدشہ ہے۔ اب بعض علماء کہتے ہیں کہ اس صورت میں اگر جلدی سے تیمم کرلیا جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں ‘ اس سے نماز پڑھی جاسکتی ہے جبکہ بعض علماء کہتے ہیں کہ چونکہ یہ کوئی حقیقی عذر نہیں ہے ‘ اس لیے اس وقت آپ یہ کرسکتے ہیں کہ نماز قضا کرلیں ‘ لیکن تیمم نہ کریں اور جب آپ پانی استعمال کرسکتے ہوں تو وضو کرنے کے بعد نماز ادا کریں۔ 3 ” اَوْجَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ “ غَائِطْ دراصل ” نشیبی زمین “ کو کہتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو لوگ دیہات میں رہتے ہیں ‘ ان کے ہاں ہمارے گھروں کی طرح گھروں کے اندر بیت الخلاء (Toilet) کا انتظام نہیں ہوتا ‘ وہ اپنی حاجت کے لیے باہر کھلی زمین پر جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ ہمیشہ نشیبی زمین تلاش کرتے ہیں تاکہ نشیبی زمین میں اتر جائیں اور اپنے آپ کو چھپا کر رفع ــحاجت کریں تاکہ کسی دوسرے کی نگاہ ان کے ستر پر نہ پڑ سکے۔ جب مدینہ منورہ میں یہ احکام نازل ہو رہے تھے تو یہ بھی گائوں کی طرح کا ایک قصبہ تھا ‘ جس میں لوگ رفع حاجت کے لیے باہر جاتے تھے اور اس مقصد کے لیے وہ کھجوروں کے جھنڈ میں داخل ہوتے یا کوئی نشیبی زمین دیکھتے۔ اس لیے عربی میں اس لفظ یعنی ” غائط “ کا استعمال عام ہوگیا ‘ جس کا ترجمہ ” جائے ضرورت “ کیا جاتا ہے۔ 4 فرمایا : اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَائَ ” یا تم نے بیویوں سے مباشرت کی ہو “۔ ان تمام صورتوں میں اگر تمہیں پانی کی کمیابی کے باعث دوڑ دھوپ کے بعد بھی پانی نہ ملے اور نماز کا وقت نکل جانے کا اندیشہ ہو ‘ تو پھر تم تیمم کرلو۔ تیمم کا طریقہ تیمم کے معنی قصد کرنے کے ہیں۔ فرمایا پھر تم قصد کرو ” صَعِیْدًا طَیِّبًا “ پاک زمین کی سطح کا۔ مراد یہ ہے کہ پاک (صاف) زمین پر ہاتھ مارو یا زمین کی جنس سے جو چیزیں ہیں ‘ ان میں سے کسی پر ہاتھ مار کر تیمم کرو اور تیمم یہ ہے : فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ مِنْہُ (مسح کرو اپنے چہروں اور ہاتھوں کا اسی (زمین) سے) اور سنت سے اس کا طریقہ جو ہمیں تواتر کے ساتھ ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک دفعہ پاک مٹی پر ہاتھ مارو اور دونوں ہاتھ اپنے منہ پر پھیر لو ‘ پھر مٹی پر ہاتھ مارو اور اپنے ہاتھوں اور بازوئوں پر کہنیوں تک پھیر لو۔ اب اس میں ظاہر ہے کہ اگر ہاتھ پورا نہ بھی پھر سکا ‘ کہیں کوئی جگہ رہ بھی گئی تو مسح پھر بھی ہوجائے گا۔ لیکن اگر وضو کرتے ہوئے کوئی جگہ خشک رہ جائے ‘ تو وضو نہیں ہوتا۔ یہ تو ہیں احکام جن کا میں نے سادہ سے انداز میں ذکر کردیا ہے ‘ اس کے بعد اس کی حکمت کا بیان ہے۔ ” مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔ “ اللہ یہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی کر دے کہ تمہیں یہ کہے کہ وضو اور غسل میں تمہیں ہر صورت میں پانی استعمال کرنا ہے ‘ چاہے تمہیں پانی ملے یا نہ ملے۔ ظاہر ہے یہ بہت بڑی تنگی کی بات ہے۔ فرض کریں سفر میں پانی دستیاب نہیں یا کوئی اور ایسی مجبوری ہوگئی ہے تو پھر آپ کیا کریں گے ؟ اللہ نے اس میں سہولت پیدا کردی۔ تیمم سے مقصود روح کی طہارت ہے فرمایا اللہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں طہارت عطا کرے ‘ تمہیں پاکیزہ بنا دے۔ یعنی نماز سے پہلے ضروری ہے کہ تمہیں پاکیزگی عطا کی جائے۔ پاک ہونے کے لیے ظاہر ہے پانی شرط ہے اور پانی ملتا نہیں تو پھر تیمم کرو۔ ہر آدمی جانتا ہے کہ مٹی مجھے کچھ گندا تو کرسکتی ہے ‘ پاکیزہ کیا بنائے گی ؟ لیکن یہ ایک احساس کہ اللہ کے سامنے گندگی کی حالت میں نہیں جایا جاسکتا ‘ یہ احساس مٹی پر ہاتھ مارتے ہوئے ‘ منہ اور ہاتھوں پر مٹی لگے ہاتھ پھیرتے ہوئے ضرور دل پر تطہیر کا عمل کرے گا کہ چلو مجھ سے جو بن پڑا ‘ وہ تو میں نے کیا۔ یہ عمل آدمی کے اندر طہارت اور تطہیر کو بروئے کار لاتا ہے اور یہی دراصل مقصود ہے۔ فرمایا کہ اگر ہم تمہیں یہ حکم دیتے کہ ہر صورت میں تمہیں پانی استعمال کرنا ہے ‘ پھر اگر پانی نہ ملتا ‘ بالخصوص عرب کی دنیا میں ‘ تو تم ایک مصیبت میں پڑجاتے۔ اب ہم نے تمہیں سہولت عطا کردی اور اس کے ساتھ ساتھ مزید یہ نعمت عطا کی کہ مسائل طہارت کے حوالے سے احکامِ شریعت کو مکمل کردیا۔ جہاں تک اہل کتاب کا تعلق ہے ‘ وہ اس کے دور دور تک قائل نہیں تھے بلکہ وہ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ جب تیمم کے یہ احکام نازل ہوئے تو انھوں نے یہاں تک کہا کہ تم اس حد تک بگڑے ہوئے لوگ ہو کہ تم سے تو مشرکین مکہ اچھے ہیں ‘ کم از کم وہ یہ حرکت تو نہیں کرتے کہ ناپاکی کی حالت میں مٹی استعمال کرنا شروع کردیں۔ انھوں نے اس کا خوب مذاق اڑایا ‘ حتیٰ کہ اس کا اثر اوس اور خزرج تک نے لیا۔ جب ان کے سردار حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کی کہ حضور ﷺ ! حالت جنابت میں تیمم اور عورتوں کا مخصوص ایام میں گھر کی زندگی میں شرکت وغیرہ شرعی سہولتوں کا یہود بہت مذاق اڑاتے ہیں اور طعن وتشنیع سے کام لیتے ہیں۔ کیا آپ ہمیں اس کی اجازت دیں گے کہ جب ہم ان کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں تو ہم ان باتوں پر عمل نہ کریں ؟ اس بات سے آپ اندازہ کریں کہ مدینے کے رہنے والے لوگوں پر ان کی تہذیب کی گرفت کس قدر شدید تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب انھوں نے یہ بات پوچھی تو حضور ﷺ کے چہرے پر اس قدر ناگواری ظاہر ہوئی (کہ آپ کا چہرہ مبارک غصے سے دمکنے لگا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے چہرہ مبارک پر انار نچوڑ دیا گیا ہے) ۔ اس پر سعد بن معاذ اور دوسرے صحابہ کرام ( رض) اس قدر خوفزدہ ہوئے کہ فوراً وہاں سے اٹھ گئے۔ آپ اپنی برہمی سے یہ تأثر دینا چاہتے تھے کہ اگر تم یہود کی تہذیبی گرفت نہیں توڑ سکتے تو دنیا کی تہذیبوں کی بالادستی کا اثر کیسے ختم کرو گے ؟ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اپنی تہذیب ‘ اپنے طور اطوار اور اپنے آداب زندگی کو بالادست بنانا اسلام کا عین مطلوب ہے ‘ چاہے وہ وضو اور طہارت کے حوالے سے ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ اس کے بغیر تکمیل ِ شریعت اور اتمام نعمت کا عمل بےمعنی ہو کر رہ جائے گا حالانکہ یہی وہ احسان خداوندی ہے جس کا بندوں پر شکر لازم ہے۔
Top