Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 60
قُلْ هَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ مَثُوْبَةً عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ مَنْ لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَ غَضِبَ عَلَیْهِ وَ جَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَ الْخَنَازِیْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْتَ١ؕ اُولٰٓئِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضَلُّ عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ
قُلْ
: آپ کہ دیں
هَلْ
: کیا
اُنَبِّئُكُمْ
: تمہیں بتلاؤں
بِشَرٍّ
: بدتر
مِّنْ
: سے
ذٰلِكَ
: اس
مَثُوْبَةً
: ٹھکانہ (جزا)
عِنْدَ
: ہاں
اللّٰهِ
: اللہ
مَنْ
: جو۔ جس
لَّعَنَهُ
: اس پر لعنت کی
اللّٰهُ
: اللہ
وَغَضِبَ
: اور غضب کیا
عَلَيْهِ
: اس پر
وَجَعَلَ
: اور بنادیا
مِنْهُمُ
: ان سے
الْقِرَدَةَ
: بندر (جمع)
وَالْخَنَازِيْرَ
: اور خنزیر (جمع)
وَعَبَدَ
: اور غلامی
الطَّاغُوْتَ
: طاغوت
اُولٰٓئِكَ
: وہی لوگ
شَرٌّ
: بد ترین
مَّكَانًا
: درجہ میں
وَّاَضَلُّ
: بہت بہکے ہوئے
عَنْ
: سے
سَوَآءِ
: سیدھا
السَّبِيْلِ
: راستہ
کہو ! کیا میں تمہیں بااعتبارِ انجام اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ برے لوگوں کا پتہ دوں ؟ یہ وہ ہیں ‘ جن پر اللہ نے لعنت بھیجی ‘ جن پر اس کا غضب ہوا اور جن کے اندر سے اس نے بندر اور سور بنائے اور جنھوں نے طاغوت کی پرستش کی۔ یہ ٹھکانے کے لحاظ سے بدتر اور اصل شاہراہ سے بعید تر ہیں
قُلْ ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ بِشَرِّ مِّنْ ذٰلِکَ مَثُوْبَۃًعِنَْدَ اللہِ ط مَنْ لَّعَنَہُ اللہ ُ وَ غَضِبَ عَلَیْہِ وَجَعَلَ مِنْھُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْتَ ط اُوْلٰٓئِکَ شَرٌّ مَّکَانًا وَّ اَضَلُّ عَنْ سَوَآئِ السَّبِیْلِ ۔ (المائدہ : 60) ” کہو ! کیا میں تمہیں بااعتبارِ انجام ‘ اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ برے لوگوں کا پتہ دوں ؟ یہ وہ ہیں ‘ جن پر اللہ نے لعنت بھیجی ‘ جن پر اس کا غضب ہوا اور جن کے اندر سے اس نے بندر اور سور بنائے اور جنھوں نے طاغوت کی پرستش کی۔ یہ ٹھکانے کے لحاظ سے بدتر اور اصل شاہراہ سے بعید تر ہیں “۔ یہود کی نافرمانیوں کی سزا اس آیت کریمہ میں پروردگار نے براہ راست ان کی بات کا جواب دینے کی بجائے ‘ ان کی تاریخ کا انھیں آئینہ دکھایا تاکہ اگر وہ سمجھنا چاہیں تو اس آئینہ کو دیکھنے کے بعد بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ اگر براہ راست انھیں اسی تند و تیز لہجے میں جواب دیا جاتا ‘ جس کے وہ مستحق تھے تو یقیناً ان کے اندر ایک اشتعال پیدا ہوتا۔ لیکن یہ اسلوب بھی اپنے اندر دعوتی حکمت رکھنے کے باوجود ایسا مُسکِت ہے کہ جس کا جواب آج تک یہود سے بن نہ پڑا۔ فرمایا گیا کہ تمہارا حال تو یہ ہے کہ تمہارے وہ اسلاف جن کے تم وارث ہو ‘ تم خوب جانتے ہو کہ اپنی بداعمالیوں کی پاداش میں وہ کیسے بڑے بڑے عذابوں سے دوچار ہوئے۔ جب انھوں نے صحرائی زندگی میں اولوالعزمی ‘ جانفروشی اور سخت جانی کی تربیت حاصل کرنے کی بجائے ‘ شہری زندگی اور اس کی مراعات کا مطالبہ کیا تو انھیں حکم دیا گیا کہ جاؤ ! کسی شہر میں جا اترو ‘ تمہیں وہاں یہ ساری نعمتیں مل جائیں گی کیونکہ جس مقصد کے لیے تمہیں مصر سے نکالا گیا تھا ‘ اگر وہ مقصد تمہیں عزیز نہیں بلکہ کھانے پینے کی ہوس ہی تمہیں عزیز ہے تو پھر اللہ کی بارگاہ سے تمہارے لیے ذلت اور مسکنت کے سوا اور کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ چناچہ ان پر ذلت اور مسکنت کی پھٹکار ماری گئی اور جہاں سے انھیں اللہ کی رحمت کو لے کر پلٹنا تھا ‘ وہیں سے وہ اللہ کے غضب کو لے کر لوٹے۔ پھر تاریخ تمہاری اس ذلت اور مسکنت اور غضب کی داستان سے بھری ہوئی ہے ‘ جس کو تم بڑی آسانی سے دیکھ سکتے ہو اور جب انھوں نے ان تاریخی حوادث اور اللہ کے غضب سے کوئی سبق نہ سیکھا تو اللہ نے سبت کی صورت میں ان پر پابندیاں لگا کر انھیں آزمایا۔ جب وہ اس آزمائش میں بری طرح ناکام ہوئے تو ان پر وہ سخت ترین عذاب آیا کہ جس میں انھیں بندر اور سور بنادیا گیا۔ سورة البقرہ میں اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے ‘ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ تاریخی حقیقت یہود میں ایک مسلّمہ واقعہ کی حیثیت رکھتی تھی اور پھر یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ قرآن کریم کی جب یہ آیات نازل ہوئیں ‘ یہود نے ان الزامات کی ہرگز تردید نہیں کی بلکہ اس پر چپ سادھ لی کیونکہ ان حوادث سے ان کے عوام تک بھی آگاہی رکھتے تھے۔ یہ بندر اور خنزیر بنائے جانے کا واقعہ سورة الاعراف میں کسی حد تک تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ‘ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ایک ایسی بستی میں پیش آیا ‘ جو سمندر کے کنارے واقع تھی۔ محققین کا غالب میلان اس طرف ہے کہ یہ مقام ایلہ یا ایلات یا ایلوت تھا ‘ جہاں اب اسرائیل کی یہودی ریاست نے اسی نام کی ایک بندرگاہ بنائی ہے اور جس کے قریب ہی اردن کی مشہور بندرگاہ عقبہ واقع ہے۔ اس کی جائے وقوع بحر قلزم کی اس شاخ کے انتہائی سرے پر ہے ‘ جو جزیرہ نمائے سینا کے مشرقی اور عرب کے مغربی ساحل کے درمیان ایک لمبی خلیج کی صورت میں نظر آتی ہے۔ بنی اسرائیل کے زمانہ عروج میں یہ بڑا اہم تجارتی مرکز تھا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے بحر قلزم کے جنگی و تجارتی بیڑے کا صدرمقام اسی شہر کو بنایا تھا۔ اس بستی کے رہنے والے بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ سبت کے احترام میں اس دن کوئی دنیوی کام نہ کریں۔ گھروں میں آگ تک نہ جلائی جائے ‘ جانوروں اور لونڈی غلاموں تک سے کوئی خدمت نہ لی جائے اور یہ کہ جو شخص اس ضابطہ کی خلاف ورزی کرے اسے قتل کردیا جائے۔ لیکن بنی اسرائیل نے آگے چل کے اس قانون کی علانیہ خلاف ورزی شروع کردی۔ یرمیاہ نبی کے زمانہ میں (جو 668 سے 586 قبل مسیح کے درمیان گزرے ہیں) خاص یروشلم کے پھاٹکوں سے لوگ سبت کے مال و اسباب لے کر گزرتے تھے۔ اس پر نبی موصوف نے اللہ کی طرف سے یہودیوں کو دھمکی دی کہ اگر تم لوگ شریعت کی اس کھلم کھلا خلاف ورزی سے باز نہ آئے تو یروشلم نذر آتش کردیا جائے گا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم اپنی اس بری عادت سے باز نہ آئی بلکہ اس قدر نافرمانی میں دلیر ہوگئی کہ انھیں صاف حکم دیا گیا تھا کہ تم سبت کے دن مچھلیاں نہیں پکڑو گے ‘ چونکہ ان کی گزربسر ساحل سمندر پر رہنے کی وجہ سے زیادہ تر مچھلیوں پر ہی ہوتی تھی ‘ اس لیے یہ ان کے لیے ایک سخت آزمائش تھی۔ وہ بجائے اسکے کہ اپنی اطاعت سے اس آزمائش سے نکلنے کی کوشش کرتے ‘ انھوں نے کھلم کھلا نافرمانی کا راستہ اختیار کیا۔ البتہ حیلہ یہ اختیار کیا کہ سبت کے دن مچھلیاں حوضوں میں جمع کرلیتے اور اتوار کے دن پکڑ لیتے۔ اس پر اللہ کا عذاب حرکت میں آیا۔ قرآن کریم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بستی کے رہنے والے تین قسم کے لوگ تھے ‘ جو اپنے اعمال کے اعتبار سے یکساں نہیں تھے۔ اس لیے پروردگار نے بھی ان کے ساتھ یکساں سلوک نہیں فرمایا۔ ہم اس کی تفصیل ایک محقق کے قلم سے نقل کرتے ہیں۔ (ایک وہ ‘ جو دھڑلے سے احکام الٰہی کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ دوسرے وہ ‘ جو خود تو خلاف ورزی نہیں کرتے تھے ‘ مگر اس خلاف ورزی کو خاموشی کے ساتھ بیٹھے دیکھ رہے تھے اور ناصحوں سے کہتے تھے کہ ان کم بختوں کو نصیحت کرنے سے کیا حاصل ہے۔ تیسرے وہ ‘ جن کی غیرت ایمانی حدود اللہ کی اس کھلم کھلا بےحرمتی کو برداشت نہ کرسکتی تھی اور وہ اس خیال سے نیکی کا حکم کرنے اور بدی سے روکنے میں سرگرم تھے کہ شاید وہ مجرم لوگ ان کی نصیحت سے راہ راست پر آجائیں اور اگر وہ راہ راست نہ اختیار کریں ‘ تب بھی ہم اپنی حد تک تو اپنا فرض ادا کر کے اللہ کے سامنے اپنی براءت کا ثبوت پیش کر ہی دیں۔ اس صورت حال میں جب اس بستی پر اللہ کا عذاب آیا تو قرآن مجید کہتا ہے کہ ان تینوں گروہوں میں سے صرف تیسرا گروہ ہی اس سے بچایا گیا کیونکہ اسی نے اللہ کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کی فکر کی تھی اور وہی تھا ‘ جس نے اپنی براءت کا ثبوت فراہم کر رکھا تھا۔ باقی دونوں گروہوں کا شمار ظالموں میں ہوا اور وہ اپنے جرم کی حد تک مبتلائے عذاب ہوئے) برائی کے خلاف جدوجہد کرنے والا ہی اللہ کے عذاب سے بچتا ہے بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے گروہ کے مبتلائے عذاب ہونے کی اور تیسرے گروہ کے نجات پانے کی تصریح کی ہے ‘ لیکن دوسرے گروہ کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہے۔ لہٰذا اس کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ نجات پانے والوں میں سے تھا یا مبتلائے عذاب ہونے والوں میں سے۔ پھر ایک روایت ابن عباس ( رض) سے یہ مروی ہے کہ وہ پہلے اس بات کے قائل تھے کہ دوسرا گروہ مبتلائے عذاب ہونے والوں میں سے تھا ‘ بعد میں ان کے شاگرد عکرمہ نے ان کو مطمئن کردیا کہ دوسرا گروہ نجات پانے والوں میں شامل تھا۔ لیکن قرآن کے بیان پر جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس ( رض) کا پہلا خیال ہی صحیح تھا۔ ظاہر ہے کہ کسی بستی پر اللہ کا عذاب آنے کی صورت میں تمام بستی دو ہی گروہوں میں تقسیم ہوسکتی ہے ‘ ایک وہ ‘ جو عذاب میں مبتلاہو اور دوسرا وہ جو بچا لیا جائے۔ اب اگر قرآن کی تصریح کے مطابق بچنے والا گروہ صرف تیسرا تھا تو لامحالہ پہلے اور دوسرے دونوں گروہ نہ بچنے والوں میں شامل ہوں گے۔ اسی کی تائید مَعْذِرَۃً اِلیٰ رَبِّکُمْ کے فقرے سے بھی ہوتی ہے ‘ جس کی توثیق بعد کے فقرے میں خود اللہ تعالیٰ نے فرما دی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جس بستی میں علانیہ احکام الٰہی کی خلاف ورزی ہو رہی ہو ‘ وہ ساری کی ساری بستی قابل مواخذہ ہوتی ہے اور اس کا کوئی باشندہ محض اس بنا پر مواخذہ سے بری نہیں ہوسکتا کہ اس نے خود خلاف ورزی نہیں کی بلکہ اسے اللہ کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے لازماً اس بات کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا کہ وہ اپنی حد استطاعت تک اصلاح اور اقامتِ حق کی کوشش کرتا رہا تھا۔ پھر قرآن اور حدیث کے دوسرے ارشادات سے بھی ہم کو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی جرائم کے باب میں اللہ کا قانون یہی ہے۔ چناچہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ج (انفال 8: 25) ” ڈرو اس فتنہ سے ‘ جس کے وبال میں خصوصیت کے ساتھ صرف وہی لوگ گرفتار نہیں ہوں گے ‘ جنھوں نے تم میں سے ظلم کیا ہو “ اس کی تشریح میں نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ : ان اللہ لا یعذب العامۃ بعمل الخاصہ حتی یروا المنکربین ظھرانیھم وھم قادرون علیٰ ان ینکروہ فلا ینکروہ فاذافعلوا ذلک عذب اللہ الخاصۃ والعامۃ ( اللہ عزوجل خاص لوگوں کے جرائم پر عام لوگوں کو سزا نہیں دیتا ‘ جب تک عامۃ الناس کی یہ حالت نہ ہوجائے کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے برے کام ہوتے دیکھیں اور وہ ان کاموں کے خلاف اظہار ناراضی کرنے پر قادر ہوں اور پھر کوئی اظہار ناراضی نہ کریں، پس جب لوگوں کا یہ حال ہوجاتا ہے تو اللہ خاص و عام سب کو عذاب میں مبتلا کردیتا ہے) بنی اسرائیل پر مختلف وقتوں میں اترنے والے عذابوں کا ذکر فرما کر پروردگار نے ان کے ایک خاص جرم کا ذکر کیا ہے۔ لیکن اس کی سزا کا ذکر نہیں فرمایا۔ فرمایا وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ یعنی ان کا ایک بہت بڑا جرم یہ تھا کہ باوجود اہل کتاب ہونے کے ‘ انھوں نے طاغوت کی پرستش کی۔ طاغوت ہر اس قوت یا اقتدار کو کہتے ہیں ‘ جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنی عبادت کرواتا ہے یا اپنے وضعی قوانین کو اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے قوانین کے مقابلے میں اپنے زیر تسلط ملک میں یا اپنے دائرہ اثر میں نافذ کرتا ہے اور اس کی اطاعت پر مجبور کرتا ہے جبکہ غیر مشروط اطاعت صرف اللہ کی صفت ہے اور اس کی اطاعت کے توڑ پر اور اس کے احکامات کو نظر انداز کر کے ‘ جب کوئی دوسری قوت اس کی جگہ لے لیتی ہے تو وہ طاغوت کہلاتی ہے اور جو لوگ اس کی اس طرح غیرمشروط اطاعت کرتے ہیں ‘ وہ طاغوت کی اطاعت کا جرم کرتے ہیں۔ یہ طاغوت ایک بادشاہ بھی ہوسکتا ہے ‘ ایک ڈکٹیٹر بھی ‘ جمہوری ملک میں پارلیمنٹ بھی اور آزادقبائل کی دنیا میں کوئی جرگہ یا پنچایت بھی یعنی جب بھی کوئی اجتماعی قوت اللہ کے قانون کو نظر انداز کر کے اپنے قانون کو رائج کرے گی اور لوگوں کو اس کے سامنے جھکنے پر مجبور کرے گی ‘ وہ طاغوتی قوت ہے۔ اس کی اطاعت کرنا ‘ طاغوت کی اطاعت کرنا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی کبریائی کو چیلنج کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ جرم کوئی بھی کرے ‘ قابل مذمت ہے۔ لیکن اگر اس کا ارتکاب ایک کتاب اور شریعت رکھنے والی قوم کرے تو اس کی شناعت اور برائی میں بےحد اضافہ ہوجاتا ہے۔ چناچہ ان کی ساری وہ بداعمالیاں ‘ جس پر بنی اسرائیل عذابوں کا شکار ہوتے رہے ‘ ان سب سے بڑھ کر یہ وہ برائی اور جسارت ہے ‘ جس کا ذکر اس آیت کریمہ کے آخر میں کیا گیا ہے۔ امت مسلمہ اور طاغوت کی پرستش یہاں رک کر امت مسلمہ کو سو بار سوچنا ہوگا کہ اگر طاغوت کی بندگی اور اطاعت ‘ بنی اسرائیل کے لیے ‘ اس لیے سب سے بڑا جرم بن گئی کہ وہ ایک حامل شریعت امت تھی۔ شریعت کی موجودگی میں انھوں نے کسی اور قانون کی اطاعت اور کسی اور اتھارٹی کی بندگی کیسے قبول کرلی۔ تو امت مسلمہ نہ صرف کہ حامل شریعت امت ہے بلکہ یہ تو آخری امت ہے ‘ جس پر آخری کتاب اتاری گئی ہے ‘ جس کی طرف آخری نبی آیا ‘ اس کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا ‘ نہ کوئی کتاب اترے گی اور نہ ان کے بعد کوئی امت آئے گی۔ اب اگر یہ امت بھی صراط مستقیم سے ہٹ جاتی ہے تو پھر آخر اس دنیا کی اصلاح کے لیے اور کس سے امید وابستہ کی جائے گی۔ اس لیے اس امت مسلمہ کو اس عظیم جرم کے بارے میں جس کا ارتکاب پورے عالم اسلام میں ہو رہا ہے ‘ سو دفعہ گہرے غور و فکر سے کام لینا ہوگا اور اپنی اس گمراہی سے نکل کر اللہ کے دین کے ساتھ اپنی زندگیوں کا ربط قائم کر کے اور اللہ کے دین کو قوت نافذہ بنا کر اپنی اس بہت بڑی کوتاہی کا ازالہ کرنا ہوگا ورنہ جس ذلت سے آج یہ امت گزر رہی ہے ‘ اس سے نکلنے کی اور کوئی صورت ممکن نہیں۔ بنی اسرائیل کے اسلاف کی اس تاریخ کو بیان کرنے کے بعد ‘ آنحضرت ﷺ کے ہم عصر بنی اسرائیل کے چند ایسے کرتوتوں اور نمایاں عادتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ جس راستے پر ان کے اسلاف چلتے رہے ‘ یہ اخلاف بھی اسی راستے پر چلنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس لیے اب اگر انھیں شہادت حق کے منصب سے معزول کیا جا رہا ہے تو انھیں بجائے اس پر برہم ہونے اور حسد کے پھپھولے پھوڑنے کے ‘ اپنے اعمال کے آئینہ میں اپنی شکل دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چناچہ ان کے مکروہ اعمال میں سے ایک عمل یہ تھا :
Top