Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 79
كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ : ایک دوسرے کو نہ روکتے تھے عَنْ : سے مُّنْكَرٍ : برے کام فَعَلُوْهُ : وہ کرتے تھے لَبِئْسَ : البتہ برا ہے مَا كَانُوْا : جو وہ تھے يَفْعَلُوْنَ : کرتے
جس برائی کو اختیار کرلیتے ‘ اس سے باز نہ آتے۔ نہایت ہی بری بات تھی ‘ جو یہ کرتے تھے
کَانُوْا لاَ یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہٗ ط لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ۔ (المائدہ : 79) ” جس برائی کو اختیار کرلیتے ‘ اس سے باز نہ آتے۔ نہایت ہی بری بات تھی ‘ جو یہ کرتے تھے “۔ 3 لاَ یَتَنَاھَوْنَ کے دو معنی ہیں ایک معنی تو یہ ہے کہ وہ لوگ ایک دوسرے کو برائی کرنے سے روکتے نہیں تھے۔ گویا ان کے اندر تبلیغ و دعوت کا سلسلہ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا جذبہ نہ صرف کہ سرد ہوگیا تھا بلکہ مرگیا تھا اور دوسرا معنی یہ ہے کہ اس قوم کا اجتماعی مزاج یہ بن گیا تھا کہ اگر انھیں کسی برائی سے روکا جاتا تھا تو برائی سے رکنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ ظاہر ہے یہ دوسرا رویہ پہلے رویے کا منطقی نتیجہ ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث پاک میں ان دونوں باتوں کی طرف توجہ دلائی۔ آپ نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ ” بنی اسرائیل میں جب شروع شروع میں برائی کا آغاز ہوا تو ایک ایسی تعدادا ان میں موجود تھی جو انھیں اس برائی کے ارتکاب سے روکتی تھی۔ لیکن ان سے الگ نہیں ہوتی تھی ‘ بلکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ انھیں روک دینے سے ہمارا فرض مکمل ہوگیا ‘ اب اگر وہ نہیں رکتے تو وہ جانیں اور ان کا خدا جانے۔ لیکن جہاں تک ہمارے تعلقات کا سوال ہے ‘ اس میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے۔ چناچہ وہ اسی طرح ہم نوالہ و ہم پیالہ اور باہم شیرو شکر رہتے تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ برائی کا ارتکاب کرنے والوں کے اثرات روکنے والوں کے دلوں پر بھی پڑنے لگے۔ ان کے اندر سے برائی تو کیا ختم ہونا تھی ‘ ان نیک لوگوں کے اندر سے بھی نیکی کی عصبیت ختم ہوگئی۔ آخر جب اللہ کا عذاب آیا تو اس نے دونوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا “۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے ہمیں اپنی زندگی کو بنانے اور سنوارنے کے لیے جو اصول دیئے ہیں ان میں اس بات کو بےحد اہمیت حاصل ہے کہ تم اپنی نیکی پر اس وقت تک قائم رہو گے ‘ جب تک تم خیر کی دعوت دیتے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دیتے رہو گے۔ جب تم دیکھو کہ کسی گروہ پر تمہاری کاوشیں بےنتیجہ ہو رہی ہیں اور وہ خیر کی طرف آنے کے لیے قطعاً تیار نہیں تو پھر تمہارے لیے لازم ہے کہ تم ایسے لوگوں سے ترک تعلق کردو۔ چناچہ یہی وجہ ہے کہ دعائے قنوت میں ہمیں اس عہد کو بار بار دہرانے کا حکم دیا ہے ‘ تاکہ اسے یاد رکھنے میں ہمیں آسانی رہے۔ وہ عہد یہ ہے : وَ نَخْلَعُ وَ نَتْرُکُ مَنْ یَفْجُرُکَ ( ’ ہم بائیکاٹ کردیں گے اور ترک تعلق کردیں گے اس آدمی سے جو تیرا قانون توڑے گا اور تیری نافرمانی کرے گا) حاصل کلام یہ کہ بنی اسرائیل پر لعنت کے اسباب تین تھے : 1 اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی۔ 2 نافرمانی میں حد سے گزر جانا۔ 3 ایک دوسرے کو برائی سے نہ روکنا اور اگر روکا جائے تو رکنے سے انکار کردینا۔ اللہ فرماتا ہے کس قدر برے تھے وہ کرتوت ‘ جو یہ لوگ کرتے تھے۔ کہیں خدانخواستہ ہم بھی اللہ کی لعنت کی طرف تو نہیں بڑھ رہے بنی اسرائیل اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ قرآن کریم نے ان کے واقعات کا تذکرہ کر کے ہمارے لیے نصیحت و عبرت کا سامان بہم پہنچایا۔ یہاں رک کر ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا یہ تینوں برائیاں اس امت میں موجود تو نہیں۔ کہیں ہم بھی اللہ کی نافرمانی تو نہیں کرتے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس نافرمانی میں ہم بھی حد سے گزر چکے ہیں اور کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم کسی برائی کا ارتکاب کر رہے ہیں تو اس میں ہمارا رویہ یہ ہوگیا ہے کہ جو ہمیں اس سے روکتا ہے ‘ ہم اس کا منہ نوچنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں لیکن اس سے رکنے کا کبھی نام نہیں لیتے ؟ اگر امت کی اجتماعی حالت دیکھی جائے اور اپنے اجتماعی اداروں بالخصوص احتسابی اداروں ‘ عدالتوں اور ایوان ہائے حکومت کے طرز عمل کو سامنے رکھا جائے تو یہ دیکھ کر دل بیٹھ جاتا ہے کہ یہ تینوں بیماریاں بہت حد تک ہم میں در آئی ہیں اور سود کے مسئلے میں تو ہمارا نظام حکومت اور نظام عدالت بالکل عریاں ہو کر سامنے آگیا ہے۔ اس لیے ہمیں صرف بنی اسرائیل ہی کے بارے میں نہیں بلکہ اپنے بارے میں سوچنا ہے کہ اگر ہم نے اپنا فرض نہ پہچانا تو کہیں اس لعنت کا رخ ہماری طرف تو نہیں ہوجائے گا۔ انسان کا ذوق اس کے اعمال کا سرچشمہ ہوتا ہے یہود کی بنیادی بداعمالیوں اور ان کے مجموعی رویے کا ذکر تفصیل سے ہم پڑھ چکے ہیں۔ اگلی آیت میں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔ وہ یہ کہ آدمی اپنی زندگی میں جس طرح کا رویہ اختیار کرتا ہے یا قومیں اپنی اجتماعی زندگی میں جو معمول اپنا لیتی ہیں ‘ آہستہ آہستہ اس کے نتیجے میں ایک مزاج اور ذوق پیدا ہوتا ہے جو ان کی زندگیوں کے تمام اعمال اور باہمی معاملات پر نہ صرف ہے کہ اثر انداز ہوتا ہے بلکہ تمام اعمال کا سرچشمہ بن جاتا ہے۔ پھر وہ فرد یا قوم کے لوگ اعمال کرنے میں اپنی عقل یا اپنے اعتقادات کو بہت کم استعمال کرتے ہیں بلکہ ان کے تمام تر اعمال ان کے مزاج اور ذوق کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور اسی ذوق کے آئینہ دار بھی ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہم ایک فرد کے عام طرز زندگی میں بھی دیکھتے ہیں اور کسی بھی قوم کے مجموعی رویے میں بھی۔ آپ کسی بھی ایسی قوم کا مطالعہ کریں جو بیشک اپنی دنیوی زندگی میں نہایت پسماندگی کی علامت ہو اور انھیں اپنی زندگی کی ضروریات میں نہایت خست سے کام لینا پڑتا ہو اور لوگ انھیں کسی طور بھی قابل ذکر نہ سمجھتے ہوں۔ لیکن اگر انھوں نے کبھی غلامی کی زندگی اختیار نہیں کی اور ہمیشہ آزادی ان کے اجتماعی طرز عمل کا جوہر رہی ہے تو آپ ان سے مل کے دیکھئے ‘ آپ ان کے ایک ایک فرد میں آزاد روی ‘ اولوالعزمی اور خود اپنے فیصلے کرنے کی صلاحیت محسوس کریں گے۔ وہ زندگی کی سب سے قیمتی متاع عزت اور غیرت کو قرار دیں گے ‘ وہ ایسے کسی بڑے سے بڑے دنیوی فائدے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھیں گے جس سے ان کی آزاد روی میں فرق آتا ہو۔ لیکن اس کے برعکس جو قومیں غلامی کا شکار ہوتی ہیں ان کے ہر ادنیٰ و اعلیٰ فرد میں حتی کہ ان کے اہل علم میں بھی اور دنیوی اعتبار سے ان کے بالا قامت لوگوں میں بھی اور انتہاء یہ کہ ان کے مشیخت اور تقدس کے دعوے داروں میں بھی ‘ آپ عزت اور غیرت کی خوشبو مشکل سے ہی سونگھ پائیں گے۔ برصغیر کی تاریخ اس حقیقت پر شاہد ہے کہ جس قوم نے سید احمد شہید ‘ علمائے بنگال ‘ علمائے صادق پور اور ریشمی رومال جیسی تحریکوں کو جنم دیا۔ اس کے سجادہ نشین اور مذہبی پیشوا فاتح قوت کے سامنے کس طرح اپنی وفاداریاں بیچتے رہے اور کس طرح چشم فلک نے اس ملک کے جاگیرداروں کو اس فاتح قوم کے معمولی عہدیداروں کے سامنے سر جھکاتے اور ذلت کی تصویر بنے دیکھا اور وہ فاتح قوم جو ایک محدود تعداد میں یہاں آئی ‘ لیکن برصغیر میں بسنے والی کروڑوں افراد پر مشتمل قوم محض اس لیے ان کے سامنے سرنگوں ہوتی چلی گئی کہ ان کو مسلسل غلامی نے غیرت و حمیت سے محروم کر کے ایک نئے مزاج اور ذوق سے آشنا کیا ‘ جس نے ان سے عزت سے زندہ رہنے اور آزادی کو اپنے سب سے بڑا سرمایہ سمجھنے کی خوبو چھین لی اور وہ چیزیں ‘ جو کل تک ان کے لیے عزت و افتخار کی علامت تھیں ‘ وہ آہستہ آہستہ ناقابل توجہ ہوتی چلی گئیں۔ بقول اقبال : تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتے ہیں قوموں کے ضمیر کسی بھی انسان کا اصلی جوہر جو اس کی انسانی قدروقیمت کی پاسبانی کرتا ہے۔ درحقیقت اس کا اپنا احساس ہے ‘ جس کو دل کی بیداری بھی کہا گیا ہے۔ جب تک یہ دل کی زندگی کی صورت زندہ رہتا ہے تو آدمی زندہ رہتا ہے اور جب یہ مرجاتا ہے تو آدمی اور اس کی ہر چیز مرجاتی ہے۔ اس لیے اقبال نے کہا ؎ اے دل زندہ کہیں تو نہ مر جائے کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی مثالیں بڑی بڑی حقیقتوں کے لیے عقدہ کشا ثابت ہوتی ہیں۔ ایسی ہی مثالوں میں ایک چھوٹا سا واقعہ سن لیجئے کہ میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ دفتر کے باہر دو لڑکوں کے بولنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے کان لگائے تو ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ بھیٔ تم نے یہ اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے ‘ بال تمہارے الجھے ہوئے ہیں ‘ کپڑے تمہارے شکن آلود ہیں ‘ شیو تمہاری بڑھی ہوئی ہے ‘ آخر تم اپنا خیال کیوں نہیں کرتے ؟ دوسرے نے جواب دیا یار ! اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پہلے نے کہا فرق پڑتا ہے۔ دوسرے نے کہا ‘ کیا ؟ اس نے کہا۔ It looks very awkward (بہت برا لگتا ہے) میں سوچ میں پڑگیا کہ یہ کیا بات ہوئی ؟ ایک چیز ایک آدمی کو بری نہیں لگتی۔ لیکن دوسرے کو بری لگتی ہے۔ آپ غور کریں گے تو یقینا آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ دونوں میں فرق جمالیاتی ذوق کا ہے۔ جس میں جمالیاتی ذوق ہے ‘ وہ اس بےترتیبی کو ناگوار سمجھتا ہے اور جس میں جمالیاتی ذوق کی کمی ہے ‘ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کہنا یہ ہے کہ افراد اور قوموں کی زندگی میں سب سے موثر عامل جو ان کی زندگی میں رہنما ثابت ہوتا ہے ‘ وہ ان کا مزاج اور ذوق ہے اور یہ اچانک وجود میں نہیں آتا بلکہ اس کے پیچھے ہر صاحب ذوق کا اجتماعی رویہ کارفرما ہوتا ہے۔ ہم گزشتہ رکوع میں دیکھ چکے ہیں کہ یہود کا طرزعمل اسلام ‘ قرآن اور خود ذات رسالت مآب ﷺ کے ساتھ کیا ہے۔ ان کے اس طرز عمل نے ان کے اندر ایک خاص ذوق پیدا کیا۔ وہ یہ ہے کہ وہ ہر چیز برداشت کرسکتے ہیں یا ہر ایک سے تعلق جوڑ سکتے ہیں۔ لیکن نہ وہ اسلام کو قبول کرسکتے ہیں اور نہ مسلمانوں سے کوئی تعلق رکھ سکتے ہیں۔ چناچہ اگلی آیات میں اسی حقیقت کو نمایاں کیا گیا ہے۔
Top