Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 82
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَهُوْدَ وَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا١ۚ وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰى١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَ رُهْبَانًا وَّ اَنَّهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ
لَتَجِدَنَّ
: تم ضرور پاؤگے
اَشَدَّ
: سب سے زیادہ
النَّاسِ
: لوگ
عَدَاوَةً
: دشمنی
لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا
: اہل ایمان (مسلمانوں) کے لیے
الْيَھُوْدَ
: یہود
وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا
: اور جن لوگوں نے شرک کیا
وَلَتَجِدَنَّ
: اور البتہ ضرور پاؤگے
اَقْرَبَهُمْ
: سب سے زیادہ قریب
مَّوَدَّةً
: دوستی
لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا
: ان کے لیے جو ایمان لائے (مسلمان)
الَّذِيْنَ قَالُوْٓا
: جن لوگوں نے کہا
اِنَّا
: ہم
نَصٰرٰى
: نصاری
ذٰلِكَ
: یہ
بِاَنَّ
: اس لیے کہ
مِنْهُمْ
: ان سے
قِسِّيْسِيْنَ
: عالم
وَرُهْبَانًا
: اور درویش
وَّاَنَّهُمْ
: اور یہ کہ وہ
لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ
: تکبر نہیں کرتے
تم ایمان والوں کی دشمنی میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پائو گے اور اہل ایمان کی دوستی سے قریب تر ان لوگوں کو پائو گے جنھوں نے کہا کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ ان کے اندر عالم اور راہب ہیں اور یہ تکبر نہیں کرتے
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَھُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا ج وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَھُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰیط ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْھُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَ رُھْبَانًا وَّ اَنَّھُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُوْنَ ۔ (المائدہ : 82) ” تم ایمان والوں کی دشمنی میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پائو گے اور اہل ایمان کی دوستی سے قریب تر ان لوگوں کو پائو گے جنھوں نے کہا کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ ان کے اندر عالم اور راہب ہیں اور یہ تکبر نہیں کرتے “۔ نصاریٰ کون تھے ؟ قسیس اور رہبان کے الفاظ عرب کے نصاریٰ اپنے علماء اور زاہدوں کے لیے بولتے تھے ‘ جس طرح یہود اپنے علماء اور فقہاء کے لیے ربی ‘ ربانی اور احبار کے الفاظ استعمال کرتے تھے۔ یہ الفاظ اہل کتاب ہی کے واسطے سے عربی میں آئے چونکہ عرب کے یہود و نصاری کی عام زبان عربی تھی ‘ ان میں بڑے بڑے شاعر اور ادیب بھی تھے، اس وجہ سے ان کی یہ دینی اصطلاحیں عربی ادب میں معروف و مقبول ہوگئیں۔ اس آیت میں یہود کو اسلام دشمنی کے اعتبار سے مشرکین مکہ کا ہم پلہ قرار دیا ہے بلکہ ان کا پہلے تذکرہ فرما کر شاید اس طرف اشارہ ہو کہ یہ دشمنی میں مشرکین مکہ سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے دور میں مشرکین سے مراد مشرکین مکہ ہی تھے۔ لیکن آج مشرکین سے مراد پوری مشرک دنیا ‘ بالخصوص ہندوستان ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی بیان کردہ یہ حقیقت تاریخ کے ہر دور میں ثابت ہوتی رہی ہے۔ اس لیے کہ جب کبھی مسلمانوں کا غیر مسلموں سے تصادم ہوا تو یہود اور مشرک قوتیں اکٹھی ہو کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوئیں۔ اس سے جس طرح دونوں گروہوں کی ہم مشربی اور ہم آہنگی نمایاں ہوتی ہے۔ اسی طرح یہود کی خست اور ذہنی پستی بھی واضح ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں ان کا ہمیشہ یہ رویہ رہا ہے کہ مسلمان دشمنی میں ان کو کسی سے بھی تعلق قائم کرنا پڑے ‘ یہ کبھی اس میں حجاب محسوس نہیں کریں گے۔ ان کے مقابلے میں اس آیت کریمہ میں نصاریٰ کی تعریف فرمائی گئی ہے کہ وہ مسلمانوں کے قریب ہیں۔ لیکن اس سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ نصاریٰ سے آج کے عیسائی مراد ہیں کیونکہ آج کے عیسائی اصلاً اس دین کے پیروکار نہیں ‘ جس کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) لے کر تشریف لائے۔ بلکہ یہ تو پال کی ایجاد کردہ مسیحیت کے پیرو ‘ تثلیث اور کفارہ وغیرہ کے قائل اور اسلام دشمنی میں تمام اعدائے اسلام کے سرخیل ہیں اور پوری تاریخ اس پر شاہد ہے کہ اسلام دشمنی کے کسی موقع پر یہ کبھی یہود سے پیچھے نہیں رہے بلکہ جس طرح مشرکین اسلام دشمنی میں یہود کے ہم پلہ ہیں ‘ یہی حال ان مسیحیوں اور عیسائیوں کا بھی ہے۔ رہی یہ بات کہ یہاں قرآن کریم نے جن نصاریٰ کا ذکر کیا ہے تو اس سے مراد (پہلے بھی ایک درس قرآن میں ہم اس کا تذکرہ کرچکے ہیں) شمعون صفا کے پیروکار ہیں ‘ جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلیفہ راشد تھے۔ جو پال کی تمام بدعات سے بالکل الگ حضرت مسیح کی اصل تعلیم پر قائم رہے اور جن کے باقیات صالحات آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد آپ کی دعوت پر اسلام لائے۔ نجاشی وغیرہ اسی باایمان گروہ سے تعلق رکھتے تھے اور معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اس بات کا احساس تھا کیونکہ مکہ معظمہ میں جب قریش مکہ کی جانب سے اذیتیں اپنی انتہاء کو پہنچ گئیں اور مسلمانوں کے لیے ان کا برداشت کرنا بہت مشکل ہوگیا تو آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں جو لوگ جاسکتے ہیں ‘ وہ حبشہ ہجرت کر جائیں کیونکہ وہاں کا بادشاہ نجاشی نہ خود ظلم کرتا ہے ‘ نہ کسی کو ظلم کرنے دیتا ہے ‘ تم وہاں انشاء اللہ محفوظ رہو گے۔ چناچہ بارہ مرد و عورت کا ایک قافلہ جس میں حضرت عثمان غنی ( رض) اور ان کی اہلیہ محترمہ آنحضرت ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ ( رض) بھی شامل تھیں ‘ حبشہ ہجرت کر گیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد حضرت جعفر طیارص جو حضرت علی ( رض) کے بڑے بھائی تھے ‘ ان کی سر کردگی میں بیاسی افراد پر مشتمل ایک قافلہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ نجاشی نے ان کا استقبال کیا اور عزت سے ان کو اپنے ملک میں رہنے کی اجازت دی۔ قریش مکہ کو جب علم ہوا کہ مسلمانوں کی ایک خاصی تعداد ہمارے مظالم سے تنگ آ کر حبشہ چلی گئی ہے تو انھوں نے ان کے پیچھے اپنے آدمی بھیجے تاکہ وہ بادشاہ کو ورغلا کر وہاں سے ان کو نکلوانے میں کامیاب ہوجائیں۔ چناچہ یہ لوگ بادشاہ سے ملے اور اس کو بتایا کہ یہ لوگ ہمارے دین سے مرتد ہو کر آپ کے پاس آگئے ہیں اور آپ کے مذہب کو بھی نہیں مانتے بلکہ اس کی مذمت کرتے ہیں۔ اس لیے آپ انھیں ہمارے حوالے کر دیجئے۔ بادشاہ نے مسلمانوں کو بلایا اور ان سے تفصیل معلوم کی۔ حضرت جعفر طیار ( رض) نے اسلام کی حقانیت پر ایک واقعاتی اور مدلل تقریر کی جس سے بادشاہ بہت متاثر ہوا اور اس نے قریش مکہ کے سفیروں کو ناکام اور نامراد لوٹا دیا۔ لیکن دوسرے دن ‘ قریش مکہ کے یہ سفیر پھر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بادشاہ سے کہا کہ آپ ذرا ان سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں پوچھئے۔ آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ لوگ کس قدر غلط عقائد رکھتے ہیں۔ چناچہ بادشاہ نے مسلمانوں کو بلایا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں ان سے سوال کیا۔ حضرت جعفر طیارص نے کھڑے ہو کر سورة مریم کا دوسرا رکوع پڑھا جس میں حضرت عیسیٰ ابن مریم کی خرق عادت ولادت اور پنگھوڑے میں معجزاتی کلام اور نبوت کا تذکرہ ہے۔ حتیٰ کہ حضرت جعفر طیار ان آیات کی تلاوت کرتے ہوئے جب یہاں تک پہنچے : قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللہِ قفط اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا۔ وَّجَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُص وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا۔ وَّ بَرًّام بِوَالِدَتِیْ ز وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا۔ وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَیَوْمَ اَمُوْتُ وَیَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا۔ ذٰلِکَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَج قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ یَمْتَرُوْنَ ۔ (مریم 19: 30-34) (کہا میں اللہ کا بندہ ہوں ‘ اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا اور بابرکت کیا جہاں بھی میں رہوں اور نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا ‘ جب تک میں زندہ رہوں اور اپنی والدہ کا حق ادا کرنے والا بنایا اور مجھ کو جبار اور شقی نہیں بنایا۔ سلام ہے مجھ پر جبکہ میں پیدا ہوا اور جبکہ میں مروں اور جبکہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں۔ یہ ہے عیسیٰ ابن مریم اور یہ ہے اس کے بارے میں وہ سچی بات ‘ جس میں لوگ شک کر رہے ہیں) نجاشی کی آنکھوں سے ٹِپ ٹِپ آنسو گرنے لگے۔ تلاوت کے اختتام پر اس نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کے کہا کہ جو کچھ آپ نے پڑھا ہے ‘ حضرت مسیح ایک تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں تھے۔ مزید کہنے لگا کہ ایسا لگتا ہے کہ قرآن کریم اور انجیل ایک ہی سرچشمہ سے نکلی ہوئی شعاعیں ہیں۔ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ ہجرت فرما گئے تو حبشہ سے مسلمان بھی مدینہ طیبہ آگئے۔ ان کے ساتھ نجاشی نے اپنے علماء اور مشائخ کا ایک وفدبھیجا۔ جو ستر افراد پر مشتمل تھا وہ راہبوں کے لباس میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ‘ آپ ﷺ نے ان کے سامنے سورة یٰسین کی تلاوت فرمائی۔ وہ سن کر روتے جاتے تھے اور ساتھ ہی یہ کہتے تھے کہ یہ کلام اس کلام کے کتنا مشابہہ ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوا تھا اور یہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ ان کی واپسی کے بعد شاہ حبشہ نجاشی نے بھی اسلام کا اعلان کردیا اور اپنا ایک خط دے کر اپنے صاحبزادہ کو ایک دوسرے وفد کا قائد بنا کر بھیجا ‘ مگر سوئے اتفاق سے یہ کشتی دریا میں غرق ہوگئی اس طرح وہ وفد آپ تک نہ پہنچ سکا۔ جب نجاشی نے انتقال کیا تو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو اس کی وفات کی اطلاع دی اور فرمایا تمہارے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے۔ اٹھو اور اس کی نماز جنازہ پڑھو۔ چناچہ آپ ﷺ نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی۔ مختصر یہ کہ نجاشی اور اس کے ساتھی شمعون صفا کے پیروکاروں میں سے تھے اور یہاں قرآن کریم نے ان کو نصاریٰ کے نام سے ذکر فرمایا ہے۔ آج کے عیسائی نصاریٰ نہیں رہی یہ بات کہ آج کے عیسائی اس سے مراد نہیں ہیں۔ اس کی تائید میں کئی باتیں کہی جاسکتی ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ آج کے عیسائی اپنے آپ کو کر سچین یا مسیحی کے نام سے یاد کرتے ہیں ‘ نصاریٰ کہلانا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ نصاریٰ صرف اپنے آپ کو شمعون صفا کے پیروکار کہلاتے تھے کیونکہ پال کے پیروکاروں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین میں جس طرح تبدیلیاں کیں ‘ ان میں سے ایک اہم تبدیلی یہ ہے کہ انھوں نے نام تک بدل ڈالا۔ چناچہ مشہور عیسائی مورخ ولیم بلی کی اپنی بائبل ہسٹری صفحہ 397 میں لکھتا ہے : (بارنباس اور پال ‘ انطاکیہ میں ایک سال تک غیر خدا پرستوں کو نصرانی بنانے میں مصروف رہے۔ معلوم ہوتا ہے اسی سال (44 میں) پہلی بار نصرانیت اختیار کرنے والوں کو مسیحی یعنی کر سچین کا نیا اور شاندارنام دیا گیا ) ۔ اس عبارت میں مسیحی کا (نیا اور شاندار نام) کے الفاظ نگاہ میں رہیں۔ اس سے صاف واضح ہے کہ پال اور اس کے پیرو نصاریٰ کے لفظ کو اپنے لیے حقیر خیال کرتے تھے اور موجودہ مسیحیت تمام تر اسی پال کی ایجاد ہے۔ اسی سلسلے میں دوسری بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ نصاریٰ کا اطلاق مسیحیوں کے جس گروہ پر ہوا ہے ‘ قرآن کریم نے ان کی ایک نشانی یہ بیان فرمائی ہے کہ ان میں علماء اور زاہد و عابد لوگ موجود ہیں۔ موجودہ عیسائیت کے پاپائی نظام کو دیکھ لیجئے ‘ جس طرح اس میں درجہ بدرجہ عیسائیوں کے مذہبی عہدے داروں اور راہنمائوں کی نامزدگی ہوتی ہے اور جو بالآخر 70 ڈانیل پر منتج ہوتی ہے اور وہی پاپائے اعظم کا انتخاب کرتے ہیں ‘ ان میں کہیں بھی نامزدگی یا انتخاب کا مدار علم و زہد پر نہیں ہوتا بلکہ وہ بالکل ایک سیاسی یا گروہی نظام بن چکا ہے ‘ جس میں باقاعدہ ملکوں اور علاقوں کے حصے مقرر ہیں اور اس کے اہم ترین عہدوں کے لیے جابجا ہمیں وراثت کا قانون جاری وساری دکھائی دیتا ہے۔ اس سے یہ بات سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے کہ آج کل عیسائیت کے مذہبی پروہتوں کو ان نصاریٰ سے کوئی رشتہ نہیں ‘ جن کے راہنمائوں کو قسیس اور رہبان کہا گیا تھا۔ ان کی ایک نشانی قرآن کریم نے یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ لوگ تکبر نہیں کرتے۔ آج کی عیسائی دنیا کو جس نے بھی کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے اور کبھی اسے یورپ یا امریکہ جانے کا اتفاق ہوا ہے یا اس نے کبھی ان کا مذہبی لٹریچر پڑھنے کا حوصلہ کیا ہے تو وہ جابجا اس بات کا مشاہدہ کرتا ہے کہ ان کے مذہبی لٹریچر میں ‘ ان کے مذہبی راہنمائوں میں ‘ ان کے سیاسی لیڈروں میں اور ان کے حکمرانوں میں ‘ سب سے بڑی چیز جو کارفرما دکھائی دیتی ہے ‘ وہ دوسری قوموں اور دوسرے مذاہب کے مقابلے میں بالعموم اور مسلمانوں اور اسلام کے مقابلے میں بالخصوص ان کا حد سے بڑھا ہوا تکبر ہے۔ اب تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ آپ کسی بھی امریکی سے بات کر کے دیکھ لیجئے یا اس سے کوئی معاملہ کر کے دیکھ لیجئے آپ کو قدم قدم پر اس کے قول و عمل میں بچھو کی طرح تکبر سے بھرپور اس کے رویے سے واسطہ پڑے گا۔ ان کے ہر ادنیٰ و اعلیٰ کے ایک ایک لفظ سے اپنی بڑائی اور دوسروں کی حقارت کی بو آتی ہے اور اب تو امریکی بالخصوص اپنے آپ کو مافوق الفطرت مخلوق سمجھنے لگے ہیں۔ اس لیے قرآن کریم نے جن نصاریٰ کی خاص صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ تکبر نہیں کرتے ‘ ان کے ساتھ ان تکبر کے زہر میں بجھے ہوئے لوگوں کا کیا رشتہ ہوسکتا ہے۔ پھر آخری نشانی جو نصاریٰ کی بیان فرمائی ہے ‘ اس کے بعد تو یہ بحث ختم ہی ہوجاتی ہے کہ آج کے عیسائیوں کا اس گروہ سے کوئی تعلق ہوسکتا ہے۔
Top