Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 87
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تُحَرِّمُوْا : نہ حرام ٹھہراؤ طَيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں مَآ اَحَلَّ : جو حلال کیں اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَ : اور لَا تَعْتَدُوْا : حد سے نہ بڑھو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
اے ایمان والو ! ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ ٹھہرائو ‘ جو خدا نے تمہارے لیے جائز کیں اور نہ حدود سے تجاوز کرو۔ اللہ حدود سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
تمہید آج ہم سورة المائدہ کی ان آخری آیات کا آغاز کر رہے ہیں جو تقریباً پانچ رکوعوں پر مشتمل ہیں۔ ان آیات کی خصوصی حیثیت یہ ہے کہ جہاں تک سورة المائدہ میں بیان کردہ مضامین اور احکام کا تعلق ہے ‘ وہ اختتام کو پہنچ گئے۔ لیکن ان بیان کردہ احکام کے بارے میں ذہنوں میں جو سوالات پیدا ہوئے یا جو پیدا ہوسکتے تھے اور جو سوالات پوچھے گئے یا پوچھے جاسکتے تھے ان آیات میں ان تمام سوالات کے جوابات دیئے گئے ہیں۔ بعض دفعہ کہیں سوال کا ذکر کیا گیا ہے ‘ لیکن بالعموم سوال کا ذکر کیے بغیر جواب دیا گیا ہے۔ اسی لیے ان آیات کریمہ کو توضیحی آیات کہا جاتا ہے اور خود ان آیات میں اس کی طرف اشارات بھی موجود ہیں۔ اس وقت جو رکوع پیش نظر ہے ‘ اس کی پہلی ہی آیات میں ایسے ہی چند سوالات کا جواب دیا گیا ہے۔ مثلاً اس سورة کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ اور بندوں کے ساتھ کیے ہوئے عہد و پیمان کو پورا کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور پھر دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کے خصوصی وصف یا حق کے حوالے سے امت مسلمہ کو متوجہ کیا گیا ہے کہ پہلی امتیں جن باتوں میں ٹھوکریں کھاتی رہیں ‘ ان میں ایک اہم تر بات یہ رہی ہے کہ انھوں نے حلت و حرمت کا حق جو سراسر ذات باری تعالیٰ کی صفت ہے ‘ انھوں نے کبھی اس کو اپنے لیے اور کبھی ان کے لیے جن کو انھوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات میں شریک کر رکھا تھا استعمال کیا اور یہیں سے ان کی اجتماعی ذمہ داریوں کے حوالے سے گمراہیوں کا آغاز ہوا۔ چناچہ آگے پوری سورة میں جابجا محرمات شرعیہ کے حوالے سے احکام دیئے گئے۔ چناچہ جب ایک آدمی ایفائے عہد کی تاکید اور حلت و حرمت کے حوالے سے اٹھائی جانے والی بحث کو دیکھتا ہے تو معاً اس کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے ایسی بہت ساری چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا جو طیبات میں شامل تھیں حالانکہ تمام طیبات کو ان کے لیے حلال کیا گیا تھا یا پھر بہت ساری چیزوں کو انھوں نے اس خیال سے اپنے اوپر ممنوع قرار دے دیا کہ یہ ممانعت شاید تقرب الٰہی کا ذریعہ ثابت ہو ‘ باقی لوگوں نے توحلت و حرمت کی حدود کو نافرمانی کرنے ہوئے پامال کیا۔ لیکن یہ لوگ نیکی اور قرب الٰہی کے جذبہ سے حلت و حرمت کے حق کو استعمال کرتے رہے تو ایسے لوگوں کا انجام آخر کیا ہوگا ؟ اسی طرح ہم گزشتہ رکوع کی آیت نمبر 82 میں دیکھتے ہیں کہ نصاریٰ میں راہبوں کی تعریف کی گئی ہے۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام میں رہبانیت کی کوئی گنجائش ہے ؟ یہ یاد رہنا چاہیے کہ رہبانیت ترک دنیا کا دوسرا نام ہے اور ترک دنیا کا سب سے پہلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی بہت سارے طیبات کو اپنے اوپر ممنوع قرار دے دیتا ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ اس سوال کا فوری جواب دیا جاتا تاکہ اس فتنہ کو مسلمانوں میں پھیلنے کا موقع نہ ملے۔ چناچہ ایسے ہی سوالات ہیں ‘ جن کا ان پانچ رکوعوں میں جواب دیا گیا۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآاَحَلَّ اللہ ُ لَکُمْ وَلاَ تَعَتَدُوْا ط اِنَّ اللہ َ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ۔ وَکُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللہ ُ حَلٰلاً طَیِّبًا ص وَّاتَّقُوا اللہ َ الَّذِیْٓ اَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ ۔ (المائدہ : 87۔ 88) ” اے ایمان والو ! ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ ٹھہرائو ‘ جو خدا نے تمہارے لیے جائز کیں اور نہ حدود سے تجاوز کرو۔ اللہ حدود سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا “۔ ” اور خدا نے تمہیں جو حلال اور طیب چیزیں بخشی ہیں ‘ ان کو برتو اور اس اللہ سے ڈرتے رہو ‘ جس پر تم ایمان لائے ہو “۔ ان دونوں آیتوں میں بنیادی طور پر وہی بات ارشاد فرمائی گئی ہے ‘ جس پر پوری سورة میں جابجا زور دیا گیا ہے کہ حلت و حرمت سراسر اللہ کا حق ہے ‘ وہی اس کا مختار ہے ‘ وہ جسے چاہے حلال کرے اور جسے چاہے حرام کرے۔ اس لیے حلال وہی ہے ‘ جو اس نے حلال کیا اور حرام وہی ہے ‘ جو اس نے حرام کردیا۔ اس لیے اللہ کے اس خصوصی حق اور صفت میں کبھی دخیل ہونے کی کوشش نہ کرو کیونکہ اگر تم اس اختیار کو اپنے لیے استعمال کرنے لگو گے تو قانون الٰہی کی بجائے خواہشِ نفس کے اطاعت گزار بن جاؤ گے اور یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ ایک مسلمان کا کام خواہشاتِ نفس سے منہ موڑکر قانون الٰہی کی پیروی کرنا ہے اور یہی اسلام اور کفر میں فرق ہے۔ کافر ہمیشہ خواہشِ نفس کی پیروی کرتا ہے اور اگر مسلمان بھی ایسا کرنے لگیں تو پھر ان کا نام مسلمان رکھنا ‘ ایک تکلف سے زیادہ نہیں ہوگا۔ اسلام میں ترک دنیا کا کوئی تصور نہیں پہلی آیت کے پہلے حصے میں بطور خاص ایک بات کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے ‘ وہ یہ کہ مذہبی ذہنیت کے نیک مزاج لوگوں میں عموماً یہ میلان پایا جاتا رہا ہے کہ نفس و جسم کے حقوق ادا کرنے کو وہ روحانی ترقی میں مانع سمجھتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالنا ‘ اپنے نفس کو دنیوی لذتوں سے محروم کرنا اور دنیا کے سامان زیست سے تعلق توڑنا ‘ بجائے خود ایک نیکی ہے اور خدا کا تقرب اس کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ چناچہ یہی وہ تصور ہے ‘ جس نے عیسائیوں میں راہب ‘ ہندوئوں میں جوگی ‘ بدھ مذہب میں بھکشو اور مسلمانوں میں اشراقی متصوفین پیدا کیے۔ نیکی کا یہ تصور اور اللہ سے قرب پیدا کرنے کا یہ کسی خاص زمانے کی پیداوار نہیں بلکہ ہر دور میں غلط مذہبی تصورات نے ایسے ہی نتائج پیدا کیے۔ چناچہ نبی کریم ﷺ کی تشریف آوری کے بعد جو لوگ مسلمان ہوئے ‘ ان میں سے جن لوگوں میں پہلے سے نیکی کا جذبہ غالب تھا ‘ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جن کے اندر یہ ذوق پایا جاتا تھا اور وہ اللہ سے قرب کے لیے ترک دنیا کو ضروری سمجھتے تھے اور دنیا کو ایک برائی تصور کر کے ترک دنیا کو نیکی خیال کرتے تھے۔ چناچہ ایسا ہی ذوق رکھنے والے چند صحابہ ( رض) کے بارے میں آنحضرت ﷺ کو یہ اطلاع ملی کہ انھوں نے یہ عہد کیا ہے کہ ہمیشہ دن کو روزہ رکھیں گے اور راتوں کو بستر پر نہ سوئیں گے بلکہ جاگ کر عبادت کرتے رہیں گے۔ گوشت اور چکنائی استعمال نہ کریں گے اور عورتوں سے واسطہ نہ رکھیں گے۔ اس پر آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا کہ (مجھے ایسی باتوں کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ تمہارے نفس کے بھی تم پر حقوق ہیں لہٰذا روزہ بھی رکھو اور کھائو پیو بھی ‘ راتوں کو قیام بھی کرو اور سوئو و بھی ‘ مجھے دیکھو ! میں سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں ‘ روزے رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا ‘ گوشت بھی کھاتا ہوں اور گھی بھی ‘ پس جو میرے طریقے کو پسند نہیں کرتا وہ مجھ سے نہیں ہے) ایک اور موقعہ پر فرمایا : (یہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ انھوں نے عورتوں کو اور اچھے کھانے کو اور خوشبو اور نیند اور دنیا کی لذتوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے ؟ میں نے تو تمہیں یہ تعلیم نہیں دی ہے کہ تم راہب اور پادری بن جاؤ۔ میرے دین میں نہ عورتوں اور گوشت سے اجتناب ہے اور نہ گوشہ گیری و عزلت نشینی ہے۔ ضبط نفس کے لیے میرے ہاں روزہ ہے اور رہبانیت کے سارے فائدے یہاں جہاد سے حاصل ہوتے ہیں۔ اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ‘ حج اور عمرہ کرو ‘ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو۔ تم سے پہلے جو لوگ ہلاک ہوئے ‘ وہ اس لیے ہلاک ہوئے کہ انھوں نے اپنے اوپر سختی کی اور جب انھوں نے خود اپنے اوپر سختی کی تو اللہ نے بھی ان پر سختی کی۔ یہ انہی کے بقایا ہیں جو تم کو صومعوں اور خانقاہوں میں نظر آتے ہیں۔ ) اسی سلسلہ میں بعض روایات سے یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ ایک صحابی ( رض) کے متعلق نبی ﷺ نے سنا کہ وہ ایک مدت سے اپنی بیوی کے پاس نہیں گئے ہیں اور شب وروز عبادت میں مشغول رہتے ہیں تو آپ ﷺ نے بلا کر ان کو حکم دیا کہ ابھی اپنی بیوی کے پاس جاؤ۔ انھوں نے کہا ! میں روزے سے ہوں۔ آپ نے فرمایا : روزہ توڑ دو اور جاؤ۔ حضرت عمر ( رض) کے زمانہ میں ایک خاتون نے شکایت پیش کی کہ میرے شوہر دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات بھرعبادت کرتے ہیں اور مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ حضرت عمر ( رض) نے مشہور تابعی بزرگ کعب بن سورالازدی کو ان کے مقدمہ کی سماعت کے لیے مقرر کیا اور انھوں نے فیصلہ دیا کہ اس خاتون کے شوہر کو تین راتوں کے لیے اختیا رہے کہ جتنی چاہیں عبادت کریں ‘ مگر چوتھی رات لازماً ان کی بیوی کا حق ہے۔ طیبات کو اپنے اوپر حرام قرار دے لینے کے تین درجے یہاں ایک اور بات کا سمجھ لینا بہت ضروری ہے۔ وہ یہ کہ طیبات کو اپنے اوپر ممنوع قرار دے لینے کے تین درجے ہیں۔ 1 پہلا درجہ یہ ہے کہ اللہ نے تمام طیبات کو حلال ٹھہرایا ہے اور کوئی آدمی ان میں سے کسی پاکیزہ نعمت کو اپنے اوپر یہ سمجھ کر ممنوع قرار دے لے کہ یہ حلال نہیں بلکہ حرام ہے اور اسی کا اعتقاد رکھے تو اگر وہ چیز اسلامی شریعت میں فی الواقع حلال ہے تو اس کو حرام قرار دینے والا کافر ہوجاتا ہے کیونکہ ہم بار بار پڑھ چکے ہیں کہ حلت و حرمت صرف اللہ کا حق ہے۔ دوسرا اسے اگر اپنے لیے اختیار کرے گا تو وہ کفر اور شرک کا ارتکاب کرے گا۔ 2 دوسرا درجہ یہ ہے کہ آدمی اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام تو نہ سمجھے ‘ البتہ یہ خیال کرے کہ ان میں سے بعض حلال چیزوں کو ترک کردینا اجروثواب کا باعث ہوگا اور اس کے نتیجے میں مجھے اللہ کا قرب حاصل ہوگا۔ ایسا سمجھنے والا گمراہ اور بدعتی ہے کیونکہ کسی چیز پر اجر وثواب کا حاصل ہونا یا نہ ہونا ‘ اس کا تعلق سراسر شریعت سے ہے اور شریعت رسول اللہ ﷺ پر ختم ہوگئی۔ آپ نے اللہ کی جانب سے جن اعمال پر اجر وثواب کی خبر دی ہے ‘ انہی پر اجروثواب ملے گا ‘ کسی اور چیز پر ہرگز نہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے طور پر کسی اور چیز کو اجرو ثواب کا حامل سمجھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ احکام شریعت پر یا آداب شریعت پر اضافہ کرنے کی جرأت کر رہا ہے ‘ اسی کو بدعت کہتے ہیں۔ اس لیے اگر کوئی آدمی اس خیال سے کسی بھی حلال چیز کو اپنے اوپر ممنوع قرار دے لے کہ مجھے اس سے اجر وثواب ملے گا ‘ جبکہ شریعت میں اس کا کوئی وجود نہیں تو یہ گناہگار ہوگا اور اسے اس سے توبہ کرنی چاہیے۔ 3 تیسرا درجہ یہ ہے کہ آدمی نہ تو اس چیز کو حرام قرار دے اور نہ اسے اجر وثواب کا ذریعہ سمجھے بلکہ محض اس خیال سے کہ اس کی طبیعت اسے پسند نہیں کرتی یا وہ چیز اس کے جسم کے لیے سازگار نہیں ‘ اس لیے اسے اپنے اوپر ممنوع قرار دے لے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ اس میں نہ تو کوئی گناہ لازم آئے گا اور نہ اس میں کوئی گمراہی کی بات ہے۔ البتہ ! میں ذاتی طور پر یہ عرض کرتا ہوں کہ اللہ کی کسی بھی نعمت کو طبعی کراہت یا نا پسندیدگی کی وجہ سے زندگی بھر کبھی بھی استعمال نہ کرنا یہ کوئی اچھی بات معلوم نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ شاید کسی نعمت کو استعمال نہ کرنے والا یہ گمان رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ چیز مناسب طریقے سے پیدا کرنا نہیں آئی ورنہ اس میں ناپسندیدگی کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی تھی۔ اس لیے میں ذاتی طور پر یہ کہتا ہوں کہ چاہے کوئی چیز طبعاً پسند نہ بھی ہو پھر بھی یہ سمجھ کر اسے استعمال کرنا چاہیے کہ یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی نعمت ہے ‘ اس کی قدر واجب ہے۔ یہ بات واضح کردینے کے بعد کہ اللہ کی تمام حلال کردہ طیبات نیکی کے تصور سے بھی اپنے اوپر حرام قرار نہیں دی جاسکتیں۔ اب ایک اور اہم بات کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے فرمایا : وَلاَ تَعَتَدُوْا ط اِنَّ اللہ َ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ۔ (حدود سے تجاوز نہ کرو ‘ بیشک اللہ حدود سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ) حدود سے تجاوز کی تین صورتیں حدود سے تجاوز کی تین قسمیں ہیں جنھیں ہم ایک ترتیب سے بیان کرتے ہیں۔ 1 حلال کو حرام ٹھہرانا ‘ جس کا ابھی ذکر ہوچکا۔ 2 اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال ٹھرانا۔ اللہ تعالیٰ نے تمام طیبات کو حلال ٹھہرایا ہے۔ ان میں سے چند گنتی کی چیزیں ہیں ‘ جنھیں حرام کیا گیا ہے۔ ان کی حیثیت اللہ کی حدود کی ہے اور حدود کو لانگنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر کوئی شخص ان حدود سے آگے بڑھنے کی جسارت کرتا ہے تو وہ محارمِ الٰہی کی حدود میں مداخلت کرتا ہے اور یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ اللہ کی حدود کو پامال کرنا اور محارم الٰہی کی حدود میں داخل ہونے کی جسارت کرنا ‘ یہ ایک ایسا جرم ہے جو ناقابل معافی ہے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ان حدود کے قریب آنا تو دور کی بات ہے ‘ اس سے دور روک دینے کی کوشش فرمائی ہے۔ چناچہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی شریعت میں حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔ لیکن ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں ‘ جن کا حرام اور حلال ہونا پوری طرح واضح نہیں۔ اگر تم محارمِ الٰہی میں داخل ہونے سے بچنا چاہتے ہو اور یہ چاہتے ہو کہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے قریب بھی نہ جاؤ تو پھر مشتبہ چیزوں یعنی مکروہ چیزوں سے پرہیز کرو۔ آپ ﷺ نے اس کی مثال دیتے ہوئے اس طرح سمجھایا کہ ” ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے “ آج شاید اس بات کو سمجھنا نوجوانوں کے لیے مشکل ہو کیونکہ اب تو بادشاہوں کے کاروں اور جہازوں کے بیڑے ہوتے ہیں ‘ اس لیے انھیں چراگاہوں کی ضرورت اتنی نہیں پڑتی۔ اگرچہ شاہی چراگاہیں اب بھی بعض علاقوں میں موجود ہیں۔ لیکن قدیم زمانے میں جب کہ سواری اور جنگی ضرورت کے لیے گھوڑے استعمال ہوتے تھے، حکومتوں کے پاس ہزاروں سے بھی شاید متجاوز گھوڑے ہوتے تھے ‘ جن کے چرنے کے لیے حکومتوں کو بہت بڑی بڑی چراگاہیں مخصوص کرنا پڑتی تھیں۔ چناچہ ایسی ہی چراگاہوں کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ” ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اس کی حفاظت کے لیے اس کے ارد گرد باڑھ لگائی جاتی ہے “۔ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا کوئی جانور اچھل کر اور پھلانگتے ہوئے باڑھ میں داخل نہ ہو تاکہ تم حکومت کے مجرم نہ ٹھہرو تو ضروری ہے کہ اپنے جانوروں کو باڑھ کے قریب نہ آنے دو ۔ اگر انھوں نے باڑھ کو چرنا شروع کردیا تو اندیشہ ہے کہ کسی وقت بھی باڑھ پھلانگ کر چراگاہ کے اندر داخل ہوجائیں۔ فرمایا کہ اسی طرح تمہارے پروردگار کی حرام کردہ چیزیں یہ اللہ تعالیٰ کی وہ چراہگاہ ہے ‘ جس میں تمہیں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ پھر اس کی حفاظت کے لیے اردگرد مشتبہ یعنی مکروہ چیزوں کی باڑھ لگائی گئی ہے۔ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تمہارے نفس کا شریرجانور اللہ کی اس چراگاہ میں داخل ہونے کی جرأت نہ کرے تو ضروری ہے کہ اسے اس باڑھ سے دور رکھو۔ اگر اس نے اس باڑھ کو منہ مارنا شروع کردیا تو وہ ضرور کسی وقت اس چراگاہ میں بھی داخل ہوجائے گا “۔ آیتِ کریمہ کے اس حصے میں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ محرماتِ شرعیہ سے اپنے آپ کو بچائو اور ان کا احترام کرو کیونکہ یہ اللہ کی قائم کردہ وہ حدود ہیں ‘ جنھیں لانگنے کی کسی صورت اجازت نہیں ہے۔ 3 تیسری صورت یہ ہے کہ اللہ نے جن چیزوں کو حلال قرار دیا ہے ان حلال نعمتوں کے استعمال میں اسراف اور افراط سے کام لیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی زندگی کے لیے دو چیزیں درکار ہیں۔ ایک ہے انسانی ضرورتیں ‘ جن کے بغیر انسانی زندگی گزارنا محال ہے۔ دوسرے ہیں انسانی زندگی کے مقاصد ‘ جن کو سمجھے بغیر انسانی زندگی بےسمت اور بےجہت رہتی ہے اور انسان انسان ہوتے ہوئے بھی ‘ انسانیت سے محروم رہتا ہے۔ اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ انسانی زندگی کی تین بنیادی ضرورتیں ہیں۔ (ا) غذا ‘ اس کے بغیر کسی بھی انسان کا زندہ رہنا ‘ پروان چڑہنا اور زندگی کے مسائل کا سامنا کرنا ‘ ناممکن ہے۔ (ب) راحت و آرام ‘ کوئی بھی آدمی مسلسل کام کرنے کے قابل نہیں ہوتا ‘ ایک خاص حد تک پہنچ کر وہ تھکاوٹ کا شکار ہوتا ہے اور جب تک وہ آرام نہیں کرتا اس کی قوت کارکردگی بحال نہیں ہوتی۔ اس لیے انسانی زندگی کو رواں دواں اور مصروف عمل رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر انسان کو سونے اور آرام کرنے کا موقع ملے۔ (ج) جنسی ضرورت یا جنسی آسودگی۔ بقائے انسانی اور قافلہ انسانی کو آگے بڑھانے کے لیے یہ بات انتہائی لازمی ہے کہ ہر آدمی کو جنسی آسودگی میسر آئے۔ اس کی جنسی قوت کو صحیح راستہ ملے تاکہ وہ اس راستے پر چلتے ہوئے حدود میں رہ کر بقائے نسل انسانی کا باعث بنے۔ یہ تین ‘ وہ بنیادی انسانی ضرورتیں ہیں جن سے کسی طور پر صرف نظر نہیں کیا جاسکتا اور انسان کی قوت کا اصل راز بھی انہی میں مضمر ہے۔ ان تینوں میں سے اگر ایک چیز بھی انسان کو نہ ملے تو وہ کبھی انسانی زندگی گزارنے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہی تینوں ضرورتیں انسان کی کمزوریاں بھی ہیں اور اس کی تباہی کا سبب بھی۔ جو آدمی غذا کا اس طرح اسیر ہو کر رہ جائے کہ اسے کھانے پینے اور اسی کو ترقی دینے اور اسی میں نئے نئے تنوعات کو پیدا کرنے کے سوا کسی چیز کا ہوش نہ رہے تو ایسا آدمی بندہ شکم تو کہلا سکتا ہے ‘ اسے انسان کہنا بہت مشکل ہے۔ اسی طرح جو آدمی صرف راحت و آرام کو زندگی کا ہدف سمجھ لے اور اسی کے حصول کے لیے تمام اسباب و ذرائع کو صرف کر ڈالے تو ایسا آدمی آدمی تو کہلا سکتا ہے ‘ لیکن اسے کارآمد آدمی سمجھنا بہت مشکل ہے ‘ وہ انسانی قافلے کا شریک نہیں بلکہ دھرتی کا بوجھ ہے ‘ جو انسان کے لیے باعث عار ہے۔ اسی طرح کوئی آدمی اگر صرف جنسی تلذذ ہی کو اپنا مقصود بنا لے اور ہر وقت اسی کے اسباب فراہم کرنے میں لگا رہے تو وہ بلیوں اور کتوں کی سطح پر حیوانی زندگی تو گزار سکتا ہے ‘ اسے ایک مہذب انسان قرار دینا خود انسانیت کی توہین ہے۔ ان تینوں حوالوں سے جو میں نے ذکر کیے ہیں ‘ آپ نے یہ محسوس کیا ہوگا کہ بنیادی بات جو میں کہنا چاہتا ہوں ‘ وہ یہ ہے کہ ان تینوں حوالوں میں جو خرابی پیدا ہوئی باوجود اس کے کہ یہ ہماری ضرورتیں ہیں جن سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم نے ان ضرورتوں کو ضرورتوں کے مقام سے اٹھا کر مقاصد کے مقام پر فائز کردیا ہے۔ نتیجہ اس کا واضح ہے کہ یہ ضرورتیں انسانی ترقی اور قوت کا سامان بننے کی بجائے انسان کی ہلاکت و بربادی کا سبب بن گئیں۔ اقبال نے شاید اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامان موت فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم ضرورت اور مقصد کے تعلق کو مزید واضح کرنے اور سہل بنانے کے لیے میں ایک اور مثال عرض کرتا ہوں۔ ایک غریب اور خوددار آدمی نے اپنے بیٹے کو کالج داخل کرایا۔ کالج چونکہ گھر سے دور تھا تو اس نے بہت ہمت کر کے اس کو نئی سائیکل خرید کردی۔ بیٹا جب سائیکل پر سوار ہو کر خوش خوش کالج پہنچا تو یہ دیکھ کر اسے پریشانی نے آپکڑا کہ کالج میں آنے والا ہر لڑکا یا تو موٹر سائیکل پر سوار ہے یا کار پر۔ اسے شرم آئی کہ کیا میں کالج اپنے کلاس فیلوز کے سامنے سائیکل پر چڑھ کر آئوں گا۔ یہ لوگ مجھے سائیکل پر دیکھ کر یقیناً میری غربت کا مذاق اڑائیں گے۔ اس نے جاکر اپنے والد سے کہا کہ ابا جان میں کل سے کالج نہیں جاؤں گا۔ باپ نے حیران ہو کر پوچھا کیوں ؟ کہنے لگا وہاں کوئی بھی سائیکل پر نہیں آتا۔ مجھے سائیکل پر جاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ باپ نے بیٹے کو پاس بٹھایا اور سمجھاتے ہوئے کہا کہ بیٹا کالج میں جانے کا ایک مقصد ہے اور وہ ہے علم کا حصول اور وہاں جانے کے لیے سواری ایک ضرورت ہے اور وہ کوئی بھی ہوسکتی ہے۔ تمہارا باپ چونکہ تمہیں سائیکل سے بہتر کوئی اور سواری خرید کر نہیں دے سکتا تو تمہیں اپنی ضرورت کو سائیکل سے ہی پورا کرنا چاہیے اور اگر تم ضرورت کی وجہ سے کالج جانا چھوڑ دو گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے اپنے مقصد کو اس ضرورت پر قربان کردیا حالانکہ دنیا کا دستور یہ ہے کہ ضرورتیں ہمیشہ مقاصد پر قربان ہوتی ہیں۔ مقاصد کبھی ضرورتوں پر قربان نہیں ہوتے۔ تمہیں تو سائیکل مل گئی ‘ اگر تمہیں پیدل بھی جانا پڑتا تو تمہیں مقصد کے حصول کے لیے جانا چاہیے تھا۔ یہاں یہی بات ارشاد فرمائی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بہت سی حلال نعمتیں عطا فرمائی ہیں ‘ لیکن دیکھنا ان نعمتوں میں حد سے نہ گزر جانا ‘ یعنی ان نعمتوں کو ضرورتیں سمجھنا اور ان کو مقصد کے حصول کے لیے ہمیشہ بروئے کار لانا اور اگر ضرورت پڑے تو انھیں مقصد پر قربان کردینا ‘ لیکن تمہارا اصل ہدف تمہارے مقاصد ہیں ‘ ان میں اعلیٰ تر مقصد ایسی زندگی گزارنا ہے جس سے اللہ راضی ہوجائے۔ لیکن اگر تم نے ان نعمتوں ہی کو اپنا مقصد اور ہدف سمجھ لیا تو تم مقصد سے محروم رہ جاؤ گے اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہرگز ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا کہ جو حلال نعمتوں کو حرام کریں یا حرام کو حلال کرنے کی جرأت کریں اور یا حلال نعمتوں میں اس حد تک اسراف اور افراط سے کام لیں کہ وہ ان کی زندگی کے مقاصد بن جائیں۔ ان تمام قباحتوں سے بچنے کے لیے تین چیزوں کی ضرورت ہے ‘ جن کا ذکر اگلی آیت میں فرمایا گیا۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ انسان حلال نعمتوں کو حرام میں تبدیل کر کے برائی کا ارتکاب کرتا ہے ‘ اس کا علاج کرتے ہوئے فرمایا : وَکُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللہ ُ حَلٰلاً طَیِّبًا ” اللہ نے جو تمہیں حلال اور طیب نعمتیں بخشی ہیں ‘ انھیں کھائو اور استعمال کرو۔ نیکی کے جذبے کو شریعت کی حدود میں محدود رکھو اور ان حدود سے تجاوز نہ کرو۔ دوسری خرابی یہ تھی کہ جن چیزوں کو اللہ کے حرام قرار دیا ہے ‘ ان کو اپنے لیے حلال کرلیا جائے ‘ اس کے لیے فرمایا وَاتَّقُوا اللہ َ ” اور اللہ سے ڈرو “ اور دیکھو اس کی حدود لانگنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ تم اس کی گرفت سے بچ نہیں سکو گے۔ تیسری خرابی یہ تھی کہ خود حلال نعمتوں میں اسراف سے کام لے کر ان کو بجائے ضرورتوں کے مقاصد کا درجہ دے دیا جائے۔ فرمایا دیکھو تم مومن ہو اور مومن ہونے کے بعد تمہاری زندگی گزارنے کا ایک طریقہ بھی متعین کردیا گیا ہے اور تمہاری زندگی کے مقاصد بھی طے کردیئے گئے ہیں۔ اب تمہارے لیے عافیت کا راستہ یہ ہے کہ تم ضرورتوں کو ضرورتیں سمجھ کر اپنی تمام مساعی کو ان مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے صرف کردو ‘ جن کی آگہی تمہیں قرآن و سنت نے بخشی ہے۔
Top