Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 95
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ وَ مَنْ قَتَلَهٗ مِنْكُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْكُمُ بِهٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ هَدْیًۢا بٰلِغَ الْكَعْبَةِ اَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسٰكِیْنَ اَوْ عَدْلُ ذٰلِكَ صِیَامًا لِّیَذُوْقَ وَ بَالَ اَمْرِهٖ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَمَّا سَلَفَ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰهُ مِنْهُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَقْتُلُوا : نہ مارو الصَّيْدَ : شکار وَاَنْتُمْ : جبکہ تم حُرُمٌ : حالت احرام میں وَمَنْ : اور جو قَتَلَهٗ : اس کو مارے مِنْكُمْ : تم میں سے مُّتَعَمِّدًا : جان بوجھ کر فَجَزَآءٌ : تو بدلہ مِّثْلُ : برابر مَا قَتَلَ : جو وہ مارے مِنَ النَّعَمِ : مویشی سے يَحْكُمُ : فیصلہ کریں بِهٖ : اس کا ذَوَا عَدْلٍ : دو معتبر مِّنْكُمْ : تم سے هَدْيًۢا : نیاز بٰلِغَ : پہنچائے الْكَعْبَةِ : کعبہ اَوْ كَفَّارَةٌ : یا کفارہ طَعَامُ : کھانا مَسٰكِيْنَ : محتاج اَوْ عَدْلُ : یا برابر ذٰلِكَ : اس صِيَامًا : روزے لِّيَذُوْقَ : تاکہ چکھے وَبَالَ اَمْرِهٖ : اپنے کام (کیے) عَفَا اللّٰهُ : اللہ نے معاف کیا عَمَّا : اس سے جو سَلَفَ : پہلے ہوچکا وَمَنْ : اور جو عَادَ : پھر کرے فَيَنْتَقِمُ اللّٰهُ : تو اللہ بدلہ لے گا مِنْهُ : اس سے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب ذُو انْتِقَامٍ : بدلہ لینے والا
اے ایمان والو ! حالت احرام میں شکار نہ کیجیو اور جو تم میں سے اس کو قصداً مارے گا تو اس کا بدلہ اسی طرح کا جانور ہے جیسا کہ اس نے مارا ہے ‘ جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر آدمی کریں گے یہ نیاز کی حیثیت سے خانہ کعبہ کو پہنچایا جائے۔ یا کفارہ دینا ہوگا ‘ مسکینوں کو کھانا یا اس کے برابر روزے رکھنے ہوں گے ‘ تاکہ وہ اپنے کیے کا وبال چکھے ‘ جو ہوچکا اللہ نے اسے درگزر کیا۔ لیکن جو کوئی پھر کرے گا تو اللہ اس سے انتقام لے گا اور اللہ غالب اور انتقام والا ہے
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَتَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ ط وَمَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآئٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ ھَدْیًام بٰلِغَ الْکَعْبَۃِ اَوْ کَفَّارَۃٌ طَعَامُ مَسٰکِیْنَ اَوْ عَدْلُ ذٰلِکَ صِیَامًا لِّیَذُوْقَ وَ بَالَ اَمْرِہٖ ط عَفَا اللہ ُ عَمَّا سَلَفَ ط وَمَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللہ ُ مِنْہٗ ط وَ اللہ ُ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ ۔ (المائدہ : 95) ” اے ایمان والو ! حالت احرام میں شکار نہ کیجیو اور جو تم میں سے اس کو قصداً مارے گا تو اس کا بدلہ اسی طرح کا جانور ہے ‘ جیسا کہ اس نے مارا ہے ‘ جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر آدمی کریں گے یہ نیاز کی حیثیت سے خانہ کعبہ کو پہنچایا جائے۔ یا کفارہ دینا ہوگا مسکینوں کو کھانا یا اس کے برابر روزے رکھنے ہوں گے ‘ تاکہ وہ اپنے کیے کا وبال چکھے ‘ جو ہوچکا اللہ نے اسے درگزر کیا۔ لیکن جو کوئی پھر کرے گا تو اللہ اس سے انتقام لے گا اور اللہ غالب اور انتقام والا ہے “۔ حالت احرام میں شکار کی ممانعت اس آیت کریمہ میں سب سے پہلے حالت احرام میں شکار کرنے کی ممانت فرمائی گئی ہے۔ لیکن اس میں دو باتوں کا جان لینا بہت ضروری ہے ‘ ورنہ اس حکم کے سمجھنے میں کوتاہی ہوگی۔ پہلی بات یہ کہ حالت احرام میں ہی شکار کرنا حرام نہیں بلکہ حرم کی حدود میں شکار کرنا بھی حرام ہے۔ حرم کی حدود میں آدمی احرام کی حالت میں ہو تب بھی شکار کرنا حرام ہے اور احرام کی حالت میں نہ ہو ‘ تب بھی شکار کرنا حرام ہے۔ دوسری بات جس کا جاننا ضروری ہے وہ یہ کہ شکار خواہ محرم خود کرے یا کسی دوسرے کو شکار میں کسی طور پر مدد دے ‘ دونوں باتیں حالت احرام میں منع ہیں۔ یعنی کوئی شکار سامنے سے گزر رہا ہو اور محرم خود تو شکار نہ کرے ‘ لیکن کسی دوسرے کو متوجہ کر کے کہہ دے یا اشارۃً کہہ دے ‘ کسی طرح بھی اگر اس شکار میں وہ اعانت کا مرتکب ہوگا تو گنہگار بھی ہوگا اور اس شکار کا گوشت کھانا اس کے لیے حرام بھی ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی اور آدمی محرم کی خاطر شکار کرے ‘ تب بھی اس کا کھانا محرم کے لیے جائز نہیں۔ البتہ اگر کسی شخص نے اپنے لیے خود شکار کیا ہو اور پھر وہ اس میں سے محرم کو بھی تحفتاً کچھ دے دے تو اس کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ شکار نہ کرنے کے اس حکم سے موذی جانور مستثنیٰ ہیں۔ مثلاً چوہا، سانپ ‘ بچھو ‘ باولا کتا ‘ کوا ‘ چیل یا کوئی بھی جانور جو حملہ کرنے کا عادی ہو ایسے تمام نقصان پہنچانے والے جانور حالت احرام میں بھی مارے جاسکتے ہیں۔ حالت احرام میں شکار کا کفارہ دوسری بات جو اس آیت کریمہ میں بیان فرمائی گئی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی حالت احرام میں ہونے کے باوجود عمداً اس گناہ کا ارتکاب کرے تو اس کا کیا حکم ہے۔ اس سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ایسا شخص کفارہ ادا کرے۔ اس کی تین صورتیں ہیں : ایک یہ کہ جس طرح کا جانور اس نے شکار کیا ہے ‘ اسی قبیل کا جانور گھریلو چوپایوں میں سے کفارہ کے طور پر قربان کرے۔ اس میں البتہ علماء میں اختلاف ہے کہ ایسا گھریلو جانور جو شکار کے جانور کے مشابہہ ہو ‘ کفارے میں قربان کرنا ضروری ہے یا اس کی قیمت طے کرنے کے بعد کوئی جانور خرید کر ذبح کیا جاسکتا ہے۔ البتہ ! یہ ضروری ہے کہ قیمت طے کی جائے یا پالتو جانوروں میں سے اس جیسا جانور لیا جائے ‘ اسے کعبہ شریف یعنی حرم کی حدود میں پہنچایا جائے۔ وہاں اسے ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جانا چاہیے۔ جہاں تک جانوروں کا مثیل تلاش کرنے کا سوال ہے ‘ یہ کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ پروردگار نے جنگلی اور پالتو جانوروں میں سے بہت سے ایک دوسرے سے ملتے جلتے پیدا فرمائے ہیں۔ مثلاً ہرن کی جگہ بکری ‘ دنبہ ‘ مینڈھا وغیرہ۔ نیل گائے اور گورخر کی جگہ ‘ گائے وغیرہ۔ لیکن جہاں یہ مثلیت کا مسئلہ حل نہ ہو سکے ‘ وہاں تو سب کے نزدیک قیمت ہی اس کا بدل ہوسکتی ہے اور قیمت ہی طے ہونی چاہیے اور اگر یہ جانور کی قربانی مشکل ہوجائے تو اس جانور کی قیمت کی نسبت سے مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے اور اگر یہ بھی اس کے لیے دشوار ہو تو آخری درجہ میں اتنے روزے رکھے ‘ جتنے مسکینوں کو کھانا کھلانا اس پر عائد ہوتا ہے۔ رہا اس عمل کا فیصلہ کہ شکار کردہ جانور کا مثل اور بدل پالتو چوپایوں میں سے کون سا چوپایہ ہوسکتا ہے تو اس کا فیصلہ اور اس کے متعذر ہونے کی صورت میں اس کی قیمت یا مساکین کو کھانا کھلانا یا روزوں کی تعداد کا فیصلہ تو یہ کام مسلمانوں میں سے دو ثقہ آدمی کریں گے ‘ تاکہ جرم کے مرتکب کے لیے اپنے نفس کی جانبداری کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ اس سلسلے میں فقہاء نے بعض تفصیلی مسائل کا بھی ذکر کیا ہے ‘ جنھیں ہم معارف القرآن سے نقل کر رہے ہیں۔ مسئلہ 1: صید (شکار) جو کہ حرم اور احرام میں حرام ہے ‘ عام ہے ‘ خواہ ماکول (یعنی حلال جانور ہو) یا غیر ماکول (یعنی حرام) (لاطلاق الآیۃ) مسئلہ 2: صید یعنی شکار ‘ ان جانوروں کو کہا جاتا ہے ‘ جو وحشی ہوں ‘ عادۃً انسانوں کے پاس نہ رہتے ہوں ‘ پس جو خلقۃً اہلی ہوں ‘ جیسے بھیڑ ‘ بکری ‘ گائے ‘ اونٹ ‘ ان کا ذبح کرنا اور کھانا درست ہے۔ مسئلہ 3: البتہ ! جو دلیل سے مستثنیٰ ہوگئے ہیں ‘ ان کو پکڑنا ‘ قتل کرنا ‘ حلال ہے۔ جیسے دریائی جانور کا شکار ” لقولہٖ تعالیٰ اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ “ اور بعضے خشکی کے جانور ‘ جیسے کوا ‘ چیل ‘ بھیڑیا ‘ سانپ ‘ بچھو اور کاٹنے والا کتا ‘ اسی طرح جو درندہ خود حملہ کرے ‘ اس کا قتل بھی جائز ہے ‘ حدیث میں ان کا استثناء مذکور ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اَلصَّیْدُ میں ” الف لام “ عہد کا ہے۔ مسئلہ 4: شکارِ حرم کو جس طرح قصداً قتل کرنے پر جزاء واجب ہے ‘ اسی طرح خطاء و نسیان میں بھی واجب ہے۔ (اخرجہ الروع) مسئلہ 5: جیسا پہلی بار میں جزاء واجب ہے ‘ اسی طرح دوسری ‘ تیسری بار قتل کرنے پر بھی واجب ہے۔ مسئلہ 6: حاصل جزاء کا یہ ہے کہ جس زمان اور جس مکان میں یہ جانور قتل ہوا ہے ‘ بہتر تو یہ ہے کہ دو عادل شخصوں سے اور جائز یہ بھی ہے کہ ایک ہی عادل شخص سے ‘ اس جانور کی قیمت کا تخمینہ کرائے۔ پھر اس میں یہ تفصیل ہے کہ وہ مقتول جانور اگر غیر ماکول ہے ‘ تب تو یہ قیمت ایک بکری کی قیمت سے زیادہ واجب نہ ہوگی اور اگر وہ جانور ماکول تھا تو جس قدرتخمینہ ہوگا ‘ وہ سب واجب ہوگا اور دونوں حال میں اس کو تین صورتوں میں اختیار ہے ‘ خواہ تو اس قیمت کا کوئی جانور حسب شرائط قربانی کے خرید لے اور حدودحرم کے اندر ذبح کر کے فقراء کو بانٹ دے اور یا اس قیمت کے برابر غلہ حسب شرائط صدقہ فطر کے فی مسکین نصف صاع ‘ فقراء کو دے دے اور یا بحساب فی مسکین نصف صاع ‘ جتنے مساکین کو وہ غلہ پہنچ سکتا ہو اتنے شمار سے روزے رکھ لے اور تقسیم غلہ اور روزوں میں حرم کی قید نہیں اور اگر قیمت نصف صاع سے بھی کم واجب ہوئی ہے تو اختیار ہے خواہ ایک مسکین کو دے دے یا ایک روزہ رکھ لے۔ اسی طرح اگر فی مسکین نصف صاع دے کر نصف صاع سے کم بچ گیا تو بھی یہی اختیار ہے کہ خواہ وہ بقیہ ایک مسکین کو دے دے یا ایک روزہ رکھ لے۔ نصف صاع کا وزن ہمارے وزن کے اعتبار سے پونے دو سیر ہوتا ہے۔ مسئلہ 7: تخمینہ مذکور میں جتنے مساکین کا حصہ قرار پاوے ‘ اگر ان کو دو وقت کھانا شکم سیر کر کے کھلاوے تب بھی جائز ہے۔ مسئلہ 8: اگر اس قیمت کے برابر ذبح کے لیے جانور تجویز کیا ‘ مگر کچھ قیمت بچ گئی تو اس بقیہ میں اختیار ہے ‘ خواہ دوسرا جانور خرید لے یا اس کا غلہ دے دے یا غلہ کے حساب سے روزے رکھ لے۔ جس طرح قتل میں جزاء واجب ہے ‘ اسی طرح ایسے جانور کو زخمی کرنے میں بھی تخمینہ کرایا جائے گا کہ اس سے جانور کی کس قدر قیمت کم ہوگئی۔ اس مقدار قیمت میں پھر وہی تین مذکورہ صورتیں جائز ہوں گی۔ مسئلہ 9: محرم کو جس جانور کا شکار کرنا حرام ہے اس کا ذبح کرنا بھی حرام ہے۔ اگر اس کو ذبح کرے گا تو اس کا حکم مردار کا سا ہوگا (وفی لا تقتلوا اشارۃ الیٰ ان ذبح کالقتل) ۔ مسئلہ 0: اگر جانور کے قتل ہونے کی جگہ جنگل ہے تو جو آبادی اس سے قریب ہو ‘ وہاں کے اعتبار سے تخمینہ کیا جائے گا۔ مسئلہ !: اشارہ و دلالت و اعانت شکار میں ‘ مثل شکار کرنے کے حرام ہے۔ شکار کے جرم کے ارتکاب پر کفارے کی تفصیل بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا : لِّیَذُوْقَ وَ بَالَ اَمْرِہٖط ( تاکہ وہ اپنے کیے کا وبال چکھے ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کفارہ اس گناہ کا وبال یعنی سزا ہے۔ یہ سزا عام نگاہوں میں تو معمولی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن صحرائے عرب کے رہنے والے جو بنیادی انسانی ضرورتوں میں بھی خود کفیل نہیں تھے ‘ ان میں ایک عام آدمی کے لیے یہ کفارہ ادا کرنا بھی آسان نہیں تھا۔ اس لیے عام آدمی کے لیے تو یہ کسی سزا سے کم نہ تھا۔ قانون سازی چونکہ ہمیشہ عام افراد کو دیکھ کے کی جاتی ہے اور پھر مقصود صرف سزا دینا نہیں ہوتا بلکہ اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس سزا کے نتیجے میں گناہ کی شناعت اور مذمت کا تصور دلوں میں راسخ ہوجائے کیونکہ جب تک یہ تصور دلوں میں جڑ نہیں پکڑتا نہ اطاعت آسان ہوگی ‘ نہ آدمی گناہ سے نفرت کرے گا۔ اس لیے اصل مقصد اور عربوں کی عام حالت کو دیکھتے ہوئے یہ کفارہ واقعی ایک سزا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی ذہنوں میں رہنی چاہیے کہ سزا یعنی کفارہ وغیرہ سے اگرچہ قانونی ضرورت تو پوری ہوجاتی ہے اور وقتی طور پر تنبیہ کا عمل بھی مکمل ہوجاتا ہے ‘ لیکن اسے کارآمد اور مثمر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ دل کی آمادگی ‘ رجوع الی اللہ اور توبہ کی توفیق بھی میسر آئے ورنہ امراء کا طبقہ تو ایسے کفاروں کو دفع الوقتی کا ایک ذریعہ سمجھ کر اس کے ارتکاب کی جسارت سے کبھی نہیں رکے گا کیونکہ انھیں ایسا کفارہ ادا کرتے ہوئے کوئی بڑا مالی بوجھ برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔ اس لیے اس کی حقیقت جیسا کہ عرض کیا ہے توبہ ہے اور جو آدمی کفارہ ادا کرنے کے ساتھ توبہ نہیں کرتا اور اللہ سے رجوع کر کے استغفار نہیں کرتا ‘ اس کے لیے یہ کفارہ اس کی گناہ کی تلافی نہیں بنے گا اور قیامت کے دن اسے نا گفتہ بہ صورت حال سے واسطہ پڑے گا۔ اس کے بعد اس آیت کریمہ کے آخر میں مزید ایک توجہ دلانے والی بات ارشاد فرمائی گئی ہے : عَفَا اللہ ُ عَمَّا سَلَفَ ط وَمَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللہ ُ مِنْہٗ ط وَ اللہ ُ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ ۔ (اب تک جو ہوچکا ‘ اللہ نے اس سے درگزر کیا۔ لیکن جو کوئی پھر اس کا اعادہ کرے گا تو اللہ اس سے انتقام لے گا اور اللہ غالب اور انتقام والا ہے) اس سے پہلے اگرچہ یہ بات معلوم تھی کہ احرام کی حالت میں شکار کرنا جائز نہیں۔ لیکن نہ تو اس کی پوری تفصیل ذکر فرمائی گئی تھی اور نہ اسے اس امت کے لیے آزمائش کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اب اس بات کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ جس طرح ہم نے مچھلیوں کے شکار کو بنی اسرائیل کے لیے آزمائش بنایا تھا اور انھیں واضح طور پر بتادیا تھا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے آزما رہا ہے ‘ لیکن جب وہ مچھلیوں کے شکار سے باز نہ آئے اور اس آزمائش میں ناکام ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک ہولناک سزا دی کہ وہ تاریخ میں عبرت بن کے رہ گئے۔ اسی حوالے سے یہاں بھی فرمایا جا رہا ہے کہ ہم تمہیں واضح طور پر بتا چکے ہیں کہ ان کے لیے بحری شکار آزمائش تھا اور تمہارے لیے بری شکار کو آزمائش بنایا گیا ہے۔ اگر تم ان کی طرح اس آزمائش میں ناکام ہوگئے اور اللہ کے حکم کی تم نے خلاف ورزی کی تو یاد رکھو ! تمہارا انجام بھی ان سے مختلف نہیں ہوگا اور جس طرح اللہ نے ان سے انتقام لیا ‘ وہ تم سے بھی انتقام لے گا کیونکہ اس کے یہاں ایمان و عمل اور اطاعت امر کے سوا اور کسی خاص چیز کی اہمیت نہیں۔ بہتر سے بہتر نسبتیں بھی ایمان و عمل کے ساتھ ہی قابل لحاظ ٹھہرتی ہیں ورنہ وہ الٹی سزا کا موجب بنتی ہیں۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ امت مسلمہ نے اس حکم کی اہمیت کو سمجھا اور خیر القرون میں اس آزمائش میں سرخرو ہو کر اللہ کی طرف سے انعامات کے مستحق ٹھہرے اور اللہ تعالیٰ نے زمین کے بڑے حصے پر انھیں خلافت سے نوازا اور وہ تمام وعدے پورے فرمائے جو قرآن کریم میں یا لسان نبوت سے ادا کیے گئے تھے۔ آج امت مسلمہ کی سب سے بڑی آزمائش ان دونوں آیات میں آزمائش اور احکام الٰہی کی اطاعت کے حوالے سے جو کچھ ذکر کیا گیا ‘ آج اس امت کو پوری طرح اس پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ آزمائش صرف حالت احرام میں شکار کرنے میں ہی نہیں بلکہ بدلتی ہوئی دنیا میں ‘ کبھی اس کا کوئی حکم آزمائش بن جاتا ہے اور کبھی کوئی حکم۔ آج ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جدید معاشی زندگی کے تقاضے، تہذیب مغرب کے مطالبے اور عالم سیاست کی نزاکتیں امت مسلمہ کے لیے سب سے بڑی آزمائش بن گئی ہیں۔ اس آزمائش میں افراد اور حکمران ‘ دونوں پوری طرح شریک ہیں اور یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ تقریباً سارا عالم اسلام پوری طرح ان آزمائشوں میں ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنے کے لیے کسی بڑی عقل کی ضرورت نہیں کہ اگر آزمائش میں ناکامی بنی اسرائیل کے لیے رسوائی کا باعث ہوسکتی ہے تو ہم اس سے بھی وسیع سطح پر قدم قدم پر جس طرح آزمائشوں میں ناکام ہی نہیں ہو رہے بلکہ سرکشی اور بغاوت کی حدوں کو چھو رہے ہیں ‘ اس کے بعد اگر ہمیں رسوائی سے واسطہ پڑے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ اس لیے یہ بات ازبس ضروری ہے کہ ہم ان آیات کے آئینہ میں اپنی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو پہچاننے کی کوشش کریں۔ مسلمانوں کو حالت احرام اور حرم میں شکار سے روک کر جس آزمائش میں مبتلا کیا گیا ‘ اس میں دو باتیں قابل توجہ ہیں۔ پہلی یہ بات کہ بنی اسرائیل کو بحری شکار سے روکا گیا کیونکہ یہی ان کی اصل ضرورت تھی۔ لیکن یہ ممانعت ہفتے میں صرف ایک دن کے لیے تھی جبکہ مسلمانوں کو بری شکار سے روکا گیا کیونکہ خشکی کا سفر کرتے ہوئے یہی ان کی بڑی ضرورت تھی۔ لیکن یہ آزمائش ان معنوں میں سخت تھی کہ احرام کی مدت ایک آدھ دن نہیں ہوتی بلکہ میقات سے لے کر حرم تک پہنچنا بعض دفعہ کئی دنوں کا سفر ہوتا ہے اور پھر وہاں بھی ایام حج کئی دنوں پر مشتمل ہیں۔ اس لحاظ سے یہ آزمائش خاصی طویل تھی۔ میں اس سے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ اس کٹھن آزمائش میں مسلمانوں کو اس لیے ڈالا گیا ہے کیونکہ ان کی ذمہ داریاں ‘ بنی اسرائیل کی نسبت زیادہ عظیم تھیں اور ان کا زمانہ بنی اسرائیل کی نسبت زیادہ طویل تھا اور یہ مسلم بات ہے۔ ؎ جن کے رتبے ہیں ‘ سوا ان کی سوا مشکل ہے البتہ ! بری سفر میں اگر زاد سفر ختم ہوجائے تو شکار کے علاوہ دوسرے وسائل سے کسی نہ کسی حد تک ضرورتیں پوری کی جاسکتی ہیں۔ لیکن اگر عمرہ اور حج کے مسافر دریا یا سمندر کے راستے سفر کر رہے ہوں اور ان پر پانی کے شکار کی پابندی لگا دی جاتی تو یہ ایک ایسی ناقابل برداشت پابندی ہوتی ‘ جس کی تلافی کبھی نہ ہوسکتی۔ اس لیے کہ سمندری سفر میں ہمیشہ اس بات کا امکان رہتا ہے کہ طوفان آجانے یا ہوائوں کی سمت بدل جانے سے کشتیوں کو بعض دفعہ رکنا پڑے اور بعض دفعہ رفتار سست ہونے کے باعث چند دنوں کا سفر کئی دنوں تک طویل ہوجائے۔ اس صورت میں اگر ان کا زاد سفر ختم ہوجاتا اور مچھلیاں پکڑنے کی انھیں اجازت نہ ہوتی تو وہ تو بھوک سے مرجاتے۔ اس لیے اللہ نے کرم فرمایا۔
Top