Ruh-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 33
لِنُرْسِلَ عَلَیْهِمْ حِجَارَةً مِّنْ طِیْنٍۙ
لِنُرْسِلَ : تاکہ ہم بھیجیں عَلَيْهِمْ : ان پر حِجَارَةً : پتھر مِّنْ طِيْنٍ : مٹی سے
تاکہ ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسا دیں
لِنُرْسِلَ عَلَیْہِمْ حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ ۔ مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُسْرِفِیْنَ ۔ (الذریٰت : 33، 34) (تاکہ ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسا دیں۔ جو نشان زدہ ہیں آپ کے رب کے پاس، حد سے گزر جانے والوں کے لیے۔ ) فرشتوں نے اپنی منزل کی بھی خبر دے دی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جواب میں فرشتوں نے اپنی منزل کا بھی ذکر کیا اور اس مقصد کا بھی جس کے لیے وہ قوم لوط کی طرف بھیجے گئے تھے۔ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس سے نکل کر حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس جانے تک اور پھر اس کے بعد جو واقعات پیش آئے ان کا ذکر پروردگار نے نہیں فرمایا، کیونکہ یہ واقعات سورة ہود، الحجر اور العنکبوت میں گزر چکے ہیں۔ اور فرشتے قوم لوط پر جس عذاب کے لیے بھیجے گئے اس میں سے صرف ایک اہم تر بات کو ذکر فرما کر باقی باتوں کو نظرانداز کردیا گیا۔ کیونکہ وہ بھی دوسری سورتوں میں کسی حد تک تفصیل سے موجود ہیں۔ جس اہم تر بات کا ذکر فرمایا گیا وہ یہ ہے کہ ہم ان پر مٹی کے پتھروں کی بارش کرنے والے ہیں۔ اور سورة ہود میں اس کے لیے سجیل کا لفظ آیا ہے۔ اور یہ فارسی کے سنگ گِل سے معرب ہے۔ اور یہاں حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ سے اسی کی وضاحت کی گئی ہے۔ اور مُسَوَّمَۃًسے مراد ایسے پتھر ہیں جن پر نشان لگا دیا گیا تھا کہ کون سا پتھر کس مجرم کی سرکوبی کے لیے ہے۔ جس طرح ابرہہ کے لشکر کی تباہی کے وقت نشان زدہ پتھر ہر مجرم کے سر پر پڑ رہے تھے۔ لیکن بعض اہل علم کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ پہلے سے پتھروں کو مخصوص کردیا گیا تھا جن کی بارش اس قوم پر کی جانے والی تھی۔
Top