Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 68
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰى شَیْءٍ حَتّٰى تُقِیْمُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ١ؕ وَ لَیَزِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ مَّاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْیَانًا وَّ كُفْرًا١ۚ فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَسْتُمْ : تم نہیں ہو عَلٰي شَيْءٍ : کسی چیز پر (کچھ بھی) حَتّٰي : جب تک تُقِيْمُوا : تم قائم کرو التَّوْرٰىةَ : توریت وَالْاِنْجِيْلَ : اور انجیل وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف (تم پر) مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَلَيَزِيْدَنَّ : اور ضرور بڑھ جائے گی كَثِيْرًا : اکثر مِّنْهُمْ : ان سے مَّآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف ( آپ پر) مِنْ رَّبِّكَ : آپ کے رب کی طرف سے طُغْيَانًا : سرکشی وَّكُفْرًا : اور کفر فَلَا تَاْسَ : تو افسوس نہ کریں عَلَي : پر الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ : قوم کفار
کہہ دو : اے اہل کتاب ! تمہاری کوئی بنیاد نہیں جب تک تم تورات ‘ انجیل اور اس چیز (قرآن) کو قائم نہ کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے۔ لیکن وہ چیز جو تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے ‘ وہ ان میں سے بہتوں کی سرکشی میں اضافہ کرے گی تو تم اس کافر قوم پر غم نہ کرو
قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلیٰ شَیْئٍ حَتّٰی تُقِیْمُوْا التَوْرَاۃَ وَالاِْنْجِیْلَ وَمَا اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْط وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا ج فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ ۔ (المائدہ : 68) ’ ’ کہہ دو : اے اہل کتاب ! تمہاری کوئی بنیاد نہیں جب تک تم تورات ‘ انجیل اور اس چیز (قرآن) کو قائم نہ کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے۔ لیکن وہ چیز جو تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے ‘ وہ ان میں سے بہتوں کی سرکشی اور ان کے کفر میں اضافہ کرے گی تو تم اس کافر قوم پر غم نہ کرو “۔ شہادتِ حق کے منصب پر فائز امت کا اصل کام اس سلسلے میں سب سے پہلے اس چیز کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ‘ جو اہل کتاب کی ہدایت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی تھی ‘ وہ چیز اہل کتاب کا یہ زعم باطل تھا کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ‘ ہماری حیثیت دنیا کی ساری قوموں کے مقابلے میں ایک منفرد نوعیت کی ہے۔ ساری دنیا اپنے اعمال کے حوالے سے پرکھی جائے گی ‘ لیکن ہمارے لیے یہ نسبتیں کافی ہیں۔ ہم کیسی بھی بداعمالیاں کیوں نہ کریں جہنم کی آگ ہمیں کبھی نہ چھوئے گی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ چند روز کے لیے ہمیں جہنم میں جانا پڑے ‘ لیکن اس کے بعد جنت کے وارث ہم ہی ہوں گے۔ ان کے یہی تصورات تھے جنھوں نے انھیں شریعت کی پابندیوں سے یکسر غافل کردیا تھا۔ وہ بڑے سے بڑا جرم کرنے میں دلیر اس لیے ہوگئے تھے کہ انھیں جوابدہی کا کوئی اندیشہ نہیں تھا کیونکہ وہ اپنے آپ کو اپنے قومی خصائص کی وجہ سے ان چیزوں سے بہت بالا بلند سمجھتے تھے۔ سب سے پہلے ان کے اسی احساسِ تفاخر پر چوٹ لگائی گئی ہے۔ ایک جراح کا نشتر ہمیشہ وہاں چبھتا ہے جہاں مادہ فاسد جمع ہوتا ہے کیونکہ اگر جسم سے فاسد مادہ نکال دیا جائے تو جسم اصلاح کے راستے پر پڑجاتا ہے۔ ان کی اصلاح کی صورت بھی یہی تھی کہ ان کے اس احساسِ تفاخر پر چوٹ لگتی اور یہ فاسد مادہ ان کے دماغوں سے نکلتا تو پھر امید کی جاسکتی تھی کہ شاید وہ اصل حقیت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس لیے فرمایا کہ اے اہل کتاب ! تمہاری کوئی حیثیت نہیں ‘ تم کسی بنیاد پر نہیں ہو۔ اس لیے کہ نسبتوں کا دعویٰ کرنا اور ایمان و عمل سے تہی دامن ہوجانا ‘ یہی تو محرومی کی دلیل ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ تم اپنی محرومی کو اپنی خوبی بلکہ تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھ رہے ہو۔ اب اس پیغام کے آغاز ہی میں جو چوٹ لگائی جا رہی ہے ‘ اس سے یہ اندیشہ بےسبب نہیں کہ وہ لوگ بھڑک کر کچھ بھی کر گزریں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اصلاحی عمل میں اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کیونکہ بیمار جسم سے مادہ فساد نکالنا یا اس کو ابھار کر اوپرلے آنا ‘ بہت ضروری ہوتا ہے۔ مشہور ہے کہ نظام حیدرآباد دکن نے ایک دفعہ حکیم اجمل خان کو اپنی ایک جلدی بیماری کے علاج کے لیے اپنے یہاں بلایا۔ حکیم صاحب نے جانے سے انکار کردیا اور کہا کہ اس کے لیے آپ کو میرے مطب میں تشریف لانا ہوگا۔ نظام نے ہرچند کوشش کی کہ حکیم صاحب اس کے یہاں حاضری دینے پر آمادہ ہوجائیں ‘ لیکن حکیم صاحب اس کے لیے تیار نہ ہوئے۔ مجبوراً اپنی تکلیف کی وجہ سے نظام حکیم صاحب کے پاس آئے۔ حکیم صاحب نے مزید ستم یہ کیا کہ بجائے باہر آکر ان کا استقبال کرنے کے ‘ ان کو انتظار گاہ میں بٹھا دیا۔ نظام صاحب نے اس کو اپنی توہین جانا، غصے سے بےقابو ہوگئے اور انتظار گاہ میں ادھر ادھر ٹہلنے لگے اور بار بار غصے کا اظہار بھی کرنے لگے۔ حکیم صاحب نے کافی انتظار کے بعد جب ان کو اپنے پاس بلایا تو اس وقت تک نظام صاحب کا غضب اپنی حدود عبور کرچکا تھا۔ اب حکیم صاحب ان کی پیشوائی کے لیے آگے بڑھے ‘ نہایت معذرت پیش کی جب ذرا ان کا غصہ فرو ہوا تو تب انھیں بتایا کہ یہ جو کچھ میں نے کیا ‘ یہ سب کچھ آپ کے علاج کے لیے ضروری تھا۔ آپ کی جلدی تکلیف کے علاج کے لیے ضروری تھا کہ آپ کو جوشِ غضب میں مبتلا کیا جاتا اور اس کے نتیجے میں چہرے پر جس کیفیت کا اظہار متوقع تھا ‘ اس سے میں مرض کا اندازہ کرسکتا تھا ‘ چناچہ میں نے ایسا ہی کیا اور میرے اندازے کے مطابق نتائج سامنے آئے اور میں مرض کو سمجھنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علاج کے لیے مرض کا اظہار ‘ بعض دفعہ ضروری ہوجاتا ہے۔ ایسی ہی صورت حال سے اہل کتاب کو دوچار کرنے کے لیے سب سے پہلے ان کے اصل مادئہ فساد پر چوٹ لگائی گئی اور پھر انھیں اصل مرض سے آگاہ کیا گیا ہے کہ تم اپنی حیثیت نام نہاد نسبتوں میں سمجھتے ہو حالانکہ ایک حامل دعوت امت ہونے کے لحاظ سے اور شہادت حق کے منصب پر فائز ہونے کی وجہ سے تمہارا اصل کام یہ تھا کہ تم تورات اور انجیل اور اس چیز کو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے ‘ اسے قائم کرو یعنی زندگی کے معاملات و مسائل سے عملاً ان کا ربط قائم کرو۔ زندگی کے تمام شعبوں میں اس کی حاکمیت کو بروئے کار لائو ‘ انفرادی اور اجتماعی زندگی انہی کی راہنمائی میں دے دو ‘ ہر دیکھنے والا محسوس کرے کہ زندگی کے ہر شعبے پر صرف ان کتابوں کی راہنمائی کی چھاپ کے سوا اور کچھ نہیں۔ سابقہ رکوعوں میں تفصیل کے ساتھ یہ بات بتائی گئی ہے کہ یہ تورات و انجیل اللہ کے عہد و میثاق کے صحیفے ہیں۔ ان میں اللہ نے اپنے احکام و قوانین دیئے اور یہ عہد لیا کہ انہی کے مطابق زندگی گزاری جائے اور انہی کے مطابق باہمی نزاعات کے فیصلے کیے جائیں۔ اسی ذمہ داری کے لیے ان کے حاملین کو قوامین بالقسط اور شہداء اللہ کا لقب عطا ہوا۔ اگر اسی عہد و میثاق کی دھجیاں بکھیر دی گئیں اور زندگی سے عملاً ان کا کوئی تعلق یا تو سرے سے باقی ہی نہیں رہا یا باقی ہے تو صرف اس حد تک جس حد تک اپنی خواہشوں کی سند اس سے حاصل ہو سکے تو آخر دینی پیشوائی مذہبی تقدس اور خدا رسیدگی کے یہ سارے دعوے کس بنیاد پر ہیں ؟ ایسے لوگوں کو اللہ سے کیا تعلق اور اللہ کو ایسے لوگوں سے کیا واسطہ ؟ بنی اسرائیل کو قرآن نافذ کرنے کا حکم اور ان کا رد عمل اس آیت کریمہ میں تورات و انجیل کو قائم کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کو قائم کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے لیکن اس کی تعبیر بجائے لفظ قرآن کے مَا اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ کے الفاظ سے کی گئی ہے۔ سابقہ رکوع کی وضاحت میں اگرچہ ہم اس کا ذکر کرچکے ہیں ‘ لیکن یہاں بھی اتنی بات یاد رکھنے کی ہے کہ اسی آیت میں آگے مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِّنْ رَّبِّکَ کا جملہ آرہا ہے ‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے مراد قرآن کریم کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ لیکن قرآن کریم کے لفظ کی بجائے یہ تعبیر اختیار کرنا اس میں کئی حکمتیں ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ تورات ‘ زبور اور انجیل یہ بنی اسرائیل کی طرف نازل ہوئی تھیں۔ اب اہل کتاب کو غلط فہمی یہ تھی کہ قرآن کریم شاید بنی اسماعیل کی طرف نازل ہوا ہے۔ ان کی یہ غلط فہمی دور کی جا رہی ہے کہ یہ قرآن کریم ذکر للعالمین ہے یعنی سارے جہانوں کے لیے نصیحت بن کے آیا ہے۔ اس کا خطاب کسی ایک قبیلے یا قوم سے نہیں ‘ اس لیے جس طرح اس کے مخاطب بنی اسماعیل ہیں ‘ اسی طرح تم بھی ہو۔ تمہیں آگے بڑھ کر اس کتاب کا حامل بننا چاہیے کیونکہ تم خوب پہچانتے ہو کہ اللہ کی طرف سے آنے والی کتابوں کی صفات کیا ہوتی ہیں اور پھر یہ بھی تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے پاس آسمانی کتابوں میں قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کی صفات تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔ ان کی روشنی میں تمہیں قرآن کریم کو پہچاننے میں کوئی غلطی نہیں ہوسکتی اور مزید یہ بات بھی کہ تمہاری کتابوں میں یہ بات موجود ہے کہ تم سے تمہارے پیغمبروں کی معرفت یہ عہد لیا گیا تھا کہ جب وہ اللہ کے آخری رسول آئیں تو تمہیں ان پر ایمان لانا ہے اور ان کی مدد کرنی ہے اور اس عہد میں بھی رسول کا لفظ اختیار کیا گیا تھا اور یہاں اس پیغام کی تمہید میں بھی شاید اسی لیے رسول کا لفظ اختیار کیا تاکہ اہل کتاب کو اپنے عہد کو یاد کرنے میں آسانی ہو۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جیسے قرآن کریم نازل ہوتا گیا اور اسلام کا دائرہ اثر پھیلتا گیا اور رسول اللہ ﷺ کی تبلیغ و دعوت کے نتیجے میں اور آپ کی ہمہ گیر شخصیت کے زیر اثر اہل کتاب کا قافیہ تنگ ہوتا گیا تو ان کی دشمنی جو دھیرے دھیرے سلگ رہی تھی بجائے کم ہونے کے پوری طرح بھڑک اٹھی ‘ جس کے نتیجے میں ہدایت کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے ان کے کفر اور سرکشی میں اضافہ ہوا۔ چناچہ اسی حوالے سے یہاں پروردگار ذکر فرما رہے ہیں : وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا (لیکن وہ چیز جو تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے ‘ وہ ان میں سے بہتوں کی سرکشی اور ان کے کفر میں اضافہ کرے گی) چناچہ ایسا ہی ہوا ان کی بعد کی تاریخ اس پر شاہد و عادل ہے کہ انھوں نے بجائے ذات رسالت مآب ﷺ اور قرآن کریم سے ہدایت حاصل کرنے اور اپنا رویہ بدلنے کے اپنی سازشوں کو مزید تیز کردیا۔ آنحضرت ﷺ کو قتل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ پورے عرب میں دشمنی کی آگ تیز کردی اور ہر قبیلے میں جا جا کر ان کو اسلام کے خلاف بھڑکایا۔ آنحضرت ﷺ ان کو اہل کتاب سمجھتے ہوئے ان سے بہت امیدیں رکھتے تھے کہ یہ تو دوسرے لوگوں کی نسبت میری دعوت کو جلدی قبول کریں گے۔ اس لیے جب ان کی طرف سے اس طرح کے واقعات سامنے آتے تو حضور ﷺ کے دل کو بہت ٹھیس لگتی تھی۔ آپ ﷺ اس پر کبھی افسوس کا اظہار کرتے اور کبھی اسے دل کا غم بنا لیتے۔ اس لیے ارشاد فرمایا گیا : فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ (آپ اس کافر قوم پر غم نہ کھائیں ) یہ آنحضرت ﷺ کو ایک طرح کی تسلی بھی ہے اور آپ ﷺ کے طبعی اضطراب کو دور کرنے کی ایک کوشش بھی۔ پروردگار نے جیسی آپ ﷺ کو طبیعت بخشی تھی ‘ اس کو پروردگار سے زیادہ کون جانتا تھا۔ اسے خوب معلوم تھا کہ کفار اپنی اسلام دشمنی اور حق سے دوری میں جتنا آگے بڑھتے ہیں ‘ آنحضرت ﷺ کے غم اور اضطراب میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے۔ حضور ﷺ دنیا کے لیے رحمت بن کر آئے تھے اور بندوں کے لیے رحمت کا اظہار ہدایت کی صورت میں ہوتا ہے کیونکہ یہی وہ چیز ہے جس سے دنیا میں آدمی خوف سے نجات پاتا ‘ نفسانی آلودگیوں سے پاک ہوتا اور اخلاق حسنہ کا پیکر بنتا ہے اور آخرت میں اسی کی وجہ سے اللہ کی رضا نصیب ہوگی اور سرخروئی اس کا مقدر بنے گی۔ جب آپ دیکھتے تھے کہ یہ لوگ حق سے منہ موڑ کر جہنم کے ایندھن بنتے جارہے ہیں تو آپ کی پریشانی میں حد درجہ اضافہ ہوجاتا تھا، چناچہ خود اس کا ایک موقع پر اظہار بھی فرمایا۔ چناچہ فرمایا : ( میری اور کفار کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے آگ جلائی تو پروانے اور دوسرے کیڑے مکوڑے اس میں آ آکر گرنے لگے اور بھسم ہونے لگے ‘ اب وہ آگ جلانے والا چاروں طرف ہاتھ مار رہا ہے کہ میں ان پروانوں کو جلنے سے بچائوں ‘ لیکن وہ پروانے ہیں کہ بجائے اس کی کاوشوں کی قدر کرنے کے ‘ جل مرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں) کہا ان لوگوں کا اور میرا بھی یہی حال ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ جہنم کی طرف بھاگے جا رہے ہیں۔ میں اپنی امکانی مساعی کو بروئے کار لا کر ان کو بچانے کی کوشش کرتا ہوں ‘ لیکن بجائے اس کے کہ یہ میری کوششوں کے ساتھ تعاون کریں ‘ یہ میرے ساتھ دشمنی کرتے ہیں اور مجھے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ آپ ﷺ کے نزدیک دنیا کی سب سے بڑی نعمت اور سب سے بڑی خوشی اس بات میں تھی کہ لوگ اسلام کے راستے پر آجائیں اور کسی ایک فرد کا اسلام قبول کرلینا آپ ﷺ کے نزدیک دنیا کی سب سے قیمتی چیز سے بڑھ کر قیمتی تھا۔ چناچہ حضرت علی ( رض) کو جب یمن میں عامل بنا کر بھیجا تو آپ نے انھیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ (علی ص ! اگر تمہارے ہاتھ پر کوئی ایک یا دو کافر مسلمان ہوجائیں تو یہ تمہارے لیے سو سرخ اونٹوں سے بڑھ کر قیمتی ہے) آنحضرت ﷺ کی طبیعت اور فطرت پر معلوم ہوتا ہے انسانی ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ اس حد تک غالب تھا کہ آپ ﷺ ان کی سرکشی اور کفر کے رویے کو دیکھ کر اس حد تک کڑھتے اور پریشان ہوتے تھے کہ قرآن کریم نے متعددبار آپ کو تسلی دے کر آپ کے اس طبعی و فطری جذبے کو سکون آشنا کیا۔ سورة الکہف میں ارشاد فرمایا : (آپ محض اس لیے اپنے آپ کو بیمار کرلیں گے کہ یہ لوگ آپ کی دعوت پر ایمان نہیں لائے) اور سورة طٰہٰ میں فرمایا کہ (ہم نے آپ پر یہ قرآن اس لیے تو نازل نہیں فرمایا کہ آپ گھل گھل کر مرجائیں ) یہاں بھی آپ کی اسی صفت رحمت اور خیر خواہی کے حوالے سے آپ سے کہا جا رہا ہے کہ آپ کافر قوم پر غم نہ کھائیں کہ یہ لوگ اگر ایمان نہیں لائیں گے تو یقینا جہنم کا ایندھن بنیں گے کیونکہ ان کے ایمان لانے یا نہ لانے کے آپ مکلف نہیں ہیں۔ آپ ﷺ کا کام تو صرف اللہ کا پیغام پہنچانا اور لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے اپنی امکانی مساعی کو بروئے کار لانا ہے۔ اس پر لوگوں کا ردعمل کیا ہوتا ہے ‘ وہ ایمان لاتے ہیں یا نہیں لاتے ‘ یہ ان کا اور پروردگار کا معاملہ ہے۔ آپ اس پر دل گرفتہ کیوں ہوتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی معرفت اہل کتاب کو جو عظیم پیغام دیا ‘ اس میں ان کی اس بنیادی بیماری کا سب سے پہلے ذکر کیا ہے کہ تم انبیاء کرام کی اولاد ہونے کی وجہ سے اپنے بارے میں خاص تصورات پیدا کرچکے ہو اور اسی کو تم اللہ کے یہاں اپنے تقرب کی بنیاد بنا چکے ہو۔ اس لیے انھیں صاف صاف کہا گیا کہ تمہارے لیے اصل فضیلت کی بات یہ نہیں ہے کہ تم کس انسانی گروہ سے تعلق رکھتے ہو بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جو فرض اور ذمہ داری تمہیں سونپی گئی ہے کہ تم نے اللہ کے قانون کو اللہ کی دھرتی پر قائم کرنا ہے ‘ جب تک تم اس ذمہ داری کو ٹھیک ٹھیک پورا نہیں کرو گے ‘ اس وقت تک تم اپنی اس شرف اور فضیلت کو نہیں پاسکتے جو ایک حامل دعوت امت ہونے کی حیثیت سے تمہیں حاصل رہی ہے۔ اس کے بعد ان کی بدنصیبیوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ اتنے واضح پیغام کے بعد بجائے اپنی اصلاح کرنے کے ان کے حسد اور بغض میں مزید اضافہ ہوا اور وہ بجائے اسلام کے ‘ کفر میں بڑھتے چلے گئے۔ آخر میں آنحضرت ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ اہل کتاب اگر اپنی روش کو بدلنا نہیں چاہتے تو آپ بھی ان کی روش پر غم نہ کھائیں اور اپنے آپ کو پریشان نہ کریں ‘ اب اس کے بعد کی آیت میں ان کی اسی بنیادی بیماری اور اس کے نتیجے میں حق سے دوری کو ایک دوسرے پہلو سے اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ شاید وہ پیرایہ بیان کے بدل جانے کے بعد اپنی حالت پر نظر ثانی کے لیے تیار ہوجائیں۔ قاعدہ یہ ہے کہ کسی بھی گہرے مرض کے علاج کے لیے اس وقت تک اس پر محنت کی جاتی ہے اور بار بار ضروری باتوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے ‘ جب تک مریض کے بارے میں مایوسی کا فیصلہ نہیں ہوجاتا اور مزید یہ بات کہ مریض کے عدم تعاون کے باعث اس کا مرض چاہے کیسی ہی صورت اختیار کر جائے ‘ معالج اگر سراپا ہمدردی اور غمگساری ہے تو وہ آخری حد تک اس کو سمجھانے اور اس کا علاج کرنے کی کوشش جاری رکھے گا۔ یہاں بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب قومی خودپسندی کے جس مرض میں مبتلا ہیں اور وہ حسب و نسب کو جس طرح آخرت میں سرخروئی کی بنیاد بنا چکے ہیں اور پھر بار بار سمجھانے کے بھی وہ اس مرض سے نکلنے پر تیار نہیں ہیں ‘ ہونا تو یہ چاہیے کہ انھیں یکسر نظرانداز کردیا جائے ‘ لیکن پروردگار اور ان کی طرف سے آنے والے رسول چونکہ انسانوں کے معاملے میں انتہا درجہ ہمدرد اور غمگسار واقع ہوئے ہیں ‘ اس لیے وہ انسانی امکانات کی حد تک ان پر اتمام حجت کردینا چاہتے ہیں۔ اس لیے پیرائیہ بیان بدل کر ان کو پھر اسی بیماری کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے۔
Top