Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 97
جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ الْهَدْیَ وَ الْقَلَآئِدَ١ؕ ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ اَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
جَعَلَ
: بنایا
اللّٰهُ
: اللہ
الْكَعْبَةَ
: کعبہ
الْبَيْتَ الْحَرَامَ
: احترام ولا گھر
قِيٰمًا
: قیام کا باعث
لِّلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ
: اور حرمت والے مہینے
وَالْهَدْيَ
: اور قربانی
وَالْقَلَآئِدَ
: اور پٹے پڑے ہوئے جانور
ذٰلِكَ
: یہ
لِتَعْلَمُوْٓا
: تاکہ تم جان لو
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
يَعْلَمُ
: اسے معلوم ہے
مَا
: جو
فِي السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں میں
وَمَا
: اور جو
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
وَاَنَّ
: اور یہ کہ
اللّٰهَ
: اللہ
بِكُلِّ
: ہر
شَيْءٍ
: چیز
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
اللہ نے کعبہ حرمت والے گھر کو لوگوں کے لیے مرکز بنایا اور حرمت کے مہینوں ‘ قربانی کے جانوروں اور گلے میں پٹے پڑے جانوروں کو شعیرہ بنایا۔ یہ اس لیے کہ تم جانو کہ اللہ جانتا ہے ‘ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے
جَعَلَ اللہ ُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّھْرَ الْحَرَامَ وَالْھَدْیَ وَالْقَلآَئِدَط ذٰلِکَ لِتَعْلَمُوْآ اَنَّ اللہ َ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الاَْرْضِ وَ اَنَّ اللہ َ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمُٗ ۔ (المائدہ : 97) ” اللہ نے کعبہ حرمت والے گھر کو لوگوں کے لیے مرکز بنایا اور حرمت کے مہینوں ‘ قربانی کے جانوروں اور گلے میں پٹے پڑے جانوروں کو شعیرہ بنایا۔ یہ اس لیے کہ تم جانو کہ اللہ جانتا ہے ‘ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے “۔ ” کعبہ “ کو مرکز اسلام بنایا گیا ہے یہ سوال کہ حرم اور احرام کے حوالے سے اس قدر پابندیاں کیوں عائد کی گئیں ہیں اور شعائر کے احترام پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے ؟ اس کے جواب میں اس آیت کریمہ سے مختلف باتیں سمجھ آتی ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایک امن وامان کا منطقہ قائم کیا ہے جہاں تک انسانی جنگ وجدال کا اثر نہیں پہنچنا چاہیے۔ ” کعبہ “ کو قِیَامًا لِّلنَّاس یعنی مرکز اسلام قرار دیا گیا کیونکہ دنیا کے ہر گوشے کے لوگ ہر وقت ‘ ہر موسم میں ‘ ہر طرف سے اس کا رخ کرتے ہیں ‘ پس لازم تھا ‘ ایک امن وامان کا علاقہ قائم کیا جائے۔ ایک امن کا شہر بنایا جائے۔ ایک موسم کو امن کا موسم ٹھہرایا جائے تاکہ لوگ بآسانی بےکھٹکے اس گھر میں جمع ہو کر مراسم عبادت و عبودیت اد اکر سکیں۔ دنیا بھر میں جنگ وجدال کی آگ بھڑکی ہوئی ہو ‘ مگر عین اس معرکہ کے وسط میں ‘ لڑنے بھڑنے والوں ‘ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے والوں اور ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی کوشش کرنے والوں کے بیچ ایک امن وامان کا علاقہ ہو۔ جہاں پر مختلف اجناس و انواع کے لوگ ہر قسم کے اختلافات کو بھلا کر اپنے مالک کے حضور میں ہدیہ عبادت و عبودیت پیش کرسکیں۔ دنیا کے متحارب گروہ ‘ متخاصم اقوام و ملل اپنے ذاتی ‘ قومی اور رنگ و نسل کے اختلافات کو نظرانداز کر کے بےخوف و خطر ‘ امن و سلامتی کے ساتھ جمع ہو سکیں۔ ایک میدان میں ‘ ایک عبادت گاہ میں ایک مسجد میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو سکیں۔ اس منطقے میں محبت ‘ بھائی چارے اور امن و سلامتی کے پر پھڑپھڑائیں۔ سب کا لباس ایک ہو ‘ ہدف ایک ہو ‘ معبود ایک ہو ‘ ایک جیسے اعمال بجا لا کر انسانیت کے ایک ہونے کا عملی ثبوت بہم پہنچا سکیں۔ دوسری بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ عرب میں کعبہ کی حیثیت محض ایک مقدس عبادت گاہ ہی کی نہ تھی بلکہ اپنی مرکزیت اور اپنے تقدس کی وجہ سے وہی پورے ملک کی معاشی و تمدنی زندگی کا سہارا بنا ہوا تھا۔ حج اور عمرے کے لیے سارا ملک اس کی طرف کھنچ کر آتا تھا اور اس اجتماع کی بدولت انتشار کے مارے ہوئے عربوں میں وحدت کا ایک رشتہ پیدا ہوتا ‘ مختلف علاقوں اور قبیلوں کے لوگ باہم تمدنی روابط قائم کرتے ‘ شاعری کے مقابلوں سے ان کی زبان اور ادب کو ترقی نصیب ہوتی اور تجارتی لین دین سے سارے ملک کی معاشی ضروریات پوری ہوتیں۔ حرام مہینوں کی بدولت عربوں کو سال کا ایک تہائی زمانہ امن کا نصیب ہوجاتا۔ مختصر یہ کہ یہی زمانہ تھا جس میں ان کے قافلے ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بسہولت آتے جاتے تھے۔ قربانی کے جانوروں اور قلادوں کی موجودگی سے بھی اس نقل و حرکت میں بڑی مدد ملتی تھی کیونکہ نذر کی علامت کے طور پر جن جانوروں کی گردن میں پٹے پڑے ہوتے ‘ انھیں دیکھ کر عربوں کی گردنیں احترام سے جھک جاتیں اور کسی غارت گر قبیلے کو ان پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہوتی۔ بعض علماء نے تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ کا معنی صرف مرکز نہیں بلکہ یہ معنی بھی ہے کہ اللہ نے بیت اللہ کو سب لوگوں کی بقاء و قیام اور معاش و معاد کی صلاح و فلاح کا ذریعہ بنایا اور اہل عرب اور اہل مکہ کو خصوصیت کے ساتھ اس کی برکات ظاہرہ اور باطنہ سے نوازا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک دنیا کا ہر ملک ہر خطہ اور ہر سمت کے لوگ اس بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا کرتے رہیں اور بیت اللہ کا حج ہوتا رہے یعنی جن پر حج فرض ہو ‘ وہ حج ادا کرتے رہیں۔ اس وقت تک یہ دنیا قائم اور محفوظ رہے گی اور اگر ایک سال بھی ایسا ہوجائے کہ کوئی حج نہ کرے یا کوئی شخص بیت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا نہ کرے تو پوری دنیا پر عذاب عام آجائے گا۔ اسی مضمون کو امام تفسیر حضرت عطاء (رح) نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے : ” لو ترکوہ عامًا واحد الم ینظروا ولم یؤخروا (بحر محیط) اس سے معلوم ہوا کہ معنوی طور پر بیت اللہ اس پورے عالم کا عمود ہے ‘ جب تک اس کا استقبال اور حج ہوتا رہے گا ‘ دنیا قائم رہے گی اور اگر کسی وقت بیت اللہ کا یہ احترام ختم ہوا تو دنیا بھی ختم کردی جائے گی۔ رہا یہ معاملہ کہ نظام عالم اور بیت اللہ میں جوڑ اور ربط کیا ہے ؟ سو اس کی حقیقت معلوم ہونا ضروری نہیں ‘ جس طرح مقناطیس اور لوہے اور کہربا اور تنکے کے ربط باہمی کی حقیقت کسی کو معلوم نہیں ‘ مگر وہ ایک ایسی حقیقت ہے جو مشاہدہ میں آتی ہے اس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا ‘ بیت اللہ اور نظام عالم کے باہمی ربط کی حقیقت کا ادراک بھی انسان کے بس میں نہیں ‘ وہ خالق کائنات کے بتلانے ہی سے معلوم ہوسکتا ہے ‘ بیت اللہ کا پورے عالم کی بقاء کے لیے سبب ہونا تو ایک معنوی چیز ہے ‘ ظاہری نظریں اس کو نہیں پا سکتیں ‘ لیکن عرب اور اہل مکہ کے لیے اس کا موجب امن و سلامتی ہونا ‘ طویل تجربات اور مشاہدات سے ثابت ہے “۔ مختصر یہ کہ اللہ کا یہ گھر امت مسلمہ کے لیے ایک مقناطیس کی حیثیت رکھتا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ جسدِ امت میں اس کی حیثیت دل کی ہے۔ آج بھی وہ پورے عالم اسلام سے صالح عناصر کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور ان کی شریانوں میں ایمان و عمل کا خون دوڑا کر انھیں ان کے علاقوں میں واپس بھیج دیتا ہے تاکہ واپس جا کر دنیا میں اسی انقلاب کو برپا کریں ‘ جو انقلاب اس گھر سے پھوٹا تھا اور جس کی وحی سب سے پہلے اسی سرزمین پر اتری تھی اور یہیں سے اللہ کا آخری رسول پوری دنیا کا راہنما اور آئیڈیل بن کر اٹھا تھا اور دنیا نے اس کی راہنمائی سے وہ زندگی پائی تھی کہ جس کی طلب صدیوں سے دنیا کر رہی تھی۔ لیکن آج ہم اللہ کے اس گھر سے صحیح معنی میں اس لیے فائدہ نہیں اٹھا رہے کہ ہمارا اس سے تعلق ‘ حقیقی نہیں بلکہ واجبی سا رہ گیا ہے۔ ہم اس کے سائے میں کھڑے ہو کر بھی اس کے پیغام سے ناآشنا رہتے ہیں۔ اس کا طواف ضرور کرتے ہیں ‘ لیکن وہاں سے ہم اللہ اور اس کے دین سے وارفتگی کا سبق نہیں لیتے۔ اللہ کے گھر کے طواف کے بعد بھی زندگی بھر ہم اپنے معدے اور اپنی خواہشات کا طواف کرتے رہتے ہیں اور ہماری زندگی کی ترجیح وہ انقلاب نہیں ہوتا ‘ جسے اللہ نے ” ھدی للعٰلمین “ قرار دیا تھا بلکہ ہم کبھی معاشی انقلاب کے چکر میں رہتے ہیں اور کبھی تہذیبی و سیاسی انقلاب ہمارا کعبہ مقصود بن جاتا ہے۔ اس لیے جب تک دو باتوں کا شعور ہمارے اندر نہیں ابھرتا۔ ایک یہ بات کہ کعبہ کی تاریخ اسلام کے دنیا میں آنے سے پہلے بھی اللہ کے بارے میں ہمیں کیا تصور دیتی ہے اور دوسری یہ بات کہ کعبۃ اللہ اور دوسرے شعائر اسلام سے ہمارا قلبی تعلق عروۃ الوثقیٰ کی طرح مضبوط نہ ہوجائے اور یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اس خطے کو اس وقت تک امن نہیں مل سکتا ہے ‘ جب تک ہم خود دل و دماغ کے حقیقی امن و اطمینان سے آشنا نہ ہوں۔ انہی دونوں حوالوں سے قرآن کریم کہتا ہے : ذٰلِکَ لِتَعْلَمُوْآ اَنَّ اللہ َ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الاَْرْضِ وَ اَنَّ اللہ َ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔ (تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کے سب حالات سے باخبر ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔ ) اس مختصر سے جملے میں جیسے ابھی ہم نے عرض کیا ہے ‘ دو باتیں ارشاد فرمائی گئیں۔ پہلی بات یہ کہ حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے صرف کعبۃ اللہ کی برکت سے جس طرح عرب کی زندگی رواں دواں رہی ‘ اگر صرف اس انتظام پر ہی غور کرلیا جائے تو اس امر کی بین شہادت مل سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے مصالح اور ان کی ضروریات کا کیسا مکمل اور گہرا علم رکھتا ہے اور اپنے ایک ایک حکم کے ذریعہ سے انسانی زندگی کے کتنے شعبوں کو فائدہ پہنچا دیتا ہے۔ بدامنی کے یہ سینکڑوں برس جو محمد عربی ﷺ کے ظہور سے پہلے گزرے ہیں ‘ جن میں تم لوگ خود اپنے مفاد سے ناواقف تھے اور اپنے آپ کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے ‘ مگر اللہ تمہاری ضرورتوں کو جانتا تھا اور اس نے صرف ایک کعبہ کی مرکزیت قائم کر کے تمہارے لیے وہ انتظام کردیا تھا ‘ جس کی بدولت تمہاری قومی زندگی برقرار رہ سکی۔ دوسری بیشمار باتوں کو چھوڑ کر اگر صرف اسی ایک بات پر دھیان کرو تو تمہیں یقین حاصل ہوجائے کہ اللہ نے جو احکام تمہیں دیئے ہیں ‘ ان کی پابندی میں تمہاری اپنی بھلائی ہے اور ان میں تمہارے لیے وہ وہ مصلحتیں پوشیدہ ہیں ‘ جن کو نہ تم خود سمجھتے ہو اور نہ اپنی تدبیروں سے پورا کرسکتے ہو۔ دوسری یہ بات کہ حرم مکہ زمان و مکان کے اعتبار سے ہی امن وامان کا علاقہ نہیں ہے اور اس کا امن صرف حیوان و انسان کو ہی محیط نہیں ہے بلکہ انسانی ضمیر میں بھی یہ امن وامان کا منطقہ ہے۔ زمین پر برپا ہونے والی جنگ پہلے انسانوں کے ضمیر میں بھڑکتی ہے پھر وہ زمان و مکان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور اس کا اثر انسان اور حیوان سب پر محیط ہوجاتا ہے۔ حرم مکہ کا امن وامان سب سے پہلے انسانی قلوب و ضمائر کے میدان جنگ میں قائم ہوتا ہے۔ احرام باندھنے والا اور حد حرم کے اندر داخل ہونے والا چرند پرند کی طرف اپنا ہاتھ نہیں بڑھاتا۔ درآنحالیکہ حرم سے باہر وہ انسان کے لیے حلال ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ذہنی و قلبی اور اخلاقی تربیت کے لیے حرم مکہ اور حرم مدینہ کے احکام دیئے ہیں تاکہ انسان ان کے ذریعے سے اخلاقی عظمت حاصل کرے اور ملائِ اعلیٰ سے متصل ہو سکے۔ دنیا بھر میں امن وامان کا کوئی علاقہ نہیں اور نہ اس کا کوئی زمانہ متعین ہے۔ اسلام نے زمان و مکان ہر دو کے امن وامان اور اکرام و احترام کے احکام دے کر اس کمی کو پورا کیا ہے۔ زمان و مکان کے امن سے بہت پہلے ضمیر انسانی کا امن درکار ہے۔ جب تک انسانی قلب و ضمیر مامون نہ ہو باہر کے امن کا سوال خارج از بحث رہے گا۔ اسی حقیقت کو قرآن حکیم نے یوں بیان فرمایا ہے : ( یہ اس لیے ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے) جب تک انسانی ضمیر میں یہ احساس زندہ نہ ہو کہ اللہ میری ہر حرکت و سکون کو جانتا ہے۔ وہ میرا محاسبہ کرنے والا ہے۔ مجھے اپنے کردار کا اچھا یا برا بدلہ مل کر رہے گا۔ اس وقت تک حقیقی اطمینان مفقود رہے گا اور جب انسانی نفوس بےامنی اور اضطراب کا شکار ہوجائیں گے تو یہ دنیا درندوں کا بھٹ بن جائے گی۔ انسانوں کو یہ علم ہونا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانی طبیعت ‘ اس کی حاجات ‘ اس کے ضمیر کی پوشیدہ آرزوئوں اور اس کی روح کی پکار کو جانتا ہے۔ اور اس نے یہ شریعت عین طبائع بشریہ کے مناسب احوال قائم کی ہے۔ جب انسانوں کو پتہ چل جائے کہ اللہ کی شریعت میں ان کے لیے رحمت ہے۔ اس کا قانون ان کی حاجات کے بالکل مطابق ہے تو انھیں یقین ہوجاتا ہے کہ واقعی اللہ کائنات کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے اس کے علم سے باہر نہیں ہے۔ اس کے علم پر مکمل یقین اور ایمان چونکہ ایک مومن کی دینی زندگی کی اساس ہے ‘ اس لیے پروردگار نے آیت کریمہ کے اس حصے میں اپنے علم کو فعلاً بھی بیان کیا ہے اور صفتًا بھی۔ اس لیے کہ اللہ کا علم ماضی ‘ حاضر ‘ مستقبل ‘ ظاہر ‘ باطن ‘ غائب ‘ موجود ‘ مضمر ‘ سب پر محیط ہے اور انسان کا اللہ کے علم کے متعلق یہی عقیدہ ہے ‘ جو اس کے اندر خشیت پیدا کرتا ہے۔ اللہ کے بارے میں جب آدمی کا یہ یقین مستحکم ہوجائے کہ وہ میرے ایک ایک عمل سے واقف ہے اور یہ بات بھی ذہن میں مستحضر ہو کہ وہ صفت عدل کا مالک بھی ہے تو پھر اس کے اندر وہ برائی اور وہ خرابی پیدا نہیں ہوسکتی ‘ جو ہر امت میں موجود رہی ہے اور آج اس امت میں بھی ایک بڑی تعداد اس برائی میں مبتلا ہے۔ وہ برائی یہ ہے کہ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ ایک رحم کرنے والی ذات ہے اور اس کی رحمت اس کے غضب پر حاوی ہے۔ دنیا میں ماں سب سے زیادہ محبت کرنے والی ذات کے طور پر مشہور ہے اور اللہ کے بارے میں ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ رحیم و کریم ہے ‘ جتنی ایک ماں اپنے بچوں پر ہوتی ہے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ کوئی ماں اپنے بچے کو تکلیف دینا تو دور کی بات ہے ‘ تکلیف میں دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی اور اگر اللہ کی ذات ماں سے زیادہ اپنے بندوں پر مہربان ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ بندوں کی بداعمالیوں سے ناراض ہو کر بندوں پر رحم کھانے کی بجائے انھیں جہنم کا ایندھن بنا دے۔ یہ وہ غلط تصور ہے جو اللہ کے علم کی شان سے بےبہرہ ہونے کی وجہ سے ہر امت کی طرح اس امت میں بھی پیدا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے شرعی احکام کی پابندی ایک تکلف بن کے رہ گئی ہے۔ چناچہ اس کے ازالے کے لیے اگلی آیت میں ارشاد فرمایا گیا۔
Top