Ruh-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 15
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ
اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ : بیشک متقی (جمع) فِيْ جَنّٰتٍ : باغات میں وَّعُيُوْنٍ : اور چشمے
بیشک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ ۔ (الذریٰت : 15) (بےشک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ ) آخرت کے لیے تیاری کرنے والوں کا انجام اوپر کی آیات میں ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو قیامت کے انکار یا اس میں تذبذب کی وجہ سے جزاء و سزا سے بالکل لاپرواہ ہو کر زندگی گزار رہے ہیں۔ تو آخر ان کا انجام یہ ہوگا کہ وہ جہنم کے عذاب میں جلائے جائیں گے۔ اب پیش نظر آیت کریمہ میں ان لوگوں کا ذکر شروع ہورہا ہے جنھیں شریعت کی زبان میں متقی کہا جاتا ہے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدودوقیود کے اندر زندگی گزارنے والے ہیں۔ لیکن سیاق وسباق کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے رسول کی خبر پر اعتماد کرتے ہوئے اور اس کی رسالت اور اللہ تعالیٰ کی کتاب پر یقین لاتے ہوئے آخرت کو مانا۔ اور زندگی کا ہر فیصلہ کرنے سے پہلے اور ہر قدم اٹھانے سے پیشتر آخرت کی زندگی ان کے سامنے رہی اور وہ برابر سوچتے رہے کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے جا کر اس کا کیا جواب دیں گے۔ اس احتیاط کے ساتھ زندگی گزارنے والوں کو یہاں متقی کہا گیا ہے کہ آخرت سے بےنیاز ہو کر زندگی گزارنے والے جہنم کے شعلوں میں جلیں گے اور آخرت کو ہمیشہ یاد رکھنے والے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ہر عمل کرنے والے باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ جنات اور عیون دونوں لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ آخرت کی نعمتوں کی جامع تعبیر ہیں۔ اور یہاں فِیْ لاکر اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ان کو اس فراوانی سے ملیں گی کہ وہ ایک طرح سے نعمتوں میں گھرے ہوئے ہوں گے اور ان کی آنکھوں کو اپنے گردوپیش میں نعمتوں کی بہار کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے گا۔
Top