Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 74
اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اَفَلَا يَتُوْبُوْنَ : پس وہ کیوں توبہ نہیں کرتے اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف ( آگے) وَيَسْتَغْفِرُوْنَهٗ : اور اس سے بخشش مانگتے وَ : اور اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
کیا یہ اللہ کی طرف رجوع اور اس سے مغفرت طلب نہیں کرتے ‘ حالانکہ اللہ مغفرت فرمانے والا اور مہربان ہے
اَفَلاَ یَتُوْبُوْنَ اِلَی اللہِ وَ یَسْتَغْفِرُوْنَہٗ ط وَ اللہ ُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (المائدہ : 74) ” کیا یہ اللہ کی طرف رجوع اور اس سے مغفرت طلب نہیں کرتے ‘ حالانکہ اللہ مغفرت فرمانے والا اور مہربان ہے “۔ یعنی مسیح کو اللہ قرار دینایا اللہ کو تین میں تقسیم کر کے ‘ اس کو تین میں تیسرے کا درجہ دینا ‘ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ ایسا جرم کا کرنے والا کسی رحم کا مستحق نہیں رہتا۔ لیکن پروردگار اتمامِ حجت کے طور پر فرما رہے ہیں کہ ہم نے نصاریٰ کے اتنے بڑے جرم کے بعد بھی توبہ کا دروازہ بند نہیں کیا۔ اس لیے اب بھی اگر کوئی اس راستے سے داخل ہونے کی کوشش کرے گا تو ہم اس کی قدر افزائی کریں گے۔ اس لیے فرمایا اے گروہ نصاریٰ ! کیا اب بھی تم اللہ کی طرف رجوع کر کے اور اس سے معافی مانگ کر اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھائو گے اور تم جانتے ہو کہ وہ بخشنے والا اور مہربان ہے ‘ اس لیے اس سے بخشش چاہو اور اس کی مہربانی کے سائے میں آجاؤ۔ ان تین آیتوں میں نہایت سادہ اور قابل فہم اسلوب میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی اصل حیثیت واضح کردی گئی ہے اور شرک کا پوری طرح ابطال کردیا گیا ہے۔ لیکن استدلال کی اپنی ایک حیثیت ہے ‘ اس لیے کہ عقل کی خوگر طبیعتیں استدلالی انداز سے زیادہ اثر قبول کرتی ہیں ‘ اس لیے اگلی آیت کریمہ میں ایک ایسے سادہ لیکن پرکار اور موثر طریقہ استدلال سے اس مضمون کو واضح فرمایا گیا ہے کہ جس طبیعت میں قبولیتِ حق کا ذرا بھی مادہ ہو ‘ وہ اس استدلال سے اثر قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
Top