Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 68
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰى شَیْءٍ حَتّٰى تُقِیْمُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ١ؕ وَ لَیَزِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ مَّاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْیَانًا وَّ كُفْرًا١ۚ فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ
قُلْ
: آپ کہ دیں
يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ
: اہل کتاب
لَسْتُمْ
: تم نہیں ہو
عَلٰي شَيْءٍ
: کسی چیز پر (کچھ بھی)
حَتّٰي
: جب تک
تُقِيْمُوا
: تم قائم کرو
التَّوْرٰىةَ
: توریت
وَالْاِنْجِيْلَ
: اور انجیل
وَمَآ
: اور جو
اُنْزِلَ
: نازل کیا گیا
اِلَيْكُمْ
: تمہاری طرف (تم پر)
مِّنْ
: سے
رَّبِّكُمْ
: تمہارا رب
وَلَيَزِيْدَنَّ
: اور ضرور بڑھ جائے گی
كَثِيْرًا
: اکثر
مِّنْهُمْ
: ان سے
مَّآ اُنْزِلَ
: جو نازل کیا گیا
اِلَيْكَ
: آپ کی طرف ( آپ پر)
مِنْ رَّبِّكَ
: آپ کے رب کی طرف سے
طُغْيَانًا
: سرکشی
وَّكُفْرًا
: اور کفر
فَلَا تَاْسَ
: تو افسوس نہ کریں
عَلَي
: پر
الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ
: قوم کفار
کہہ دو : اے اہل کتاب ! تمہاری کوئی بنیاد نہیں جب تک تم تورات ‘ انجیل اور اس چیز (قرآن) کو قائم نہ کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے۔ لیکن وہ چیز جو تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے ‘ وہ ان میں سے بہتوں کی سرکشی میں اضافہ کرے گی تو تم اس کافر قوم پر غم نہ کرو
قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلیٰ شَیْئٍ حَتّٰی تُقِیْمُوْا التَوْرَاۃَ وَالاِْنْجِیْلَ وَمَا اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْط وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا ج فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ ۔ (المائدہ : 68) ’ ’ کہہ دو : اے اہل کتاب ! تمہاری کوئی بنیاد نہیں جب تک تم تورات ‘ انجیل اور اس چیز (قرآن) کو قائم نہ کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے۔ لیکن وہ چیز جو تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے ‘ وہ ان میں سے بہتوں کی سرکشی اور ان کے کفر میں اضافہ کرے گی تو تم اس کافر قوم پر غم نہ کرو “۔ شہادتِ حق کے منصب پر فائز امت کا اصل کام اس سلسلے میں سب سے پہلے اس چیز کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ‘ جو اہل کتاب کی ہدایت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی تھی ‘ وہ چیز اہل کتاب کا یہ زعم باطل تھا کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ‘ ہماری حیثیت دنیا کی ساری قوموں کے مقابلے میں ایک منفرد نوعیت کی ہے۔ ساری دنیا اپنے اعمال کے حوالے سے پرکھی جائے گی ‘ لیکن ہمارے لیے یہ نسبتیں کافی ہیں۔ ہم کیسی بھی بداعمالیاں کیوں نہ کریں جہنم کی آگ ہمیں کبھی نہ چھوئے گی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ چند روز کے لیے ہمیں جہنم میں جانا پڑے ‘ لیکن اس کے بعد جنت کے وارث ہم ہی ہوں گے۔ ان کے یہی تصورات تھے جنھوں نے انھیں شریعت کی پابندیوں سے یکسر غافل کردیا تھا۔ وہ بڑے سے بڑا جرم کرنے میں دلیر اس لیے ہوگئے تھے کہ انھیں جوابدہی کا کوئی اندیشہ نہیں تھا کیونکہ وہ اپنے آپ کو اپنے قومی خصائص کی وجہ سے ان چیزوں سے بہت بالا بلند سمجھتے تھے۔ سب سے پہلے ان کے اسی احساسِ تفاخر پر چوٹ لگائی گئی ہے۔ ایک جراح کا نشتر ہمیشہ وہاں چبھتا ہے جہاں مادہ فاسد جمع ہوتا ہے کیونکہ اگر جسم سے فاسد مادہ نکال دیا جائے تو جسم اصلاح کے راستے پر پڑجاتا ہے۔ ان کی اصلاح کی صورت بھی یہی تھی کہ ان کے اس احساسِ تفاخر پر چوٹ لگتی اور یہ فاسد مادہ ان کے دماغوں سے نکلتا تو پھر امید کی جاسکتی تھی کہ شاید وہ اصل حقیت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس لیے فرمایا کہ اے اہل کتاب ! تمہاری کوئی حیثیت نہیں ‘ تم کسی بنیاد پر نہیں ہو۔ اس لیے کہ نسبتوں کا دعویٰ کرنا اور ایمان و عمل سے تہی دامن ہوجانا ‘ یہی تو محرومی کی دلیل ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ تم اپنی محرومی کو اپنی خوبی بلکہ تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھ رہے ہو۔ اب اس پیغام کے آغاز ہی میں جو چوٹ لگائی جا رہی ہے ‘ اس سے یہ اندیشہ بےسبب نہیں کہ وہ لوگ بھڑک کر کچھ بھی کر گزریں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اصلاحی عمل میں اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کیونکہ بیمار جسم سے مادہ فساد نکالنا یا اس کو ابھار کر اوپرلے آنا ‘ بہت ضروری ہوتا ہے۔ مشہور ہے کہ نظام حیدرآباد دکن نے ایک دفعہ حکیم اجمل خان کو اپنی ایک جلدی بیماری کے علاج کے لیے اپنے یہاں بلایا۔ حکیم صاحب نے جانے سے انکار کردیا اور کہا کہ اس کے لیے آپ کو میرے مطب میں تشریف لانا ہوگا۔ نظام نے ہرچند کوشش کی کہ حکیم صاحب اس کے یہاں حاضری دینے پر آمادہ ہوجائیں ‘ لیکن حکیم صاحب اس کے لیے تیار نہ ہوئے۔ مجبوراً اپنی تکلیف کی وجہ سے نظام حکیم صاحب کے پاس آئے۔ حکیم صاحب نے مزید ستم یہ کیا کہ بجائے باہر آکر ان کا استقبال کرنے کے ‘ ان کو انتظار گاہ میں بٹھا دیا۔ نظام صاحب نے اس کو اپنی توہین جانا، غصے سے بےقابو ہوگئے اور انتظار گاہ میں ادھر ادھر ٹہلنے لگے اور بار بار غصے کا اظہار بھی کرنے لگے۔ حکیم صاحب نے کافی انتظار کے بعد جب ان کو اپنے پاس بلایا تو اس وقت تک نظام صاحب کا غضب اپنی حدود عبور کرچکا تھا۔ اب حکیم صاحب ان کی پیشوائی کے لیے آگے بڑھے ‘ نہایت معذرت پیش کی جب ذرا ان کا غصہ فرو ہوا تو تب انھیں بتایا کہ یہ جو کچھ میں نے کیا ‘ یہ سب کچھ آپ کے علاج کے لیے ضروری تھا۔ آپ کی جلدی تکلیف کے علاج کے لیے ضروری تھا کہ آپ کو جوشِ غضب میں مبتلا کیا جاتا اور اس کے نتیجے میں چہرے پر جس کیفیت کا اظہار متوقع تھا ‘ اس سے میں مرض کا اندازہ کرسکتا تھا ‘ چناچہ میں نے ایسا ہی کیا اور میرے اندازے کے مطابق نتائج سامنے آئے اور میں مرض کو سمجھنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علاج کے لیے مرض کا اظہار ‘ بعض دفعہ ضروری ہوجاتا ہے۔ ایسی ہی صورت حال سے اہل کتاب کو دوچار کرنے کے لیے سب سے پہلے ان کے اصل مادئہ فساد پر چوٹ لگائی گئی اور پھر انھیں اصل مرض سے آگاہ کیا گیا ہے کہ تم اپنی حیثیت نام نہاد نسبتوں میں سمجھتے ہو حالانکہ ایک حامل دعوت امت ہونے کے لحاظ سے اور شہادت حق کے منصب پر فائز ہونے کی وجہ سے تمہارا اصل کام یہ تھا کہ تم تورات اور انجیل اور اس چیز کو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے ‘ اسے قائم کرو یعنی زندگی کے معاملات و مسائل سے عملاً ان کا ربط قائم کرو۔ زندگی کے تمام شعبوں میں اس کی حاکمیت کو بروئے کار لائو ‘ انفرادی اور اجتماعی زندگی انہی کی راہنمائی میں دے دو ‘ ہر دیکھنے والا محسوس کرے کہ زندگی کے ہر شعبے پر صرف ان کتابوں کی راہنمائی کی چھاپ کے سوا اور کچھ نہیں۔ سابقہ رکوعوں میں تفصیل کے ساتھ یہ بات بتائی گئی ہے کہ یہ تورات و انجیل اللہ کے عہد و میثاق کے صحیفے ہیں۔ ان میں اللہ نے اپنے احکام و قوانین دیئے اور یہ عہد لیا کہ انہی کے مطابق زندگی گزاری جائے اور انہی کے مطابق باہمی نزاعات کے فیصلے کیے جائیں۔ اسی ذمہ داری کے لیے ان کے حاملین کو قوامین بالقسط اور شہداء اللہ کا لقب عطا ہوا۔ اگر اسی عہد و میثاق کی دھجیاں بکھیر دی گئیں اور زندگی سے عملاً ان کا کوئی تعلق یا تو سرے سے باقی ہی نہیں رہا یا باقی ہے تو صرف اس حد تک جس حد تک اپنی خواہشوں کی سند اس سے حاصل ہو سکے تو آخر دینی پیشوائی مذہبی تقدس اور خدا رسیدگی کے یہ سارے دعوے کس بنیاد پر ہیں ؟ ایسے لوگوں کو اللہ سے کیا تعلق اور اللہ کو ایسے لوگوں سے کیا واسطہ ؟ بنی اسرائیل کو قرآن نافذ کرنے کا حکم اور ان کا رد عمل اس آیت کریمہ میں تورات و انجیل کو قائم کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کو قائم کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے لیکن اس کی تعبیر بجائے لفظ قرآن کے مَا اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ کے الفاظ سے کی گئی ہے۔ سابقہ رکوع کی وضاحت میں اگرچہ ہم اس کا ذکر کرچکے ہیں ‘ لیکن یہاں بھی اتنی بات یاد رکھنے کی ہے کہ اسی آیت میں آگے مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِّنْ رَّبِّکَ کا جملہ آرہا ہے ‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے مراد قرآن کریم کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ لیکن قرآن کریم کے لفظ کی بجائے یہ تعبیر اختیار کرنا اس میں کئی حکمتیں ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ تورات ‘ زبور اور انجیل یہ بنی اسرائیل کی طرف نازل ہوئی تھیں۔ اب اہل کتاب کو غلط فہمی یہ تھی کہ قرآن کریم شاید بنی اسماعیل کی طرف نازل ہوا ہے۔ ان کی یہ غلط فہمی دور کی جا رہی ہے کہ یہ قرآن کریم ذکر للعالمین ہے یعنی سارے جہانوں کے لیے نصیحت بن کے آیا ہے۔ اس کا خطاب کسی ایک قبیلے یا قوم سے نہیں ‘ اس لیے جس طرح اس کے مخاطب بنی اسماعیل ہیں ‘ اسی طرح تم بھی ہو۔ تمہیں آگے بڑھ کر اس کتاب کا حامل بننا چاہیے کیونکہ تم خوب پہچانتے ہو کہ اللہ کی طرف سے آنے والی کتابوں کی صفات کیا ہوتی ہیں اور پھر یہ بھی تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے پاس آسمانی کتابوں میں قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کی صفات تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔ ان کی روشنی میں تمہیں قرآن کریم کو پہچاننے میں کوئی غلطی نہیں ہوسکتی اور مزید یہ بات بھی کہ تمہاری کتابوں میں یہ بات موجود ہے کہ تم سے تمہارے پیغمبروں کی معرفت یہ عہد لیا گیا تھا کہ جب وہ اللہ کے آخری رسول آئیں تو تمہیں ان پر ایمان لانا ہے اور ان کی مدد کرنی ہے اور اس عہد میں بھی رسول کا لفظ اختیار کیا گیا تھا اور یہاں اس پیغام کی تمہید میں بھی شاید اسی لیے رسول کا لفظ اختیار کیا تاکہ اہل کتاب کو اپنے عہد کو یاد کرنے میں آسانی ہو۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جیسے قرآن کریم نازل ہوتا گیا اور اسلام کا دائرہ اثر پھیلتا گیا اور رسول اللہ ﷺ کی تبلیغ و دعوت کے نتیجے میں اور آپ کی ہمہ گیر شخصیت کے زیر اثر اہل کتاب کا قافیہ تنگ ہوتا گیا تو ان کی دشمنی جو دھیرے دھیرے سلگ رہی تھی بجائے کم ہونے کے پوری طرح بھڑک اٹھی ‘ جس کے نتیجے میں ہدایت کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے ان کے کفر اور سرکشی میں اضافہ ہوا۔ چناچہ اسی حوالے سے یہاں پروردگار ذکر فرما رہے ہیں : وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا (لیکن وہ چیز جو تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے ‘ وہ ان میں سے بہتوں کی سرکشی اور ان کے کفر میں اضافہ کرے گی) چناچہ ایسا ہی ہوا ان کی بعد کی تاریخ اس پر شاہد و عادل ہے کہ انھوں نے بجائے ذات رسالت مآب ﷺ اور قرآن کریم سے ہدایت حاصل کرنے اور اپنا رویہ بدلنے کے اپنی سازشوں کو مزید تیز کردیا۔ آنحضرت ﷺ کو قتل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ پورے عرب میں دشمنی کی آگ تیز کردی اور ہر قبیلے میں جا جا کر ان کو اسلام کے خلاف بھڑکایا۔ آنحضرت ﷺ ان کو اہل کتاب سمجھتے ہوئے ان سے بہت امیدیں رکھتے تھے کہ یہ تو دوسرے لوگوں کی نسبت میری دعوت کو جلدی قبول کریں گے۔ اس لیے جب ان کی طرف سے اس طرح کے واقعات سامنے آتے تو حضور ﷺ کے دل کو بہت ٹھیس لگتی تھی۔ آپ ﷺ اس پر کبھی افسوس کا اظہار کرتے اور کبھی اسے دل کا غم بنا لیتے۔ اس لیے ارشاد فرمایا گیا : فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ (آپ اس کافر قوم پر غم نہ کھائیں ) یہ آنحضرت ﷺ کو ایک طرح کی تسلی بھی ہے اور آپ ﷺ کے طبعی اضطراب کو دور کرنے کی ایک کوشش بھی۔ پروردگار نے جیسی آپ ﷺ کو طبیعت بخشی تھی ‘ اس کو پروردگار سے زیادہ کون جانتا تھا۔ اسے خوب معلوم تھا کہ کفار اپنی اسلام دشمنی اور حق سے دوری میں جتنا آگے بڑھتے ہیں ‘ آنحضرت ﷺ کے غم اور اضطراب میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے۔ حضور ﷺ دنیا کے لیے رحمت بن کر آئے تھے اور بندوں کے لیے رحمت کا اظہار ہدایت کی صورت میں ہوتا ہے کیونکہ یہی وہ چیز ہے جس سے دنیا میں آدمی خوف سے نجات پاتا ‘ نفسانی آلودگیوں سے پاک ہوتا اور اخلاق حسنہ کا پیکر بنتا ہے اور آخرت میں اسی کی وجہ سے اللہ کی رضا نصیب ہوگی اور سرخروئی اس کا مقدر بنے گی۔ جب آپ دیکھتے تھے کہ یہ لوگ حق سے منہ موڑ کر جہنم کے ایندھن بنتے جارہے ہیں تو آپ کی پریشانی میں حد درجہ اضافہ ہوجاتا تھا، چناچہ خود اس کا ایک موقع پر اظہار بھی فرمایا۔ چناچہ فرمایا : ( میری اور کفار کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے آگ جلائی تو پروانے اور دوسرے کیڑے مکوڑے اس میں آ آکر گرنے لگے اور بھسم ہونے لگے ‘ اب وہ آگ جلانے والا چاروں طرف ہاتھ مار رہا ہے کہ میں ان پروانوں کو جلنے سے بچائوں ‘ لیکن وہ پروانے ہیں کہ بجائے اس کی کاوشوں کی قدر کرنے کے ‘ جل مرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں) کہا ان لوگوں کا اور میرا بھی یہی حال ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ جہنم کی طرف بھاگے جا رہے ہیں۔ میں اپنی امکانی مساعی کو بروئے کار لا کر ان کو بچانے کی کوشش کرتا ہوں ‘ لیکن بجائے اس کے کہ یہ میری کوششوں کے ساتھ تعاون کریں ‘ یہ میرے ساتھ دشمنی کرتے ہیں اور مجھے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ آپ ﷺ کے نزدیک دنیا کی سب سے بڑی نعمت اور سب سے بڑی خوشی اس بات میں تھی کہ لوگ اسلام کے راستے پر آجائیں اور کسی ایک فرد کا اسلام قبول کرلینا آپ ﷺ کے نزدیک دنیا کی سب سے قیمتی چیز سے بڑھ کر قیمتی تھا۔ چناچہ حضرت علی ( رض) کو جب یمن میں عامل بنا کر بھیجا تو آپ نے انھیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ (علی ص ! اگر تمہارے ہاتھ پر کوئی ایک یا دو کافر مسلمان ہوجائیں تو یہ تمہارے لیے سو سرخ اونٹوں سے بڑھ کر قیمتی ہے) آنحضرت ﷺ کی طبیعت اور فطرت پر معلوم ہوتا ہے انسانی ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ اس حد تک غالب تھا کہ آپ ﷺ ان کی سرکشی اور کفر کے رویے کو دیکھ کر اس حد تک کڑھتے اور پریشان ہوتے تھے کہ قرآن کریم نے متعددبار آپ کو تسلی دے کر آپ کے اس طبعی و فطری جذبے کو سکون آشنا کیا۔ سورة الکہف میں ارشاد فرمایا : (آپ محض اس لیے اپنے آپ کو بیمار کرلیں گے کہ یہ لوگ آپ کی دعوت پر ایمان نہیں لائے) اور سورة طٰہٰ میں فرمایا کہ (ہم نے آپ پر یہ قرآن اس لیے تو نازل نہیں فرمایا کہ آپ گھل گھل کر مرجائیں ) یہاں بھی آپ کی اسی صفت رحمت اور خیر خواہی کے حوالے سے آپ سے کہا جا رہا ہے کہ آپ کافر قوم پر غم نہ کھائیں کہ یہ لوگ اگر ایمان نہیں لائیں گے تو یقینا جہنم کا ایندھن بنیں گے کیونکہ ان کے ایمان لانے یا نہ لانے کے آپ مکلف نہیں ہیں۔ آپ ﷺ کا کام تو صرف اللہ کا پیغام پہنچانا اور لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے اپنی امکانی مساعی کو بروئے کار لانا ہے۔ اس پر لوگوں کا ردعمل کیا ہوتا ہے ‘ وہ ایمان لاتے ہیں یا نہیں لاتے ‘ یہ ان کا اور پروردگار کا معاملہ ہے۔ آپ اس پر دل گرفتہ کیوں ہوتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی معرفت اہل کتاب کو جو عظیم پیغام دیا ‘ اس میں ان کی اس بنیادی بیماری کا سب سے پہلے ذکر کیا ہے کہ تم انبیاء کرام کی اولاد ہونے کی وجہ سے اپنے بارے میں خاص تصورات پیدا کرچکے ہو اور اسی کو تم اللہ کے یہاں اپنے تقرب کی بنیاد بنا چکے ہو۔ اس لیے انھیں صاف صاف کہا گیا کہ تمہارے لیے اصل فضیلت کی بات یہ نہیں ہے کہ تم کس انسانی گروہ سے تعلق رکھتے ہو بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جو فرض اور ذمہ داری تمہیں سونپی گئی ہے کہ تم نے اللہ کے قانون کو اللہ کی دھرتی پر قائم کرنا ہے ‘ جب تک تم اس ذمہ داری کو ٹھیک ٹھیک پورا نہیں کرو گے ‘ اس وقت تک تم اپنی اس شرف اور فضیلت کو نہیں پاسکتے جو ایک حامل دعوت امت ہونے کی حیثیت سے تمہیں حاصل رہی ہے۔ اس کے بعد ان کی بدنصیبیوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ اتنے واضح پیغام کے بعد بجائے اپنی اصلاح کرنے کے ان کے حسد اور بغض میں مزید اضافہ ہوا اور وہ بجائے اسلام کے ‘ کفر میں بڑھتے چلے گئے۔ آخر میں آنحضرت ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ اہل کتاب اگر اپنی روش کو بدلنا نہیں چاہتے تو آپ بھی ان کی روش پر غم نہ کھائیں اور اپنے آپ کو پریشان نہ کریں ‘ اب اس کے بعد کی آیت میں ان کی اسی بنیادی بیماری اور اس کے نتیجے میں حق سے دوری کو ایک دوسرے پہلو سے اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ شاید وہ پیرایہ بیان کے بدل جانے کے بعد اپنی حالت پر نظر ثانی کے لیے تیار ہوجائیں۔ قاعدہ یہ ہے کہ کسی بھی گہرے مرض کے علاج کے لیے اس وقت تک اس پر محنت کی جاتی ہے اور بار بار ضروری باتوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے ‘ جب تک مریض کے بارے میں مایوسی کا فیصلہ نہیں ہوجاتا اور مزید یہ بات کہ مریض کے عدم تعاون کے باعث اس کا مرض چاہے کیسی ہی صورت اختیار کر جائے ‘ معالج اگر سراپا ہمدردی اور غمگساری ہے تو وہ آخری حد تک اس کو سمجھانے اور اس کا علاج کرنے کی کوشش جاری رکھے گا۔ یہاں بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب قومی خودپسندی کے جس مرض میں مبتلا ہیں اور وہ حسب و نسب کو جس طرح آخرت میں سرخروئی کی بنیاد بنا چکے ہیں اور پھر بار بار سمجھانے کے بھی وہ اس مرض سے نکلنے پر تیار نہیں ہیں ‘ ہونا تو یہ چاہیے کہ انھیں یکسر نظرانداز کردیا جائے ‘ لیکن پروردگار اور ان کی طرف سے آنے والے رسول چونکہ انسانوں کے معاملے میں انتہا درجہ ہمدرد اور غمگسار واقع ہوئے ہیں ‘ اس لیے وہ انسانی امکانات کی حد تک ان پر اتمام حجت کردینا چاہتے ہیں۔ اس لیے پیرائیہ بیان بدل کر ان کو پھر اسی بیماری کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے۔
Top