Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 80
تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اَنْفُسُهُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ فِی الْعَذَابِ هُمْ خٰلِدُوْنَ
تَرٰى : آپ دیکھیں گے كَثِيْرًا : اکثر مِّنْهُمْ : ان سے يَتَوَلَّوْنَ : دوستی کرتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لَبِئْسَ : البتہ برا ہے مَا قَدَّمَتْ : جو آگے بھیجا لَهُمْ : اپنے لیے اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں اَنْ : کہ سَخِطَ : غضب ناک ہوا اللّٰهُ : اللہ عَلَيْهِمْ : ان پر وَ : اور فِي الْعَذَابِ : عذاب میں هُمْ : وہ خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہنے والے
تم ان میں سے بھتوں کو دیکھوگے کہ کفار کو اپنا دوست بناتے ہیں ‘ نہایت برا توشہ ہے ‘ جو انھوں نے اپنے لیے بھیجا کہ ان پر خدا کا غضب ہوا اور عذاب میں وہ ہمیشہ رہنے والے بنے
تَرٰی کَثِیرًا مِّنْھُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ط لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَھُمْ اَنْفُسُھُمْ اَنْ سَخِطَ اللہ ُ عَلَیْھِمْ وَ فِیْ الْعَذَابِ ھُمْ خٰلِدُوْنَ ۔ (المائدہ : 80) ” تم ان میں سے بہتوں کو دیکھوگے کہ کفار کو اپنا دوست بناتے ہیں ‘ نہایت برا توشہ ہے ‘ جو انھوں نے اپنے لیے بھیجا کہ خدا کا ان پر غضب ہوا اور عذاب میں وہ ہمیشہ رہنے والے بنے۔ جب کوئی حامل مذہب قوم لا مذہب کو دوست بنا لے یعنی ان کی زندگی کے طرز عمل نے ان میں جو ذوق پیدا کیا اور جس طرح کا مزاج ڈھالا اس کا نتیجہ ہے کہ وہ کافروں سے پیار کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اگرچہ وہ دعوے دار تو ہمیشہ مذہب کے رہے ‘ لیکن زندگی کا رویہ ہمیشہ مذہب سے بغاوت پر مبنی رہا۔ اس سے جو ذوق تشکیل پایا ‘ اس میں مذہب سے تعلق اور خدا پرستی کا جذبہ کہاں سے آئے گا۔ اس کے نتیجے میں یقینا ان کو وہ لوگ اچھے لگیں گے جو مذہب کے منکر اور خدا کے باغی ہیں اس لیے کہ انسانی فطرت ہے کہ ایک پڑھا لکھا آدمی ہمیشہ پڑھے لکھے سے دوستی کرتا ہے ‘ ایک مہذب آدمی اپنے رفاقت کے لیے کوئی مہذب آدمی چنتا ہے ‘ ایک عالم فاضل شخص کسی جاہل کی دوستی سے کبھی خوش نہیں رہ سکتا ‘ ایک نیک آدمی برے کی صحبت سے بچتا ہے اور اپنے جیسے آدمی کو ہم نشینی کے لیے تلاش کرتا ہے حتیٰ کہ ہم جانوروں تک میں دیکھتے ہیں کہ ہر جانور اپنے ہم جنسوں میں خوش ہوتا ہے اور ناجنسوں کے قریب نہیں جاتا ؎ کند ہم جنس باہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز یہی حال قوموں کا بھی ہے۔ وہ بھی ہمیشہ اپنے ہم جنسوں کے ساتھ تعلقات رکھتی ہیں اور جب کبھی یہ نظر آئے کہ کوئی حامل مذہب قوم لامذہب لوگوں سے دوستی کا تعلق پیدا کر رہی ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ حامل مذہب قوم مذہب سے بغاوت اختیار کر کے اپنے اندر لامذہب لوگوں جیسا ذوق پیدا کرچکی ہے۔ اس لیے ہم یہود کو دیکھتے ہیں کہ ان کے ذوق اور مزاج کے بگاڑ کی انتہا یہ تھی کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں کفار مکہ کو ترجیح دیتے تھے کہ وہ مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں۔ اس سے ان کی ذہنی پستی کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اعتقادی اور عملی بگاڑ نے ان کے ذوق کو کس حد تک پست کردیا تھا۔ چناچہ سورة النساء میں پروردگار نے ان کی اس حالت پر اظہار تعجب بھی فرمایا ہے اور ان کی اس حرکت کی بناء پر ان پر لعنت بھی کی ہے : اَلَمْ تَرَاِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ وَ یَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ھٰٓؤُلآَئِ اَھْدٰی مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلاً ۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَھُمُ اللہ ُ ط وَمَنْ یَّلْعَنِ اللہ ُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ نَصِیْرًا۔ (النساء 4: 51-52) (کیا تم نے ان کو نہیں دیکھا ‘ جن کو کتاب الٰہی کا ایک حصہ ملا اور وہ جبت اور طاغوت پر عقیدہ رکھتے ہیں اور کفار کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ایمان لانے والوں سے زیادہ ہدایت پر ہیں ؟ یہی ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور جن پر اللہ لعنت کر دے تو ان کا تم کوئی مددگار نہیں پاسکتے) یہود کے مجموعی رویے نے ان کے اندر یہ مزاج پیدا کیا کہ ان کو مسلمانوں کی بجائے وہ کافر اور مشرکین اچھے لگتے تھے جو سرے سے مذہب ہی کے منکر تھے۔ نہ آخرت پر یقین رکھتے تھے اور نہ کسی نبی اور رسول کے قائل تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں اور یہود میں زندگی کے اساسی عقائد اور مسلمات کے حوالے سے کوئی ایک چیز بھی مشترک نہیں تھی ‘ سوائے اس کے کہ دونوں میں اللہ کے احکام سے بغاوت کا جذبہ یکساں تھا۔ آج ہم مسلمان بفضلہ تعالیٰ ایمان بھی رکھتے ہیں اور اسلامی شریعت کے ساتھ تعلق کا ہمیں بھی دعویٰ ہے لیکن اس کے باوجود ہم پورے عالم اسلام میں اس بیماری کو رواں دواں دیکھ رہے ہیں ‘ جس کا ابھی یہود کے مزاج کے حوالے سے تذکرہ ہوا کہ جس طرح ان کی دوستیاں کافروں کے ساتھ تھیں باوجود اس کے کہ یہ اس دور کے مسلمان تھے۔ آج ہم مسلمان ہیں ‘ اپنے پاس ایک دین رکھتے ہیں اور شہادتِ حق کی ذمہ داری ہم پر عائد کی گئی ہے۔ لیکن ہماری دوستیاں اور ہماری محبتیں مسلمانوں سے کم ‘ غیر مسلموں سے زیادہ ہیں۔ اسلامی اخوت کو معمولی ذاتی اور ملکی مفاد پر قربان کرتے ہوئے ہمیں کبھی جھجک محسوس نہیں ہوتی۔ کسی بھی مسلمان ملک کے خارجی تعلقات اور تجارتی معاہدوں کو دیکھ لیجئے ‘ مسلمان ملکوں سے کم ہوں گے اور غیر مسلم ممالک سے زیادہ۔ مشرق وسطیٰ ہی کے ممالک کو دیکھ لیجئے۔ وہ ہمارے ساتھ اخوت اسلامی میں شریک ہیں ‘ وہ خوب جانتے ہیں کہ کشمیر میں ہندوستان کس حد تک مظالم توڑ چکا ہے اور پاکستان کو ہندوستان سے تین جنگیں لڑنی پڑی ہیں اور بین الاقوامی معاملات میں اس نے کبھی نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ باایں ہمہ ! پورے عرب ممالک تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہندوستان کو پاکستان پر ہمیشہ ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے تجارتی روابط اور معاہدے پاکستان کی نسبت ہندوستان سے زیادہ ہیں اور سیاسی اور سفارتی تعلقات پاکستان کی نسبت ہندوستان سے زیادہ گہرے ہیں۔ کسی ملک کا نام لینا مناسب معلوم نہیں ہوتا ورنہ ایک ایک ملک کے تعلقات کی نوعیت کو دیکھ لیجئے ‘ آپ کو تعجب ہوگا کہ یا اللہ ! ہندوستان کے ساتھ آخر ان کی قدرمشترک کیا ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں عالم اسلام میں یہود جیسا ذوق اور مزاج پیدا تو نہیں ہوگیا۔ اس سے آگے بڑھ کر میں تو خود پاکستان کے بارے میں متفکر ہوں کہ ہمارا بالائی طبقہ ‘ اپنے دل و دماغ کے رشتے خود اپنے ملک کی نسبت مغربی ملکوں سے زیادہ محسوس کرتا ہے اور اپنے مفادات کو مغربی ملکوں میں زیادہ محفوظ سمجھتا ہے۔ یہ ایک مستقل وجہ پریشانی ہے ‘ مجھے نہیں معلوم آپ اس کو کیسا دیکھتے ہیں ‘ میرا حال تو یہ ہے کہ : پریشاں ہوں مرے دل کی پریشانی نہیں جاتی بڑی مدت ہوئی اس گھر کی ویرانی نہیں جاتی اس آیت کریمہ کے دوسرے حصے میں فرمایا گیا ہے : لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَھُمْ اَنْفُسُھُمْ اَنْ سَخِطَ اللہ ُ عَلَیْھِمْ وَفِی الْعَذَابِ ھُمْ خٰلِدُوْنَ (نہایت برا توشہ ہے جو انھوں نے اپنے لیے بھیجا ہے کہ خدا کا ان پر غضب ہوا اور عذاب میں وہ ہمیشہ رہنے والے بنے) افراد یا قومیں ‘ وہ جو کچھ یہاں کرتی ہیں ‘ اس کے نتائج کچھ یہاں بھی انھیں بھگتنے پڑتے ہیں ‘ لیکن اصل جزا و سزا کا معاملہ تو آخرت میں پیش آنے والا ہے۔ یہاں آدمی اعمال کی صورت میں جو کچھ کرتا ہے ‘ وہ آخرت کے سفر کے لیے توشہ تیار کرتا ہے اور یہی زاد سفر ہے ‘ جسے اس کو ساتھ لے کر جانا ہے۔ اسی سے اسے سفر میں آسانی ہوگی اور اسی سے اس کے انجام کا تعین ہوگا۔ اس آیت کریمہ میں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ ان نادانوں نے اپنے لیے جو توشہ بھیجا ہے ‘ ان کو اندازہ نہیں کہ وہ توشہ ایسا ہے ‘ جس نے اللہ کے غضب کو دعوت دی ہے کیونکہ افراد اور اقوام کے انفرادی اعمال سے بعض دفعہ صرف نظر بھی کرلیا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ اعمال اس قوم کا اجتماعی رویہ بن جائیں اور مزید یہ کہ ان اعمال کا تعلق اللہ کے باغیوں کے ساتھ دوستی کی صورت میں نکلے تو یہ وہ خطرناک رویہ ہے ‘ جس سے اللہ کا غضب بھڑکتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ کے ساتھ تعلق کا کم سے کم تقاضہ یہ تو ہونا چاہیے کہ آدمی اپنے اللہ سے جو وفا کا رشتہ رکھتا ہے ‘ اسے ٹوٹنے نہ دے۔ لیکن اگر انتہا یہ ہوجائے کہ وہ اللہ کے مقابل میں اس کے باغیوں اور دشمنوں سے جاکر رشتہ محبت قائم کرلے تو یہ ایسا خطرناک اقدام ہے جس کو پروردگار کبھی معاف نہیں فرماتے۔ اس لیے یہود کے اس رویے نے ان پر اللہ کے غضب کو بھڑکایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ فرماتا ہے کہ اب یہ لوگ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے کیونکہ انھوں نے ہم سے تعلق توڑ کر ہماری مغفرت اور رحمت سے تعلق توڑ لیا ہے اور ہمارے دشمنوں سے تعلق جوڑ کر انھوں نے عذاب سے رشتہ جوڑ لیا ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ ان کے اپنے اختیار کردہ رشتے کے نتیجے میں ‘ یہ ہمیشہ عذاب میں ڈال دیئے جائیں گے۔ اسی سلسلہ بیان کو آگے بڑھاتے ہوئے پروردگار نے ان کی دکھتی ہوئی رگ کو چھیڑا ہے کہ ان ظالموں نے یہ جو رویہ اختیار کیا ہے ‘ جو ان کے مجموعی مزاج کا آئینہ دار ہے۔ یہ اچانک پیدا نہیں ہوگیا بلکہ اس کے ڈانڈے تاریخ کے ان ادوار سے ملتے ہیں جس پر انھیں بڑاناز ہے اور جس کے حوالے سے ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ ہم ہی تو ہیں جو آج بھی توحید کے علمبردار ہیں ‘ رسالت کو مانتے ہیں ‘ آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور پوری دنیا کی امامت و سیادت کے منصب پر صدیوں سے ہم فائز ہیں اس لیے ہم جیسا کون ہوسکتا ہے ؟ اس لیے ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ درخت ہمیشہ اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور آدمی کے اندر کا اعتقاد اس کے عمل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ تم اگر واقعی اپنے دعوے میں سچے ہو تو پھر تمہارا تعلق اسلامی قوتوں کو چھوڑ کر کافر قوتوں کے ساتھ کیوں۔ اس لیے کہ نبی کا ماننے والا ‘ نبی کے منکر سے تو کبھی رشتہ نہیں رکھ سکتا۔ اللہ کا پرستار اللہ کے سامنے سر نہ جھکانے والے سے کیسے محبت رکھ سکتا ہے ؟ اور ان دونوں کے درمیان آخر فکری ہم آہنگی کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ اسی طرح جو آدمی اللہ کی کتاب اور اس کی نازل کردہ شریعت پر ایمان رکھتا ہے ‘ وہ کتاب اور شریعت کے انکار کرنے والے کے ساتھ محبت و اخوت کی پینگیں کیسے بڑھا سکتا ہے ؟ جس طرح تاریخ کے دو باب کبھی اکٹھے نہیں ہوسکتے ‘ جس طرح اندھیرا اور اجالا یکساں نہیں ہوسکتا اور جس طرح زمین و آسمان ہم آغوش نہیں ہوسکتے ‘ اسی طرح صاحب ایمان اور بےایمان میں ‘ خدا پرست اور خدا کے منکر میں ‘ نبی کے ماننے والے اور اسکے انکار کرنے والے میں بھی کوئی رشتہ نہیں ہوسکتا۔ اس لیے تم جن ادوار پر فخر کرتے ہو کہ تم اللہ کے نبی پر ایمان رکھتے تھے اور اللہ کو مانتے تھے ‘ اگر اس میں واقعی کوئی حقیقت ہے تو پھر تمہارے آج کے طرز عمل کی کیا توجیہہ ہوسکتی ہے اس لیے ارشاد فرمایا :
Top