Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 98
اِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ وَ اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌؕ
اِعْلَمُوْٓا : جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
جان رکھو ! بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا بھی ہے اور بڑا بخشنے والا مہربان بھی ہے
اِعْلَمُوْآ اَنَّ اللہ َ شَدِیْدُ الْعِقَابِ وَ اَنَّ اللہ َ غَفُوْرٌ رَّحِیْمُٗ ۔ (المائدہ : 98) ” جان رکھو ! بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا بھی ہے اور بڑا بخشنے والا مہربان بھی ہے “۔ اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہی نہیں عادل بھی ہے جب تم یہ سمجھتے ہو کہ اللہ کائنات کی ہر چیز کو جاننے کے ساتھ ساتھ ہمارے ہر عمل سے بھی مکمل آگاہی رکھتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ صفت عدل کا مالک بھی ہے تو پھر تم یہ کیسے سمجھتے ہو کہ وہ اچھوں اور بروں کے ساتھ یکساں سلوک کرے گا۔ یعنی قیامت کے دن ایک آدمی ایسا آئے گا ‘ جس نے زندگی بھر اس کی کبھی نافرمانی نہیں کی ہوگی بلکہ اس کی رضا پر چلتے ہوئے اپنی خواہشات کا گلا گھونٹا ہوگا اور اس کے احکام پر عمل کرتے ہوئے نجانے کتنی دفعہ اسے حالات سے لڑنا پڑا ہوگا ‘ حتیٰ کہ اسی کے دین کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اس نے اس کے راستے میں جان بھی دی ہوگی اور دوسرا اس کے ساتھ ایک ایسا آدمی آئے گا ‘ جس نے کبھی اللہ کے کسی حکم کے سامنے سر نہیں جھکایا ہوگا۔ اولاً تو اس کی کبریائی کو مانا نہیں اور اگر زبان کی حد تک مانا بھی تو اس پر عمل کبھی نہیں کیا۔ پوری زندگی اس نے اپنی خواہشات کی تکمیل میں گزار دی اور عیش و عشرت میں ڈوب کر اللہ کے پاس جا پہنچا۔ ان دونوں کے بارے میں پروردگار مکمل علم رکھتا ہے تو کیا انسانی عقل یہ سمجھتی ہے کہ ان دونوں کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے کیونکہ وہ غفور الرحیم ہے ؟ قرآن کریم نے ایک دفعہ نہیں ‘ متعدد دفعہ یہ بات فرمائی کہ کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم برائیوں کا ارتکاب کرنے والے اور نیکی کی زندگی گزارنے والوں کے ساتھ قیامت کے دن یکساں سلوک کریں گے ؟ فرمایا : سَآئَ ماَ یَحْکُمُوْنَ (کس قدر برا ہے ‘ وہ فیصلہ جو یہ لوگ کر رہے ہیں ) اس آیت کریمہ میں یہی فرمایا جا رہا ہے کہ لوگو اس بات کو اچھی طرح سمجھو کہ اللہ کی صفت عدل کا تقاضہ یہ ہے کہ انسانی اعمال کی جزا و سزا کے لیے اس کی دونوں صفتیں بروئے کار آئیں۔ یعنی وہ سخت سزا دینے والا بھی ہے اور بخشنے والا مہربان بھی ہے۔ اسی بات پر ایک اور جگہ اس طرح ارشاد فرمایا کہ (میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں غفور الرحیم ہوں اور یہ بھی بتلا دو کہ میرا عذاب ‘ عذاب الیم ہے) رہی یہ بات کہ وہ کن باتوں پر رحم فرمائے گا اور کن باتوں پر عذاب دے گا۔ اس بات کو پروردگار نے ہماری عقلوں پر نہیں چھوڑا بلکہ اس کا کرم ہے کہ اس نے کتابیں اتاریں ‘ رسول بھیجے اور سب سے آخر میں آخری رسول تشریف لائے ‘ جنھوں نے پیغامبری کا حق ادا کردیا اور جس کے بعد کہا جاسکتا ہے۔ رہے اس سے محروم آبی نہ خاکی ہری ہوگئی ساری کھیتی خدا کی اس رسول کے آجانے اور دین کے پوری طرح پہنچ جانے اور پیغامبری کے حق ادا ہوجانے کے بعد اب کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کن باتوں پر انعام فرمائیں گے اور کن باتوں پر سزا دیں گے۔
Top