Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 95
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ وَ مَنْ قَتَلَهٗ مِنْكُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْكُمُ بِهٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ هَدْیًۢا بٰلِغَ الْكَعْبَةِ اَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسٰكِیْنَ اَوْ عَدْلُ ذٰلِكَ صِیَامًا لِّیَذُوْقَ وَ بَالَ اَمْرِهٖ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَمَّا سَلَفَ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰهُ مِنْهُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: ایمان والو
لَا تَقْتُلُوا
: نہ مارو
الصَّيْدَ
: شکار
وَاَنْتُمْ
: جبکہ تم
حُرُمٌ
: حالت احرام میں
وَمَنْ
: اور جو
قَتَلَهٗ
: اس کو مارے
مِنْكُمْ
: تم میں سے
مُّتَعَمِّدًا
: جان بوجھ کر
فَجَزَآءٌ
: تو بدلہ
مِّثْلُ
: برابر
مَا قَتَلَ
: جو وہ مارے
مِنَ النَّعَمِ
: مویشی سے
يَحْكُمُ
: فیصلہ کریں
بِهٖ
: اس کا
ذَوَا عَدْلٍ
: دو معتبر
مِّنْكُمْ
: تم سے
هَدْيًۢا
: نیاز
بٰلِغَ
: پہنچائے
الْكَعْبَةِ
: کعبہ
اَوْ كَفَّارَةٌ
: یا کفارہ
طَعَامُ
: کھانا
مَسٰكِيْنَ
: محتاج
اَوْ عَدْلُ
: یا برابر
ذٰلِكَ
: اس
صِيَامًا
: روزے
لِّيَذُوْقَ
: تاکہ چکھے
وَبَالَ اَمْرِهٖ
: اپنے کام (کیے)
عَفَا اللّٰهُ
: اللہ نے معاف کیا
عَمَّا
: اس سے جو
سَلَفَ
: پہلے ہوچکا
وَمَنْ
: اور جو
عَادَ
: پھر کرے
فَيَنْتَقِمُ اللّٰهُ
: تو اللہ بدلہ لے گا
مِنْهُ
: اس سے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَزِيْزٌ
: غالب
ذُو انْتِقَامٍ
: بدلہ لینے والا
اے ایمان والو ! حالت احرام میں شکار نہ کیجیو اور جو تم میں سے اس کو قصداً مارے گا تو اس کا بدلہ اسی طرح کا جانور ہے جیسا کہ اس نے مارا ہے ‘ جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر آدمی کریں گے یہ نیاز کی حیثیت سے خانہ کعبہ کو پہنچایا جائے۔ یا کفارہ دینا ہوگا ‘ مسکینوں کو کھانا یا اس کے برابر روزے رکھنے ہوں گے ‘ تاکہ وہ اپنے کیے کا وبال چکھے ‘ جو ہوچکا اللہ نے اسے درگزر کیا۔ لیکن جو کوئی پھر کرے گا تو اللہ اس سے انتقام لے گا اور اللہ غالب اور انتقام والا ہے
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَتَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ ط وَمَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآئٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ ھَدْیًام بٰلِغَ الْکَعْبَۃِ اَوْ کَفَّارَۃٌ طَعَامُ مَسٰکِیْنَ اَوْ عَدْلُ ذٰلِکَ صِیَامًا لِّیَذُوْقَ وَ بَالَ اَمْرِہٖ ط عَفَا اللہ ُ عَمَّا سَلَفَ ط وَمَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللہ ُ مِنْہٗ ط وَ اللہ ُ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ ۔ (المائدہ : 95) ” اے ایمان والو ! حالت احرام میں شکار نہ کیجیو اور جو تم میں سے اس کو قصداً مارے گا تو اس کا بدلہ اسی طرح کا جانور ہے ‘ جیسا کہ اس نے مارا ہے ‘ جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر آدمی کریں گے یہ نیاز کی حیثیت سے خانہ کعبہ کو پہنچایا جائے۔ یا کفارہ دینا ہوگا مسکینوں کو کھانا یا اس کے برابر روزے رکھنے ہوں گے ‘ تاکہ وہ اپنے کیے کا وبال چکھے ‘ جو ہوچکا اللہ نے اسے درگزر کیا۔ لیکن جو کوئی پھر کرے گا تو اللہ اس سے انتقام لے گا اور اللہ غالب اور انتقام والا ہے “۔ حالت احرام میں شکار کی ممانعت اس آیت کریمہ میں سب سے پہلے حالت احرام میں شکار کرنے کی ممانت فرمائی گئی ہے۔ لیکن اس میں دو باتوں کا جان لینا بہت ضروری ہے ‘ ورنہ اس حکم کے سمجھنے میں کوتاہی ہوگی۔ پہلی بات یہ کہ حالت احرام میں ہی شکار کرنا حرام نہیں بلکہ حرم کی حدود میں شکار کرنا بھی حرام ہے۔ حرم کی حدود میں آدمی احرام کی حالت میں ہو تب بھی شکار کرنا حرام ہے اور احرام کی حالت میں نہ ہو ‘ تب بھی شکار کرنا حرام ہے۔ دوسری بات جس کا جاننا ضروری ہے وہ یہ کہ شکار خواہ محرم خود کرے یا کسی دوسرے کو شکار میں کسی طور پر مدد دے ‘ دونوں باتیں حالت احرام میں منع ہیں۔ یعنی کوئی شکار سامنے سے گزر رہا ہو اور محرم خود تو شکار نہ کرے ‘ لیکن کسی دوسرے کو متوجہ کر کے کہہ دے یا اشارۃً کہہ دے ‘ کسی طرح بھی اگر اس شکار میں وہ اعانت کا مرتکب ہوگا تو گنہگار بھی ہوگا اور اس شکار کا گوشت کھانا اس کے لیے حرام بھی ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی اور آدمی محرم کی خاطر شکار کرے ‘ تب بھی اس کا کھانا محرم کے لیے جائز نہیں۔ البتہ اگر کسی شخص نے اپنے لیے خود شکار کیا ہو اور پھر وہ اس میں سے محرم کو بھی تحفتاً کچھ دے دے تو اس کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ شکار نہ کرنے کے اس حکم سے موذی جانور مستثنیٰ ہیں۔ مثلاً چوہا، سانپ ‘ بچھو ‘ باولا کتا ‘ کوا ‘ چیل یا کوئی بھی جانور جو حملہ کرنے کا عادی ہو ایسے تمام نقصان پہنچانے والے جانور حالت احرام میں بھی مارے جاسکتے ہیں۔ حالت احرام میں شکار کا کفارہ دوسری بات جو اس آیت کریمہ میں بیان فرمائی گئی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی حالت احرام میں ہونے کے باوجود عمداً اس گناہ کا ارتکاب کرے تو اس کا کیا حکم ہے۔ اس سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ایسا شخص کفارہ ادا کرے۔ اس کی تین صورتیں ہیں : ایک یہ کہ جس طرح کا جانور اس نے شکار کیا ہے ‘ اسی قبیل کا جانور گھریلو چوپایوں میں سے کفارہ کے طور پر قربان کرے۔ اس میں البتہ علماء میں اختلاف ہے کہ ایسا گھریلو جانور جو شکار کے جانور کے مشابہہ ہو ‘ کفارے میں قربان کرنا ضروری ہے یا اس کی قیمت طے کرنے کے بعد کوئی جانور خرید کر ذبح کیا جاسکتا ہے۔ البتہ ! یہ ضروری ہے کہ قیمت طے کی جائے یا پالتو جانوروں میں سے اس جیسا جانور لیا جائے ‘ اسے کعبہ شریف یعنی حرم کی حدود میں پہنچایا جائے۔ وہاں اسے ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جانا چاہیے۔ جہاں تک جانوروں کا مثیل تلاش کرنے کا سوال ہے ‘ یہ کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ پروردگار نے جنگلی اور پالتو جانوروں میں سے بہت سے ایک دوسرے سے ملتے جلتے پیدا فرمائے ہیں۔ مثلاً ہرن کی جگہ بکری ‘ دنبہ ‘ مینڈھا وغیرہ۔ نیل گائے اور گورخر کی جگہ ‘ گائے وغیرہ۔ لیکن جہاں یہ مثلیت کا مسئلہ حل نہ ہو سکے ‘ وہاں تو سب کے نزدیک قیمت ہی اس کا بدل ہوسکتی ہے اور قیمت ہی طے ہونی چاہیے اور اگر یہ جانور کی قربانی مشکل ہوجائے تو اس جانور کی قیمت کی نسبت سے مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے اور اگر یہ بھی اس کے لیے دشوار ہو تو آخری درجہ میں اتنے روزے رکھے ‘ جتنے مسکینوں کو کھانا کھلانا اس پر عائد ہوتا ہے۔ رہا اس عمل کا فیصلہ کہ شکار کردہ جانور کا مثل اور بدل پالتو چوپایوں میں سے کون سا چوپایہ ہوسکتا ہے تو اس کا فیصلہ اور اس کے متعذر ہونے کی صورت میں اس کی قیمت یا مساکین کو کھانا کھلانا یا روزوں کی تعداد کا فیصلہ تو یہ کام مسلمانوں میں سے دو ثقہ آدمی کریں گے ‘ تاکہ جرم کے مرتکب کے لیے اپنے نفس کی جانبداری کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ اس سلسلے میں فقہاء نے بعض تفصیلی مسائل کا بھی ذکر کیا ہے ‘ جنھیں ہم معارف القرآن سے نقل کر رہے ہیں۔ مسئلہ 1: صید (شکار) جو کہ حرم اور احرام میں حرام ہے ‘ عام ہے ‘ خواہ ماکول (یعنی حلال جانور ہو) یا غیر ماکول (یعنی حرام) (لاطلاق الآیۃ) مسئلہ 2: صید یعنی شکار ‘ ان جانوروں کو کہا جاتا ہے ‘ جو وحشی ہوں ‘ عادۃً انسانوں کے پاس نہ رہتے ہوں ‘ پس جو خلقۃً اہلی ہوں ‘ جیسے بھیڑ ‘ بکری ‘ گائے ‘ اونٹ ‘ ان کا ذبح کرنا اور کھانا درست ہے۔ مسئلہ 3: البتہ ! جو دلیل سے مستثنیٰ ہوگئے ہیں ‘ ان کو پکڑنا ‘ قتل کرنا ‘ حلال ہے۔ جیسے دریائی جانور کا شکار ” لقولہٖ تعالیٰ اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ “ اور بعضے خشکی کے جانور ‘ جیسے کوا ‘ چیل ‘ بھیڑیا ‘ سانپ ‘ بچھو اور کاٹنے والا کتا ‘ اسی طرح جو درندہ خود حملہ کرے ‘ اس کا قتل بھی جائز ہے ‘ حدیث میں ان کا استثناء مذکور ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اَلصَّیْدُ میں ” الف لام “ عہد کا ہے۔ مسئلہ 4: شکارِ حرم کو جس طرح قصداً قتل کرنے پر جزاء واجب ہے ‘ اسی طرح خطاء و نسیان میں بھی واجب ہے۔ (اخرجہ الروع) مسئلہ 5: جیسا پہلی بار میں جزاء واجب ہے ‘ اسی طرح دوسری ‘ تیسری بار قتل کرنے پر بھی واجب ہے۔ مسئلہ 6: حاصل جزاء کا یہ ہے کہ جس زمان اور جس مکان میں یہ جانور قتل ہوا ہے ‘ بہتر تو یہ ہے کہ دو عادل شخصوں سے اور جائز یہ بھی ہے کہ ایک ہی عادل شخص سے ‘ اس جانور کی قیمت کا تخمینہ کرائے۔ پھر اس میں یہ تفصیل ہے کہ وہ مقتول جانور اگر غیر ماکول ہے ‘ تب تو یہ قیمت ایک بکری کی قیمت سے زیادہ واجب نہ ہوگی اور اگر وہ جانور ماکول تھا تو جس قدرتخمینہ ہوگا ‘ وہ سب واجب ہوگا اور دونوں حال میں اس کو تین صورتوں میں اختیار ہے ‘ خواہ تو اس قیمت کا کوئی جانور حسب شرائط قربانی کے خرید لے اور حدودحرم کے اندر ذبح کر کے فقراء کو بانٹ دے اور یا اس قیمت کے برابر غلہ حسب شرائط صدقہ فطر کے فی مسکین نصف صاع ‘ فقراء کو دے دے اور یا بحساب فی مسکین نصف صاع ‘ جتنے مساکین کو وہ غلہ پہنچ سکتا ہو اتنے شمار سے روزے رکھ لے اور تقسیم غلہ اور روزوں میں حرم کی قید نہیں اور اگر قیمت نصف صاع سے بھی کم واجب ہوئی ہے تو اختیار ہے خواہ ایک مسکین کو دے دے یا ایک روزہ رکھ لے۔ اسی طرح اگر فی مسکین نصف صاع دے کر نصف صاع سے کم بچ گیا تو بھی یہی اختیار ہے کہ خواہ وہ بقیہ ایک مسکین کو دے دے یا ایک روزہ رکھ لے۔ نصف صاع کا وزن ہمارے وزن کے اعتبار سے پونے دو سیر ہوتا ہے۔ مسئلہ 7: تخمینہ مذکور میں جتنے مساکین کا حصہ قرار پاوے ‘ اگر ان کو دو وقت کھانا شکم سیر کر کے کھلاوے تب بھی جائز ہے۔ مسئلہ 8: اگر اس قیمت کے برابر ذبح کے لیے جانور تجویز کیا ‘ مگر کچھ قیمت بچ گئی تو اس بقیہ میں اختیار ہے ‘ خواہ دوسرا جانور خرید لے یا اس کا غلہ دے دے یا غلہ کے حساب سے روزے رکھ لے۔ جس طرح قتل میں جزاء واجب ہے ‘ اسی طرح ایسے جانور کو زخمی کرنے میں بھی تخمینہ کرایا جائے گا کہ اس سے جانور کی کس قدر قیمت کم ہوگئی۔ اس مقدار قیمت میں پھر وہی تین مذکورہ صورتیں جائز ہوں گی۔ مسئلہ 9: محرم کو جس جانور کا شکار کرنا حرام ہے اس کا ذبح کرنا بھی حرام ہے۔ اگر اس کو ذبح کرے گا تو اس کا حکم مردار کا سا ہوگا (وفی لا تقتلوا اشارۃ الیٰ ان ذبح کالقتل) ۔ مسئلہ 0: اگر جانور کے قتل ہونے کی جگہ جنگل ہے تو جو آبادی اس سے قریب ہو ‘ وہاں کے اعتبار سے تخمینہ کیا جائے گا۔ مسئلہ !: اشارہ و دلالت و اعانت شکار میں ‘ مثل شکار کرنے کے حرام ہے۔ شکار کے جرم کے ارتکاب پر کفارے کی تفصیل بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا : لِّیَذُوْقَ وَ بَالَ اَمْرِہٖط ( تاکہ وہ اپنے کیے کا وبال چکھے ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کفارہ اس گناہ کا وبال یعنی سزا ہے۔ یہ سزا عام نگاہوں میں تو معمولی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن صحرائے عرب کے رہنے والے جو بنیادی انسانی ضرورتوں میں بھی خود کفیل نہیں تھے ‘ ان میں ایک عام آدمی کے لیے یہ کفارہ ادا کرنا بھی آسان نہیں تھا۔ اس لیے عام آدمی کے لیے تو یہ کسی سزا سے کم نہ تھا۔ قانون سازی چونکہ ہمیشہ عام افراد کو دیکھ کے کی جاتی ہے اور پھر مقصود صرف سزا دینا نہیں ہوتا بلکہ اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس سزا کے نتیجے میں گناہ کی شناعت اور مذمت کا تصور دلوں میں راسخ ہوجائے کیونکہ جب تک یہ تصور دلوں میں جڑ نہیں پکڑتا نہ اطاعت آسان ہوگی ‘ نہ آدمی گناہ سے نفرت کرے گا۔ اس لیے اصل مقصد اور عربوں کی عام حالت کو دیکھتے ہوئے یہ کفارہ واقعی ایک سزا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی ذہنوں میں رہنی چاہیے کہ سزا یعنی کفارہ وغیرہ سے اگرچہ قانونی ضرورت تو پوری ہوجاتی ہے اور وقتی طور پر تنبیہ کا عمل بھی مکمل ہوجاتا ہے ‘ لیکن اسے کارآمد اور مثمر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ دل کی آمادگی ‘ رجوع الی اللہ اور توبہ کی توفیق بھی میسر آئے ورنہ امراء کا طبقہ تو ایسے کفاروں کو دفع الوقتی کا ایک ذریعہ سمجھ کر اس کے ارتکاب کی جسارت سے کبھی نہیں رکے گا کیونکہ انھیں ایسا کفارہ ادا کرتے ہوئے کوئی بڑا مالی بوجھ برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔ اس لیے اس کی حقیقت جیسا کہ عرض کیا ہے توبہ ہے اور جو آدمی کفارہ ادا کرنے کے ساتھ توبہ نہیں کرتا اور اللہ سے رجوع کر کے استغفار نہیں کرتا ‘ اس کے لیے یہ کفارہ اس کی گناہ کی تلافی نہیں بنے گا اور قیامت کے دن اسے نا گفتہ بہ صورت حال سے واسطہ پڑے گا۔ اس کے بعد اس آیت کریمہ کے آخر میں مزید ایک توجہ دلانے والی بات ارشاد فرمائی گئی ہے : عَفَا اللہ ُ عَمَّا سَلَفَ ط وَمَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللہ ُ مِنْہٗ ط وَ اللہ ُ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ ۔ (اب تک جو ہوچکا ‘ اللہ نے اس سے درگزر کیا۔ لیکن جو کوئی پھر اس کا اعادہ کرے گا تو اللہ اس سے انتقام لے گا اور اللہ غالب اور انتقام والا ہے) اس سے پہلے اگرچہ یہ بات معلوم تھی کہ احرام کی حالت میں شکار کرنا جائز نہیں۔ لیکن نہ تو اس کی پوری تفصیل ذکر فرمائی گئی تھی اور نہ اسے اس امت کے لیے آزمائش کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اب اس بات کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ جس طرح ہم نے مچھلیوں کے شکار کو بنی اسرائیل کے لیے آزمائش بنایا تھا اور انھیں واضح طور پر بتادیا تھا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے آزما رہا ہے ‘ لیکن جب وہ مچھلیوں کے شکار سے باز نہ آئے اور اس آزمائش میں ناکام ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک ہولناک سزا دی کہ وہ تاریخ میں عبرت بن کے رہ گئے۔ اسی حوالے سے یہاں بھی فرمایا جا رہا ہے کہ ہم تمہیں واضح طور پر بتا چکے ہیں کہ ان کے لیے بحری شکار آزمائش تھا اور تمہارے لیے بری شکار کو آزمائش بنایا گیا ہے۔ اگر تم ان کی طرح اس آزمائش میں ناکام ہوگئے اور اللہ کے حکم کی تم نے خلاف ورزی کی تو یاد رکھو ! تمہارا انجام بھی ان سے مختلف نہیں ہوگا اور جس طرح اللہ نے ان سے انتقام لیا ‘ وہ تم سے بھی انتقام لے گا کیونکہ اس کے یہاں ایمان و عمل اور اطاعت امر کے سوا اور کسی خاص چیز کی اہمیت نہیں۔ بہتر سے بہتر نسبتیں بھی ایمان و عمل کے ساتھ ہی قابل لحاظ ٹھہرتی ہیں ورنہ وہ الٹی سزا کا موجب بنتی ہیں۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ امت مسلمہ نے اس حکم کی اہمیت کو سمجھا اور خیر القرون میں اس آزمائش میں سرخرو ہو کر اللہ کی طرف سے انعامات کے مستحق ٹھہرے اور اللہ تعالیٰ نے زمین کے بڑے حصے پر انھیں خلافت سے نوازا اور وہ تمام وعدے پورے فرمائے جو قرآن کریم میں یا لسان نبوت سے ادا کیے گئے تھے۔ آج امت مسلمہ کی سب سے بڑی آزمائش ان دونوں آیات میں آزمائش اور احکام الٰہی کی اطاعت کے حوالے سے جو کچھ ذکر کیا گیا ‘ آج اس امت کو پوری طرح اس پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ آزمائش صرف حالت احرام میں شکار کرنے میں ہی نہیں بلکہ بدلتی ہوئی دنیا میں ‘ کبھی اس کا کوئی حکم آزمائش بن جاتا ہے اور کبھی کوئی حکم۔ آج ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جدید معاشی زندگی کے تقاضے، تہذیب مغرب کے مطالبے اور عالم سیاست کی نزاکتیں امت مسلمہ کے لیے سب سے بڑی آزمائش بن گئی ہیں۔ اس آزمائش میں افراد اور حکمران ‘ دونوں پوری طرح شریک ہیں اور یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ تقریباً سارا عالم اسلام پوری طرح ان آزمائشوں میں ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنے کے لیے کسی بڑی عقل کی ضرورت نہیں کہ اگر آزمائش میں ناکامی بنی اسرائیل کے لیے رسوائی کا باعث ہوسکتی ہے تو ہم اس سے بھی وسیع سطح پر قدم قدم پر جس طرح آزمائشوں میں ناکام ہی نہیں ہو رہے بلکہ سرکشی اور بغاوت کی حدوں کو چھو رہے ہیں ‘ اس کے بعد اگر ہمیں رسوائی سے واسطہ پڑے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ اس لیے یہ بات ازبس ضروری ہے کہ ہم ان آیات کے آئینہ میں اپنی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو پہچاننے کی کوشش کریں۔ مسلمانوں کو حالت احرام اور حرم میں شکار سے روک کر جس آزمائش میں مبتلا کیا گیا ‘ اس میں دو باتیں قابل توجہ ہیں۔ پہلی یہ بات کہ بنی اسرائیل کو بحری شکار سے روکا گیا کیونکہ یہی ان کی اصل ضرورت تھی۔ لیکن یہ ممانعت ہفتے میں صرف ایک دن کے لیے تھی جبکہ مسلمانوں کو بری شکار سے روکا گیا کیونکہ خشکی کا سفر کرتے ہوئے یہی ان کی بڑی ضرورت تھی۔ لیکن یہ آزمائش ان معنوں میں سخت تھی کہ احرام کی مدت ایک آدھ دن نہیں ہوتی بلکہ میقات سے لے کر حرم تک پہنچنا بعض دفعہ کئی دنوں کا سفر ہوتا ہے اور پھر وہاں بھی ایام حج کئی دنوں پر مشتمل ہیں۔ اس لحاظ سے یہ آزمائش خاصی طویل تھی۔ میں اس سے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ اس کٹھن آزمائش میں مسلمانوں کو اس لیے ڈالا گیا ہے کیونکہ ان کی ذمہ داریاں ‘ بنی اسرائیل کی نسبت زیادہ عظیم تھیں اور ان کا زمانہ بنی اسرائیل کی نسبت زیادہ طویل تھا اور یہ مسلم بات ہے۔ ؎ جن کے رتبے ہیں ‘ سوا ان کی سوا مشکل ہے البتہ ! بری سفر میں اگر زاد سفر ختم ہوجائے تو شکار کے علاوہ دوسرے وسائل سے کسی نہ کسی حد تک ضرورتیں پوری کی جاسکتی ہیں۔ لیکن اگر عمرہ اور حج کے مسافر دریا یا سمندر کے راستے سفر کر رہے ہوں اور ان پر پانی کے شکار کی پابندی لگا دی جاتی تو یہ ایک ایسی ناقابل برداشت پابندی ہوتی ‘ جس کی تلافی کبھی نہ ہوسکتی۔ اس لیے کہ سمندری سفر میں ہمیشہ اس بات کا امکان رہتا ہے کہ طوفان آجانے یا ہوائوں کی سمت بدل جانے سے کشتیوں کو بعض دفعہ رکنا پڑے اور بعض دفعہ رفتار سست ہونے کے باعث چند دنوں کا سفر کئی دنوں تک طویل ہوجائے۔ اس صورت میں اگر ان کا زاد سفر ختم ہوجاتا اور مچھلیاں پکڑنے کی انھیں اجازت نہ ہوتی تو وہ تو بھوک سے مرجاتے۔ اس لیے اللہ نے کرم فرمایا۔
Top