Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 94
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَیَبْلُوَنَّكُمُ اللّٰهُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُهٗۤ اَیْدِیْكُمْ وَ رِمَاحُكُمْ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ یَّخَافُهٗ بِالْغَیْبِ١ۚ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: ایمان والو
لَيَبْلُوَنَّكُمُ
: ضرور تمہیں آزمائے گا
اللّٰهُ
: اللہ
بِشَيْءٍ
: کچھ (کسی قدر)
مِّنَ
: سے
الصَّيْدِ
: شکار
تَنَالُهٗٓ
: اس تک پہنچتے ہیں
اَيْدِيْكُمْ
: تمہارے ہاتھ
وَرِمَاحُكُمْ
: اور تمہارے نیزے
لِيَعْلَمَ اللّٰهُ
: تاکہ اللہ معلوم کرلے
مَنْ
: کون
يَّخَافُهٗ
: اس سے ڈرتا ہے
بِالْغَيْبِ
: بن دیکھے
فَمَنِ
: سو جو۔ جس
اعْتَدٰي
: زیادتی کی
بَعْدَ ذٰلِكَ
: اس کے بعد
فَلَهٗ
: سو اس کے لیے
عَذَابٌ
: عذاب
اَلِيْمٌ
: دردناک
اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ ضرور تمہاری کسی ایسے شکار سے آزمائش کرے گا ‘ جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں آجائے گا تاکہ اللہ دیکھ لے کہ کون اس سے غیب میں ڈرتا ہے اور جس نے اس کے بعد حدود سے تجاوز کیا تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے
تمہید پیشتر ازیں ہم یہ بات کسی حد تک واضح کرچکے ہیں کہ سورة المائدہ کے چند امتیازی پہلو ہیں ‘ جو اسے قرآن کریم کی باقی سورتوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ 1 سب سے زیادہ احکام ‘ بالخصوص حلت و حرمت کے بارے میں ‘ اسی سورة میں نازل کیے گئے ہیں۔ 2 بعض ایسے احکام جو بعض دوسری سورتوں میں بھی ذکر کیے گئے تھے ‘ انھیں تکمیلی شان اسی سورة میں بیان کردہ احکام سے ملی ہے اور ان احکام کی تکمیل کرتے ہوئے ‘ بعض دفعہ احکام کی حکمتیں بھی واضح کردی گئی ہیں۔ 3 دوسری سورتوں اور خود سورة المائدہ میں بیان کردہ احکام کے حوالے سے جو بعض سوالات پیدا ہوئے یا جو پیدا ہوسکتے تھے ‘ اس سورة کے آخر میں تفصیل سے ان کا جواب دیا گیا ہے۔ 4 احکام کے علاوہ بعض ایسے انسانی خصائص پر گفتگو کی گئی ہے ‘ جن میں ذرا سی خرابی بھی انسان کو اس حد تک بگاڑ دیتی ہے کہ وہ احکام الٰہی کی پیروی کرنے کے قابل نہیں رہتا بلکہ اس میں چور دروازے تلاش کرتا ہے۔ یہ چاروں باتیں جو سورة المائدہ کا اختصاصی پہلو ہیں ‘ ان پر چلنا اس وقت تک آسان نہیں ‘ جب تک مسلمانوں کو ایسے مراحل سے نہ گزارا جائے جس کے نتیجے میں ان کے سیرت و کردار میں ایسی پختگی پیدا ہوجائے ‘ جو انھیں کسی وقت بھی اللہ کے احکام کی تعمیل سے اور پروردگار کے ساتھ اپنے بنیادی رشتے سے منحرف نہ ہونے دے۔ چناچہ آج ہم جس رکوع کا آغاز کر رہے ہیں ‘ اس میں جہاں سوالات کے جوابات دیئے گئے ہیں اور بعض احکام کو تکمیلی شان عطا کی گئی ہے ‘ وہیں ان احکام کے سلسلے میں سیرت و کردار کی پختگی کے لیے جن جن چیزوں کی ضرورت ہے ‘ اس کی طرف بتمام و کمال توجہ دلائی گئی ہے۔ چناچہ اس رکوع کی پہلی ہی آیت میں ایسی ہی دو بنیادی ضرورتوں کو واضح فرمایا گیا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَیَبْلُوَنَّکُمُ اللہ ُ بِشَیْئٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُہٗٓ اَیْدِیْکُمْ وَ رِمَاحُکُمْ لِیَعْلَمَ اللہ ُ مَنْ یَّخَافُہٗ بِالْغَیْبِج فَمَنِ اعْتدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابُٗ اَلِیْمُٗ ۔ (المائدہ : 4) ” اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ ضرور تمہاری کسی ایسے شکار سے آزمائش کرے گا ‘ جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں آجائے گا تاکہ اللہ دیکھ لے کہ کون اس سے غیب میں ڈرتا ہے اور جس نے اس کے بعد حدود سے تجاوز کیا تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے “۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے چند حقائق منکشف فرمائے ہیں جو انسانی سیرت و کردار یعنی تقویٰ کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ ان کے بغیر انسانی سیرت و کردار کی تعمیر اولاً تو ہو نہیں سکتی اور اگر کسی حد تک ہو بھی جائے تو وہ دیر پا ثابت نہیں ہوتی۔ اس میں سب سے پہلی بات جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ تمہاری سیرت و کردار کی تعمیر اور تمہارے اندر تقویٰ پیدا کرنے اور اس کو مستحکم بنانے کے لیے جو بات انتہائی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ تمہیں آزمائش کے مرحلے سے گزارا جائے کیونکہ دنیا میں یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی آدمی کسی نظریے یا شخصیت سے وابستگی کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کی اس وابستگی کے دعوے کو ضرور آزمایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ اگر دعوے کی آزمائش نہ ہو تو پھر تو دنیا میں دعویٰ کرنے والوں کے سچے یا جھوٹے ہونے کی کوئی کسوٹی باقی نہ رہ جائے اور یہ دعویٰ چاہے معمولی درجے کا ہو یا آخری درجے کا ‘ یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کا امتحان نہ کیا جائے۔ وہ چیز جسے میں یہاں وابستگی کا نام دے رہا ہوں ‘ اسی کو ہماری زبان میں محبت کا نام دیا جاتا ہے اور یہ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ جب کوئی کسی سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ ممکن نہیں کہ اس محبت کو آزمائش کی کٹھالی سے نہ گزرنا پڑے۔ بقول شاعر ؎ محبت کے مقدر میں کہاں آرام ہے ہمدم کہیں شعلہ ‘ کہیں بجلی ‘ کہیں سیماب ہوتی ہے اس لیے قرآن کریم میں سورة العنکبوت میں واضح طور پر ارشاد فرمایا : ” کیا لوگوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ وہ جب ایمان کا دعویٰ کریں گے تو ہم انھیں آزمائش میں نہیں ڈالیں گے ‘ ہم نے تو انھیں بھی آزمایا تھا جو ان سے پہلے ہو گزرے ہیں (اور اب مسلمانوں کو بھی آزمائیں گے) “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وابستگی اور محبت کے دعوے داروں کے لیے دنیا کے عام دستور اور الہامی زبان دونوں میں آزمائش ضروری ہے۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کو آزمائش میں نہ ڈالا جائے۔ دوسری بات جو ہمیں قرآن کریم سے معلوم ہوتی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ اس طرح کی آزمائشیں دو حوالوں سے ضروری ہوتی ہیں۔ ایک تو اس لیے کہ کسی سے وابستگی اور محبت کا دعویٰ کرنا ‘ یہ تو کوئی مشکل کام نہیں۔ لیکن یہ جاننا کہ کون اپنے دعوے میں سچا ہے اور کون جھوٹا ‘ اس کا اندازہ اسی وقت ہوتا ہے ‘ جب آزمائش کا مرحلہ پیش آتا ہے۔ جس طرح خالص سونے کی پہچان اس وقت ہوتی ہے ‘ جب اسے بھٹی میں تپایا جاتا ہے۔ تب پتہ چلتا ہے کہ اس میں خالص سونا کتنا ہے اور کھوٹ کتنا۔ انسانی سیرت و کردار، عقیدہ اور ایمان کا معاملہ سونے سے بھی زیادہ نازک ہے۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ ان میں سچے جھوٹے اور کھرے کھوٹے کی پہچان کے لیے انھیں آزمائشوں سے نہ گزارا جائے۔ دوسری بات یہ کہ انسانی سیرت و کردار کی پختگی اور اسے جلا دینے کے لیے آزمائشوں کے مراحل انتہائی ضروری ہوتے ہیں۔ بعض لوگ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں ‘ لیکن جب تک ان پر ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ڈالا جاتا اور کٹھن مراحل سے گزار کر ان کی صلاحیتوں کو جلا پانے کا موقع نہیں ملتا اس وقت تک ان کی غیر معمولی صلاحیتیں کبھی ابھر کر سامنے نہیں آتیں بلکہ رفتہ رفتہ دم توڑ دیتی ہیں۔ ایک آدمی جو کبھی پانی میں نہیں اترا ‘ آپ اگر یہ چاہتے ہیں کہ وہ تیراک بنے تو ضروری ہے کہ آپ اسے پانی میں دھکا دے دیں۔ جس آدمی کے بارے میں یہ خواہش ہو کہ وہ تیز دوڑنے لگے تو ضروری ہے کہ آپ روزانہ اسے تیز دوڑنے پر مجبور کریں۔ آہستہ آہستہ اس کے اعصاب اس قابل ہوتے جائیں گے کہ اس کے لیے تیز دوڑنا کوئی مشکل نہیں رہے گا۔ جن لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ عام لوگوں کی نسبت زیادہ بوجھ اٹھا لیتے ہیں ‘ اگر ہم ان کی صلاحیت پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ صلاحیت مسلسل بوجھ اٹھانے اور اپنے آپ کو اس مشقت میں مبتلا کرنے سے ان کے اندر پیدا ہوئی۔ مختصر یہ کہ انسانی وابستگیوں کے حوالے سے مشکلات اور آزمائشوں سے گزرنا ‘ یہ غلط لوگوں کے لیے تو سزا ہوسکتی ہے ‘ لیکن فرمانبرداروں کے لیے ان کے جذبہ عبودیت و سرفروشی کو جلا دینے کی انتہائی حکیمانہ کاوش ہے ‘ جس کے بغیر ان بنیادی جذبوں میں مطلوب پختگی ‘ جسے ہم تقویٰ کا نام دیتے ہیں ‘ کبھی پیدا نہیں ہوتی۔ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پر ایمان لانے والوں کو ہمیشہ ان مراحل سے گزارا گیا ہے۔ وہ جب بھی سعادت مندی کے ساتھ ان مراحل سے گزرنے میں کامیاب ہوگئے تو دنیوی اور اخروی نعمتوں کا راستہ ان کے لیے کھل گیا اور جب جب انھوں نے اس میں کمزوری دکھائی تو اللہ کے عذاب کا شکار ہوئے۔ قرآن کریم نے جابجا اس کی مثالیں ذکر کی ہیں۔ انہی میں سے ایک مثال جو اس آیت میں بیان کردہ آزمائش سے بہت ملتی جلتی ہے ‘ اسے سورة الاعراف کی آیت نمبر 163 میں بیان کیا گیا ہے۔ اس آیت سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کا ایک گروہ تھا جو ساحل سمندر کی کسی بستی میں آباد تھا۔ اللہ نے بنی اسرائیل کو جب ہفتہ کے بارے میں خاص احکام دیئے کہ تم اس دن کا پوری طرح احترام بجا لائو گے اس میں سوائے اللہ کی عبادت کے اور کوئی دنیوی مصروفیت پیدا نہیں کرو گے۔ اس دن تمہارے چولہے تک نہیں جلیں گے ‘ بلکہ سارا دن تمہارا روزے اور عبادت میں گزرے گا اور پھر اس حوالے سے ان کی آزمائش کی گئی اور حکم دیا گیا کہ تم اس دن مچھلیاں نہیں پکڑو گے۔ ساحل بحر پر رہنے کی وجہ سے چونکہ مچھلیوں کا شکار ان کی گزر بسر کا سب سے بڑا ذریعہ تھا ‘ اس لیے اس پر عمل کرنا ان کے لیے آسان نہیں تھا۔ لیکن ایسا مشکل بھی نہیں تھا ‘ کیونکہ باقی ہفتے کے دنوں میں مچھلیاں پکڑ سکتے تھے اور دوسرا کاروبار بھی کرسکتے تھے۔ لیکن وہ چونکہ اپنے سیرت و کردار کو بگاڑ چکے تھے اس لیے اس امتحان میں پورے نہ اترے اور بری طرح ناکام ہو کر اللہ کے عذاب کے سزاوار ہوئے۔ پھر یہ بات بھی ایسی آزمائشوں میں نمایاں نظر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی نعمت سے کسی قوم کو آزماتے ہیں تو ان کی آزمائش کو مشکل بنانے کے لیے اس نعمت کو فراوانی سے ان کے دائیں بائیں مہیا کردیتے ہیں۔ بنی اسرائیل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ قرآن کریم میں ہے : اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْھِمْ حِیْتَانُھُمْ یَوْمَ سَبْتِھِمْ شُرَّعًا وَّ یَوْمَ لاَ یَسْبِتُوْنَ لا لاَ تَاْتِیْھِمْ ج کَذٰلِکَ ج نَبْلُوْھُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ۔ (اعراف 7: 163) (اور یاد کرو ! جب کہ وہ سبت کے معاملے میں حدود الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے ‘ جب کہ ان کی مچھلیاں ان کے سبت کے دن منہ اٹھائے ہوئے نمودار ہوتی تھیں اور جب سبت کا دن نہ ہوتا تو مچھلیاں نمودار نہ ہوتیں۔ اسی طرح ہم ان کو آزمائش میں ڈالتے ہیں بوجہ اس کے کہ وہ ہماری نافرمانی کرتے تھے) مسلمانوں کو بھی اسی طرح کی آزمائش سے دوچار کیا گیا اور کرم یہ فرمایا گیا کہ یہ بتادیا گیا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ ایسے ایک شکار سے آزمائے گا اور وہ شکار اتنی فراوانی سے تمہارے دائیں بائیں ہوگا کہ تم چاہو تو آگے بڑھ کر اسے پکڑ سکو گے اور چاہو تو نیزوں سے شکار کرسکو گے۔ جس طرح بنی اسرائیل کی آزمائش میں قرآن کریم نے ہمیں بتایا کہ مچھلیاں سر اٹھائے ہوئے ان کی طرف آتی تھیں حالانکہ مچھلی ہمیشہ پانی میں ڈوب کے تیرتی ہے۔ لیکن وہ کشتی کی طرح سطح آب پر تیرتی ہوئی آتی تھی تاکہ ان کے شوق کو بڑھایا جائے اور آزمائش سخت کی جائے۔ یہاں بھی مسلمانوں کو اسی طرح آزمایا گیا اور مزید یہ کہ جس طرح بنی اسرائیل کی آزمائش ان کی ایسی غذا کے حوالے سے کی گئی جو ان کی ایک اہم ضرورت تھی۔ اس طرح مسلمانوں کو بھی حج کے سفر کے دوران صحرا سے گزرتے ہوئے ایک ایسی چیز سے آزمایا گیا جو ان کی سخت ضرورت تھی کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ صحرائے عرب میں بہت کم ایسے علاقے ہیں ‘ جہاں کوئی چیز اگتی ہو۔ اس لیے ان کی گزربسر کا زیادہ تر دارومدار تجارت ‘ گلہ بانی یا پھر شکار پر تھا۔ حج کے سفر میں اگر ان کے پاس زاد سفر ختم ہوجاتا یا کم ہوجاتا تو راستے میں کسی چیز کا ملنا اگر ناممکن نہیں تو دشوار ضرور تھا۔ اب نہ تو ان کے لیے کوئی تجارت کا موقع تھا اور نہ گلہ بانی کا۔ ایک ہی صورت تھی ‘ جس سے ان کی معاشی ضرورتیں پوری ہوسکتی تھیں ‘ وہ شکار تھی۔ جب اس سے انھیں روک دیا گیا تو اندازہ ہوسکتا ہے کہ یہ کتنی شدید آزمائش تھی اور اس آزمائش کو مزید مشکل اس حوالے سے بنادیا گیا کہ جانوروں کی ڈاروں کی ڈاریں ‘ ان کے سامنے سے گزرنے لگیں۔ کتنے جانور تھے جو ان کے دائیں بائیں اچھلتے کودتے پھرتے تھے۔ لیکن وہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کے بھی مجاز نہ تھے اور پھر بنی اسرائیل کی آزمائش تو ایک دن کے لیے تھی اور یہ تو جتنے دنوں حالت احرام میں رہتے اتنے ہی دنوں یہ آزمائش بھی جاری رہتی۔ لیکن چونکہ اس امت کو آخری امت کے طور پر ایک عظیم مقصد کے لیے تیار کیا جا رہا تھا ‘ اس لیے ان کے ایمان و عمل کو جلا بخشنے اور ان کے تقویٰ میں گہرائی پیدا کرنے کے لیے انھیں ایسی آزمائشوں سے گزارنا بہت ضروری تھا تاکہ ان کے اندر وہ جوہر پیدا ہو سکے اور وہ حقیقی ملکہ ان کے اندر راسخ ہو سکے جو اصلاً زندگی کی پاکیزگی کی ضمانت ہے۔ اس کو بیان کرنے کے لیے ارشاد فرمایا : لِیَعْلَمَ اللہ ُ مَنْ یَّخَافُہٗ بِالْغَیْبِکہ مسلمانوں کو اس آزمائش میں ہم نے اس لیے ڈالا ہے تاکہ اللہ ممیز کر دے ان لوگوں کو جو اللہ سے غیب میں رہ کر ڈرتے ہیں ‘ ان لوگوں سے جو غیب میں اللہ کو بھول جاتے ہیں۔ اللہ پر ایمان کی کیفیت اور اس کے ثمرات اللہ کو بن دیکھے ماننا ‘ اس کی صفات کا یقین رکھنا ‘ ہر وقت اس کی ذات کو مستحضر رکھنا ‘ اپنی تنہائیوں کو اس کی یاد سے آباد رکھنا ‘ اپنی ذات کو ہر وقت اس کی دسترس میں سمجھنا اور اپنے دل و دماغ کے خیالات تک کو اس کے علم کی گرفت میں جاننا ‘ یہ وہ تصورات ہیں جن کے نتیجے میں دل و دماغ میں وہ جوہر پیدا ہوتا ہے ‘ جو ایک مضبوط سیرت و کردار یعنی تقویٰ کو جنم دیتا ہے ‘ جس کے پیدا ہوجانے کے بعد شیطان کا کوئی حملہ کارگر نہیں ہوتا۔ ہوس کا بڑے سے بڑا بہلاوا بھی اپنا اثر پیدا کرنے سے عاجز رہتا ہے۔ انسان انتہائی عاجز ہوتے ہوئے بھی اس قدر مضبوط ہوجاتا ہے کہ نہ وہ بکتا ہے ‘ نہ جھکتا ہے۔ نہ وہ کبھی سرکشی کا راستہ اختیار کرتا ہے اور نہ کبھی معصیت کا کوئی چھینٹا اس کے دامن کو داغ دار کرسکتا ہے۔ اگر وہ بادشاہ بھی ہو تو تخت پر بیٹھ کر بھی فقیری کرتا ہے ‘ کیونکہ اسے یقین ہے کہ اس کا اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور اگر وہ فقیر ہو تو قناعت اور خودداری کا ایسا پیکر ہوتا ہے کہ دیکھنے والے اس کے چہرے پر شاہوں کی بےنیازی دیکھتے ہیں ‘ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میرا تعلق اس خالق کائنات سے ہے ‘ جو کائنات کے تمام خزانوں کا مالک ہے۔ قرون اولیٰ میں مسلمانوں میں جو نہایت خوبصورت سیرت و کردار اور اعلیٰ صفات دیکھتے ہیں ‘ ان کی وجہ صرف یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی تربیت نے اسلامی معاشرے کو جن مضبوط بنیادوں پر اٹھایا تھا ‘ ان میں سب سے مضبوط بنیاد یہی تصور تھا کہ ہم ہر وقت اللہ کے سامنے ہیں ‘ ہمارا ہر عمل اس کے علم میں ہے ‘ ہمارے تصورات اور خیالات تک سے وہ واقف ہے ‘ ہمارا کوئی عمل اس سے مخفی نہیں ‘ ایک دن اس کے سامنے پیش ہونا ہے ‘ وہ ہم سے ایک ایک بات ‘ ایک ایک عمل اور ایک ایک لمحے کا حساب لے گا ‘ اگر ہم نے کہیں بھی معصیت یا خیانت کا ارتکاب کیا ہوگا تو وہاں ہماری سخن سازی ہمیں بچا نہیں سکے گی ‘ ہمارا ایک ایک رونگٹا ہمارے خلاف یا ہمارے حق میں گواہی دے گا۔ اللہ کے ساتھ اس مضبوط رشتے نے انسان کو یکسر بدل کے رکھ دیا۔ اصحابِ سیر لکھتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق ( رض) مسلمانوں کے احوال جاننے کے لیے دورے پر تھے کہ انھوں نے جنگل میں ایک چرواہے کو دیکھا ‘ جو بکریاں چرا رہا تھا۔ اس سے کہا : میں بھوکا ہوں ‘ مجھے کسی بکری کا دودھ پلائو۔ اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت میرے ریوڑ میں کوئی دودھ دینے والی بکری نہیں۔ آپ نے کہا : تم کوئی بکری میرے پاس بیچ دو اور اسے ذبح کر کے مجھے کھلا دو اور مالک اگر تم سے پوچھے کہ بکری کہاں گئی تو اسے کہہ دینا کہ اسے بھیڑیا کھا گیا۔ میری بھوک کا علاج ہوجائے گا اور تمہیں دام مل جائیں گے۔ اس نے یہ بات سن کر نہایت غصے سے حضرت عمرص کی طرف دیکھا اور بےساختہ اس کی زبان سے نکلا : فاین اللہ ایھا الرجل (اے شخص ! پھر اللہ کہاں ہے ‘ اللہ کہاں گیا ؟ ) تم یہ سمجھتے ہو کہ مالک کو دھوکا دے کر میں اللہ کے عذاب سے بچ جاؤں گا ؟ مالک تو نہیں دیکھ رہا ‘ لیکن میرا اللہ تو دیکھ رہا ہے۔ یہی وہ تصور ہے جو انسان کو گناہ سے بچاتا ہے اور ہمیشہ اسے راہ راست پہ چلنے کی ضمانت دیتا ہے۔ اسی کو پروردگار فرما رہے ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کو اس لیے آزمائش میں ڈالا کہ لوگوں کو معلوم تو ہو سکے کہ کون ان دیکھے خدا سے دیکھے بغیر ڈرتا ہے اور اس پر یقین رکھتا ہے کہ میرا اللہ مجھے دیکھ رہا ہے اور اس کے بعد اس بات کو مکمل کرتے ہوئے فرمایا کہ جس آدمی یا جس قوم کو یہ دولت نصیب نہیں ہوتی کہ وہ آزمائشوں میں پڑ کر اپنے یقین اور ایمان کو مضبوط کرسکے کہ نہ دیکھتے ہوئے بھی اللہ کو کبھی نہ بھولے ‘ ایسی قوم اور ایسا فرد زندگی میں وہ رویہ اختیار کرتے ہیں ‘ جس پر صرف ان کی خواہشات کی چھاپ ہوتی ہے۔ وہ ہوس کے اسیر ہو کر حیوانی زندگی گزارتے ہیں اور انسانی رشتوں کو پامال کرتے چلے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے اعمال کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ ان کے لیے عذاب الیم ہے۔ قوانین حلت و حرمت ہر دور اور ہر زمانے کے لیے ہیں حلت و حرمت کے حوالے سے یہاں ایک اور فتنے کا ذکر کردینا شاید منفعت سے خالی نہ ہو۔ اگرچہ عام مسلمانوں کی اسلامی زندگی ابھی تک اس سے محفوظ ہے۔ لیکن بعض دانشور ایسے ہیں ‘ جو مسلمان کہلاتے ہوئے بھی اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے جھجک محسوس نہیں کرتے کہ اسلام میں حلت و حرمت کے تصور پر جو اس قدر زور دیا ہے کہ اس کی مخالفت کرنے والے کو عذاب الیم سے ڈرایا ہے ‘ وہ کوئی اسلام کا مستقل فلسفہ نہیں بلکہ ایک عارضی حکم تھا ‘ جس کی وجہ یہ تھی کہ عرب میں چونکہ اشیائے خوردنی کی بہت کمی تھی ‘ عرب کا بیشتر حصہ صحرا پر مشتمل تھا ‘ بارشیں بہت کم ہونے کی وجہ سے عموماً قحط سالی کا سماں رہتا تھا ‘ چند علاقوں کو چھوڑ کر کہیں بھی زراعت کا نام تک نہیں تھا ‘ ایسی صورت حال میں مسلمان معاشرے کو جرائم سے بچانے اور بےاطمینانی کی کیفیت سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ ان پر کچھ چیزیں حرام کردی جاتیں تاکہ وہ ازخود بہت ساری چیزوں سے جب احتراز کریں گے تو تھوڑی چیزیں ان کی ضرورت کے لیے کفایت کر جائیں گی۔ اس طرح جزیرہ عرب کی معاشی پریشانیوں کا کسی حد تک علاج ہو سکے گا ‘ لیکن آج جبکہ خود جزیرہ عرب میں ہر طرح کی اشیائِ ضرورت کی فراوانی ہے اور دنیا بھر سے ضرورت کی چیزیں وہاں پہنچ رہی ہیں اور پوری دنیا سمٹ کر ایک دوسرے کے قریب آگئی ہے اور کسی بھی ملک سے کسی ضرورت کی چیز کا درآمد کرلینا کوئی مسئلہ نہیں رہ گیا تو اب حلت و حرمت پر اتنا اصرار کرنا ‘ کوئی عقلمندی کی بات نہیں۔ ان دانشوروں کے ذہن میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دانش کے سوا اور سب کچھ ہے۔ اگر انھیں معمولی عقل و دانش بھی میسر ہوتی تو دو باتوں کا سمجھنا ان کے لیے کوئی مشکل نہیں تھا۔ ایک یہ بات کہ اللہ کے احکام مستقل ہیں ‘ کسی خاص علاقے یا کسی خاص زمانے کے لیے نہیں۔ علاوہ ازیں پروردگار نے قرآن کریم میں اور نبی کریم ﷺ کی زبان سے بھی مسلمانوں کو یہ بات مکہ معظمہ ہی میں باور کرا دی تھی کہ تمہاری معاشی تنگ دستی اور سیاسی مغلوبیت کا یہ زمانہ کوئی طویل نہیں بلکہ اسلام کے غلبہ عمومی کا دور عنقریب شروع ہونے والا ہے ‘ جس میں اللہ تعالیٰ تمہیں ایسی فارغ البالی عطا فرمائیں گے کہ تم زکوٰۃ کا مال جھولیوں میں ڈال کر نکلو گے اور تمہیں زکوٰۃ لینے والا نہیں ملے گا۔ تعجب کی بات ہے کہ جن لوگوں کو معاشی فراوانی کی خوشخبریاں سنائی جا رہی ہیں ‘ کیا انہی لوگوں کو حلت و حرمت کے وقتی احکام دیئے جائیں گے ؟ دوسری یہ بات کہ ان دانشوروں کا اپنے پروردگار کے بارے میں نجانے کیا تصور ہے کہ اگر وہ اس طرح بعض چیزوں کی حرمت کے احکام نازل نہ کرتا تو لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی حالانکہ ایک معمولی آدمی بھی جانتا ہے کہ اللہ کے خزانے بیشمار اور بےپناہ ہیں ‘ جن میں قیامت تک کبھی کمی نہیں آئے گی۔ دنیا ظلم کے ذریعے بعض لوگوں کو بھوکا مرنے پر مجبور کر دے تو اور بات ہے ورنہ اللہ کے پیدا کردہ وسائل ہر دور میں اس کی مخلوق کی ضرورت سے زیادہ رہے ہیں نیز ہمارے پیش نظر تو صرف انسانی ضرورتیں ہیں ‘ اس کی مخلوقات تو بیشمار ہیں ‘ جن میں سے بیشتر کو ہم نہیں جانتے۔ وہ ہمارے ساتھ ساتھ ان کی ضرورتوں کو بھی پورا کرتا ہے ‘ پھر بھی اس کے خزانوں میں کبھی کمی نہیں آتی۔ اسرائیلی روایات میں ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو جب اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا سے منفرد حکومت عطا کی کہ ان کی رعایا میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جنات اور پرندے بھی شامل تھے اور بہت سارے عناصر قدرت پر انھیں اختیار عطا فرمایا گیا تھا تو انھوں نے اپنے وسیع اختیارات کو دیکھتے ہوئے پروردگار سے دعا کی کہ یا اللہ ! آپ نے مجھے اتنی بڑی حکومت عطا فرمائی ہے اور ایسے وسائل بخشے ہیں ‘ میں ان کے شکر کے طور پر یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن تیری ساری مخلوق کی دعوت کروں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : سلیمان ! تم ایسا نہیں کرسکتے ‘ تمہارے وسائل اس کے لیے کافی نہیں۔ لیکن حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بار بار التجا کرنے پر اللہ تعالیٰ نے اجازت دے دی۔ کہا جاتا ہے کہ جنات نے دعوت کا اہتمام کیا۔ سینکڑوں میل لمبا دسترخوان بچھایا گیا۔ سہ پہر کے وقت سمندر سے ایک بہت بڑی مچھلی نے سر اٹھایا اور پوچھا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ آج میری دعوت سلیمان کے یہاں ہے ‘ چناچہ اسے کھانا کھانے کی دعوت دی گئی۔ مچھلی باہر آئی اور وہ اس دسترخوان کی بیشتر نعمتیں چٹ کرگئی اور پھر کہنے لگی کہ اور بھی کچھ ہے ؟ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کیا تم ابھی سیر نہیں ہوئی ہو ؟ مچھلی نے کہا : کیا میزبان کی طرف سے مہمان کو ایسا جواب زیب دیتا ہے ؟ مجھے تو روزانہ اللہ کی جانب سے اتنا ہی رزق مہیا کیا جاتا ہے۔ اس پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) پروردگار کے حضور سجدہ ریز ہوگئے اور استغفار کرتے ہوئے عرض کیا کہ یا اللہ ! تو ہی رازق ہے ‘ تیرے ہی خزانے اس قابل ہیں کہ وہ تیری مخلوق کی ضرورت کے لیے کافی ہو سکیں۔ یہ ایک عام سی مثال سہی ‘ لیکن اس میں جو بات کہی گئی ہے ‘ وہ اللہ تعالیٰ کی صفت رزاقیت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ اس لیے یہاں حلت و حرمت کے حوالے سے جو کچھ کہا جا رہا ہے ‘ وہ اصلاً اس بات کا امتحان ہے کہ انسان اللہ کے احکام کی اطاعت میں کہاں تک مخلص ہے اور وہ بن دیکھے کہاں تک اس سے ڈرتا ہے۔ سورة المائدہ کے آغاز میں ‘ جانوروں کی حلت و حرمت کا ذکر کرتے ہوئے ‘ پروردگار نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ حالت احرام میں شکار کو حلال نہ سمجھنا۔ لیکن اس کی حرمت کے بارے میں نہ تو تاکیدی حکم دیا اور نہ تفصیلی مسائل بیان فرمائے اور نہ یہ بتایا کہ اگر کوئی آدمی اس جرم کا ارتکاب کر بیٹھے تو دنیا میں اس کی تلافی کی کیا صورت ہوگی اور آخرت میں وہ اس کی جواب دہی سے کس طرح بچ سکے گا۔ ابھی ہم نے جس آیت کریمہ کا مطالعہ کیا ہے ‘ اس میں بھی بطور آزمائش اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن صراحتاً ان باتوں میں سے کسی بات کا تذکرہ نہیں کیا۔ ظاہر ہے جب بھی کوئی آدمی سورة المائدہ کی پہلی آیت اور اس رکوع کی پہلی آیت کو پڑھے گا تو اس کے ذہن میں یقیناً تفصیلی احکام کے بارے میں سوالات پیدا ہوں گے ‘ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں انہی سوالات کا جواب دیا گیا ہے۔ :
Top