Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 77
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعُوْۤا اَهْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا كَثِیْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ۠   ۧ
قُلْ : کہ دیں يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لَا تَغْلُوْا : غلو (مبالغہ) نہ کرو فِيْ : میں دِيْنِكُمْ : اپنا دین غَيْرَ الْحَقِّ : ناحق وَ : اور لَا تَتَّبِعُوْٓا : نہ پیروی کرو اَهْوَآءَ : خواہشات قَوْمٍ : وہ لوگ قَدْ ضَلُّوْا : گمراہ ہوچکے مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَاَضَلُّوْا : اور انہوں نے گمراہ کیا كَثِيْرًا : بہت سے وَّضَلُّوْا : اور بھٹک گئے عَنْ : سے سَوَآءِ : سیدھا السَّبِيْلِ : راستہ
کہہ دو اے اہل کتاب اپنے دین میں بےجا غلو نہ کرو اور ان لوگوں کی بدعات کی پیروی نہ کرو جو اس سے پہلے گمراہ ہوئے اور جنھوں نے بہتوں کو گمراہ کیا اور جو راہ راست سے بھٹک گئے
قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لاَ تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعُوْآ اَھْوَٓئَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآئِ السَّبِیْلِ ۔ (المائدہ : 77) ” کہہ دو اے اہل کتاب اپنے دین میں بےجا غلو نہ کرو اور ان لوگوں کی بدعات کی پیروی نہ کرو جو اس سے پہلے گمراہ ہوئے اور جنھوں نے بہتوں کو گمراہ کیا اور جو راہ راست سے بھٹک گئے “۔ نصاریٰ کی اصل بیماری ” غلو “ آخری آیت میں اگرچہ خطاب عام اہل کتاب سے ہے لیکن اس کا رخ نصاریٰ ہی کی طرف ہے اور ان کی اصل بیماری کی خبر دی گئی ہے جو کہ اسی غلو کا نتیجہ ہے کہ نصاریٰ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو رسول سے خدا بنا ڈالا۔ پھر ان کی ماں اور روح القدس کو بھی خدائی میں شریک کردیا۔ یہ اسی غلو کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے خواہشات نفس کو دین کا درجہ دے دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بجائے حق کی پیروی کرنے کے ‘ وہ گمراہ قوموں کی پیروی کرنے لگے ‘ خصوصاً فلاسفہ یونان کی۔ جن کے تخیلات سے متاثر ہو کر عیسائی اس صراط مستقیم سے ہٹ گئے ‘ جس کی طرف ابتدائً میں ان کی راہنمائی کی گئی تھی۔ مسیح کے ابتدائی پیرو جو عقائد رکھتے تھے ‘ وہ بڑی حد تک اس حقیقت کے مطابق تھے ‘ جس کا مشاہدہ انھوں نے خود کیا تھا اور جس کی تعلیم ان کے ہادی اور رہنما نے ان کو دی تھی۔ مگر بعد کے عیسائیوں نے ایک طرف مسیح (علیہ السلام) کی عقیدت اور تعظیم میں غلو کر کے اور دوسری طرف ہمسایہ قوموں کے اوہام اور فلسفوں سے متأثر ہو کر اپنے عقائد کی مبالغہ آمیزفلسفیانہ تأویلیں شروع کردیں اور ایک بالکل ہی نیا مذہب اختیار کرلیا ‘ جس کو مسیح کی اصل تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہ رہا۔ اس باب میں خود ایک عالم دینیات کا بیان قابل ملاحظہ ہے جو اس نے انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے چودھویں ایڈیشن میں یسوع مسیح (علیہ السلام) کے عنوان پر لکھا ہے وہ ایک طویل مضمون ہے۔ ہم اس کے صرف چند فقرے نقل کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے : (پہلی تین انجیلوں ‘ متی ‘ مرقس ‘ لوقا میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے ‘ جس سے یہ گمان کیا جاسکتا ہو کہ ان انجیلوں کے لکھنے والے یسوع (علیہ السلام) کو انسان کے سوا کچھ اور سمجھتے تھے۔ ان کی نگاہ میں وہ ایک انسان تھا ‘ ایسا انسان جو خاص طور پر خدا کی روح سے فیضیاب ہوا تھا) اس رکوع سے امت مسلمہ کو کیا سبق ملتا ہے ؟ ہم نے اس رکوع میں اہل کتاب کو جو پیغام دیا گیا ہے وہ بھی پڑھا ہے اور اس کے ضمن میں یہود و نصاریٰ کی گمراہیوں کا تذکرہ بھی پڑھا۔ یہود میں اگر تفریط کی بیماری ہے تو نصاریٰ میں افراط اور غلو کی بیماری ہے۔ ایک کو سرکشی نے تباہ کیا ہے اور دوسرے کو محبت اور عقیدت میں غلو نے اور خواہشاتِ نفس کو بدعات کا رنگ دے کر اس کی پرستش کرنے نے۔ امت مسلمہ کو اگر اللہ کے یہاں جواب دہی کا کچھ بھی احساس ہے تو اس کے لیے یہ بات ازبس ضروری ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ کی تاریخ کے آئینہ میں ان کی بداعمالیوں کو سمجھ کر خود اس سے بچنے کی کوشش کرے اور اس بات کا اچھی طرح جائزہ لے کہ اس امت کے کسی طبقے نے سرکشی کا راستہ تو اختیار نہیں کرلیا یا اس امت کا کوئی طبقہ غلو کا شکار ہو کر بدعات و شرک کی وادی میں داخل تو نہیں ہوگیا۔
Top