Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 93
لَیْسَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْۤا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اَحْسَنُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۠   ۧ
لَيْسَ : نہیں عَلَي : پر الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ : اور انہوں نے عمل کیے نیک جُنَاحٌ : کوئی گناہ فِيْمَا : میں۔ جو طَعِمُوْٓا : وہ کھاچکے اِذَا : جب مَا اتَّقَوْا : انہوں نے پرہیز کیا وَّاٰمَنُوْا : اور وہ ایمان لائے وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ : اور انہوں نے عمل کیے نیک ثُمَّ اتَّقَوْا : پھر وہ ڈرے وَّاٰمَنُوْا : اور ایمان لائے ثُمَّ : پھر اتَّقَوْا : وہ ڈرے وَّاَحْسَنُوْا : اور انہوں نے نیکو کاری کی وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکو کار (جمع)
ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں پر اس چیز کے باب میں کوئی گناہ نہیں جو انھوں نے کھائی ‘ جب کہ انھوں نے تقویٰ اختیار کیا ‘ ایمان لائے اور عمل صالح کیا ‘ پھر تقویٰ اختیار کیا اور ایمان لائے ‘ پھر تقویٰ اختیار کیا اور خوبی کے ساتھ اس کا حق ادا کیا اور اللہ خوب کاروں کو دوست رکھتا ہے
لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا اِذَامَا اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا ط وَ اللہ ُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ (المائدہ : 93) ” ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں پر اس چیز کے باب میں کوئی گناہ نہیں جو انھوں نے کھائی ‘ جب کہ انھوں نے تقویٰ اختیار کیا ‘ ایمان لائے اور عمل صالح کیا ‘ پھر تقویٰ اختیار کیا اور ایمان لائے ‘ پھر تقویٰ اختیار کیا اور خوبی کے ساتھ اس کا حق ادا کیا اور اللہ خوب کاروں کو دوست رکھتا ہے “۔ صحابہ ( رض) کے دلوں میں جو شبہات اور خیالات پیدا ہوئے تھے ‘ جس کا باعث اللہ کے سامنے ان کی جواب دہی کا گہرا احساس تھا ‘ اس آیت میں اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پرسش کسی ایسی چیز کے کھانے پینے پر نہیں ہوگی ‘ جس کے بارے میں کسی صریح ممانعت کی خلاف ورزی کا ارتکاب نہیں ہوا ہے۔ شریعت الٰہی کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ جس چیز کے باب میں جو حد معین ہوگئی ہو ‘ لوگ اس حد کا احترام کریں۔ پھر اگر اس حد میں کوئی اضافہ شریعت کی طرف سے ہوجائے تو اس کو مضبوطی کے ساتھ اختیار کرلیں اور اگر اس پر مزید اضافہ ہوجائے تو اس کو بھی تھام لیں اور پھر پوری خوبی ‘ پوری احتیاط اور پورے اخلاص کے ساتھ زندگی بھر اس پر عمل کریں۔ اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو پسند کرتے ہیں ؟ صحابہ ( رض) کو یہ جو خیال پیدا ہوا تھا کہ اس سے پہلے دو آیتوں میں چونکہ شراب کی مذمت کردی گئی تھی ‘ ہمیں اسی وقت اس سے رک جانا چاہیے تھا ‘ ہم نے اس میں تاخیر کر کے شاید کوئی جرم کیا ہے۔ اس پر یہ بتایا جا رہا ہے کہ شریعتِ الٰہی میں احکام کا نزول بتدریج ہوا ہے اور یہ تدریج بندوں کی سہولت کے پہلو سے اللہ تعالیٰ نے پسند فرمائی ہے۔ اس وجہ سے ان لوگوں پر کوئی گرفت نہیں جنھوں نے اس کی بخشی ہوئی سہولت سے فائدہ اٹھایا ہے کیونکہ کسی چیز سے پرہیز کرنا اس وقت لازم ہوتا ہے ‘ جب اس کی حرمت نازل ہو اور حرمت کے نازل ہونے میں تاخیر بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ پروردگار ابھی اس پر پابندی لگانا نہیں چاہتا ظاہر ہے ان لوگوں سے بازپرس کیوں کی جائے گی جنھوں نے حرمت کے نزول سے پہلے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اگرچہ ان لوگوں کو سبقت الی الخیر کا صلہ ضرور ملے گا ‘ جنھوں نے اس معاملے میں ہوا کا رخ پہچان کر اس کے پہلے ہی مرحلہ میں احتیاط اور تقویٰ کا آخری قدم اٹھا لیا۔ مثلاً شراب کی حرمت کا حکم بتدریج نازل ہوا۔ لیکن دین کے معاملے میں جن کی حس زیادہ تیز تھی ‘ وہ پہلے ہی مرحلہ میں اس سے تائب ہوگئے۔ یہ ان کے کمال درجہ فطرت اسلام پر ہونے کی دلیل ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر بھی رحم فرمائے گا جنھیں اگرچہ یہ درجہ کمال تو حاصل نہ ہوسکا ‘ لیکن انھوں نے کسی مرحلہ میں حدودالٰہی سے تجاوز نہیں کیا۔ البتہ اس آیت میں جو بات بہت توجہ کے قابل ہے ‘ وہ یہ ہے کہ اس میں تین بار تقویٰ کا ذکر ہوا ہے۔ پھر پہلی بار تقویٰ کے ذکر کے ساتھ ایمان و عمل کو ذکر کیا گیا ‘ دوسری دفعہ صرف ایمان کا ذکر ہے اور تیسری بار احسان کو ذکر فرمایا گیا۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ چونکہ شراب کی حرمت کا ذکر تدریجاً ہوا ہے آخری آیت سے پہلے دو آیتیں مختلف وقتوں میں نازل ہوچکی تھیں ‘ اس میں اگرچہ حرمت کا ذکر تو نہیں آیا تھا ‘ لیکن جو کچھ اس میں فرمایا گیا تھا ‘ عمل تو اس پر بھی کرنا ضروری تھا اور تقویٰ چونکہ حدود الٰہی کی نگہداشت کا نام ہے ‘ اس لیے تینوں آیتوں کے حوالے سے تین دفعہ تقویٰ کو ذکر فرما کر یہ بتلانا مقصود ہے کہ صحابہ ( رض) کو اس پر پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اس سے پہلے شراب نوشی سے کیوں نہ رک گئے کیونکہ مقصود ہر طرح کے حکم کی اطاعت ہے ‘ جسے تقویٰ کہا جاتا ہے۔ پہلے جن باتوں کا حکم دیا گیا تھا ‘ انہی پر عمل کرنا ضروری تھا ‘ سو آپ لوگوں نے کیا اور جب آخری آیت میں حرمت نازل ہوگئی تو آپ لوگ شراب نوشی سے رک گئے۔ اس طرح تینوں آیتوں کے حوالے سے بفضلہ تعالیٰ تقویٰ برابر آپ کا عناں گیر رہا ہے۔ اس لیے آپ کے لیے پریشانی کی کوئی وجہ نہیں۔ البتہ ! اس کے ساتھ ایمان و عمل کا ذکر کے یہ بتلانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تقویٰ یعنی اس کے احکام کی اطاعت کرنے اور نافرمانی سے بچنے کا اعتبار صرف اس وقت ہے ‘ جب اس کے ساتھ ایمان و عمل بھی شامل ہو کیونکہ بہت سے لوگ کھانے پینے کے معاملے میں بڑے محتاط اور متقشف ہوتے ہیں حالانکہ ایمان و عمل صالح سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جوگیوں ‘ سنیاسیوں اور راہبوں سے قطع نظر جو لوگ اعمال سفلیہ کا کاروبار کرتے ہیں ‘ وہ بھی شدت سے بہت سی چیزوں سے پرہیز کرتے ہیں اور بہت ساری پابندیاں اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں اور بڑی سختی کے ساتھ ان کی نگہداشت بھی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے اس پابندی اور نگہداشت کا دین سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ اعتبارصرف اس احتیاط اور پابندی کا ہے جو ایمان و عمل صالح کے ساتھ ہو۔ آخر میں تقویٰ کے ساتھ احسان کی جو شرط ہے ‘ وہ یہ بتلانے کے لیے ہے کہ تقویٰ ایمان اور عمل صالح کا اپنا اپنا مقام ہے۔ لیکن یہ اپنے معراج کو اس وقت پہنچتے ہیں ‘ جب ان کے ساتھ احسان کی صفت بھی شامل ہوتی ہے۔ جس کا مقصود یہ ہے کہ آدمی اللہ کی حدود کی خلاف ورزی سے اس طرح بچے ‘ جس طرح اس سے بچنے کا حق ہے۔ وہ ہر حکم کی تعمیل اس طرح کرے گویا وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اور اس یقین سے اپنے باطن کو منور رکھے کہ اگر وہ اللہ کو نہیں دیکھ رہا ہے تو اللہ تو بہرحال اس کو دیکھ رہا ہے۔ یہی احسان تقویٰ کی اصل روح اور حدودالٰہی کا اصل پاسبان ہے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔
Top