Ruh-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 29
فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِیْ صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَ قَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ
فَاَقْبَلَتِ : پھر آگے آئی امْرَاَتُهٗ : اس کی بیوی فِيْ صَرَّةٍ : حیرت سے بولتی ہوئی فَصَكَّتْ : اس نے ہاتھ مارا وَجْهَهَا : اپنا چہرہ وَقَالَتْ : اور بولی عَجُوْزٌ : بڑھیا عَقِيْمٌ : بانجھ
پھر آپ کی بیوی حیران ہو کر آگے بڑھی، پھر اس نے اپنا چہرہ پیٹ لیا اور کہنے لگی بوڑھی بانجھ
فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُـہٗ فِیْ صَرَّۃٍ فَصَکَّتْ وَجْھَھَا وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ۔ قَالُوْا کَذٰلِکِ لا قَالَ رَبُّکِ ط اِنَّـہٗ ھُوَالْحَکِیْمُ الْعَلِیْمُ ۔ (الذریٰت : 29، 30) (پھر آپ کی بیوی حیران ہو کر آگے بڑھی، پھر اس نے اپنا چہرہ پیٹ لیا اور کہنے لگی بوڑھی بانجھ۔ فرشتوں نے کہا کہ ایسا ہی فرمایا ہے تیرے رب نے، وہ حکمت والا ہے سب کچھ جاننے والا ہے۔ ) فرزند کی بشارت پر حضرت سارہ ( رض) کے تأثرات فرشتوں نے چونکہ یہ بشارت اونچی آواز سے دی تھی، اس لیے پس دیوار آپ کی بیوی سارہ نے اسے سن لیا جو دیوار کے بالکل قریب کھڑی تھی۔ ان پر بیک وقت مسرت اور حیرت کی کیفیت طاری ہوئی۔ وہ سنتے ہی آگے بڑھیں، سراپا تعجب بن کر۔ کیونکہ عربی میں محاورہ ہیصرا الفرس اذنیہ ” گھوڑے نے اپنے کان کھڑے کیے۔ “ اسی سیفِیْ صَرَّۃٍکا محاوہ بنا، جو تعجب اور حیرانی کے اظہار کے لیے آتا ہے۔ چناچہ ایسے مسرت اور تعجب کے وقت عورتیں عام طور پر اپنی پیشانی یا اپنے چہرے پر ہاتھ مار کر تعجب کا اظہار کرتی ہیں۔ حضرت سارہ نے بھی ایسا ہی کیا اور کہا کہ ایک بوڑھی اور بانجھ عورت اب کیا بچہ جنے گی۔ یعنی میں جس عمر میں ہوں اور میرے شوہر جس عمر میں ہیں قوانینِ طبعی کے مطابق تو یہ اولاد پیدا کرنے کی عمر نہیں۔ اس کے برخلاف ہمیں جو بشارت دی جارہی ہے اس کے واقع ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن ہے کس قدر تعجب کی بات۔ لیکن یہ تعجب ایسا ہے جس میں مسرت بھی گندھی ہوئی ہے۔ فرشتوں نے اس کے جواب میں کہا کہ یہ بات کتنی بھی تعجب خیز ہو اور کس قدر بھی ناقابلِ یقین ہو، لیکن اطمینان کا باعث یہ ہے کہ یہ بات ہم نے نہیں، آپ کے رب نے فرمائی ہے۔ اور اس نے یہی حکم دیا ہے کہ اب بڑھاپے میں آپ کو اولاد دی جائے۔ رہا آپ کا بڑھاپا، اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے یہ رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ کیونکہ وہ حکیم وعلیم ہے اس کی حکمت اور اس کا علم ہر چیز پر حاوی ہے۔
Top