Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 81
وَ لَوْ كَانُوْا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ النَّبِیِّ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَا اتَّخَذُوْهُمْ اَوْلِیَآءَ وَ لٰكِنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر كَانُوْا يُؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالنَّبِيِّ : اور رسول وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْهِ : اس کی طرف مَا : نہ اتَّخَذُوْهُمْ : انہیں بناتے اَوْلِيَآءَ : دوست وَلٰكِنَّ : اور لیکن كَثِيْرًا : اکثر مِّنْهُمْ : ان سے فٰسِقُوْنَ : نافرمان
اور اگر یہ اللہ پر ‘ نبی پر اور اس پر جو اس کی طرف اتارا گیا ایمان رکھنے والے ہوتے تو ان کفار کو دوست نہ بناتے۔ لیکن ان میں سے تو اکثر نافرمان ہیں
وَلَوْ کَانُوْا یُؤْمِنُوْنَ بِ اللہ ِ وَالنَّبِیِّ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَا اتَّخَذُوْھُمْ اَوْلِیَآئَ وَلٰکِنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ ۔ (المائدہ : 81) ” اور اگر یہ اللہ پر ‘ نبی پر اور اس پر جو اس کی طرف اترا ‘ ایمان رکھنے والے ہوتے تو ان کفار کو دوست نہ بناتے لیکن ان میں سے تو اکثر نافرمان ہیں۔ اس آیت کریمہ میں نبی سے مراد ” حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں “ اور مَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ سے مراد ” تورات “ ہے یعنی ان لوگوں کا دعویٰ یہ ہے کہ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان رکھتے ہیں اور تورات کو بھی مانتے ہیں۔ گویا یہ مذہب سے قدیمی تعلق رکھتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور ان پر نازل کردہ شریعت کے متبع ہیں۔ اگر یہ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو ان کا آج کا طرز عمل بلکہ ان کا مجموعی مزاج جو انھیں کافروں اور مشرکین مکہ سے جوڑتا ہے اور اسلام اور پیغمبر اسلام کے قریب نہیں آنے دیتا ‘ یہ آخر کس بات کا غماز ہے ؟ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ایمان و عمل کے سارے دعوے سراسر جھوٹ پر مبنی ہیں۔ اگر ان میں کوئی صداقت ہوتی تو انھیں تو آگے بڑھ کر اسلام کا علمبردار ہونا چاہیے تھا کیونکہ ان کی کتابوں میں نبی آخر الزمان ﷺ کی علامات اور ان کی تشریف آوری کا تذکرہ ہے۔ قرآن کی خصوصیات تک کا ذکر کیا گیا ہے اور مزید یہ کہ اپنی کتابوں کے علم کی وجہ سے ان کے اہل علم خوب جانتے ہیں کہ سچے نبی کی علامتیں کیا ہوتی ہیں اور اس کا اسلوب دعوت کیا ہوتا ہے۔ اس لیے ان کو آنحضرت ﷺ کی پہچان میں کبھی غلطی نہیں ہوسکتی۔ اس کے باوجود ان کا آنحضرت ﷺ کو تسلیم نہ کرنا اور مسلمانوں کی بجائے غیر مسلموں سے دوستی کا تعلق رکھنا ‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ ( ان میں زیادہ تر لوگ فاسق (یعنی اللہ کے باغی) ہیں) اس لیے ان کے ایمان و عمل کے دعوے اور نبی اور کتاب کے تذکرے ‘ یہ سب بےکار ہیں۔ اس لیے کہ ان کا ماننا ‘ صرف زبان سے ماننا ہے ‘ حقیقت میں ان کی اکثریت ہمیشہ باغیوں پر مشتمل رہی ہے اور ان کے تاریخی تعامل نے اب ان کو یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ صرف یہی نہیں کہ یہ مسلمانوں کی بجائے غیر مسلموں سے دوستی کا تعلق رکھنا پسند کرتے ہیں بلکہ یہ مسلمانوں کے ساتھ تمام دنیا کی قوموں سے بڑھ کر دشمنی کا تعلق رکھتے ہیں۔ اب گلہ یہ نہیں کہ یہ مسلمانوں سے دوستی کیوں نہیں رکھتے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں۔
Top