Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 99
مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا تَكْتُمُوْنَ
مَا : نہیں عَلَي الرَّسُوْلِ : رسول پر۔ رسول کے ذمے اِلَّا الْبَلٰغُ : مگر پہنچا دینا وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا تُبْدُوْنَ : جو تم ظاہر کرتے ہو وَمَا : اور جو تَكْتُمُوْنَ : تم چھپاتے ہو
رسول پر صرف پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے۔ اللہ جانتا ہے ‘ جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو
مَاعَلَی الرَّسُوْلِ اِلاَّ الْبَلٰغُ ط وَ اللہ ُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَکْتُمُوْنَ ۔ (المائدہ : 99) ” رسول پر صرف پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے۔ اللہ جانتا ہے ‘ جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو “۔ جو ذمہ داری اللہ کے رسول کی تھی ‘ وہ انھوں نے بلا کم وکاست ادا کردی۔ اب آگے ذمہ داری تمہاری ہے۔ تم مانو یا نہ مانو ‘ عمل کرو یا نہ کرو۔ مانو گے تو اس میں تمہاری ہی بھلائی ہے ‘ نہ مانو گے تو اس کا انجام خود دیکھ لو گے۔ البتہ ! اس غلط فہمی میں کبھی مبتلا نہ ہونا کہ تم اپنا کوئی عمل یا کوئی خیال اللہ سے چھپا سکتے ہو۔ وہ تمہارے ان اعمال سے بھی واقف ہے ‘ جو تم ظاہر کرتے ہو اور ان اعمال سے بھی واقف ہے ‘ جن کو تم چھپاتے ہو یا چھپائو گے کیونکہ قرآن کریم میں ہے کہ ہم قیامت کے دن لوگوں کے منہ پر مہریں لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پائوں گواہی دیں گے ان اعمال کی ‘ جو وہ کرتے رہے۔ ایسی صورتحال میں کس کی مجال ہوگی کہ وہ اپنا کوئی عمل ‘ اپنے رب سے چھپا سکے۔ اس لیے ہماری پوری زندگی کی اصلاح کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم اللہ کی صفت علم پر مکمل یقین رکھیں۔ اس کی عطا کی ہوئی راہنمائی کو ہر طرح کے شبہ سے بالا تر سمجھیں اور اپنے اعمال کے بارے میں ایسی کسی خوش گمانی کا شکار نہ ہوں کہ ہم اللہ کے سامنے جھوٹ بول کر یا سخن سازی سے کام لے کر شاید عذاب سے بچ جائیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان آیات کریمہ میں جہاں حلّت و حرمت سے متعلق احکام کو بیان کیا جا رہا ہے ‘ وہیں بعض ایسی فکری کج رویوں کی اصلاح بھی کی جا رہی ہے ‘ جس کے نتیجے میں افراد اور امتوں کے مزاج بگڑتے اور اخلاق تباہ ہوتے رہے ہیں۔ انہی میں سے ایک فکری کج روی اچھائی اور برائی کو یکساں سمجھنے کی بھی ہے۔
Top