Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 78
لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ١ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ
لُعِنَ
: لعنت کیے گئے (ملعون ہوئے
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: جن لوگوں نے کفر کیا
مِنْ
: سے
بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ
: بنی اسرائیل
عَلٰي
: پر
لِسَانِ
: زبان
دَاوٗدَ
: داود
وَعِيْسَى
: اور عیسیٰ
ابْنِ مَرْيَمَ
: ابن مریم
ذٰلِكَ
: یہ
بِمَا
: اس لیے
عَصَوْا
: انہوں نے نافرمانی کی
وَّكَانُوْا
: اور وہ تھے
يَعْتَدُوْنَ
: حد سے بڑھتے
بنی اسرائیل میں سے جنھوں نے کفر کیا ‘ ان پر دائود اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت ہوئی۔ یہ اس وجہ سے کہ انھوں نے نافرمانی کی اور حد سے آگے بڑھ جایا کرتے تھے
تمہید سابقہ رکوع میں جو پیغام بنی اسرائیل کو اتمامِ حجت کے طور پر دینا مقصود تھا ‘ اس کی تفصیل ہم پڑھ چکے ہیں۔ پھر اس پیغام کے ردعمل کے طور پر جو رویہ بنی اسرائیل کا سامنے آیا ‘ قرآن کریم نے اس کی توجیہہ کرتے ہوئے یہود و نصاریٰ کے مجموعی طرز عمل کو اعتقادات اور اعمال کی صورت میں بیان کر کے اہل کتاب پر حجت تمام کی اور امت محمدیہ کے لیے مستقبل کے خطرات کی نشاندہی کی۔ پھر نصاریٰ کے عقائد کو بیان کرتے ہوئے ان کے عقیدے کی دو بنیادی خرابیوں کا بطور خاص تذکرہ کیا اور بتایا کہ یہ وہ خرابیاں ہیں ‘ جن کی وجہ سے ان کے اندر وہ غلط عقائد پیدا ہوئے جن کا ذکر کیا گیا ہے اور امت اسلامیہ کو بھی اس بات سے ہوشیار رہنا چاہیے کہ آئندہ چل کر کہیں ان میں یہ دو بنیادی خرابیاں پیدا نہ ہوں۔ آج کے رکوع کے آغاز میں بظاہر ایک ایسی بات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو سزا کے طور پر ان پر وارد ہوئی۔ لیکن درحقیقت ایک اہم حقیقت سے پردہ اٹھایا جا رہا ہے۔ وہ یہ کہ قومیں اور امتیں جن علائق اور موانع کی وجہ سے بالعموم راہ راست پر نہیں آتیں ‘ وہ فطری نتائج ہیں اس کوتاہی ِ فکر کے جس نے ان کے اندر ایک ایسا رویہ جنم دیا جس کی وجہ سے وہ کبھی اپنی تاریخ سے کبھی دامن چھڑانے کی کوشش نہیں کرتیں اور اپنے ماضی کی اسیر ہو کر کبھی بھی صحیح راہ عمل اختیار کرنے کی جرأت نہیں کرتیں۔ اقبال نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا : آئینِ نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں بنی اسرائیل بھی اس تصور سے دست کش ہونے کے لیے تیار نہیں تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ ہم اس کی خاص قوم ہیں۔ ہم انبیاء کی اولاد ہیں۔ صدیاں گزر گئیں ‘ نبوت ہمیشہ ہم میں آتی رہی۔ آج اگر بنی اسماعیل کو اس نعمت سے نوازا جا رہا ہے اور ان میں آخری نبی کو اٹھا کر دنیا کی سیادت و قیادت انھیں دی جا رہی ہے تو بنی اسرائیل کا احساسِ تفاخر کسی قیمت پر بھی اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ یہ بنی اسماعیل جن کو ہم ہمیشہ امی ّ کہہ کے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے رہے اور جنھیں کوئی قابل ذکر مقام حاصل نہیں ‘ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم جیسی معزز قوم ان کے نبی پر ایمان لے آئے اور ان کی قیادت کو قبول کرلے یعنی وہ اپنے ماضی کی بنیاد پر اللہ کے اس آخری پیغام کو قبول کرنے سے انکار کر رہے تھے۔ پروردگار نے اس رکوع کی پہلی آیتوں میں انھیں تاریخ کا آئینہ دکھا کر ان کے اس خیال باطل کا علاج کیا ہے کہ نادانو ! تم جس تاریخ پر اتراتے ہو اور جس کی وجہ سے تم راہ ہدایت اختیار کرنے سے انکار کر رہے ہو ‘ تمہیں خوب معلوم ہے کہ تمہارے اپنے پیغمبر تاریخ کے مختلف ادوار میں تم پر لعنت برساتے رہے ہیں۔ لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ عَلیٰ لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ۔ (المائدہ : 78) ” بنی اسرائیل میں سے جنھوں نے کفر کیا ‘ ان پر دائود اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت ہوئی۔ یہ اس وجہ سے کہ انھوں نے نافرمانی کی اور حد سے آگے بڑھ جایا کرتے تھے “۔ بنی اسرائیل پر تمام انبیاء نے لعنت کی یہاں ذکر صرف دو نبیوں کا کیا گیا ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ تورات اور قرآن کریم پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی رسول شاید ایسا نہیں گزرا ‘ جس نے ان کی بداعمالیوں کے باعث ‘ ان سے ناخوشی کا اظہار نہ کیا ہو اور اللہ کی جانب سے ان پر لعنت نہ کی ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے چند رکوع پہلے ہم ایسی ہی صورت حال پڑھ چکے ہیں اور یہاں حضرت دائود (علیہ السلام) کا ذکر شاید اس لیے کیا گیا ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) وہ رسول ہیں کہ جنھیں بنی اسرائیل اپنی عظمتوں کا امین سمجھتے اور دنیوی رفعتوں کے اعتبار سے انھیں تاریخ کی عظیم ترین شخصیتوں میں شمار کرتے تھے اور ان کے بنی اسرائیل میں ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ان پر فخر کا اظہار کرتے تھے اور مزید یہ بات بھی کہ حضرت دائود (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح پر جلال پیغمبر نہیں تھے بلکہ ان کی طبیعت پر جمال کا غلبہ تھا اور شاید اسی جمال ہی کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے ان کو خوبصورت آواز عطا فرمائی تھی۔ تاریخ میں آج تک خوبصورت آواز کے لیے ” لحنِ دائودی “ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور پھر آواز میں ایسا سوز و گداز تھا کہ جب وہ پہاڑوں میں مزامیرِ زبور کی تلاوت کرتے تھے تو پہاڑ ان کے ساتھ ہم آواز ہوجاتے اور پرندے جھوم جھوم کے اترتے اور بعض دفعہ بےہوش ہو کر گرجاتے۔ بنی اسرائیل کی بداعمالیوں کا اندازہ فرمایئے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) جیسی دل آویز شخصیت بھی ان پر لعنت کرتی اور ناگواری کا اظہار کرتی ہے کیونکہ بنی اسرائیل کی بدعہدیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کا دل زخمی تھا۔ اس لیے اپنی دعائوں اور مناجاتوں میں بار بار اپنی نارضامندی کا اظہار فرماتے۔ ہم ان کی مناجاتوں میں سے صرف ایک مناجات کا ایک ٹکڑا پیش کرتے ہیں جس سے بنی اسرائیل کے بارے میں ان کے انداز کی وضاحت ہوتی ہے۔ ملاحظہ فرمایئے : لیکن خدا شریر سے کہتا ہے تجھے میرے آئین بیان کرنے سے کیا واسطہ اور تو میرے عہد کو اپنی زبان پر کیوں لاتا ہے ؟ جب کہ تجھے تربیت سے عداوت ہے۔ اور میری باتوں کو پیٹھ پیچھے پھینک دیتا ہے۔ تو چور کو دیکھ کر اس سے مل گیا۔ اور زانیوں کے شریک رہا ہے۔ تیرے منہ سے بدی نکلتی ہے۔ اور تیری زبان فریب گھڑتی ہے۔ تو بیٹھا بیٹھا اپنے بھائی کی غیبت کرتا ہے۔ اور اپنی ماں کے بیٹے پر تہمت لگاتا ہے۔ تو نے یہ کام کیے اور میں خاموش رہا۔ تو نے گمان کیا کہ میں بالکل تجھ ہی سا ہوں۔ لیکن میں تجھے ملامت کر کے ‘ ان کو تیری آنکھوں کے سامنے تربیت دوں گا ایسا نہ ہو کہ میں تم کو پھاڑ ڈالوں اور کوئی چھڑانے والا نہ ہو۔ (زبور 50: 16-22) اسی طرح سیدنا مسیح نے بھی ان پر بارہا لعنت کی ہے جن کی مثالیں انجیلوں میں موجود ہیں۔ ہم اختصار کے خیال سے ان کے خطاب سے صرف دو اقتباس نقل کرتے ہیں۔ ارشاد فرماتے ہیں : (اے سانپو ! اے افعی کے بچو ! تم جہنم کی سزا سے کیوں کر بچو گے ؟ اس لیے دیکھو ! میں نبیوں اور دانائوں اور فقیہوں کو تمہارے پاس بھیجتا ہوں۔ ان میں سے تم بعض کو قتل کرو گے اور صلیب پر چڑھائو گے اور بعض کو اپنے عبادت خانوں میں کوڑے مارو گے اور شہر بہ شہر ستاتے پھرو گے تاکہ سب راست بازوں کا خون جو زمین پر بہایا گیا تم پر آئے۔ راست باز ہابل کے خون سے لے کر برکیاہ کے بیٹے زکریا کے خون تک ‘ جسے تم نے مقدس اور قربان گاہ کے درمیان قتل کیا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ یہ سب کچھ اس زمانے کے لوگوں پر آئے گا۔ اے یروشلم ! اے یروشلم ! تو جو نبیوں کو قتل کرتی اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتی ہے۔ کتنی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں کے نیچے جمع کرلیتی ہے ‘ اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کرلوں مگر تم نے نہ چاہا۔ دیکھو ! تمہارا گھر تمہارے لیے ویران چھوڑا جاتا ہے۔ کیوں کہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے مجھے پھر ہرگز نہ دیکھو گے ‘ جب تک نہ کہو گے کہ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے) (متی 23: 14-39) لعنت کے دو مفہوم اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی تاریخ کے ابتدائی دور کے ایک عظیم رسول اور پھر بنی اسرائیل کی تاریخ کے آخری رسول ‘ دونوں کے حوالے سے ان پر لعنت کا ذکر فرمایا ہے۔ اس طرح اس تاریخ کے درمیان میں جو ہزاروں نبی گزرے ہیں ‘ ان کا ذکر اگرچہ نہیں کیا گیا ‘ لیکن پہلی اور آخری کڑی کا ذکر کر کے گویا پوری تاریخ کو سمیٹ لیا گیا ہے۔ اس تاریخ کے تناظر میں جو بات انتہائی قابل توجہ ہے ‘ وہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل اپنی تاریخ میں کچھ بھی رہے ہوں ‘ بہرحال ایک حامل دعوت امت تھے۔ ایسی امت پر بار بار لعنت کا برسنا ‘ یہ ان کی تاریخ کا ایسا داغ ہے جس کو کبھی بھی دھویا نہیں جاسکتا کیونکہ لعنت کے دو مفہوم ہوتے ہیں۔ ایک اللہ کی رحمت سے دوری اور دوسرا اس بات کا اعلان کہ یہ قوم قبولیت حق سے پوری طرح محروم ہوچکی ہے ‘ اب ان سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ہم اپنے معاشرے میں آج بھی اس لفظ کا استعمال تقریباً اس کے قریب قریب معنی کے لیے کرتے ہیں۔ کسی آدمی پر لعنت اس وقت کی جاتی ہے جب اس کے اخلاق اور شرافت کی طرف سے بالکل مایوسی ہوجاتی ہے۔ یہ قوم بھی معلوم ہوتا ہے ‘ ایسی ہی انتہاء کو بار بار چھوتی رہی۔ اب رسول اللہ ﷺ کی دعوت کی صورت میں انھیں جو آخری موقع دیا جا رہا ہے ‘ اسے تو انھیں غنیمت سمجھ کر قبول کرنا چاہیے تھا کیونکہ اس کے نتیجے میں انھیں ایک نئی زندگی مل سکتی تھی۔ لیکن یہ لوگ چونکہ اپنی تاریخ اور اپنے ماضی کے اسیر تھے ‘ اس لیے یہ اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ البتہ ! ایک سوال باقی رہ جاتا ہے ‘ وہ یہ کہ لعنت جیسا کہ عرض کیا سب سے بڑی محرومی کا نام ہے۔ بنی اسرائیل سے ایسا کون سا جرم سرزد ہوا تھا کہ انھیں اتنی بڑی محرومی کی سزا دی گئی ؟ بنی اسرائیل پر لعنت کی وجوہات اس کا جواب ان دو آیات کریمہ میں دیا گیا ہے۔ 1 فرمایا گیا کہ ان کا پہلا جرم تو یہ تھا ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا کہ یہ لعنت ان پر اس لیے کی گئی کہ وہ لوگ نافرمانی کرتے تھے یعنی وہ اللہ کے احکام کے نافرمان تھے۔ قرآن کریم سے ان کی اس نافرمانی کی تین شکلیں معلوم ہوتی ہیں : (ا) ان بنی اسرائیل میں ایک ایسا طبقہ بھی موجود تھا کہ جو اللہ کے احکام کو قبول کرنے سے صاف انکار کردیتا تھا۔ چناچہ اس کی مثالیں ان کی ابتدائی تاریخ کے آخری دور تک آپ کو جابجا ملیں گی۔ جب ان پر تورات نازل کی گئی ‘ جس طرح انھوں نے اس کو قبول کرنے سے انکار کیا اور پھر کوہ طور کو ان کے سروں پر لا کر ان کو اسے قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ‘ یہ ان کی ابتدائی تاریخ کی ایک نمایاں مثال ہے۔ پھر جزیرہ نمائے سینا میں جب انھیں فلسطین پر حملہ کرنے کا حکم دیا گیا اور انھوں نے جس طرح اس حکم سے سرتابی کی بلکہ ایک حد تک بغاوت کردی ‘ اس کا تذکرہ خود تورات میں موجود ہے اور بعد کی تاریخ میں ان کی سرتابیوں اور نافرمانیوں کا تذکرہ مختلف صحیفوں میں موجود ہے۔ (ب) بنی اسرائیل کا ایک خاصہ بڑا عنصر ایسا تھا جو صاف صاف اللہ کے احکام کو قبول کرنے سے تو انکار نہیں کرتا تھا لیکن اس میں چور دروازے نکالنے اور اپنی بےعملی کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے ‘ پے در پے سوالات کرتا تھا۔ قرآن کریم نے سورة البقرہ میں ان کی اس بری عادت کا تذکرہ کرتے ہوئے اس امت کو تنبیہ کی ہے کہ تم قوم موسیٰ کی طرح نہ ہوجانا۔ (ج) ان لوگوں میں ایک اور عادت تھی۔ وہ یہ کہ احکامِ حق سے انحراف نہیں کرتے تھے ‘ البتہ وہ آداب زندگی جو پیغمبر کے واسطے سے ملتے ہیں کیونکہ اللہ کی کتاب تو اصول اور احکام دیتی ہے ‘ لیکن زندگی کے آداب اللہ کے نبیوں کی سنت سے ملتے ہیں اور یہی وہ آداب ہیں جو ثقافت و تہذیب کا تانا بانا تیار کرتے ہیں۔ بنی اسرائیل پیغمبر کی دی ہوئی اس زندگی سے معلوم ہوتا ہے ‘ اختلاف کرتے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث پاک میں ان کی اس خوئے بد کا ذکر فرمایا : انما اھلک الذین من قبلکم کثرۃ مسائلھم و اختلافھم علی انبیائھم ( تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا ہے ‘ کثرت سوالات نے اور اپنے انبیاء سے اختلاف نے۔ ) نافرمانی کی یہ تینوں شکلیں بتمام و کمال بنی اسرائیل میں موجود تھیں۔ 2 ان کا دوسرا جرم اور برائی جو ان کے لیے لعنت کا باعث ہوئی وہ ہے : کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ( یہ لوگ حد سے گزر جایا کرتے تھے۔ ) نافرمانی کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت نہ کی جائے۔ حد سے گزر جانا اس کا اگلا مرحلہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ اطاعت نہ کرنے میں یہ احساس بھی مرجائے کہ میں نے اطاعت نہ کر کے کوئی جرم کیا ہے ‘ بلکہ بڑے سے بڑے جرم کو بھی آنحضرت کے ارشاد کے مطابق یوں سمجھا جائے کہ ایک مکھی تھی جو چہرے پر بیٹھی اور اڑ گئی جبکہ ایک مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ چھوٹے سے چھوٹے گناہ کو یوں محسوس کرتا ہے جیسے پہاڑ اس کے سر پر گرگیا ہو۔ معصیت اور اس کے احساس کا مٹ جانا یہ بجائے خود بہت بڑی محرومی کی علامتیں ہیں۔ لیکن ایسی صورت حال میں اگر اس قوم یا اس معاشرے میں خیر کی دعوت دینے والے نیکی کی طرف بلانے والے اور برائی سے روکنے والے لوگ موجود رہیں اور وہ اپنا فرض انجام دیتے رہیں ‘ اس کے نتیجے میں کسی نہ کسی حد تک قوم کا اجتماعی ضمیر زندہ رہتا ہے ‘ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بگڑے ہوئے افراد کو کھل کھیلنے کا موقع نہیں ملتا اور قوم بحیثیت مجموعی بگڑنے نہیں پاتی۔ لیکن اگر قوم ان افراد کے معاملے میں تساہل شروع کر دے اور غلط کار لوگوں کو ملامت کرنے کی بجائے انھیں سوسائٹی میں غلط کاری کے لیے آزاد چھوڑ دے اور خیر کی طرف بلانے والے لوگ اشرار کے خوف سے گھر میں چھپ کے بیٹھ جائیں تو پھر رفتہ رفتہ وہی خرابی جو پہلے چند افراد تک محدود ہوتی ہے ‘ پوری قوم میں پھیل جاتی ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب قوم قبولیتِ حق کی استعداد سے محروم ہوجاتی ہے اور پھر برائی کا احساس آہستہ آہستہ دم توڑ جاتا ہے۔ اب اگر برائی کی طرف سے روکنے کی کوشش بھی کی جائے تو لوگ اسے دیوانگی سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔ چناچہ بنی اسرائیل میں یہی صورت حال پیدا ہوئی جس کا اس آیت کریمہ میں تذکرہ کیا جا رہا ہے -
Top