بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 1
وَ الذّٰرِیٰتِ ذَرْوًاۙ
وَالذّٰرِيٰتِ : قسم ہے پراگندہ کرنیوالی ( ہواؤں) ذَرْوًا : اڑاکر
قسم ہے ان ہَوائوں کی جو گرد اڑانے والی ہیں
وَالذّٰرِیٰتِ ذَرْوًا۔ فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا۔ فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا۔ فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا۔ (الذریٰت : 1 تا 4) (قسم ہے ان ہَوائوں کی جو گرد اڑانے والی ہیں۔ پھر پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھانے والی ہیں۔ پھر سبک رفتاری سے چلنے والی ہیں۔ پھر ایک بڑے کام کی تقسیم کرنے والی ہیں۔ ) قسم اور جوابِ قسم کی وضاحت ہم متعدد مواقع پر اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ ” وائو “ قسم کے لیے بھی آتا ہے اور ان آیات میں ” وائو “ قسم کے لیے آیا ہے۔ جس لفظ پر یہ ” وائو “ داخل ہوتا ہے اسے قسم کہا جاتا ہے۔ گویا وہ ایک طرح کی دلیل اور ایک طرح کی شہادت ہوتا ہے اور اس کے بعد آنے والا جملہ وہ جوابِ قسم یا مقسم علیہ کہلاتا ہے اور اس کی حیثیت دعویٰ کی ہوتی ہے۔ انسانوں کی تقریر و تحریر کے اسلوب کے بالکل برعکس ایسی صورت میں دلیل پہلے پیش کی جاتی ہے اور دعویٰ بعد میں ذکر کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہمارے اسلوب میں دعویٰ پہلے ہوتا ہے اور اس کے ثبوت کے لیے دلیل پیش کی جاتی ہے۔ یہ چار آیتیں درحقیقت چار قسمیں ہیں اور یہ چاروں قسمیں ہَوائوں کی صفات ہیں۔ یہاں اگرچہ ہَوائوں کا ذکر نہیں لیکن یہ الفاظ ہَوائوں کی صفت کے طور پر معروف ہوچکے ہیں۔ اس لیے کم از کم پہلی دونوں آیتوں میں کسی مفسر کو ان کا ہَوائوں کی صفت ہونے میں کوئی اشکال نہیں۔ پہلی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قسم ہے ان ہَوائوں کی جو غبار اڑانے والی ہیں۔ گویا ذّٰرِیٰتِ غبار اڑانے والی ہَوائوں کو کہتے ہیں۔ اور ذَرْوًا یہاں تاکید کے لیے ہے۔ اور دوسری آیت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ بوجھ اٹھانے والی ہیں اور مراد اس سے بھی ہَوائیں ہیں۔ وِقْرً بوجھ اور بار کو کہتے ہیں۔ اور یہ بوجھ غبار اور کنکروں کا بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کا معروف استعمال بادلوں کے لیے ہے۔ ان دونوں آیتوں سے تمام مفسرین نے ہَوائیں ہی مراد لیا ہے۔ البتہ اگلی دو آیتوں میں اختلاف ہے۔ بعض لوگوں نے فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا سے کشتیاں مراد لی ہیں جو سبک رفتاری سے چلتی ہیں۔ اور فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا سے وہ فرشتے مراد لیے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس کی مخلوقات کی نصیب کی چیزیں ان میں تقسیم کرتے ہیں۔ اور ایک روایت میں اس تفسیر کو حضرت عمر ( رض) کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اور ان کے حوالے سے یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اگر میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے نہ سنا ہوتا تو میں اسے بیان نہ کرتا۔ اس بناء پر علامہ آلوسی نے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ اس آیت سے کوئی اور بات مراد لینا جائز نہیں ہے۔ اور جن لوگوں نے کوئی اور مفہوم مراد لیا ہے انھوں نے بیجا جسارت کی ہے۔ لیکن حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس وجہ سے قطعیت کے ساتھ اس بات کو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد صحابہ وتابعین نے ان دونوں آیتوں سے بھی ہَوائیں مراد لی ہے۔ اور بعض ماہرینِ لغت کا یہ خیال ہے کہ جب صفات کا عطف ” فا “ کے ساتھ ہوتا ہے تو یہ دو باتوں پر دلیل ہوتا ہے۔ ایک اس بات پر کہ ان کے اندر ترتیب ہے۔ اور دوسری اس بات پر کہ یہ تمام صفتیں ایک ہی موصوف کی ہیں۔ ان چاروں آیتوں میں ” فا “ کے ساتھ عطف کیا گیا ہے۔ اس لیے ان کا موصوف الگ الگ نہیں ہوسکتا۔ جب پہلی دونوں آیتوں میں موصوف ہَوائوں کو بنایا گیا ہے تو دوسری دونوں آیتوں میں بھی ہَوائیں ہی ان صفات کا موصوف ہوں گی۔ قرآن پاک میں اس کے متعدد شواہد موجود ہیں جن میں سورة عادیات کی ابتدائی پانچ آیات بھی ہیں۔
Top